Tag: توہین عدالت کیس

  • عمران خان نے توہین عدالت کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

    عمران خان نے توہین عدالت کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں سپریم کورٹ کو کرائی گئی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں جواب جمع کرا دیا۔

    عمران خان نے جواب میں سپریم کورٹ کو کرائی گئی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلی جواب کیلئے عدالت سے 3 نومبر تک کی مہلت مانگ لی۔

    جواب میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ کا میری طرف سے کرائی گئی کسی یقین دہانی کا علم نہیں۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی سینئر قیادت کی جانب سے کسی یقین دہانی کا بھی علم نہیں اور سپریم کورٹ کے ڈی چوک نہ آنے کے فیصلے کابھی علم نہیں۔

    ڈاکٹر بابراعوان نے  جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا


    دوسری جانب توہین عدالت کیس میں ڈاکٹر بابراعوان نے بھی جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔

    جس میں کہا گیا کہ مقدمہ میں فریق تھا نہ ہی کسی ادارے کی رپورٹ میں میرا نام آیا، حکومتی وکیل کی جانب سے لگائے زبانی الزام کی کوئی حیثیت نہیں۔

    جواب میں کہنا تھا کہ عمران خان کا نام کسی وکیل نے لیا نہ ہی عدالتی حکم میں کہیں نام لکھا گیا ہے، 25مئی کے عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا لفظ استعمال ہوا۔

    بابر اعوان نے کہا کہ عدالتی نے سیکرٹری داخلہ، ڈی سی اٹک کوعمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا تاہم حکومتی عہدیداروں نے عدالتی حکم کے باوجود ملاقات نہیں کرائی، خود کو خطرے میں ڈال کر حکومتی ٹیم سے ملنے گیا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔

    پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کا بھی جواب جمع

    اسی طرح توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے بھی جواب جمع کرا دیا۔

    جواب میں کہا گیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے درخواست میں فریق تھا نہ توہین عدالت کیس میں ہے،عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت فریق تھی نہ انکی وکالت کر رہا تھا۔

    وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت کے کہنے پر ہی پیش ہوا تھا، درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے راستوں کی بندش پر دائر کی تھی، ہائی کورٹ بار کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے دیگر وکلاء کی طرح عدالت میں موجود تھا۔

    جواب میں مزید کہا گیا کہ عدالتی حکم پر پی ٹی آئی قیادت سے رابطے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی، منگلا پل پر شیلنگ کھاتے اپنے بھائی فواد چوہدری سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔

    فیصل چوہدری نے جواب میں کہا کہ بابراعوان نے اسد عمر کو عدالتی احکامات سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایات لیں ، بابراعوان نے ایچ نائن اورجی نائن گراؤنڈ مہیاکرنے کیلئےدی گئی درخواست سےآگاہ کیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نےعمران خان سےملاقات کابندوبست کرنےکاحکم دیا انتظامیہ نےعمل نہیں کیا، عدالتی حکم پر حکومتی ٹیم سے ملنے کمشنر آفس گئے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا، عمران خان سے رابطہ اور ملاقات لانگ مارچ کے بعد جون کے پہلے ہفتے میں ہوا۔

    وکیل نے استدعا کی کہ توہین عدالت کی درخواست پر جاری کاررروائی سے نام حذف کیا جائے۔

  • توہین عدالت کیس:عمران خان نے  بیان حلفی عدالت میں جمع کرا دیا

    توہین عدالت کیس:عمران خان نے بیان حلفی عدالت میں جمع کرا دیا

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے توہین عدالت کیس میں بیان حلفی عدالت میں جمع کرا دیا، جس میں کہا اگر جج سمجھیں کہ ریڈ لائن کراس کی تو معافی مانگنے کو تیار ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق جج مخالف توہین آمیز الفاظ پر توہین عدالت کیس میں چیئرمین تحریک انصا عمران خان نے بیان حلفی جمع کرا دیا،

    عمران خان کی جانب سے آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع کرایا گیا، عمران خان نے اپنے بیان حلفی میں عدالت سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔

    عمران خان نے بیان حلفی میں کہا ہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت کے سامنے جو کہا اس پر مکمل عمل کروں گا، عدالت اطمینان کے مزید کچھ کہے تو اس حوالے سے مزید اقدام کرنے کو تیار ہوں۔

    بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ اگر جج سمجھیں کہ ریڈ لائن کراس کی تو معافی مانگنے کو تیار ہوں، 22ستمبرکوعدالت میں دیے گئے بیان پر قائم ہوں اوراس پرعمل کروں گا۔

    تقریرمیں جج کو دھمکی دینےکا ارادہ نہیں تھا، یکشن لینے سے مراد لیگل ایکشن کے سوا کچھ نہیں تھا۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عدالت میں کہا کہ خاتون جج کے پاس جاکرمعافی مانگنے کے لیے تیارہوں، آئندہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کروں گا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی فرد جرم موخر کرتے ہوئے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے آج چارج فریم نہیں کر رہے،بیان حلفی پرغورکریں گے، توہین عدالت کیس کبھی بھی اچھا نہیں لگتا،اپنے الفاظ واپس لینےپرآپ کوسراہتے ہیں۔

  • توہین عدالت کیس: عمران خان پر فردِ جرم مؤخر،  بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    توہین عدالت کیس: عمران خان پر فردِ جرم مؤخر، بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر فرد جرم مؤخر کرتے ہوئے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری سےمتعلق بیان پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ، جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بنچ کا حصہ ہیں۔

    سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عدالتی معاون منیر اے ملک مخدوم علی خان ، ملائکہ بخاری اور اٹارنی جنرل اشتراوصاف بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ کی خصوصی ہدایت پرپریس روم اور بار روم میں اسپیکرزنصب کئے گئے ہیں تاکہ کیس کی کارروائی لائیوسنی جاسکے گی۔

    سماعت کے آغاز میں ہوا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آج ہم صرف فرد جرم عائد کریں گے، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ملزم عمران خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان روسٹرم پر آئے اور بولنے کی اجازت مانگی ، جس پر عدالت نے عمران خان کو بولنے کی اجازت دے دی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ میں نے ارادی طور کو خاتون جج کو دھمکی نہیں دی تھی، میں نے اپنے تقریر میں لیگل ایکشن لینے کا کہا تھا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میں خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں اور آئندہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کروں گا۔

    ان کا عدالت میں بیان میں کہنا تھا کہ جیسے جیسے مقدمہ آگے چلا، مجھےسنجیدگی کا احساس ہوا، میں نے خاتون جج کیخلاف لیگل ایکشن کی بات کی تھی، آپ کہیں تو خاتون جج کے پاس جا کر یقین دلاؤں گا، خاتون جج کو یقین دلاؤں گانہ میں، نہ میری پارٹی آپ کو نقصان پہنچائے گی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم فرد جرم عائد نہیں کر رہے، ہمیں توہین عدالت کیس کبھی بھی اچھا نہیں لگتا،جس انداز اور جس عوامی اجتماع میں آپ نے کہا وہ زیر غور تھا۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو غلطی کا احساس ہے، آپ نے اپنے الفاظ واپس لئے ہم آپ کو سراہتے کرتے ہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف آج چارج فریم نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عمران خان کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بیان حلفی پر غور کریں گے، آج چارج فریم نہیں کر رہے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

  • توہین عدالت کیس: عمران خان کی  عدالت میں پیشی سے متعلق سرکلرجاری

    توہین عدالت کیس: عمران خان کی عدالت میں پیشی سے متعلق سرکلرجاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی پیشی سے متعلق سرکلرجاری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کی عدالت پیشی سے متعلق سرکلر جاری کردیا۔

    رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران ضابطہ اخلاق کا سرکلر جاری کردیا۔

    سرکلر میں کہا گیا ہے کہ کمرہ عدالت نمبرایک میں انٹری رجسٹرارآفس کےجاری کردہ پاس سےمشروط ہو گی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سرکلر میں کہنا ہے کہ عمران خان کی لیگل ٹیم کے 15وکلا کمرہ عدالت میں موجود ہو سکیں گے جبکہ اٹارنی جنرل آفس اورایڈووکیٹ جنرل آفس سے 15لاافسران کواجازت ہو گی۔

    3عدالتی معاونین ، 15کورٹ رپورٹرز ، ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ بار کے 5،5 وکلا کو کمرہ عدالت جانےکی اجازت ہوگی۔

    اسلام آبادہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کو بھی 15صحافیوں کی لسٹ جمع کرانےکی ہدایت کردی گئی ہے ، لسٹوں کی فراہمی کے بعد اسلام آبادہائی کورٹ کارجسٹرارآفس پاس جاری کرے گا۔

    سرکلر میں کہا ہے کہ کورٹ ڈیکورم کو برقرار رکھنے کیلئے اسلام آباد انتظامیہ ، پولیس سیکیورٹی انتظامات کرے،
    لارجر بنچ 22 ستمبر کو دن اڑھائی بجے کیس کی سماعت کرے گا۔

  • توہین عدالت کیس: عدالت نے عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر سوالات اٹھا دیے

    توہین عدالت کیس: عدالت نے عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر سوالات اٹھا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری سےمتعلق بیان پرتوہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ، جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بنچ کا حصہ ہیں۔

    عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ، عمران خان کے وکیل حامد خان عدالتی معاونین منیر اے ملک، حامد علی ، پاکستان بار کونسل سے اختر حسین ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور اے جی اسلام آباد جہانگیر جدون بھی پیش ہوئے۔

    دوران سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کئے تو عدالت نے حامد خان کے علاوہ دیگر وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔

    وکیل حامد خان نے بتایا کہ عدالت کو گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا،عدالت کی آبزرویشن کے مطابق ہم نے جواب جمع کرایا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتاؤں گا کہ کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے، میں عمران خان کیس میں سپریم کورٹ کےفیصلے بھی عدالت کے سامنے رکھو گا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا ، فردوس عاشق اعوان کیس میں 3 قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ طلال چوہدری کیس کرمنل توہین عدالت نہیں تھی، جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز ، طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی، انہوں نے عدالت کے کردار کو اسکینڈ لائز کیا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا عمران خان کی کریمنل توہین ہے، کرمنل توہین عدالت سیریس نیچر کی ہے ، کرمنل توہین عدالت میں آپ ارادے کا ذکر نہیں کرسکتے، گزشتہ سماعت پر بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ کرمنل توہین عدالت ہے، آپ نے زیر التوا مقدمہ سے متعلق بات کی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کا جواب ہم نے تفصیلی پڑھا ہے ، عمران خان نے ایک زیر سماعت مقدمے میں جج کے حوالے سے الفاظ استعمال کیے۔

    عدالت نے سپریم کورٹ کے 1996 کے 7رکنی بینچ کے فیصلے کو پڑھنے کا حکم دیا ، وکیل حامد خان نے کہا عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پرتفصیلی جواب داخل کرادیا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کریمنل توہین میں آپ کوئی وجہ پیش نہیں کر سکتے ، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں مگر اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

    عدالت نے وکیل حامد خان کو توہین عدالت آرڈیننس کا سیکشن 9 پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کریمنل توہین میں آپ یہ گزارش نہیں کر سکتے کہ میرا یہ مقصد تھا۔

    عدالتی حکم پر حامد خان توہین عدالت کے گزشتہ مقدمات کے فیصلے پڑھ رہے ہیں ، فیصلوں میں "غیر مشروط معافی” کے حوالے سے حصہ پڑھا جا رہا ہے۔

    چیف جسٹس نے واضح کہا کہ اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے ، سوسائٹی میں اتنی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر  بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کئے، پچھلی باربھی سمجھایا تھا ایک شخص کی حیثیت جرم کی نوعیت کا اندازہ لگانے کیلئے اہم ہے ، ہم نے بہت لمبی لائرزموومنٹ کی لیکن اس کے مقاصد حاصل نہ کرسکے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل حامد خان نے استفسار کیا آپ بتائیں کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں وضاحت دینے کی کوشش کی، کیا سابق وزیراعظم کا یہ مؤقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا۔

    جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو عمران خان کے شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہےعمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو مبینہ نہیں لکھا، معاملہ ابھی عدالت میں ہے، یہی رویہ اور  الفاظ سپریم کورٹ ججز کے بارے میں ہوتے تو کیا آپ یہی جواب دیتے، ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہے۔

    عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندگی ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ کیا ججز کے کوئی احساسات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس کورٹ نے آپ کو طریقے سے معاملے کی گہرائی سمجھا دی ہے، ضلعی عدلیہ کے ججز بہت کچھ برداشت کرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کیا آپ یہ کیس لڑنا چاہتے ہیں؟ یہ صرف خاتون جج کیخلاف بیان نہیں اشتعال دلانے کا کیس ہے، کیا کوئی جلسے میں لیگل ایکشن کی دھمکی لگا سکتا ہے؟
    .
    جسٹس بابر ستار نے کہا فورم جلسہ نہیں بلکہ شکایت درج کرانے کا فورم ہے ، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ خاتون جج کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقصد نہیں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جج کے جذبات نہیں ہوتے، عدالت، قانون کا احترام ہوتا ہے۔

    جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کیاعوامی مقام پر کھڑے ہو کر آپ قانونی ایکشن کا اعلان بھی کرسکتے ہیں؟ آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے، کل وہ کہیں موٹر وے پر جاتے ہوئےرکیں گی تو کوئی نقصان ہوسکتا ہے، کوئی بھی وہاں ان کے ساتھ نامناسب سلوک کر رہا ہو گا۔

    جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی کیسے دے سکتا ہے؟ سیکشن نائن پڑھیں آپ ،اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے، فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔

    جس پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نے قانونی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جا کر تونہیں کرنا تھی، عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی، قانونی کارروائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

    جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے ، تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہی۔

    جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان نے شعیب شاہین کو ہدایت کی کہ میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں ، حامد خان سے پوچھو میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں۔

    جسٹس بابر ستار نے کہا جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہال ہاشمی کیس اسی  طرح کا تھا وہ جج کا نام لیے بغیر تھریٹ تھا ، انہوں نے غیر مشروط معافی مانگی پھر بھی سپریم کورٹ نے کنسیڈر نہیں کیا۔

    جس پر وکیل حامد خان نے کہا عمران خان بیان پر کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ بیان ہم چلا دیں گے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے بارے میں "شرمناک” لفظ کہہ دیتے تو ہم برا نہ مناتے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے سپریم کورٹ جج کیخلاف توہین سے زیادہ سنگین ہے۔

    جس پر وکیل حامد خان نے کہا عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے، ہمارے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے ہم کبھی توہین عدالت کارروائی نہ کرتے ، لیکن یہاں معاملہ مکمل مختلف ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ توجیہات پیش کرکے مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں ؟ جس پر وکیل نے کہا نہیں ہم توجیہات پیش نہیں کر رہے صرف وضاحت کررہے ہیں۔

    جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ اس 5رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آیا تو اس کیخلاف بھی کھڑے ہو کر وہی بات کرینگے؟ کیا جس کو فیصلہ پسند نہ آئے وہ ایسا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟ عدالت کسی کیخلاف حکم دے اوروہ باہر کہے ، جج کو نہیں چھوڑوں گا، کیا یہ ٹھیک ہوگا ؟

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ یہاں خاتون جج کو دھمکی دی گئی ،مقدمہ عدالت میں زیرالتوا تھا، آپ کا جواب غلط کام کی توجیہہ پیش کرنا ہے، سیاسی لیڈر کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے لوگ فالو کرتے ہیں، حضور پاک ﷺکی تعلیمات سے سیکھنا چاہیے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی رہنما کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک رہنما ایک ایک لفظ احتیاط کے ساتھ بولنا چاہیے، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، ہمیں حضور ﷺ کی ذات اور فتح مکہ سے سیکھنا چاہئے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جوزبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔

    جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کیا عمران خان ابھی اٹھ کر کہہ سکتے ہیں آپ کیخلاف ایکشن لوں گا، جس پر حامد خان نے کہا لیگل ایکشن۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بار بار سمجھا رہے ہیں یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے ، سیاسی لیڈر کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ، جو الفاظ وہ استعمال کر رہا ہے وہ کیسے ہیں ، ایک رہنما ایک ایک لفظ احتیاط کے ساتھ بولنا چاہیے، ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ بہت متعلقہ ہے۔

    شہباز گل کے حوالے سے جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ 6 میڈیکل بورڈز تشکیل دئیے گئے کسی ایک رپورٹ میں بھی ٹارچر کا ذکر نہیں تھا۔

    جسٹس جہانگیری نے بھی ریمارکس دیے شہباز گل کو 6 میڈیکل بورڈز کے 14 ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا، کسی نے میڈیکل بورڈ نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا، کیا آپ نے یہ بات اپنے موکل عمران خان کونہیں بتائی؟

    جسٹس اطہر من اللہ کا حامد سے مکالمے میں کہنا تھا کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو مبینہ بھی نہیں لکھا ، جبکہ معاملہ ابھی متعلقہ عدالت میں زیر سماعت تھا، آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، اب آپ کا تاثر آگے چلے گا یا جوڈیشل آرڈر؟

    عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، خاتون جج کو دھمکی دینے کی کوئی نیت نہیں تھی، خاتون جج کو دھمکی لگی تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لیڈی جج نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کا معاملہ ہے ، جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جینڈر ایشو ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل عمران خان سے مکالمے میں کہا آپ دوبارہ سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں ، کیا آج تک کسی سیاسی لیڈر نے سوشل میڈیا پرکہا کہ غلط کام نہ کریں ،لیڈرشپ اس کی ذمہ دار ہے ، ہر کوئی سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کر رہا ہے، جوڈیشری اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔

    جس پر وکیل عمران خان نے کہا ہمیں اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کا یکساں احترام ہے، تاثر یہ بن رہا ہے کہ شاید عمران خان نے خاتون کی وجہ سے جج کو ٹارگٹ کیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فردوس عاشق کیس میں عدالت نے کہا تھا شاید آگاہی نہیں ہے ، اس وقت آپ وہ دلیل نہیں لے سکتے وہ آپ کے فیور میں نہیں جائے گی۔

    دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو جواب کا پیراگراف چار پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا وہاں لکھا ہے عمران خان کو پتہ تھا آرڈر چیلنج ہونا ہے، کیا پھر یہ جان بوجھ کراپیل پر پیشگی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیںَ؟ آپ خود کہہ رہے ہیں عمران خان کو پتہ تھا ریمانڈ کے فیصلے کیخلاف اپیل ہوگی۔

    جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمے میں کہا پھر بھی انہوں نے ایسی بات کی؟ تو حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو معلوم نہ تھا کہ اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، یہ معلوم تھا جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اپیل دائر کی صورت میں کیس پر اثرانداز ہونا چاہ رہے تھے؟

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے یاتو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں، خود کیلئے بات کروں گا، میں نے آج تک اسکینڈلائز توہین عدالت کا نوٹس ہی نہیں لیا، ہمیں فرق نہیں پڑتا، روزانہ سوشل میڈیا پرلوگ ہمارے بارے میں جو کہتے ہیں، ہم تو پھر روز توہین عدالت کے کیس ہی سنتے رہیں گے، عدالت پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا جسٹس بابرستار نے فواد چوہدری کیخلاف توہین عدالت درخواست مسترد کی، آپ کو پتہ ہے وہ کیا درخواست تھی؟ اس کو تو کریمنل توہین تصور کیا جا سکتا تھا، فواد چوہدری نے کہا تھا ہم باہر لوگ لے آئیں گے، لیکن ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کا معاملہ ہمارا ہوتا تو ہم نوٹس تک نہ لیتے، یہ عدالت کبھی اسکینڈلائز توہین پر کوئی نوٹس جاری نہیں کرے گی، آپ کا کریمنل توہین عدالت کا کیس بنتا ہے، اگر ہم کہی گئی باتوں پر توہین عدالت لگانا شروع کریں تو روز یہی کام کریں۔

    سپریم کورٹ نے جن توہین عدالت مقدمات میں سزائیں دیں ان میں جرم کم تھا، ہمارے سامنے جوڈیشل اور کریمنل توہین ہے، جو بہت حساس معاملہ ہے۔

  • توہین عدالت کیس :عمران خان آج ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں گے

    توہین عدالت کیس :عمران خان آج ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں گے

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان توہین عدالت کیس میں آج ذاتی حیثیت میں اسلام آبادہائی کورٹ میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس پر آج پھر سماعت ہوگی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا، عمران خان آج ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں گے۔

    عمران خان کی پیشی کے حوالے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کا خصوصی سرکلر بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق کمرہ عدالت میں وکلاء اور صحافیوں کے لئے خصوصی پاسسز جاری کئے گئے ہیں۔

    سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم پر ضمنی جمع کرایا جا چکا ہے ، جس میں عمران خان نے خاتون جج سے متعلق بیان پر اظہار افسوس کیا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ عدلیہ کےخلاف توہین آمیزبیان کاسوچ بھی نہیں سکتا، لفظ شرمناک توہین کے لیے استعمال نہیں کیا۔

    جواب میں کہا گیا تھا کہ جج زیباچوہدری کےجذبات مجروح کرنامقصدنہیں تھا، جج زیباچوہدری کےجذبات مجروح ہوئے اس پر گہرا افسوس ہے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ غیرارادی طورپرمنہ سےنکلےالفاظ پرگہراافسوس ہے، عدالت کویقین دہانی کراتاہوں کہ آئندہ ایسےمعاملات میں انتہائی احتیاط سےکام لوں گا۔

    چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ضمنی جواب میں عدالت شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔

  • توہین عدالت کیس :عمران خان کا جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے الفاظ پر اظہارِ افسوس

    توہین عدالت کیس :عمران خان کا جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے الفاظ پر اظہارِ افسوس

    اسلام آباد : تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین‌ عمران خان نے توہین عدالت کیس میں نیا جواب اسلام آبادہائی کورٹ میں جمع کرادیا۔

    عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا عدلیہ کےخلاف توہین آمیزبیان کاسوچ بھی نہیں سکتا، لفظ شرمناک توہین کےلیےاستعمال نہیں کیا۔

    جواب میں کہا گیا کہ جج زیباچوہدری کےجذبات مجروح کرنامقصدنہیں تھا، جج زیباچوہدری کےجذبات مجروح ہوئے اس پر گہرا افسوس ہے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ غیرارادی طورپرمنہ سےنکلےالفاظ پرگہراافسوس ہے، عدالت کویقین دہانی کراتاہوں کہ آئندہ ایسےمعاملات میں انتہائی احتیاط سےکام لوں گا۔

    جواب میں کہنا تھا کہ کبھی ایسا بیان دیا نا مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو ، میں عدلیہ مخالف بدنیتی پرمبنی مہم چلانے ،عدالتی کارروائی یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ طلال چوہدی کیس الگ نوعیت کا تھا ،طلال چوہدری نےبیان پرکبھی کوئی افسوس ظاہرنہیں کیا تھا،عدالت نےمجھے ضمنی جواب کی مہلت دی اس پر بھی تنقید ہوئی،سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی تاک میں رہنے والوں نے شدید تنقید کی۔

    عمران خان کے جواب کی کاپی ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی مل گئی ہے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

  • توہین عدالت کیس : عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

    توہین عدالت کیس : عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی ، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی حکم پرذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

    اٹارنی جنرل اشترو اوصاف ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال عدالت ، عمران خان کی لیگل ٹیم ،بابر اعوان ، اعظم سواتی اوردیگر سمیت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    ا توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے جو کہا گیا توقع نہیں تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا حامد خان صاحب آپ عمران خان کے وکیل ہونگے ؟ ہمیں بہت خوشی ہے اس اہم معاملے میں آپ یہاں وکیل ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے ایسے بیانات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی، آپ کےموکل کا ماتحت عدلیہ کے بارے میں بیان کی توقع نہ تھی،ماتحت عدلیہ ایلیٹس کی عدلیہ نہیں اسے اہمیت دینےکی ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے ، کم از کم جو جن حالات میں رہ رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کررہے ہیں وہ سب کےسامنے ہیں، میں یہ توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اورافسوس کیا جائے گا لیکن جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہے الفاظ واپس نہیں ہوتے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالوورز ہوتے ہیں کچھ کہتے ہوئےسوچنا چاہیے ، گزشتہ 3سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا ہے، ماتحت عدلیہ کو اہمیت دینی ہے، عمران خان کےتحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر تسلی نہیں ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ عمران خان کوکریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کہنے پرجوڈیشل کمپلیکس بنایا،عمران خان اس عدلیہ کے پاس جاکر اظہار کرتے کہ انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ عمران خان کے اس الفاظ میں ایک خاتون جج کو دھمکی دی گئی، تحریری جواب میں ہمیں جو امید نظر آرہی تھی، وہ نہیں ملی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 3سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اسوقت بھی آواز اٹھاتے ، آپ کے جواب سے اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ، جواب سے لگتا ہے عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟

    دوران سماعت اسلام آبادہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا آپ خاموش رہیں یہ عدالت اور مبینہ توہین عدالت کے ملزم کامعاملہ ہے۔

    چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔

    شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آبادہائیکورٹ نے حکم جاری کیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتاہوں۔

    عدالت کی شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی ، شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ ٹارچر کی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کوبغیرمیڈیکل داخل کرتےہیں؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا یہ پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ سےکب نمٹائی گئی اورتقریر کب کی گئی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا آپ نے توہین عدالت معاملے پر فردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنیوالوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملناتھی،اس عدالت نے اس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی،عمران خان نے کہا کہ عدالتیں کیوں بارہ بجے کھلیں، عدالت کسی کوجوابدہ نہیں، یہ ہر کسی کے لیے کھلی رہتی ہے ، یہ عدالت رات کو کھلی کہ 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ تمام چیزوں کی جان کاری کے باوجود پبلک اسٹیٹمنٹ دیا گیا، بڑے احترام کیساتھ اس عدالت نے توہین عدالت جیسے معاملات کوکم کردیا، اس عدالت کے تمام ججز نے خود کو آگے کیا، جتنا تنقید کرنا ہےکریں۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ بڑے اچھے الفاظ میں انہوں نے گلہ کیا،انہی الفاظ میں جوکہ بنتا نہیں تھا ، خاتون جج سے گلہ کرتے، ججز اور کورٹ ، جوڈیشری پرجتنی تنقید کرنی ہے کریں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈرز کےاس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں ،سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، کسی عدالت کے کسی جج پر کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت نے صرف قانون پر جانا ہے اور آئین پر عملدرآمد کرنا ہے، ملک میں کوئی بھی سیاسی رہنما آئین کی سپرمیسی پر کام نہیں کرتا، اس عدالت کے لیے سب سے اہم ماتحت عدلیہ ہے۔

    چیف جسٹس نے طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سیاسی جماعت کیخلاف کوئی فیصلہ دیں توسوشل میڈیا پر ٹرینڈ شروع ہوجاتے ہیں،میری اور ایک قابل احترام جج کی تصویر تھی، اس کو سیاسی جماعت کارہنما بنادیاگیا، اس ادارے کو اگر سیاسی جماعتوں نے اہمیت نہ دی تونتائج سنگین ہوں گے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیاپرججزکی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں، یہ عمران خان جیسے رہنما کاجواب نہیں ہے، جس پروکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ مجھے جواب کو واضح کرنے کا موقع دیا جائے۔

    ہائی کورٹ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس عدالت نے کبھی بھی پروا نہیں کی کون کیا کہتا ہے ،سیاسی لیڈرشپ نے سوشل میڈیا کو خراب کیا ہے کوئی سیاسی لیڈر کہہ دے کہ سوشل میڈیا پر ایسا نہیں کرنا تو یہ رک جائے ، مجھے کبھی فلیٹ دلا دیا گیا کبھی تصویر معزز جج کیساتھ وائرل کردی گئی ، مگرایسی باتیں ہم پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے نہیں ہوسکتے۔

    جس پر حامد خان نے بتایا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کاصفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں۔

    عدالت نے واضح کیا کہ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونےدیں گے، جس پر وکیل ،حامد خان کا کہنا تھا کہ نوٹس کے دائرہ اختیار، قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا، م نے جواب میں صرف اپنی ایک پوزیشن کوواضح کیا، عمران خان کا ایسا ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسرکےبارےمیں یہ کہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، توہین عدالت کیسز پرسپریم کورٹ فیصلوں پرعمل لازم ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔

    جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے توہین عدالت کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگرجواب سے ایسا نہیں ہوا، آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے،آپ سوچیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ بتائیں کہ کیا کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں، ملک میں تبدیلی تب آئےگی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے پہلے جواب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا عمران خان کو جواب جمع کرانے کا ایک اور موقع دیتے ہیں۔

    عدالت نے عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں، آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے،ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کانہیں ایگزیکٹو کاتھا، پولیس آرڈر کونافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں مزاحمت کی۔

    عدالت نے منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کردیا ، اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کوفراہم کرنےکا کہا جائے۔

    عمران خان کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیانات سے لاتعلقی کردی بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 8ستمبر تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز عمران خان توہین عدالت کےشوکازنوٹس کاجواب عدالت میں جمع کرا چکےہیں۔

    ایڈووکیٹ حامدخان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری سےمتعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔

    جواب میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ججوں کے احساسات مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتے ، انھوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں، عدالت تقریر کا سیاق وسباق کے ساتھ جائزہ لے۔

    عمران خان نے جواب میں توہین عدالت کا شو کاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

  • توہین عدالت کیس :عمران خان آج عدالتی حکم پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے

    توہین عدالت کیس :عمران خان آج عدالتی حکم پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بینچ آج چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرے گا، عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ ہوگی۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہرمن اللہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ دوپہرڈھائی بجے کیس کی سماعت کرے گا۔

    بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار اور جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل ہیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی حکم پرذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے۔

    اس موقع پر کورٹ روم نمبر ون میں پاسز کے ذریعے وکلا اور صحافیوں کے داخلے کو محدود بنایا گیا ہے جبکہ احاطہ عدالت میں وکلا، صحافیوں یا سائلین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

    گذشتہ روز عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے توہین عدالت شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرایا تھا۔

    ایڈووکیٹ حامدخان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری سےمتعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔

    جواب میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ججوں کے احساسات مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتے ، انھوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں، عدالت تقریر کا سیاق وسباق کے ساتھ جائزہ لے۔

    عمران خان نے جواب میں توہین عدالت کا شو کاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔

    یاد رہے پیمرا نے عمران خان کی 20 اگست کو ایف نائن پارک میں تقریر کی ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرپٹ جمع کرایا تھا۔

    خیال رہے عدالت نے توہین عدالت کیس میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

    واضح رہے عمران خان نے تقریر میں کہا تھا” اور مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں” آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے آپ سب کو شرم آنی چاہئے”۔

  • توہین عدالت کیس:عمران خان کی ایف 9 پارک میں تقریر کا ریکارڈ  عدالت  میں جمع

    توہین عدالت کیس:عمران خان کی ایف 9 پارک میں تقریر کا ریکارڈ عدالت میں جمع

    اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں پیمرا نے عمران خان کی ایف 9 پارک میں تقریر کا ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    عمران خان کی ایف 9پارک میں تقریر کا ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا گیا، پیمرا نےعمران خان کی 20 اگست کی تقریر کی ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرپٹ جمع کرائی۔

    پیمرا کے ڈی جی مانیٹرنگ اشفاق احمد جمانی نے عدالتی حکم پر ریکارڈ جمع کرایا ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 23 اگست کو نوٹس جاری کر کے پیمرا سے ریکارڈ طلب کیا تھا۔

    یاد رہے 23 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کو 31 اگست کو ذاتی حیثیت طلب کر لیا تھا

    عدالت نے توہین عدالت کیس کیلئے تین سے زائد ججز پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دینے کا بھی فیصلہ دیا تھا۔