Tag: توہین عدالت کیس

  • توہین عدالت کیس : فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک  جواب داخل کرانے کا حکم

    توہین عدالت کیس : فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب داخل کرانے کا حکم

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دے دیا ، فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

    فردوس عاشق اعوان دوسری بار وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا دہشت گرد ہو تو اس کو بھی فیئر ٹرائل کی ضرورت ہے، آج پی ٹی آئی دھرنے کیخلاف بھی کیس زیرسماعت ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیر سماعت کیسز پر عدالت کو اسکینڈ لائز کرنا توہین عدالت ہے، دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی ہے کوئی پرواہ نہیں، 2014 کے دھرنے میں بھی ہمیں اسکینڈلائز کیا گیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیاآپ 2014 کے دھرنے میں موجودتھیں؟ جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا 2014 دھرنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عارف علوی، شاہ محمود، اسد عمر سمیت کئی رہنماؤں کو گرفتاری سے روکا تھا۔

    چیف جسٹس نے فردوس عاشق اعوان سےاستفسار کیا کیا آپ نےجواب جمع کرایا؟ ہفتےتک جواب جمع کرائیں، میرے ساتھ گاڑی میں سپریم کورٹ جج کی تصویروائرل ہوئی، سپریم کورٹ جج کو صدر ن لیگ لائر بنا کر وائرل کی گئی۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا میں ایک بار پھر عدالت سےغیرمشروط معافی چاہتی ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا حکومت کے اپنے وزیر کہتے ہیں کہ ڈیل ہوگئی ہے، ڈیل اگر ہونی ہے تو حکومت کرےگی عدلیہ نہیں تو معاون خصوصی نے کہا میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا آپ نہیں، آپ کے دیگر وزرا کہتے ہیں، فردوس عاشق اعوان کے وکیل کا حاضری سےاستثنیٰ کی استدعا کی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا فردوس عاشق اعوان کے آنے کے اور بھی بہت فائدے ہیں۔

    بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج بھی غیرمشروط طور پر معافی مانگتی ہوں، جس پر عدالت نے حکم دیا ہفتےتک جواب جمع کرائیں، توہین عدالت کیس کی پیر کے روز دوبارہ سماعت کی جائے گی۔

    اس سے قبل فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا اور اسلام آبادہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں کہا گیا تھا جواب دینے کیلئے عدالت مجھے وقت دے، عدالت سے متفرق درخواست کوآج سننے کی استدعا بھی کی، درخواست رجسٹرارآفس نے وصول کرنے کے بعد کارروائی شروع کردی تھی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 5  نومبر کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس ، فردوس عاشق اعوان  کیخلاف دوسرا شوکاز نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس ، فردوس عاشق اعوان کیخلاف دوسرا شوکاز نوٹس جاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کردیا، جس میں انھیں پانچ نومبر کو  پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہےکہ فردوس عاشق اعوان نے نواز شریف کی زیر سماعت اپیل پر تبصرہ کیا گیا، آپ کو اس معاملے میں سزا  کیوں نہ دی جائے؟

    تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کیخلاف دورسرا شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ، عدالتی حکم پر اسسٹنٹ رجسٹرار ہائی کورٹ نے شوکاز نوٹس جاری کیا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا فردوس عاشق اعوان نے 29 اکتوبرکو بیان دیا تھا، انھوں نے زیرسماعت نوازشریف کی اپیل پر تبصرہ کیاتھا، آپ کےبیان سےعوام میں ایک تاثر زیر سماعت کیسزپرگیاہے، کریمنل توہین عدالت کانوٹس جاری کیا جاتا ہے اور نوٹیفکیشن توہین عدالت آرڈیننس2003کےتحت جاری کیا جارہا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان3دن میں جواب کرائیں اور آئندہ ساعت پر فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوں، آپ کواس معاملے میں سزا کیوں نہ دی جائے، عدالتی حکم پر شوکازکی کاپی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو دے دی گئی۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔

    ، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا آپ وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ جوکہیں گی وہ مطلب رکھتاہے، الیکٹڈ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ہیں، میری ذات پرجو کچھ کہا جائے میں جواب نہیں دوں گا، آپ نے زیر سماعت کیس پر تبصرہ کیا ہے۔

    عدالت نے کہا تھا کہ فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی۔

  • توہین عدالت کیس  ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان  کی معافی قبول کرلی

    توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، کیس کی سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کی۔

    عدالتی حکم پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا آپ وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ جوکہیں گی وہ  مطلب رکھتاہے، الیکٹڈ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ہیں، میری ذات پرجو کچھ کہا جائے میں جواب نہیں دوں گا، آپ نے زیر سماعت کیس پر تبصرہ کیا ہے۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا جی میں کچھ کہناچاہتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کچھ نہیں کہیں، آپ نے کہا کاش کسی چھوٹے  لوگوں کو انصاف ملتا، آپ سیاست سے عدالت کودور رکھیں۔

    عدالت نے ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے رول پڑھنے کا کہہ دیا اور جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ضلعی عدالتوں نےدکانوں میں کورٹ بنارکھے ہیں، ہائی کورٹ میں صرف 4 ججز ہیں اور ڈسپوزل دیکھ لیں، سول ججز بہادر ہیں ان کے پاس واش روم تک کی سہولت نہیں، سول ججز پھر بھی کام کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف پریس کانفرنس ، فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم انصاف کرتے ہیں، کوئی وکیل گھر آئے توبھی ان کو سن لیتا ہوں، جس پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا مجھے بولنے دیں تو جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ خاموش  رہیں، آپ پالیمنٹ کی ترجمان ہیں۔

    ڈاکٹر  فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آپ نے تفصیل سےمجھےبتادیا، آپ کوذاتی طور پر جانتی ہوں، عدالتی نظام سے زیادہ واقفیت نہیں ، میں غیر مشروط  مانگتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کوئی ڈیل کی خبر چلاتا ہے۔

    عدالت نے  فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی، ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان دو معاملے پرشوکاز نوٹس جاری کیا تھا ، عدالت کو بد نام اورعدالت پر حاوی ہونے پر2نوٹس جاری ہوئے تھے۔

    عدالت نے کہا فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی اور کریمنل پراسیڈنگ سے متعلق فردوس عاشق اعوان کو نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو کہنا ہے عدالت میں تحریری طور پر جواب جمع کرائیں اور کیس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی کردی۔

    جس پر ڈاکٹرفردوس عاشق نے کہا 5نومبرکو کابینہ کا اجلاس ہے، تاریخ آگے کرلیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں اب کریمنل پراسیس ہوچکا، تاریخ آگے  نہیں جاسکتی، میں چاہتا ہوں ایک اجلاس ہائی کورٹ کے حوالے سے کریں، عدالتوں کے معاملات بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔

    عدالت نے حکم دیا آئندہ سماعت سے پہلے آپ کو ڈسٹرکٹ کورٹ کا دورہ کرنا ہے ، سماعت سے پہلے کریمنل کارروائی اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے دورے کا جواب دیں۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ عدالت سےغیرمشروط معافی  مانگنے کافیصلہ کیاہے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور یکم نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کے نوٹس کے بعد قانونی مشورے کیلئےعلی بخاری کی خدمات حاصل کرلیں تھیں۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےشیخ رشیدکےخلاف توہین عدالت کیس میں کمشنر اورڈپٹی کمشنرراولپنڈی کوکل طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیئے ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا،ایک فیتہ کاٹنا تھا، جس کیلئےدیواریں گرادی گئیں،درخت کاٹ دیئےگئے، کیا پنجاب حکومت قبضہ گروپ بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

    دور ان سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پنجاب حکومت کیا قبضہ گروپ بن گئی ہے؟حکمنامہ تھا کہ کوئی قبضہ نہیں کرےگا، وہاں دیواریں گرا دی گئیں اور درخت کاٹ دئیے گئے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ 24 گھنٹے میں اس حوالے سے ہدایات لیں، ہمیں دو حکم امتناع دینے کی ضرورت نہیں،اس حکمنامے پر عمل یقینی بنائیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیوار گرنے سے گرلز گائیڈ کی عمارت عیاں ہوگئی ہے،گرلز گائیڈ کی عمارت میں بچیاں ہیں اور ان کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہمارے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،ہمارے حفاظت کیلئے پھر کسی اور کو کہنا پڑےگا، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا امید ہے بات یہاں تک نہیں پہنچے گی۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائےگی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ جو بھی نقصان ہوا آج سے اس کی مرمت شروع کرا دیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا اس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے،وہاں اور کچھ بھی جاتا ہے ایک فیتہ کاٹنا تھا جس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے۔

    عدالت عظمیٰ نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو (آج) بدھ کو طلب کر لیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب کو 24 گھنٹے میں ہدایات لینے کا حکم دیا ۔بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔

  • توہین عدالت کیس :  ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کیخلاف   فیصلہ محفوظ

    توہین عدالت کیس : ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کیخلاف فیصلہ محفوظ

    لاہور : توہین عدالت کیس میں اے جی پنجاب کیخلاف لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جےآئی ٹی کیس سے متعلق سماعت19اپریل تک ملتوی کردی، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہورہائی کورٹ میں پیش ہوکر بتایا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نےاستعفیٰ دے دیاہے۔

    تفصیلات کےمطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس محمدقاسم خان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمداویس کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون اور چیف سیکرٹری پنجاب کو 3 بجے طلب کرلیا اور رجسٹرارلاہورہائیکورٹ کو عدالتی حکم  پر عملدرآمدکرانے کاحکم دیا۔

    جسٹس قاسم خان نے ریمارکس میں کہا توہین عدالت کامعاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا، جس پر حامد خان نے کہا اگرکسی کی آواز قدرتی اونچی ہوتو ججز نظر انداز کر دیتے ہیں، تو جسٹس قاسم خان کا کہنا تھا اگرکوئی گالیاں نکالناشروع کردےتوپھرکیاکیاجائے۔

    حامدخان نے کہا ایسےشخص کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے، عدالت کی عزت واحترام کونظرانداز نہیں کرناچاہیے، ہماری گزارش ہے جناب  اس معاملےکودرگزرکیاجائے، عدالت کی مہربانی کرنے سے عدالت کے وقارمیں اضافہ ہوتاہے۔

    احمداویس کا کہنا تھا عدالت کی توہین کرناقطعی مقصدنہیں تھا۔

    عدالتی حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارلاہورہائی عدالت میں پیش ہوئے ، وزیرقانون پنجاب،چیف سیکریٹری اورسیکریٹری قانون بھی ان کے ساتھ ہیں۔

    جسٹس محمدقاسم خان نے وزیراعلیٰ سےاستفسار کیا کیا آپ کوبتایاگیاہےکہ آپ کوکیوں بلایاہے، اے جی پنجاب معز زعہدہ ہے، جس کاسب احترام کرتےہیں، دیکھ لیں یہاں کیاحال ہوگیاہے، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا خود بھی وکیل ہوں اورعدالتوں کااحترام کرتاہوں، میرے والدفوت ہوگئے تھے، آج ہی وہاں سےواپس آیا ہوں۔

    عثمان بزدار نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوبلایاانہوں نےمستعفی ہونےکی پیشکش ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نےاستعفیٰ دےدیاہے ، جس پر عدالت کا کہنا تھا جب کوئی لاافسر بنتاہےتواس کاتعلق سیاسی جماعت سے نہیں رہ جاتا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا آئندہ ایساہرگز نہیں ہوگا، ہم عدلیہ کامکمل احترام کرتےہیں۔

    لاافسران کی تعیناتی میں پہلے چیف جسٹس ہائیکورٹ سےمشاورت ہوتی تھی، اس بارحکومت نےمشاورت نہیں کی، عدالت

    عدالت نے ریمارکس میں کہا لاافسران کی تعیناتی میں پہلے چیف جسٹس ہائیکورٹ سےمشاورت ہوتی تھی، اس بارحکومت نےمشاورت نہیں کی، احمد اویس  ایک بہت قابل وکیل ہیں افسوس ہےاحمد اویس ملزم کی حیثیت سےیہاں موجودہیں، جس طرح کارویہ اپنایاگیاوہ انتہائی قابل افسوس ہے۔

    حسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا عدالتوں میں صرف قانون کی بات ہوگی، کسی کیس میں وکلاکی تعداددیکھ کرفیصلےنہیں ہوتے ، جس پروزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا   ہمارےنئےوکیل عدالت میں پیش ہوں گے، ہمارے نئےوکیل ماڈل ٹاؤن جےآئی ٹی میں پیش ہوں گے۔

    توہین عدالت کیس میں اے جی پنجاب کیخلاف لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور  سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کیس سے متعلق سماعت 19 اپریل تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے عدالت نے ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کیس میں بدتمیزی پرتوہین عدالت نوٹس دیا تھا۔

  • نجی اسکول نے سپریم کورٹ کے فیصلے کوانتہائی نامنصفانہ لکھا تھا‘جسٹس گلزاراحمد

    نجی اسکول نے سپریم کورٹ کے فیصلے کوانتہائی نامنصفانہ لکھا تھا‘جسٹس گلزاراحمد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کواکسا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2 نجی اسکول انتظامیہ سے وضاحت طلب کی تھی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ اسکولوں کے نام اتنے مشکل رکھے کہ زبان پر چڑھتے ہی نہیں ہیں۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ ایک اسکول کا خط تو ہم نے دیکھ لیا، دوسراخط کہاں ہے، اسکول کے سی ای او کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نجی اسکول نے جواب دیا کہ وہ کربلا میں پھنس گئے ہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ اسکول نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو انتہائی نامنصفانہ لکھا تھا، اب آپ عدالتی فیصلے کومنصفانہ اورغیرمنصفانہ قراردیں گے۔

    وکیل نجی اسکول نے کہا کہ ہم معذرت خواہ ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کواکسا رہے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکول کے جواب کے ساتھ اصل خط تک نہیں ہے، بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

    تعلیم کوکاروباربنا لیا ہے اسکول پیسے بنانے کی صنعت نہیں‘ جسٹس گلزاراحمد

    یاد رہے کہ 11 فروری کو سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی اسکول والدین سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کا تصورنہیں کرسکتے۔

  • تعلیم کوکاروباربنا لیا ہے اسکول پیسے بنانے کی صنعت نہیں‘ جسٹس گلزاراحمد

    تعلیم کوکاروباربنا لیا ہے اسکول پیسے بنانے کی صنعت نہیں‘ جسٹس گلزاراحمد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکول والدین سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کا تصورنہیں کرسکتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی اسکول فیس فیصلے کو ڈریکونئین فیصلہ کہا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ والدین کولکھے گئے آپ کے خطوط توہین آمیزہیں، آپ کس قسم کی باتیں لکھتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے اسکولوں کوبند کردیتے ہیں، ہم آپ کے اسکولوں کو نیشنلائیزبھی کرسکتے ہیں، سرکارکوکہہ دیتے ہیں آپ کے اسکولوں کا انتظام سنبھال لے۔

    وکیل نجی اسکول نے کہا کہ ہم عدالت سے معافی کے طلب گارہیں، دوبارہ ایسا نہیں ہوگا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے تحریری معافی نامہ جمع کرا دیں، ہم دیکھ لیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس کالادھن ہے یا سفید ہم آڈٹ کرا لیتے ہیں، تعلیم کوکاروباربنا لیا ہے اسکول پیسے بنانے کی صنعت نہیں ہے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکول والے بچوں کے گھروں میں گھس گئے ہیں، گھروں میں زہر گھول دیا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکول والدین سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کا تصور نہیں کرسکتے، والدین بچوں کو لے کرسیرکرانے کہاں جاتے ہیں، یہ پوچھنے والے پرائیویٹ اسکول والے کون ہوتے ہیں۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نجی اسکولوں کی جانب سے توہین عدالت کیس کی سماعت 2 ہفتے تک ملتوی کردی۔

  • توہینِ عدالت کیس: فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی قبول

    توہینِ عدالت کیس: فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی قبول

    اسلام آباد: عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز انٹرویو کیس میں سپریم کورٹ نے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی قبول کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے کیس ختم کر دیا۔

    [bs-quote quote=”معافی صرف توہینِ عدالت تک محدود ہوگی، دیگر معاملات سے تعلق نہیں ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سپریم کورٹ”][/bs-quote]

    سپریم کورٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ معافی صرف توہینِ عدالت تک محدود ہوگی، اس معافی کا فیصل رضا عابدی کے دیگر معاملات سے تعلق نہیں ہے۔

    جج نے توہینِ عدالت کیس خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہم تنقید سے نہیں گھبراتے، جائز تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں، میڈیا پر اداروں سے متعلق بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔

    واضح رہے کہ دو روز قبل عدالت نے سابق سینیٹر پر فردِ جرم عائد کیا، تاہم فیصل رضا عابدی نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیزانٹرویو کیس: سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی پر فرد جرم عائد


    جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے گواہوں کو طلب کر لیا، دوسری طرف وکیل نے استدعا کی کہ فیصل رضا عابدی کی طبیعت ناساز ہے، اسپتال منتقل کیا جائے، جس پر عدالت نے ان کا دوبارہ طبی معائنہ کرانے کا حکم دیا۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف نازیبا الفاظ بولنے کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کے خلاف 21 ستمبر کو انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

  • توہین عدالت کیس، رکن قومی  اسمبلی عامرلیاقت پر فردِ جرم عائد

    توہین عدالت کیس، رکن قومی اسمبلی عامرلیاقت پر فردِ جرم عائد

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں رکن قومی اسمبلی پی ٹی آئی عامر لیاقت پر فرد جرم عائد کردی گئی، جس کے بعد عامر لیاقت نے عدالت سے ایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں رکن قومی اسمبلی پی ٹی آئی عامر لیاقت پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    وکیل نے کہا عامر لیاقت عدالت سےایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگتے ہیں، انہوں نے پروگرام کیا اس میں توہین عدالت کا کوئی ارادہ نہیں تھا، پروگرام کے کونٹینٹ سے کوئی ایسا تاثر پیدا ہوا ہو تو معافی مانگتے ہیں۔

    جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا آپ نے گزشتہ تاریخ پر بھی معافی مانگی تھی، مؤقف سنا آج کی تاریخ فرد جرم عائد کرنے کے لئے مقررکی تھی، مقدمے کی کارروائی میں مناسب وقت پر معافی پر غور کریں گے۔

    عدالت نے کہا توہین عدالت کی شق 204تھری کے تحت الزام عائدکیا جاتا ہے، کیا آپ الزام قبول کرتے ہے، جس پر عامرلیاقت نے فردجرم کی صحت سے انکار کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کی معافی کی استدعا مسترد کردی تھی اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عامرلیاقت پرفردجرم آج ہی عائد کی جائے گی۔

    بعد ازاں وقت کی کمی کے باعث عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی تھی۔

    یاد رہے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور 27 ستمبر تک فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ کیا ہم یہاں تذلیل کرانے کے لئے بیٹھےہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں توہین عدالت کرکے معافی مانگ لی جائے۔

    چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ کیا فرد جرم عائد ہونے کے بعد عامر لیاقت رکن قومی اسمبلی رہ سکتے ہیں؟ جس پرعامر لیاقت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہ سکتے۔ خیال رہے کہ عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے عامر لیاقت کی معافی مسترد کردی

    واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پرعامر لیاقت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن میں جواب طلب کیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ کیوں نہ عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں کہ پبلک فورم پر کیسے بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہے۔

    اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے خطاب کے کلپس طلب کرلئے تھے اور کہا تھا کہ ہرکوئی خود کو عالم، ڈاکٹر اور فلسفی سمجھتا ہے جبکہ عدم حاضری پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کیوں نہیں آئے یہ توہین عدالت کا کیس ہے، کیوں نہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیں۔

  • عامرلیاقت پر آج فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی

    عامرلیاقت پر آج فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامرلیاقت پرنااہلی کی تلوار لٹکنے لگی،چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ عامرلیاقت پرفردجرم آج ہی عائد کی جائے گی لیکن وقت کی قلت کے باعث فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کی معافی کی استدعا مسترد کردی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا عامرلیاقت پرفردجرم آج ہی عائد کی جائے گی۔

    بعد ازاں وقت کی کمی کے باعث عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور 27 ستمبر تک فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ کیا ہم یہاں تذلیل کرانے کے لئے بیٹھےہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں توہین عدالت کرکے معافی مانگ لی جائے۔

    چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ کیا فرد جرم عائد ہونے کے بعد عامر لیاقت رکن قومی اسمبلی رہ سکتے ہیں؟ جس پر عامر لیاقت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہ سکتے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے عامر لیاقت کی معافی مسترد کردی

    خیال رہے عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔

    واضح رہے چیف جسٹس ثاقب نثار نے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پر عامر لیاقت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن میں جواب طلب کیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ کیوں نہ عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں کہ پبلک فورم پر کیسے بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہے۔

    اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے خطاب کے کلپس طلب کرلئے تھے اور کہا تھا کہ ہرکوئی خود کو عالم، ڈاکٹر اور فلسفی سمجھتا ہے جبکہ عدم حاضری پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کیوں نہیں آئے یہ توہین عدالت کا کیس ہے، کیوں نہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیں۔