Tag: توہین عدالت کیس

  • ایڈیشنل سیشن جج کیخلاف بیان : عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہوگی

    ایڈیشنل سیشن جج کیخلاف بیان : عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کیخلاف بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بینچ عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف بیان پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہوگی۔

    عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی کاز لسٹ بھی جاری کر دی ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بینچ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں آج دوپہر عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرے گا۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار بنچ میں شامل ہیں۔

    یاد رہےگزشتہ روز عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ ہائیکورٹ کے تمام ججز کی مشاورت سے ہوا تھا۔

    جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

    صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بارعدلیہ کی تضحیک کی اجازت کسی کو نہیں دے گی، ہائیکورٹ کی جانب سےتوہین عدالت کیس پرلارجربینچ کی حمایت کرتےہیں۔

    احسن بھون کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے جس طرح خاتون جج کوللکاراوہ پوری عدلیہ کی تضحیک ہے ، سپریم کورٹ بار اور تمام وکلابرادری عدلیہ کےوقارپرآنچ نہیں آنے دے گی ، عدالتی نظام کو کمزور کرنے کی سازش پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔

  • توہین عدالت کیس: عدالت نے  رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دے دیا

    توہین عدالت کیس: عدالت نے رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دے دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتوں کا وقت دے دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ودیگر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، سابق چیف جج جی بی رانا شمیم،انصارعباسی ،عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے، رانا شمیم پر فرد جرم عائد کئےجانے کے بعد آج پہلی سماعت تھی۔

    چیف جسٹس نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ رانا صاحب آپ نے اپنا بیان حلفی دائر کر دیا ہے؟ رانا شمیم نے بتایا کہ میں نے اپنے وکیل کو جواب دیا ہوا ہے لیکن وہ بیمار ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے ایک بیان حلفی میں الزامات لگائے تو رانا شمیم نے کہا کہ میں نے بیان حلفی میں خود کچھ الزام نہیں لگایا، نہ ہی بیان حلفی کسی کو دیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ نے بیان حلفی لیک ہونے پر کوئی کارروائی نہیں کی، رانا شمیم نے بتایا کہ یہ تو جنہوں نے بیان حلفی شائع کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے بیان حلفی کیسے حاصل کیا؟

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ میرے وکیل آئیں گے تو آپ ان سے پوچھ لیجئے گا، انہوں نے ابھی تک جواب کو حتمی شکل نہیں دی، میرے وکیل دو ہفتے کے بیڈ ریسٹ پر ہیں، مجھے 3 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر آپ اپنا وکیل تبدیل کر لیں تو رانا شمیم نے کہا کہ اگر میرے وکیل دو ہفتے میں ریکور نہیں ہوتے تو میں وکیل تبدیل کر لوں گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ اس کیس میں اب کیسے آگے بڑھیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب وکیل کے دستخط سے انٹراکورٹ اپیل دائر ہو سکتی ہے تو جواب کیوں نہیں؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ پاکستان کے دو لینڈنگ اخبارات نے آپ کا بیان حلفی شائع کیا، آپ نے انہیں کوئی نوٹس بھجوایا؟ جس پر رانا شمیم نے کہا کہ نوٹس بھی جاری کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے رانا شمیم کو جواب جمع کرانے کیلئے 3 ہفتے اور آخری موقع دیتے ہوئے کیس کہ مزید سماعت 4 اپریل تک ملتوی کر دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد :  اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کردی جبکہ میرشکیل،انصارعباسی اور عامرغوری پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، صحافی انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا رانا شمیم روسٹرم پر آجائیں ان پر فرد جرم عائد کرتے ہیں، عدالت ایک حکم جاری کرچکی ہے، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے میرے وکیل کو پہنچنے دیں۔

    جس کے بعد عدالت نے رانا شمیم کے وکیل کی عدم موجودگی پر سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا رانا شمیم، میر شکیل ، عامر غوری اور انصار عباسی پر 11 بجے فرد جرم عائد کیا جائے گی۔

    وقفے کے بعد رانا شمیم، انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کے معاون وکیل نےمزید وقت مانگ لیا، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کا احترام کیا جائے۔

    صحافی افضل بٹ نے کہا عدالت موقع دےمعلوم نہیں تھا زیرالتواکیسز کیسے رپورٹ کریں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ،ایک آرٹیکل سے عدالت کو بدنام کیا گیا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ اس عدالت کے ساتھ کسی کوکوئی مسئلہ ہے؟ اس عدالت کوہی دیکھ کر نریٹوبنایاگیاہے، آئینی عدالت کیساتھ بہت مذاق ہوگیا۔

    صدرہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے صحافیوں کی حد تک تحمل کی استدعا کرتے ہوئے کہا جس پوائنٹ پرہمارافوکس ہونا چاہیے بدقسمتی سے نہیں کر سکے ، ہماری میٹنگز جاری ہیں،موقع دیں ہم معاملے پراحتیاط کریں گے ، ہم نے کئی بار سمجھایا مگر ان کو لگا کہ انہوں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کا اعتماد بھی بحال کرنا ہے، زیر التوا کیسز کو کیسے میڈیا میں چلایا گیا، کسی کولائسنس نہیں دے سکتا کہ غلط خبرچلائے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ لائسنس نہیں دےسکتےکہ کوئی سائل عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کواحساس نہیں زیر سماعت کیس پراثراندازکی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جولائی2018سےلیکرآج تک وہ آرڈرہواجس پریہ بیانیہ فٹ آتاہو؟ ایک اخبار کےآرٹیکل کاتعلق ثاقب نثار نہیں ہائیکورٹ کیساتھ ہے، لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس 2 دن بعد سماعت کیلئے فکس تھا جب اسٹوری شائع کی گئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیدی صاحب آپ نے کوڑے کھائیں ہیں، کوڑے کھانے کا کیا ذائقہ ہے ، ہمارا قصور ہے ہم نے سبجوڈس رولز کی پرواہ نہیں کی ، کل کوئی تھرڈ پارٹی بیان حلفی دے گی اورآپ چھاپ دیں گے، یہ کہیں ہم صرف میسنجرہیں، تحقیق ہمارا کام نہیں توزیادتی ہے۔

    جس پر ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بارآزاد عدلیہ کےسامنےپیش ہورہےہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہوتےرہےمگراس باربہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے میر شکیل، انصار عباسی،عامرغوری پر فرد جرم مؤخر کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا یہ ایک عدالتی معاملہ ہے ، فردجرم عائد کرنا بھی آئینی تقاضا ہے، میرا کسی سےغرض نہیں بلکہ صرف اسی عدالت سے ہے، 2 دن بعد کیس فکس ہے، تھرڈ پارٹی کی بیان حلفی اخبارمیں چھاپ گئی۔

    اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بالکل صحیح کہاکہ فوکس اس عدالت پرہی تھا ، آج پہلی بار میڈیا کی جانب سےدبےلفظوں میں ندامت ہے، رانا شمیم کوفیئرٹرائل کاپوراحق ہےمگرانہوں نےجوکہاوہ مان رہے ہیں ،صحافیوں کی حد تک اس کیس میں چارج فریم کو ختم کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ کبھی کبھی زندگی میں ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہوتے ہیں، عدالتیں نہیں تو سب کو گھرجانا چاہیے کیونکہ پھرجنگل میں رہ رہے ہونگے، رانا شمیم پر چارج فریم کیا جائے لیکن صحافیوں کی حد تک تحمل کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں یہاں اتنا نہیں لڑتاجتنااپنی حکومت میں لڑتاہوں، یہاں پرصحافیوں کی ایسوسی ایشن کےنمائندے موجود ہیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ سب توٹھیک ہےمگر زیدی صاحب نےنہیں بتایا کوڑاکیسے لگتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا میں اپنے والد محترم سے پوچھ لوں گا، میری والدہ نےبھی جیل کاٹی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ہے جو بار بار ہائی کورٹ کیخلاف توہین عدالت کر رہا ہے، باقی اخبارات میں اس طرح کی خبریں نہیں ہیں، صرف جنگ اور دی نیوز اس طرح کی خبریں دے رہا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پرفرد جرم عائد کر دی ، عدالت نے راناشمیم کیخلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی، راناشمیم کے بیان حلفی کو فرد جرم کا حصہ بنا دیا۔

    فردجرم میں کہا گیا کہ راناشمیم نے انگلینڈمیں ایک بیان حلفی ریکارڈ کرایا،آپ نے کہا سابق چیف جسٹس چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے تھے، آپ کے بیان حلفی کے مطابق جسٹس عامرفاروق کوثاقب نثارنےفون کیا۔

    سابق چیف جج رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا جو ثاقب نثار نے کہا میں نے بیان حلفی میں لکھا۔

    اسلام آبادہائیکورٹ نے رانا شمیم کی 2متفرق درخواستیں خارج کر دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی میرشکیل ،انصار عباسی ،عامرغوری پرچارج فریم نہیں کر رہے، انصارعباسی،میرشکیل،عامرغوری مجرم ہوئےتوفرد جرم عائدہوگی۔

    عدالت نے میر شکیل، انصارعباسی اورعامرغوری پرفردجرم مشروط طور پرمؤخر کردی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمے میں کہا کیا آپ نےچارج سنا اور اس کوقبول کرتےہیں ، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں ماننےوالی ہیں اور کچھ نہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کرتےہیں؟ رانا شمیم نے جواب دیا کہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ پرفرد جرم عائد کر دی گئی ہے کاپی دے دی جائے گی۔

    رانا شمیم نے سوال کیا کہ صرف میرے خلاف چارج فریم ہوا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا ابھی باقی دیکھتے ہیں، تحریری جواب دیں اوراپنا بیان حلفی جمع کرائیں۔

    راناشمیم کا کہنا تھا کہ عدالت نےسوچ لیا ہےتومجھےپھرآج ہی سزاسنا دیں، میرے ساتھ اس طرح زیادتی نہیں ہونی چاہیے، میں ہر ہفتے کراچی سے آتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو آنا پڑے گا آپ پرفرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

    راناشمیم نے عدالت سے مکالمے میں کہا چارج فریم صرف میرےخلاف ہوا؟ جس پر عدالت نے کہا ابھی آپ کے خلاف چارج فریم ہوا۔

    عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو کیس سےالگ کرنےکی درخواستیں مسترد کردیں ، رانا شمیم نے کہا جو کرنا ہےکریں میں اکیلا ہوں، مارچ میں ایک تاریخ دیں ، میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں شاید ہی کوئی اورکرتا ہوں، میں بہت ڈسٹرب ہوں، 20 یا 25 فروری تک کی تاریخ دیں۔

    اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے 15 فروری تک کی تاریخ دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے سابق چیف جج رانا شمیم نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اوران کی بیٹی کو سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزپر دباؤ ڈالا تھا۔

  • توہین عدالت کیس :  رانا شمیم، میرشکیل، انصارعباسی اور عامرغوری پر فرد جرم کی کارروائی موخر

    توہین عدالت کیس : رانا شمیم، میرشکیل، انصارعباسی اور عامرغوری پر فرد جرم کی کارروائی موخر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری پر فرد جرم کی کارروائی بیس جنوری تک موخر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، صحافی انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالدجاویدخان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنیازاللہ نیازی ، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ میرشکیل الرحمان پیش نہ ہوئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاانصارعباسی عدالت میں موجود ہیں، آپ نے جواب میں لکھا مجھے بیان حلفی کےسچ یا جھوٹ کا نہیں معلوم تھا، بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم زیر سماعت کیسز پر نہیں بول سکتے، اس وقت بینچ میں ایک جج شامل نہیں تھا اس کوشامل کیاگیا، مجھے ہر دفعہ لندن کی عدالت کی مثال دینا پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا میرشکیل الرحمان کیوں عدالت میں موجودنہیں، عدالت نے میرشکیل الرحمان کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا ، جس پر انصارعباسی نے بتایا میرشکیل الرحمان اوراس کی بیگم کوکورونا وائرس ہوگیا ہے۔

    چیف جسٹس نے انصارعباسی سے مکالمے میں کہا آپ نے عدالتی سوال کاجواب دیناہے، جس پر انصارعباسی کا کہنا تھا کہ عدالت کےسوالوں کا جواب رانا شمیم نےدیناہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ انصارعباسی نے زیرالتواکیسز کے بارےمیں اخبارمیں لکھا، جس پر انصارعباسی نے جواب دیا کہ زیر التوا کیس کوئی نہیں تھا تو چیف جسٹس نے کہا آپ کااپناکیس زیر سماعت ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایک بارپھرمیرشکیل الرحمان کی اخبار نے توہین عدالت کی، انصارعباسی کو بہت سمجھانےکی کوشش کی، جس پر انصار عباسی کا کہنا تھا کہ عدالت پہلے سن لے تو چیف جسٹس نے کہا فرد جرم عائد کرنے کے بعد سن لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ انصارعباسی آپ بار بار کہہ رہے ہیں مجھے سچ جھوٹ نہیں معلوم تھا، یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی عدالت دباؤ میں آسکتی ہے، اس عدالت کو آزادی صحافت کا زیادہ احساس ہے، آپ کہہ رہے ہیں رانا شمیم نے جو حلفیہ بیان دیا جو جھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا انصارعباسی آپ نے پھر بھی یہ خبرچھاپ دی، جس پر انصارعباسی کا کہنا تھا کہ زیر التوا کیسز پر بات نہیں کی، ظفرعباس نے ٹوئٹ کیا اگربیان حلفی میرے پاس ہوتا تو چھاپ لیتا۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے شکر ہے ظفرعباس نے نہیں چھاپہ ورنہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا، جنگ اخبار صحافتی تنظیموں سے متعلق خبریں چھاپ رہا ہے، جنگ اخبارکی خبریں کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔

    چیف جسٹس نے ملزم انصار عباسی سے سوال کیا کہ بیانات دینےوالی عالمی تنظیموں کو آپ نے ہائی کورٹ کا آخری آرڈر بھیجا؟ آپ اب اس عدالت کو عالمی سطح پر بدنام کرنا چاہتے ہیں؟ انصارعباسی کا کہنا ہے جھوٹ بھی ہوا تو بھی اخبار میں چھاپنا ہے۔

    عدالتی معاون نے سابق جج شوکت عزیز کے پنڈی بار سے خطاب کا حوالہ دیا ، جس پر عدالت کا اظہار برہمی کیا۔

    عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا صحافی کا کبھی ایسا خیال نہیں ہوتاکہ توہین عدالت کرے، انصارعباسی تھوڑا انتظار کرتے ،مزید معلومات لیتے، صحافی کی حدتک معاملہ توہین عدالت کا نہیں، صحافی کی حد تک کہوں گا رانا شمیم کی حد تک نہیں۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا لطیف آفریدی آپ کوغصے سے دیکھ رہے ہیں، عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہوسکے کہ توہین عدالت ہوئی، انصار عباسی سے درخواست ہے یہ اپنے مؤقف سے ہٹ جائیں، ہم سب آپ سے سیکھ رہےہیں۔

    انصار عباسی نے عدالت سے چارج فریم نہ کرنے کی استدعا کردی ، جس پر عدالت نے کہا چارج فریم ہوگا تو ہی عدالت آپ کوسنے گی۔

    دوران سماعت ناصر زیدی کا کہنا تھا کلہ صحافیوں کےہرمشکل وقت میں آپ نےہی ہمیں انصاف دیا، آپ نے ہی کہا کہ غلطی انجانے میں ہوسکتی ہے، چارج فریم نہ کریں کوئی درمیانی راستہ نکال دیں، جس پر عدالت نے کہا کچھ عالمی ادارے اس عدالت پراظہاررائے پر پابندی کا الزام لگا رہے ہیں۔

    عدالت نے انصارعباسی سے استفسار کیا کہ عدالت کا آخری فیصلہ کسی عالمی ادارےکوبھیجا؟ جس پر انصار عباسی نے بتایا جس ادارے نے کہا اس نے عدالتی حکم کا نہیں اٹارنی جنرل کا نمبر مانگا تھا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق چیف جج رانا شمیم، صحافی انصارعباسی و دیگر کیخلاف فرد جرم کی کارروائی آئندہ سماعت تک مؤخر کر دی۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمان اس وقت عدالت میں نہیں ہے، میرشکیل الرحمان اور باقی تمام کی موجودگی میں فردجرم عائد ہوگی۔

    عدالت نے سماعت کے دوران میر شکیل کی آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک پر حاضری کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 20 جنوری تک کے لئے ملتوی کر دی۔

  • ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے فریقین کو 30 نومبر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

    شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ عدالت آرڈیننس 2003 سیکشن 5 کے تحت مجرمانہ توہین کے ارتکاب پر سزا دے سکتی ہے۔

    عدالتی شوکاز میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف کے طور پر اہم عہدے پر فائز ہیں، 15 نومبر کو دی نیوز پر انصار عباسی کی طرف سے خبر شائع، رپورٹ کی گئی، جس کا عنوان تھا ثاقب نثار نے 2018 الیکشن سے قبل نواز، مریم کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کے مبینہ بیان حلفی کا مواد خبر میں شائع کیا گیا، مبینہ حلف نامے، خبر کی رپورٹ میں بے بنیاد، توہین آمیز الزامات لگائے گئے، اس خبر کی رپورٹ کا مواد عدالت کے ساتھ بدسلوکی کے مترادف ہے، عدالت کی طرف سے کی گئی کارروائیوں پر جھوٹا الزام لگانا جرم ہے۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ مواد کا مقصد عدالت کے سامنے زیر سماعت اپیلوں میں مداخلت معلوم ہوتا ہے، مریم نواز کی اپیلوں پر انصاف کے راستے کو موڑنے کی کوشش کی ہے، خبر لکھنے والے اور میرشکیل الرحمان نے حقائق کی تصدیق کی کوشش نہیں کی،اور ان لوگوں کا ورژن طلب کر کے پیش کیا گیا جن کے خلاف سنگین بد دیانتی کے الزامات تھے، اور اس عدالت کے رجسٹرار یا آزاد ذرائع سے تصدیق سے پہلے ہی رپورٹ کی اشاعت کی گئی۔

    شوکاز کے مطابق تصدیق کیے بغیر خبر کی اشاعت نہ صرف ادارتی بلکہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، تصدیق کے بغیر خبر کی اشاعت شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی پامالی ہوتی ہے، منصفانہ مقدمے کی سماعت کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے تعصب کا نشانہ بنایا گیا، ایسی خبریں شائع کرنا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ ایسی خبر عدالت اور ججز پر عوام کے اعتماد کو بغیر کسی خوف ختم کر دیتی ہے، اس قسم کی خبریں شہریوں کے حقوق اور آزادی کو مجروح کرتی ہے۔

    شوکاز کے مطابق اس خبر کی رپورٹ اور مذکورہ بالا کارروائیوں کو آرٹیکل 204 کے ساتھ پڑھا گیا، توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت قابل سزا مجرمانہ توہین کے مرتکب ہوئے، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری 7 دن کے اندر تحریری جواب جمع کرائیں، سابق چیف جج جی بی بھی 7 دن کے اندر تحریری جواب ہائیکورٹ میں جمع کرائیں۔

  • توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد

    توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد کردی، عدالت نے طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے  پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی سزا کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی، جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس سجاد علی اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے۔

    سپریم کورٹ نےتوہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی درخواست مسترد کردی۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی اور پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا گیا جبکہ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : طلال چوہدری کی سزا کے خلاف نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر

    سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے عدالت میں 2 گھنٹے 5 منٹ قید کی سزا کاٹی تھی ، بعد ازاں طلال چوہدری نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں اسے کالعدم قرار دیا جائے، شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا۔ استغاثہ کے مؤقف کو اہمیت دی گئی لیکن دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔

    درخواست میں مزید کہا تھا کہ استغاثہ کے خلاف مواد کے باوجود درخواست گزار کو شک کا فائدہ نہیں دیا گیا، الزام ثابت کیے بغیر سزا دی گئی۔ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بے قاعدگیاں اور خلاف قانون پہلو موجود ہے۔

  • توہین عدالت کیس میں  غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    توہین عدالت کیس میں غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا غلام سرورکہاں ہیں؟ جس پر وکیل غلام سرور نے بتایا غلام سرورعدالتی حکم پرساڑھے10بجےتک پہنچیں گے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا فردوس عاشق اعوان کے کیس کو بھی ساتھ سنیں گے۔

    جس کے بعد فردوس عاشق اعوان اور غلام سرورخان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے توہین عدالت کا فیصلہ سناتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، فردوس عاشق اعوان نے بھی معافی نامہ تحریری طورپر لکھ کر دیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا آپ دونوں اہم عہدوں پرہیں، آپ لوگوں کی باتوں سےلوگوں کاعدلیہ پراعتماداٹھ جاتا ہے، سیاسی لوگوں کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد خراب ہو جاتا ہے، غلام سرور خان نے کہا میرا بیان سیاسی تھا، اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا اچھا نہیں لگتا، ہماری ذات پر کچھ بھی کہیں ،کوئی مسئلہ نہیں، سیاسی بیان بازی سےلوگوں کے اعتماد کو کنورٹ نہ کریں ، آپ کی بیان بازی بالکل توہین عدالت ہے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا غلام سروراور فردوس عاشق کیخلاف عدالتی نوٹس واپس لیتےہیں، فیصلہ خلاف آنے پرعدالتوں پر تنقید شروع ہوجاتی ہے ، وزیراعظم نے وزرا کی پریس کانفرنس کا نوٹس لیا، وفاقی وزیر غلام سرور نے کہا میں عدالت کا شکر گزار ہوں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا لپ شکر گزار ہونے کی ضرورت نہیں، عدالتیں آئین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں۔

    یاد رہے 14 نومبر کو توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی، جس پر عدالت نے غلام سرور کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور آئندہ سماعت پرفردوس عاشق اعوان، غلام سرور ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    دوران سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا میڈیکل بورڈکی بنیادپرنوازشریف کوضمانت دی گئی، آپ کوابھی تک احساس نہیں کہ آپ نے کیا کہا تو غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر شک کا اظہارکیاتھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کی حکومت ہے آپ شک کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو وزیر اعظم پر بھی شک ہے، آپ منتخب حکومت کے وزیر ہیں، آپ شک پیدا کررہے ہیں۔

    یاد رہے اس سے قبل سماعت میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ڈیل سے متعلق بیان پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرلیا تھا، اور کہا تھا کہ فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست احکامات کے ساتھ نمٹادی، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم عدولی پر درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

    وکیل نے بتایا عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل در آمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناعہ جاری کیا تھا ، جس پر جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا ایکسل لوڈ کے معاملے پر قانون پر عمل کیا جائے، جس کے بعد عدالت نے احکامات کے ساتھ درخواستیں نمٹادیں۔

    فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی ، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل درآمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا، فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹ میں کہاکہ وزیراعظم نے ایم نائن موٹروے پر ایکسل لوڈ پر عمل درآمد روک دیا، ان کی ٹویٹ عدالتی حکم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت کی حکم عدولی کرنے پر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

    مزید پڑھیں : فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا،عدالت

    یاد رہے اس سے قبل بھی توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرایا تھا ، جس میں پھر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے، نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

    جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ان کے خلاف کیس وفاقی وزیر غلام سرور کیس کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔

    خیال رہے  اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی ، جس پر عدالت نے غلام سرور کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی، معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان  عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان سے استفسار کیا آپ کے حلقےمیں کتنے ووٹرز ہیں، جس پر غلام سرور نے بتایا 2لاکھ سے زائد ووٹر ہیں۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا میڈیکل بورڈکی بنیادپرنوازشریف کوضمانت دی گئی، آپ کوابھی تک احساس نہیں کہ آپ نے کیا کہا تو غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر شک کا اظہارکیاتھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کی حکومت ہے آپ شک کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو وزیر اعظم پر بھی شک ہے، آپ منتخب حکومت کے وزیر ہیں، آپ شک پیدا کررہے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ دلائل نہ دیں، شوکاز نوٹس جاری کررہے ہیں، تحریری جواب دیں، چیف جسٹس نے غلام سرور سے مکالمے کے دوران بولنے پر وکیل کو چپ کرادیا اور کہا آپ معافی مانگتے ہیں یا کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، آپ نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

    وفاقی وزیرغلام سرورخان نے کہا میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ،جس پر عدالت نےغلام سرورکی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 25 نومبر تک ملتوی کر دی اور کہا آئندہ سماعت پرفردوس عاشق اعوان، غلام سرور ذاتی طورپرپیش ہوں۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ عدالتی حکم پرتوہین عدالت کیس میں پیش ہوں گی، عدالتوں کا احترام کرتی ہوں، عدالت سے تحریری طورپر معافی مانگی ہے ، میں نے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس میں وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا تھا اور کہا تھا کہ فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

    مزید پڑھیں :ڈیل سے متعلق بیان ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور کو طلب کرلیا

    بعد ازاں ڈیل سے متعلق بیان دینے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرتے ہوئے 4صفحات پرمشتمل حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا غلام سرور نے میڈیکل رپورٹ کی جوڑ توڑ کے حوالے سے گفتگوکی اور تاثر دیا جعلی رپورٹ پیش کرکے عدالت کو گمراہ کیا گیا، وزرا کے بیانات عدالتوں پر اثر انداز اور اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے، رکن کابینہ نے عدالت پر الزام لگایا ہے، وزرا کا مبینہ ڈیل کا تاثر دینا خود حکومت کے لیے فرد جرم ہے۔

    خیال رہے توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو  نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آبادہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس کردیا اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف کیس وفاقی وزیر کے کیس کے ساتھ منسلک کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئیں ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی۔

    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

    وکیل شائستہ تبسم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو ٹی وی شو میں ڈیل کے تحت نوازشریف، مریم کی رہائی کاذکرہوا، وفاقی وزیر نےحکومت اور ن لیگ ڈیل میں دیگراداروں کا ذکر کیا، جس پر عدالت نے کہا اگر ڈیل ہوئی ہےتو حکومت کو فیصلہ کرنے دیں۔

    جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کوئی وفاقی وزیر اس طرح کے بیان نہیں دے سکتا،عدالت پیمرا سے ٹرانسکرپٹ منگوا لے، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا یہ حساس معاملہ ہے، کابینہ کے رکن اس طرح بیان دے؟سمجھ نہیں آتا۔

    جہانگیرجدون ایڈووکیٹ نے کہا وفاقی وزیر نے میڈیکل بورڈ کے رپورٹ پر تنقید کی ، جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر اس طرح تنقید کرتے رہتے ہیں، میڈیکل بورڈ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا زیر سماعت کیسز پر کوئی بحث نہیں کر سکتا، تو فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج ہی وزیر اعظم کو متعلقہ ویڈیو کلپ سنا دوں گی، چیف جسٹس ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ حکومت کا ہے اور حکومت تنقید کرے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا، جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا آپ میرےکیس کوالگ سنیں ،مجھے چوہدری سرور سے کیا لینا دینا۔

    بعد ازاں عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت چودہ نومبرتک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے عدالت نےتوہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کوطلب کررکھا ہے ، فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم پرہفتے کو تحریری معافی نامہ جمع کرایا تھا، عدالت ان کے معافی نامے کا جائزہ لے گی۔

    یاد رہے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب میں ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادیا

    معاون خصوصی برائے اطلاعات کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، مقدمے پر اثر انداز ہونے کا تاثر ملا ہے تو اس پر بھی معافی مانگتی ہوں، عدالت یا مقدمے پر اثر انداز ہونے کی نیت نہیں تھی۔

    گذشتہ سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا، جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔