Tag: توہین عدالت کیس

  • توہین عدالت کیس : مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد، فیصل واوڈا سے دوبارہ طلب

    توہین عدالت کیس : مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد، فیصل واوڈا سے دوبارہ طلب

    اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصل واوڈا سے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی، صرف ایک صفحہ کے جواب میں معافی مانگی ہے۔

    فروغ نسیم نے مصطفیٰ کمال کا معافی کا بیان پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پرمعافی مانگی، انھوں نے پریس کانفرنس زیر التوا ربا کی اپیلوں سے متعلق کی تھی، ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں،فروغ نسیم نے بتایا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں زیر التوا ہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، شریعت اپیلٹ بینچ کے جج جسٹس غزالی وفات پاگئےتھے۔

    فروغ نسیم نے استدعا کی عدالت غیرمشروط معافی قبول کرکےتوہین عدالت کارروائی ختم کردے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے میرا خیال ہے میں نے توہین عدالت کا نوٹس پہلی بار کیاہے، فیصل واوڈا تو سینیٹ میں ہیں وہاں مزید سلجھے لوگ ہونےچاہئیں، ارکان پارلیمنٹ عدلیہ پر حملہ کرےگاتویہ ایک آئینی ادارے کا دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔

    وکیل رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ میرے خیال میں مصطفیٰ کمال کی باتیں توہین عدالت کےزمرےمیں نہیں آتیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ توہین نہیں تھی تومعافی کس بات کی مانگ رہے ہیں ،قوم کو ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، پارلیمنٹ میں بات کرتےتب بھی کچھ تحفظ حاصل ہوتا، پریس کلب میں بات کریں ،میڈیا دکھائے تومعاملہ الگ ہے۔

    توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کرینگے، قوم کا تقاضاہے پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنےامور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل270میں ترمیم کی ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، پاکستان کی خدمت کےلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں ، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کرے

    وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے معافی اس لیے مانگی کیونکہ عدالتوں کی بہت عزت کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کی گنجائش دین اسلام میں قتل پربھی ہےمگرپہلےاعتراف لازم ہے تو وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے پریس کلب میں جا کر معافی نہیں مانگی تو وکیل کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں معافی مانگناشرط ہےتومصطفیٰ کمال ایساکرنےپربھی تیارہیں۔

    چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا آپ تو سینیٹر ہیں؟ فیصل واوڈا نے جواب میں کہا کہ جی مائی لارڈ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ تو ایوان بالا ہوتاہے، سینیٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتےہیں۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا ججز کی دہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پربات کرناتوہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔

    عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججزکے کنڈکٹ کو زیربحث نہیں لایا جاسکتا، عدالت کوبھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارےسامنےدہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کاکیس ہے، آئین پاکستان دیکھیں، کتنےخوبصورت الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں، امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پربٹھایاہے؟ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پرتنقید نہ کریں، فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے، اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہوجائیں۔

    فیصل واوڈا کے وکیل معیزاحمدروسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ، فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔

    سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سے متعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر عدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔

    وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سےمتعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کوسننا ہے، آپ وکیل ہیں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل معیزاحمد سے استفسارکیا آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جواب جمع کرایا ہے ، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا؟ پہلے دیکھتے ہیں توہین عدالت بنتی یانہیں، جس پر وکیل معیزاحمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعدہونے والے سوال جواب پڑھناچاہتا ہوں۔

    جسٹس عرفان سعادت نے مکالمے میں کہا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں کہا دوججز کیخلاف بات کرنے آیا ہوں، آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کےلوگوں کے بارےمیں نہیں کی،آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججزپر بات کی ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔

    سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت پر سزا کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بیان میں کوئی 10بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ ہوگا ؟ جس پر وکیل فروغ نسیم نے پوچھا کہ جرمانہ ایک لاکھ روپے ہی ہوگا۔

    فروغ نسیم نے بتایا کہ 16مئی کے بعدسےاس گفتگو کےحق میں ایک لفظ نہیں بولا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے وہ پریس کانفرنس کریں گے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ پراسکیوٹر ہیں ایسی بات نہ کریں ، کیا فیصل واوڈا ،مصطفیٰ کمال نے ندامت دکھانے کیلئےکوئی اور پریس کانفرنس کی تو وکیل مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی گئی،

    چیف جسٹس نے وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سےمعاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے میں سوچ لیں ، جھوٹ بولنےسےڈالرملتے ہیں ،سارے صحافیوں کو ہم نے بچایا، اگر آپ کو مزید وقت درکار ہے بتا دیں، عدالتی فیصلوں پرضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، سی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کیا فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ وکیل نے بتایا کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

    عدالت نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا سےشوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتےمیں جواب طلب کر لیا، فروغ نسیم نے کہا کہ ہم قانون بدلنا چاہتے تھے ، اس پر شورپڑجاناتھا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شور کیوں پڑنا تھا، جس پر فروغ نسیم نے مزید کہا کہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا ،مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لےلیں ، مصطفیٰ کمال صرف رباکو اللہ کیساتھ جنگ کہتےہیں ،اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مجھے تولگا تھا وہ مذہبی جماعتوں کاکیس ہے ، پہلی بار پتا چلا ایم کیو ایم بھی شریک ہے اور سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے توہین عدالت کے نوٹس پر ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا۔

    جس میں مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معذرت کی تھی جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔

  • فیصل واوڈا کا توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار

    فیصل واوڈا کا توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار

    اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا اور پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت نوٹس پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا، جس میں انھوں نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا۔

    جواب میں کہا گیا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کامقصدملک کی بہتری تھا۔

    سینیٹر نے جواب میں کہا کہ عدالت توہین عدالت کی کاروائی آگےبڑھانےپرتحمل کامظاہرہ کرے، استدعا ہے توہین عدالت کا نوٹس واپس کیا جائے۔

    فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا مبینہ ملزم عدالت کی عزت کرتا ہے، کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ملزم سمجھتا ہے عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بے داغ ہونا چاہیے، پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک فعال اور متحرک عدالتی نظام میں ہے۔

    جواب میں کہنا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ سے متعلق معلومات کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔

    سینیٹر نے مزید کہا کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کیلئے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے، عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کیخلاف مہم زور پکڑ رہی ہے، حال ہی میں چیف جسٹس نے کہاعدلیہ کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں، اپریل 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیخلاف توہین آمیزمہم چلی۔

    سینیٹر نے رؤف حسن، فضل الرحمان اور شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی پیش کردیے ہیں۔

    مزید پڑھیں : عدلیہ مخالف بیان ، ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی

    اس سے قبل ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرائا تھا۔

    جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ججز بالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔

    رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگار ہو۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا ، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیاتھا ، سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔

  • سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو  متنبہ کردیا

    سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو متنبہ کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلزکو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا توہین آمیز مواد چلانا یا دوبارہ نشر کرنے والے چینلز توہین عدالت ہی کررہے ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کا حکم نامہ جاری کردیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، دونوں کواپنے کئےکی وضاحت کا موقع دیتے ہوئے شوکاز جاری کیا جاتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلزکو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا توہین آمیز مواد چلانا یا دوبارہ نشر کرنے والے چینلز توہین عدالت ہی کر رہے ہوں گے، ٹی وی چینلزکو ایسا مواد نشر کرنے سے بازرہنا چاہیے۔

    فیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال نے عدلیہ پر الزامات لگائے، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے زیر سماعت مقدمات پر گفتگو کی۔

    پیمرافیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ جمع کرائے۔

    فیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال آئندہ سماعت پرپیش ہوں، توہین عدالت کےنوٹسز کا جواب 2ہفتےمیں دیاجائے، کیس کی آئندہ سماعت 5 جون کوہوگی۔

  • توہین عدالت کیس: ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی غیرمشروط معافی کی استدعا مسترد

    توہین عدالت کیس: ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی غیرمشروط معافی کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی غیرمشروط معافی کی استدعا مسترد کردی اور عرفان نواز میمن کو دوسرے شوکاز کا پیر تک جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہریارآفریدی،شاندانہ گلزارکی غیرقانونی گرفتاریوں پرتوہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    ڈپٹی کمشنر عرفان نوازمیمن عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سےغیرمشروط معافی مانگ لی، عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کی غیرمشروط معافی کی استدعا مسترد کردی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر کو دوسرے شوکاز کا پیر تک جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا اور کہا ڈپٹی کمشنراور ایس ایس پی آپریشنز کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ یکم مارچ کوسنایا جائے گا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کوبیرون ملک جانے سے روک دیا اور جسٹس بابر ستار نے کیس دوسری عدالت میں منتقل کرنےکی استدعا بھی مسترد کردی۔

    جسٹس بابرستار نے کہا آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنیں گے آئندہ ہفتے کیس کا فیصلہ سناؤں گا، آپ نے نو سو ستر دنوں کی نظر بندی کے انہتر ایم پی او آرڈرزجاری کیے، کیا ان کی فیملیز نہیں، انہوں نے عمرے پرنہیں جانا، یہ آپ کا احمقانہ ایکشن تھا، آپ اس کے نتائج بھگتیں گے۔

    جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کسی کی کال پر فیصلے کرتے ہیں تو ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔

    وکیل رضوان عباسی نے ڈی سی اسلام آباد پرعائد فرد جرم پڑھ کر سنائی، جس پر ڈی سی عرفان نواز میمن نے کہا عدالتی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

  • آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے معذرت کرلی

    آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے معذرت کرلی

    اسلام آباد: عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کی گرفتاری کیخلاف توہین عدالت کیس میں آئی جی اسلام آباد سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے معذرت کرلی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاتی کی گرفتاری پر  توہین عدالت کیس  کی سماعت ہوئی۔ آئی جی اسلام آباد نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرا یا۔

    آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا جو تاثر بنا اس پر شرمندہ ہوں، معذرت کرتا ہوں، مستقبل میں ایسی کسی صورت حال سے بچنے کے لیے آفس آرڈر جاری کیا ہے۔

    آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ پولیس افسران کو آرڈر کیا ہے عدالتی احکامات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں، عدالت کی کسی ہدایت یا حکم کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

    شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کیس: آئی جی اسلام آباد ذاتی حیثیت میں طلب

    آئی جی ناصر خان نے شیریں مزاری کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیا۔

    آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ گرفتاری کرنے والے پولیس انچارج،کانسٹیبل، لیڈی کانسٹیبل کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے، شیریں مزاری کی گرفتاری میں سب انسپکٹر حیدر علی ،کانسٹیبلز سہیل قریشی، فیصل، وقاص گرفتاری ٹیک میں شامل تھے جبکہ لیڈی کانسٹیبل میں سندس اور ماروی بھی شامل تھیں۔

    انہوں نے کہا کہ ڈی سی پنڈی کے ایم پی او آرڈر سے پہلے گرفتاری سے روکنے کے عدالتی آرڈر کی پولیس کو سروس نہیں ہوئی تھی، ڈی سی راولپنڈی کے ایم پی او کے تحت 17 مئی کے آرڈر سے متعلق ہمیں بتایا گیا۔

    آئی جی اسلام آباد نے جواب میں مزید کہا کہ تھانہ کوہسار کے آفیشلز راولپنڈی پولیس کے ساتھ شیریں مزاری کے گھر کے باہر گئے، ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے گرفتاری سے روکنے کے عدالتی حکم سے متعلق پولیس کو آگاہ نہیں کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس ڈی لسٹ کردیا

    سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس ڈی لسٹ کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عمران خان کےخلاف توہین عدالت کیس ڈی لسٹ کردیا ، توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہونی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےعمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس ڈی لسٹ کردیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس بینچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈی لسٹ کیا گیا۔

    سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہونی تھی۔

    یاد رہے سپریم کورٹ میں زیر سماعت توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اضافی جواب جمع کرایا تھا۔

    عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب الجواب میں کہا گیا تھا کہ کیس میں واحد نقطہ یہی ہے کہ مجھےعدالتی احکامات سے آگاہ کیا گیا یا نہیں۔ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی مجھ سے ملاقات کے احکامات کی انتظامیہ نے خلاف ورزی کی۔ 24 مئی سے پنجاب اور اسلام آباد میں تشدد کی وجہ سے شدید دباؤ میں تھے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ جمیرز کی وجہ سے رابطہ نہ ہونے کا ابھی تک دعویٰ نہیں کیا۔ پہلے جواب میں جیمرز کی موجودگی میں رابطے کے عمل کو غیر حقیقی لکھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پابندی کے باعث سوشل میڈیا کا استعمال لازمی تھا اور سوشل میڈیا سرگرمیاں مختلف جگہوں پر مختلف اکاوئنٹس سے کی جا رہی تھیں۔

    عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے بتایا گیا سپریم کورٹ نے میرے اور سپورٹرز کے آئینی حق کو تسلیم کرلیا۔ ڈی چوک جانے کا فیصلہ حکومتی تشدد کے نتیجے میں کیا تھا۔ ڈی چوک پر جانے کا فیصلہ سپریم کورٹ فیصلے سے پہلے کر چکا تھا۔

    سابق وزیراعظم کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں استدعا کی گئی تھی کہ وزیر اعلیٰ کے پی کاروان کے ہمراہ جیمرز کی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت چاہتا ہوں، میرے جواب اور دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

    واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں اس سے قبل وزارت داخلہ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹویٹس، ویڈیو پیغام اور کالز کا ریکارڈ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے تحریری جواب میں غلط بیانی کی اور ان کا پہلے ہی ڈی چوک جانے کا منصوبہ تھا۔

  • عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس: پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹویٹس، ویڈیو پیغام اور کالز کا ریکارڈ عدالت میں جمع

    عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس: پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹویٹس، ویڈیو پیغام اور کالز کا ریکارڈ عدالت میں جمع

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں وزارت داخلہ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹویٹس، ویڈیو پیغام اورکالز کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    وزارت داخلہ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ٹویٹس،وڈیو پیغام اورکالز کا ریکارڈ جمع کرا دیا۔

    وزارت داخلہ نے کہا کہ عمران خان نے اپنے تحریری جواب میں غلط بیانی کی، عمران خان اور پی ٹی آئی کا پہلے ہی ڈی چوک جانے کا منصوبہ تھا۔

    وزارت داخلہ کا عدالت میں کہنا تھا کہ 24 مئی کو عمران خان نے قوم کے نام خصوصی پیغام جاری کیا، 25 مئی کوڈی چوک میں حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی۔

    رپورٹ میں کہا کہ فیصل جاوید، شیریں مزاری اور منزہ حسن نے بھی ڈی چوک جانے کے لیے ٹویٹس کیں، پی ٹی آئی کا کہنا ہےاسد عمر نے ایچ نائن گراؤنڈ جانے کی ہدایات دیں حقائق کے برعکس ہے۔

    وزارت داخلہ نے بتایا کہ 25 مئی کی سہ پہر عمران خان نے اپنی 2تقاریر میں ڈی چوک جانے کے عزم کا اظہار کیا،عمران خان کی دونوں تقاریر پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ پر لائیو چلائی گئیں۔

    جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کا موبائل فون جیمرز لگائے جانے کا دعویٰ بھی حقائق کے منافی ہے، شواہد موجود ہیں کہ پی ٹی آئی مارچ کے دوران کنٹینر سےسوشل میڈیا استعمال کیا گیا،کنٹینر پر موجود رہنماؤں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹویٹس کیں اور وڈیو پیغام شیئر کیے۔

    وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ کنٹینر سے پی ٹی آئی رہنماؤں نے ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیئے جو جیمرز کی صورت میں ناممکن تھا، 25 مئی کی شام 6:22 بجے پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے حکمنامہ بارے ٹویٹ کی۔

    رپورٹ کے مطابق فواد چوہدری نے بھی ٹویٹ کے ذریعے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ترغیب دی، عدالتی حکم کے بعد رہنماؤں کے ڈی چوک پہنچنے سے متعلق متواتر ٹویٹس کی گئیں۔

    وزارتِ داخلہ کے جواب میں عدالتی حکمنامے سے متعلق صحافیوں کی ٹویٹس کا بھی حوالہ شامل ہیں۔

    وزارت داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکمنامہ بارے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو علم تھا، پی ٹی آئی قیادت نے عدالتی حکم بارے سپریم کورٹ سے غلط بیانی کی اور پی ٹی آئی قیادت نے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے اکسایا ،

    عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہنا تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا عمل ان کے قول سے واضح تضاد رکھتا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد نے جلسے کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کی، پی ٹی آئی نے درخواست مسترد کرنے کو کہیں چیلنج نہیں کیا۔

    وزارت داخلہ نے مزید کہا عمران خان اور پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی، اس لیے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

  • توہین عدالت کیس : وزارت داخلہ نے عمران خان کیخلاف مزید شواہد جمع کرادیئے

    توہین عدالت کیس : وزارت داخلہ نے عمران خان کیخلاف مزید شواہد جمع کرادیئے

    اسلام آباد : وزارت داخلہ نے توہین عدالت کے معاملے پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کیخلاف مزید شواہد جمع کرادیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس میں مزید شواہد جمع کرادیئے۔

    وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد میں مختلف رہنماؤں کے ٹوئٹس، اخباری تراشے شامل ہیں۔

    وزارت داخلہ نے بطور شواہد 25 مئی کے احتجاج کے دوران کے مختلف وڈیو کلپس بھی جمع کرائے۔

    خیال رہے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہوگی، چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا۔

    یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کے معاملے پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

    وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عمران خان اسلام آباد کی جانب مارچ اور احتجاج کے اعلانات کر رہے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

    درخواست میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو پُرامن احتجاج کی اجازت دی تھی مگر چیئرمین پی ٹی آئی اسلام آباد پر چڑھائی کے اعلانات کر رہے ہیں۔

    15 اکتوبر کو حکومت نے عدالت سے توہین عدالت کی درخواست پر جلد سماعت کی استدعا کی تھی۔

  • عمران خان کی سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا

    عمران خان کی سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے سپریم کورٹ سےتوہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروا دیا۔

    عمران خان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کے حکم عدولی نہیں کی گئی، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم بارے آگاہ نہیں کیا گیا۔ ‏

    عمران خان نے سپریم کورٹ میں جمع ایجنسیز کی رپورٹ کو اپنے جواب میں مسترد کر دیا۔

    اپنے جواب میں عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں بابر اعوان کی مجھ سے ملاقات کروانے کا بھی کہا۔ عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ نے بابر اعوان کی مجھے سے ملاقات میں کوئی سہولت نہیں کی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ 25 مئی کو 6:45 پر کارکنان کو دیا گیا ویڈیو پیغام سیاسی کارکنان کی معلومات پر جاری کیا، احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کی ذریعے رابطہ ناممکن تھا، نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے۔

    عمران خان نے کہا ہے کہ 25 مئی ہو ڈی چوک جانے کی کال دینا حکومتی رویے کے خلاف پر امن احتجاج کیلئے تھی، میری یا تحریک انصاف کی جانب سے کسی وکیل کو سپریم کورٹ میں زیر التوا کیس میں شامل ہونے کو نہیں کہا گیا۔

    جواب میں کہنا تھا کہ مجھے اب بتایا گیا ہے کہ اسد عمر نے جی نائن گروانڈ کے حوالے سے ہدایت دیں، توہین عدالت کی کاروائی کا کوئی جواز نہیں ایجنسیز کی رپورٹ مقاصد کے تحت بنائی گئی ہے، سیکورٹیز ایجنسیز نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

    عمران خان نے سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی کاروائی ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا توہین عدالت کی کاروائی کا کوئی جواز نہیں ایجنسیز کی رپورٹ مقاصد کے تحت بنائی گئی ہے، سیکورٹیز ایجنسیز نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

  • عمران خان کے وکیل کی توہین عدالت کیس میں التوا کی درخواست دائر

    عمران خان کے وکیل کی توہین عدالت کیس میں التوا کی درخواست دائر

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے توہین عدالت کیس میں التواکی درخواست دائر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل نے توہین عدالت کیس میں التوا کی درخواست دائر کردی۔

    سلمان اکرم راجہ نے التوا کی درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ میرا موکل افسوسناک واقعہ کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ موکل اسپٹالائزڈ ہونے کی وجہ معاملہ پر جواب جمع کرانا ممکن نہیں ، استدعا ہے کہ مقدمہ کو فی الحال سماعت کیلئے مقرر نہ کیا جائے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں جواب جمع کرایا تھا۔

    عمران خان نے جواب میں سپریم کورٹ کو کرائی گئی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلی جواب کیلئے عدالت سے 3 نومبر تک کی مہلت مانگی تھی۔

    جواب میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ کا میری طرف سے کرائی گئی کسی یقین دہانی کا علم نہیں۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی سینئر قیادت کی جانب سے کسی یقین دہانی کا بھی علم نہیں اور سپریم کورٹ کے ڈی چوک نہ آنے کے فیصلے کابھی علم نہیں۔