Tag: توہین عدالت کیس

  • توہین عدالت کیس  : حکومت کا  جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    توہین عدالت کیس : حکومت کا جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی مین سات رکنی آئینی بنچ نے کسٹم ریگولیٹرڈیوٹی کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو جسٹس منصورعلی شاہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنےکے فیصلہ سے اگاہ کیا اور بتایا جسٹس منصورعلی شاہ کا 13اور16جنوری کے آرڈرزپرنظرثانی دائرکرنے کا فیصلہ ہوا ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کا کیس اپنےبینچ میں لگانےکاحکم دیا ہے،کیا اس آرڈرکی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکرصرف چندکونہیں سب کوہے، جوکام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آگٸی تھی ، یہ بھی عدالت ہی ہے۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے 13جنوری کوآرڈردیا کہ سماعت 27جنوری کوہوگی ، پھرسماعت اچانک اگلے روزکیلٸے کیسے مقرر ہوگٸی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تین رکنی بنچ سے ایک جج الگ ہوگٸے، کیا وہ جج یہ آرڈردے سکتا تھا کہ یہ کیس مخصوص بنچ کے سامنے لگے؟ جبکہ جسٹس حسن اظہررضوی نے بھی استفسار کیا کہ کیا بنچ دوبارہ قاٸم کرنے کا اختیاراسی جج کے پاس تھا؟

    جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹرصلاح الدین سے مکالمہ کرتےہوئے کہا ہمیں لگتا ہے اس سارے معاملے کے ذمہ دارآپ ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہربولے عدالتی حکمنامہ کے مطابق آپکا اصرار تھا یہ ریگولر بنچ یہ کیس سن سکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا آپکو ہم ججز پر اعتماد نہیں؟ میں نااہل ہویا مجھے قانون نہیں آتا تومجھے بتا دیں؟ تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا میرے پاس 13 جنوری کے دوحکمنامے موجود ہیں، ایک میں کہا اگلی تاریخ 27 جنوری ہے جبکہ دوسرے میں کہا کیس کی اگلی تاریخ سولہ جنوری ہے۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کونوٹس دیے بغیرکہاگیا کیس سنا ہوا سمجھا جائے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل کے فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقررکیا جائے اورفیصلے میں توججزکے نام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈرہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے یہ بدقستمی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آپ بتا دیں کہ کیس کس بنچ کے سامنے چلے گا؟ ہماری بھی عزت ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہو ہم آپکے جذبات کا احترام کرتے ہیں، نام تو بدنام ویسے ہی ہے۔

    آئینی بینچ نے جسٹس منصورعلی شاہ کا 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لیتے ہوئے توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کیساتھ منسلک کرنے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اس کے پابند ہیں، جو مقدمہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے ، بعد ازاں عدالت نے کسٹم ڈیوٹی کیس کی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

  • ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کیلیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل پر معاملہ غور کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھجوا دیا ہے جب کہ ایڈیشننل رجسٹرار نذر عباس کو جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا ہے۔

    یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے پاس اختیار نہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے بعد کیس کو واپس لے سکیں۔ انتظامی سطح پر جوڈیشل احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ ججز آئینی کمیٹی کو بھی اختیارنہیں تھا کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر سے کیس واپس لے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کیخلاف ہوتی ہے لیکن ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بینچ سے واپس لیں۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں اور نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی اور ان کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں تھا۔

    عدالت نے کہا کہ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی اور ان کا یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے ایڈیشنل رجسٹرار کی وضاحت قبول کر کے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی نے کیس واپس لیا، جو اسکا اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بنچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر معاملے کو دیکھیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے اور کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3 رکنی بنچ نے پہلے سنا تھا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے۔ ریگولر اور آئینی بینچز کی کمیٹی کے پاس جوڈیشل آرڈر ختم کرنے کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں بھیج رہے کیونکہ فل کورٹ تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔

    واضح رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو اس معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ میں سماعت کیلیے مقرر کیا۔ اس عمل سے سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔ نذر عباس کو جسٹس منصورعلی شاہ کے بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے چکی ہے۔

    اعلامیہ کے مطابق کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، لیکن اس کو سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے کیس لگا دیا گیا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ جوڈیشل برانچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت معمول کی کمیٹی سے رجوع کیا اور کمیٹی نے 17 جنوری کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا۔ اس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین کے مطابق یہ مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کمیٹی نے مقدمات معمول کے بینچ سے لے کر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

    اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آنے والے مقدمات کو آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ریگولر ججز کمیٹی نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ تمام زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال تیز کریں جب کہ کمیٹی نے نئے داخل مقدمات کی مکمل چھان بین کی بھی ہدایت کی تھی۔

    اعلامیے کے مطابق آئینی بینچ کمیٹی نے بھی 17 جنوری کو اجلاس کیا اور 26 ویں ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والے تمام مقدمات سماعت کیلیے مقرر کیے۔ 8 رکنی آئینی بنچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف 27 جنوری کو سماعت کرے گا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس منصور کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کی سماعت کی۔ تاہم ایڈیشنل رجسٹرار کی بیماری کی رخصت کے باعث رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت پیش ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی اور اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی نہیں تھی۔ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں یہ اقدام کیا گیا تھا۔

    گزشتہ جمعرات کو ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور عدالتی معاون حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

    دوسری جانب ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا جس میں نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا  کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔ عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

    دوسری جانب انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ آج ایک بجے سماعت کرے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/justice-mansoor-raises-objections-on-intra-court-appeal-bench/

  • ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا  بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹراکورٹ اپیل کے بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کیس میں انٹراکورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔

    اس سلسلے میں جسٹس منصور علی  نے ججز کمیٹی کو خط لکھا ، جس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ 23 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا، اجلاس کےبعدچیف جسٹس نےچیمبرمیں کمیٹی کاغیررسمی اجلاس بلایا، اجلاس میں تجویزدی سنیارٹی کےاعتبارسے5رکنی بینچ انٹراکورٹ اپیل پربنایاجائے۔

    خط میں کہا گیا کہ "تجویز دی تھی بینچ میں ان ججز کو شامل نہ کیاجائےجوکمیٹی کےرکن بھی ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ 4 رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے، پھر رات 9 بجکر33منٹ پر میرے سیکریٹری کا واٹس ایپ میسج آیا، سیکرٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا۔”

    جسٹس منصور نے خط میں لکھا "میں نےسیکرٹری کوبتایا مجھےاس پراعتراض ہےصبح جواب دوں گا، رات 10 بجکر 28 منٹ پر سیکریٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے اور روسٹربھی جاری کر دیا گیا ہے۔”

    خط میں لکھا کہا "میرابینچ پر 2ممبران کی حدتک اعتراض ہے، بینچزاختیارات کا کیس ہم سے واپس لینے کا فیصلہ دونوں کمیٹیوں نے کیا، کمیٹیوں میں شامل ججز کے فیصلے پر ہی سوالات ہیں۔”

    ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں شامل ارکان اپنے کئے پر خود جج نہیں بن سکتے، میرے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے.

  • فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس  : ٹی وی چینلز کی غیر مشروط معافی منظور

    فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس : ٹی وی چینلز کی غیر مشروط معافی منظور

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کے خلاف توہین عدالت کیس میں ٹی وی چینلز کی غیرمشروط معافی منظورکرلی۔ 

    سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی، ٹی وی چینلز کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ جواب جمع کرادیا، جس میں غیرمشروط معافی مانگی۔

    فیصل صدیقی نےگزشتہ سماعت کاحکم نامہ پڑھا، چیف جسٹس نے جھوٹ کی ممانعت سےمتعلق پیراگراف پڑھنے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیے یہ اس لئے پڑھارہا ہوں تاکہ آپ کے کلائنٹس کو کچھ پتہ چلے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا آپ نےمعافی کن وجوہات پر مانگی؟ فیصل صدیقی نے بتایا اٹھائیس جون کاعدالتی حکم نامہ پڑھاتو غلطی کا احساس ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ ہمارے اس آرڈرسےاتنےمتاثرہوتےتواس کی تشہیرنہ کرتے؟ فیصل واوڈا،مصطفیٰ کمال کی معافی کی تشہیرنہیں کی گئی،آپ ٹی وی چینلزسب کنٹرول کرتےہیں کون کیاسنےکیاسوچے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ہمارےاس حکم نامےکودبادیا،اخبارات میں بھی نہیں آیا، اپنےکیریئرمیں یہ پہلا توہین عدالت کاکیس اٹھایا، ہر طرف چور چورہورہا ہوتا ہے ، کس طرح کا ملک چاہتے ہیں؟گالیاں نشرنہیں ہوں گی توریٹنگ کیسے آئے گی، ان کی اپنی فیملیزکوگالیاں پڑیں توپھردیکھیں،ہم کسی کوجیل نہیں بھیجناچاہتےمگراحساس ذمہ داری توہو،

    کیا آپ کو سخت ٹیچر جیسا پیمرا ہی چاہیےجوبتائےکیاٹھیک کیاغلط ہے؟ملک تباہ کیاجارہاہے،باہرسےکسی کی ضرورت نہیں،ٹی وی چینلزکوکیاسنسنی خیزرپورٹرزہی چاہئیں،آپ کووہ رپورٹرزنہیں چاہئیں جوسنجیدہ خبرلائیں،کچھ ایسےکورٹ رپورٹرزبھی بھیج دیئےجاتے ہیں جن کوکچھ پتہ نہیں،سنسنی نہ پھیلانےوالےرپورٹرزکونکال دیاجاتاہے۔

    جسٹس عرفان سعادت نے پوچھا کیا کسی چینل نےفیصل واوڈااورمصطفی کمال کی گفتگوکی مذمت کی؟ فیصل صدیقی نے کہا ٹاک شوزمیں بات ہوتی رہی نیوزمیں تومذمت نہیں ہوتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں اورکوئی خبرنہیں کہ جنگل نہ کاٹو، پانی ضائع نہ کرو، پارلیمنٹ کوپی ٹی وی کےعلاوہ کوئی کورنہیں کرتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس توآپ نےکوورہی کرناتھی،دونوں جوبولیں گےاسےآپ کنٹرول نہیں کرسکتےمگر دوبارہ نشرتونہ کریں، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی باتیں 5 بار چلائی گئیں، ٹی وی چینلز نے معافی نامہ نشرکرنےکی یقین دہانی کرائی، پی بی اے نے بھی یقین دہانی کرائی کہ ٹی وی چینلزخوداحتسابی کاعمل بہتربنائیں گے۔

    فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ڈیلے مکینزم کو بھی یقینی بنایاجائےگا، پریس کانفرنس میں توہین آمیز باتیں بھی دوبارہ نشرنہیں ہونی چاہیےتھیں۔

    سپریم کورٹ نےٹی وی چینلزکی غیرمشروط معافی منظورکرلی، چیف جسٹس نے حکم نامہ میں لکھا کہ ٹی وی چینلزنےیقین دہانی کرائی ہے کہ خوداحتسابی کاعمل بہتربنایاجائے گا،معافی نامہ 28جون کےحکم نامےکےمتعددپیراگراف پرائم ٹائم میں نشرکرنےکی یقین دہانی کرائی ، ٹی وی چینلزنےیقین دہانی کرائی ہے کہ غلط خبریں دینےوالوں کیخلاف کارروائی بھی ہو گی۔

    حکم نامے کے مطابق ٹی وی چینلز کی جانب سے پیراگراف12سے16تک پرائم ٹائم میں نشرکرنےکی یقین دہانی کرائی گئی، پیراگراف جھوٹ کی ممانعت سےمتعلق اسلامی تعلیمات کے ہیں۔

  • جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، چیف جسٹس کا تنقید کرنے والوں کو جواب

    جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، چیف جسٹس کا تنقید کرنے والوں کو جواب

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنمانے آپکے اورچیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کیخلاف پریس کانفرنس کی۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا بولا انہوں نے ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے پریس کانفرنس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو میں دہرا نہیں سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا وہ الفاظ اتنے خوبصورت ہیں؟

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے اور استفسار کیا یہ فواد حسن کے بھائی ہیں؟ ہم نے تو فواد حسن فواد کو ریلیف دیا تھا، کیا ان کو اس بات سے تکلیف ہے کہ ان کے بھائی کو ریلیف کیوں دیا۔؟

  • توہین عدالت کیس : 28  میڈیا ہاوسز کو شوکاز جاری

    توہین عدالت کیس : 28 میڈیا ہاوسز کو شوکاز جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں 28 میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو توہین عدالت کارروائی کا شوکاز نوٹس واپس لے کر اٹھائیس میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کر دیا۔

    عدالت عظمی کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق جسٹس عقیل عباسی نے کہا کیا ٹی وی چینلز غیر مشروط معافی مانگیں گے، چیف جسٹس نے کہا نہیں رہنے دیں اس سے لگے گا ہم انہیں معافی کا کہہ رہے ہیں۔

    جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں نیا بیان دینا چاہ رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا نہیں اب ہمیں آرڈر لکھوانے دیں۔

    چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوا دیا ، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔

    عدالت عظمی نے چینلز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے دوہفتوں میں جواب دینے کاحکم جاری کردیا۔

  • سپریم کورٹ نے  مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی قبول کرلی

    سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی قبول کرلی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی قبول کرلی اور دونوں ارکان پارلیمان کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، دونوں رہنما عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل مصطفی کمال نے بتایا کہ میرے موکل نے پریس کانفرنس کرکے معافی مانگی ہے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا فیصل واوڈا کی جانب سے معافی جمع کرائی گئی ہے؟ فیصل واوڈا نے بتایا کہ جی میری جانب سے بھی معافی کیلئے جواب جمع کروایا گیا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نےتو مذہبی اسکالرز سے مشورہ کرنے کا بھی لکھا ہے۔

    میڈیا چینلزکی جانب سے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے استفسارآپ کسطرح میڈیااداروں کی جانب سےپیش ہوسکتے ہیں ؟ کسی ایک میڈیا کی جانب سے بھی تحریری جواب جمع نہیں کرایاگیا، تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسزنہیں تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں ؟ کم ازکم کسی ذمہ دارافسرکا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا، آپ نے عدالتی حکم پرعمل نہیں کیا تو وکیل نے بتایا کہ تحریری جواب جمع کرا چکا ہوں۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ توہین عدالت کیس میں دستخط چینلزکےہونالازمی ہیں، تو وکیل کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹس ہوتا توجواب چینلزکےدستخط سےجمع ہوتا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ گالم گلوچ آج کل عام بات ہوگئی ہے۔

    جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے میڈیسن کی بات ہوتومیڈیکل کابندہ ہی بات کرتااچھےلگے گا ،اسی طرح قانون کی بات پرقانون دان بات کرےتو اچھا لگتا ہے، تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کی تجاویز بہت اچھی ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی تجاویز نہیں دیں، قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا 200سال سےکیوں ؟1400سال سےکیوں شروع نہیں کرتے؟ آپ کو 1400سال پسندنہیں؟ 200سال کاذکراس لئےکررہےہیں کہ تب امریکاآزادہوا؟ تو وکیل نے بتایا کہ
    میں 200 سال کی بات اس لئےکر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بسمہ اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا، اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ باہرکے ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، چآپ نے خود مان لیاتوہین ہوئی ہےپھرآپ کونوٹس کردیتےہیں۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ مجھے آپ پرپورااعتبار ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں ، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پرپورا اعتبار ہے؟

    توہین عدالت کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ ماشااللہ اتنے پڑھے لکھےلوگ ہیں کیاان کو پتہ نہیں غیبت کیاہے ،یہ امریکاکی بات 2،2سال پرانی کرتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کی نہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا کوئی اس سے گھناؤنی چیز ہوسکتی ہے، تمام قرآنی آیات اور احادیث کی کاپیاں ان کو بھی فراہم کریں، پتہ نہیں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں رہی اپنےدین سے، یورپی ممالک میں سب بہت محتاط ہوتےہیں، یہ ہمیں توہین کیساتھ ہتک عزت میں بھی لےجاناچاہ رہے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا جو آدمی معافی مانگے کیا اسےبخشنا چاہئے، ہمیں توہین عدالت کارروائی کاشوق نہیں مگرمعاشرہ تباہ ہو رہا ہے، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جوجج کی کرسی پر بیٹھناچاہتے ہیں۔

    جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے جب پیمرا نے کچھ کرنا ہوتاہےتوکورٹ رپورٹنگ پربھی پابندی لگادیتی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنمانے آپکے اورچیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کیخلاف پریس کانفرنس کی۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا بولا انہوں نے ؟ ،اٹارنی جنرل نے بتایا پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے پریس کانفرنس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو میں دہرا نہیں سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا وہ الفاظ اتنے خوبصورت ہیں؟

    یف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، اور استفسار کیا یہ فواد حسن کے بھائی ہیں؟ ہم نے تو فواد حسن فواد کو ریلیف دیا تھا، کیا ان کو اس بات سے تکلیف ہے کہ ان کے بھائی کو ریلیف کیوں دیا۔

    سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا،مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی منظور کرلی، چیف جسٹس نے کہا کہ غیر مشروط معافی آگئی،معاملےکو آگے نہیں بڑھائیں گے، آپ بات نہ کہتے تویہاں تک بات نہ پہنچتی۔

    سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا،مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہوئے دونوں ارکان پارلیمان کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

  • فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ سےغیر مشروط معافی مانگ لی

    فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ سےغیر مشروط معافی مانگ لی

    اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ سےغیر مشروط معافی مانگ لی اور استدعا کی کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں شوکاز کا نیا جواب جمع کرا دیا۔

    جس میں کہا کہ میری پریس کانفرنس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا تو غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، میری پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین نہیں تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ خود کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، استدعا ہے کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔

    سینیٹر نے جواب میں قرآن و احادیث کے حوالہ جات بھی دیئے گئے اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ سے استدعا ہے توہین عدالت میں جاری شوکازنوٹس واپس لیا جائے۔

    مزید پڑھیں : معافی مانگنا گناہ نہیں ہے لیکن میں نے کوئی غلطی کی ہو تو معافی مانگوں گا، فیصل واوڈا

    یاد رہے سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر واوڈا اور مصطفیٰ کمال 28 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز کو دوہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    سماعت کے بعد سینیٹر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ عدالت میں معافی مانگناگناہ نہیں ہے، میں نےکوئی غلطی کی ہوتومعافی مانگوں گا ، میں عدالت اور ججز کی عزت کرتاہوں۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے احترام میں سپریم کورٹ میں پیش ہواہوں ، ہر چیز ایک ہی دن تو نہیں ہوجائےگی سب کوخبریں ملیں گی، چیف جسٹس اور ان کے بینچ کی ہمیشہ عزت کی ہے۔

  • توہین عدالت کیس : فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال  28 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب

    توہین عدالت کیس : فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال 28 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال28جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز کو دوہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی گزشتہ روز سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔

    جس میں کہا ہے کہ مصطفیٰ کمال کےوکیل نے بتایا انہوں نے غیر مشروط معافی مانگی اور وہ خودکو عدالتی رحم و کرم پرچھوڑتےہیں۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا کے وکیل نے اضافی جواب جمع کرانے کیلئے مہلت طلب کی، پیمرا نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کی ٹرانسکرپٹ جمع کروائی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ رپورٹ کےمطابق فیصل واوڈاکی پریس کانفرنس کو34نیوز چینلز اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کو28نیوزچینلز نے نشر کیا، بادی النظر میں پریس کانفرنس نشرکرناتوہین عدالت کےزمرےمیں آتا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ 17 مئی کےحکم نامے کے مطابق نیوزچینلزبھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، تمام نیوز چینلز دو ہفتوں میں اپنا جواب جمع کروائیں اور نیوز چینلز نمائندے جواب میں بتائیں ان ک ےخلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ چلائی جائے۔

    اٹارنی جنرل ٹرانسکرپٹ میں نشاندہی کریں کہ کہاں توہین عدالت کی گئی، آئندہ سماعت پر توہین عدالت کے دونوں ملزمان فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

    ایڈوکیٹ حافظ عرفات احمد نےقرآن و احادیث کی روشنی میں حوالے دیے، قرآن و حدیث سے حوالے غیبت، تکلیف دہ اور بہتان آمیز تقریر سے متعلق تھے، ٹی وی چینلز کے نمائندےبھی آئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں پیش ہوں، توہین عدالت کیس کی مزید سماعت 28 جون کو ہوگی۔

  • فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانے پر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری

    فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانے پر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانے پر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ،فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس : مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلزکی ذمہ داری ہے کہ اپنےپلیٹ فارم کوتوہین کیلئےاستعمال نہ ہونےدیں ، ٹی وی چینلز نے اپناپلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا ،دو ججز کے بارے میں ایسی باتیں بولی گئیں اور ٹی وی چینلز نے نشر کیا۔

    سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سےمتعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں توکوئی مسئلہ نہیں مگرعدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔

    صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پیمرا عدالتی رپورٹنگ پرپابندی نہیں لگا سکتا ،پیمرا کو ٹی وی پروگرامزمیں بے بنیاد باتوں کودیکھناچاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کئی لوگ فیصلوں پراعتراض کرتےہیں، پوچھا جائےفیصلہ پڑھاتوجواب ہوتا ہے،نہیں۔

    سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو نوٹسز جاری کردیا۔

    عدالت نے تمام ٹی وی چینلز سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کردی