Tag: تپ دق

  • ہوشیار! ٹی بی بغیر علامات کے بھی لاحق ہوسکتی ہے

    ہوشیار! ٹی بی بغیر علامات کے بھی لاحق ہوسکتی ہے

    تپ دق یا ٹی بی کا مرض ایک خطرناک مرض ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس مرض کا شکار بعض مریضوں کو خود بھی اس کا علم نہیں ہوتا۔

    تپ دق کو عرف عام میں ٹی بی بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک قسم کا انفیکشن ہے جس کا سبب جراثیم ہوتے ہیں۔

    یہ جراثیم عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں تاہم جسم کے دیگر اعضا بشمول گردے، ریڑھ اور دماغ بھی ٹی بی کے جراثیموں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    ٹی بی کی 2 قسمیں ہوتی ہیں، ایک مخفی یا پوشیدہ تپ دق جو ایک سے دوسرے کو نہیں لگتا، دوسرا اصل تپ دق جو متعدی ہوتا ہے یعنی ایک سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔

    جو شخص مخفی ٹی بی کے انفیکشن میں مبتلا ہوتا ہے اس میں اس مرض کی کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ خود کو بیمار محسوس کرتا ہے تاہم جب اس کی جلد یا خون کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے، اس وقت پتہ چلتا ہے کہ وہ لمفری جراثیم کے انفیکشن میں مبتلا ہے۔

    مخفی ٹی بی میں مبتلا شخص دوسرے لوگوں تک جراثیم پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ پوشیدہ ٹی بی میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں شاذ و نادر بیماری کی علامتیں ابھرتی ہیں کیونکہ ان کے جسم میں جراثیم غیر فعال ہوتے ہیں تاہم مخفی ٹی بی میں مبتلا افراد کا مدافعتی نظام اگر کمزور ہو تو پھر جراثیم فعال ہوجاتے ہیں اور وہ حقیقی ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    مخفی ٹی بی میں مبتلا افراد کا علاج اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ کہیں فعال ٹی بی کے مرض میں مبتلا نہ ہوجائے، تاہم بعض لوگوں میں اس احتیاطی علاج کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اگر کوئی علاج نہ کیا جائے تو مخفی ٹی بی میں مبتلا افراد میں سے صرف 5 سے 10 فیصد مریض ہی اصل بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    تپ دق کا اصل مرض

    پھیپھڑوں کے تپ دق کی اہم ترین علامتوں میں کھانسی کے ساتھ خون تھوکنا اور سینے میں درد شامل ہیں۔

    دیگر علامتوں میں وزن کم ہونا، ات کے وقت پسینے آنا، بخار، کپکپاہٹ (سردی لگنا) تھکاوٹ اور کمزوری کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

    اس مرض میں مبتلا افراد اپنی بیماری کے جراثیم دیگر لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ جلد یا خون کے ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے کہ متعلقہ شخص خاص جراثیم کے انفیکشن میں مبتلا ہے۔

    اس بیماری کے علاج کے سلسلے میں دواؤں کا ایک مجموعہ استعمال کروایا جاتا ہے۔

    یہ دوائیں بلا ناغہ 6 سے 9 ماہ تک استعمال کرنی پڑتی ہیں، جن لوگوں کا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے مثلاً ایچ آئی وی یا ایڈز کے مریض یا ذیابیطس میں مبتلا افراد ان میں ٹی بی سے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ پوری دنیا میں جو لوگ ایچ آئی وی کے انفیکشن میں مبتلا ہیں، ان کی موت کی بنیادی وجہ ٹی بی کی بیماری ہوتی ہے۔

    تپ دق کی ایک اور زیادہ خطرناک صورت بھی کچھ عرصہ پہلے سامنے آچکی ہے جسے MDRTB کہتے ہیں۔ اس میں تپ دق کے جراثیم اس بیماری کے علاج میں استعمال ہونے والی دو اہم ترین اینٹی بائیوٹک دواؤں کے خلاف مزاحمت کرنے لگتے ہیں اور یہ دوائیں ان پر اثر انداز نہیں ہوتی ہیں۔

  • کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کے کم ہونے کے بعد دنیا بھر میں تپ دق کے مرض میں تشویش ناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، گزشتہ برس 1 کروڑ افراد ٹی بی سے متاثر ہوئے۔

    اے پی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ٹی بی (ٹیوبر کلوسس) یا تپ دق کے حوالے سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کرونا کی وبا کو ٹی بی کے بڑھنے کا بڑا سبب قرار دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2019 میں عالمی سطح پر ٹی بی کے کیسز میں نمایاں کمی ہونے لگی تھی اور اس وقت دنیا بھر میں 70 لاکھ لوگ اس سے متاثر تھے مگر 2020 میں یہ کم ہوکر 55 لاکھ تک رہ گئے تھے۔

    تاہم کرونا وائرس کی وبا آنے کے بعد ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا اور 2021 میں دنیا بھر میں اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ اس سے 16 لاکھ اموات بھی ہوئیں۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کرونا کی وبا کے بعد جہاں ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، وہیں پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری کے خلاف طویل جدوجہد بھی ناکام ہوگئی اور سالوں بعد پھر سے ٹی بی ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ٹی بی کے کیسز میں ساڑھے فیصد تک اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسی سال ہونے والی 16 لاکھ میں سے ساڑھے 4 لاکھ اموات وہ تھیں جو خطرناک ٹی بی کے باعث ہوئیں۔

    ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں ساڑھے 4 لاکھ اموات ادویات سے بھی کنٹرول نہ ہونے والی ٹی بی سے ہوئیں۔

    ادارے کے ماہرین نے ٹی بی میں خطرناک اضافے کو جہاں کرونا وائرس سے جوڑا، وہیں دنیا کی معاشی تنگ دستی اور دنیا بھر میں جاری کشیدگیوں کو بھی اس کے بڑھنے کے اسباب قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ٹی بی کے مریض علاج سے پرہیز کرتے رہے، جس سے یہ بیماری خطرناک حد تک پھیل گئی۔

    عالمی ادارہ صحت نے یوکرین پر روسی جنگ کو بھی ٹی بی کے بڑھنے کا ایک سبب قرار دیا اور کہا جنگ سے قبل یوکرین میں ٹی بی تیزی سے پھیل رہا تھا اور وہاں کے لوگ جنگ کے بعد اس کے علاج سے محروم رہ جائیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے ممالک کو ٹی بی سے نمٹنے کے لیے بر وقت انتظامات کرنے اور اس کی ادویات سستی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

  • پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد میں ٹی بی کی تشخیص

    پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد میں ٹی بی کی تشخیص

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق یا ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان میں ہر سال 4 لاکھ سے زائد افراد میں ٹی بی کی تشخیص ہوتی ہے۔

    ٹی بی ایک ایسا مرض ہے جو پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ہوا کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 4 لاکھ 10 ہزار افراد ٹی بی کا شکار ہو جاتے ہیں، صرف 2 سے 3 سال میں یہ تعداد دگنی ہوچکی ہے جو سنہ 2017 میں 2 لاکھ تھی۔

    ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور خواتین سمیت پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے باعث 69 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایک تہائی ٹی بی کے مریضوں میں مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی، یا وہ علاج کی سہولیات سے محروم ہیں۔

    سنہ 2018 میں دنیا کی 23 فیصد آبادی یعنی 1 ارب 70 کروڑ افراد ٹی بی کا شکار ہوئے، یہ مرض ہر سال 15 لاکھ افراد کی جان لے لیتا ہے۔

    بھارت اس مرض کا شکار دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا بھر میں ٹی بی کے 87 فیصد کیسز بھارت میں تشخیص ہوتے ہیں۔

    ٹی بی کیسے لاحق ہوسکتا ہے؟

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غربت، غذائی کمی، گندے گھروں میں رہنا اور صفائی کا انتظام نہ ہونا ٹی بی سمیت بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔

    اسی طرح پہلے سے مختلف امراض جیسے ایڈز یا ذیابیطس کا شکار ہونا، اور طویل عرصے تک تمباکو نوشی اور شراب نوشی کا استعمال بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔

    ٹی بی کی علامات

    اگر آپ اپنے یا کسی اور کے اندر یہ علامات دیکھیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ یہ علامات ممکنہ طور پر ٹی بی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    دو ہفتے سے زیادہ کھانسی یا بخار

    بہت زیادہ تھکاوٹ

    رات کو پسینہ آنا

    بھوک اور وزن کی کمی

    کھانسی میں خون آنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علامات پر فوری توجہ دے کر ابتدائی مرحلے میں مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔

  • کیا بچوں کو لگنے والی یہ عام ویکسین کورونا اموات کو کم کر رہی ہے؟

    کیا بچوں کو لگنے والی یہ عام ویکسین کورونا اموات کو کم کر رہی ہے؟

    طبی محققین نے کہا ہے کہ جن ممالک میں ٹی بی کی بیکٹیریل بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے، ان ممالک میں بچوں کو معمول کے مطابق دی جانے والی ٹی بی ویکسین سے کرونا وائرس سے ہونے والی اموات میں کمی کے سلسلےمیں مدد مل سکتی ہے۔

    یہ طبی تحقیق امریکی سائنسی جریدے پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں جمعرات کو چھپی، جس میں محققین نے لکھا ہے کہ ٹی بی (Tuberculosis) کی ویکسین کو وِڈ 19 سے ہونے والی اموات میں کمی لا سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے دوران ریسرچرز نے کسی ملک میں کرونا وائرس کے خطرے پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا بھی جائزہ لیا، انھوں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ آمدن، تعلیم، صحت کے شعبے اور عمر کے مختلف ممالک میں وبا پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس دوران محققین نے یہ پتا چلایا کہ جن ممالک میں تپ دق (ٹی بی) کے لیے بی سی جی (Bacille Calmette-Guérin) ویکسین کے استعمال کی شرح زیادہ ہے ان ممالک میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح کم ہے۔

    ریسرچرز نے بتایا کہ اس کی ایک اچھی مثال جرمنی تھی، مشرقی اور مغربی جرمنی جب 1990 میں باہم متحد ہو رہی تھیں تو یہاں ویکسینز کے مختلف منصوبے ترتیب دیے گئے تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ مغربی جرمنی میں زیادہ عمر کے افراد میں کرونا سے شرح اموات مشرقی جرمنی سے 3 گنا زیادہ تھی۔

    معلوم ہوا کہ مشرقی جرمنی میں زیادہ تعداد میں بڑی عمر کے افراد کو ان کے بچپن میں ٹی بی کی ویکسین دی گئی تھی۔

    ورجینیا کی ٹیکنیکل یونی ورسٹی کے اس مطالعے کے شریک مصنف لوئس اسکوبر نے ایک بیان میں کہا کہ بی سی جی ویکسینز میں دیکھا گیا ہے کہ یہ دیگر وائرل ریسپائریٹری (سانس کی) بیماریوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

    اسکوبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو نتائج اب تک حاصل ہوئے ہیں وہ فی الوقت ابتدائی ہیں، ٹی بی کی ویکسین کو اس وقت ہیلتھ کیئر ورکرز پر کرونا وائرس کو روکنے کے لیے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔

  • تپ دق کے خلاف نئی ادویات جلد دستیاب ہوں گی

    تپ دق کے خلاف نئی ادویات جلد دستیاب ہوں گی

    طبی ماہرین نے کہا ہے کہ آئندہ برس کے اوائل میں مہلک متعدی بیماری تپ دق کے خلاف ایسی نئی ادویات دستیاب ہوں گی جو اس کے شکار بچوں کی جان بچانے میں بہت مدد گار ثابت ہو سکیں گی۔

    ماہرین کے مطابق ٹی بی کے خلاف اسٹرابیری اور رسبری کے ذائقے والی ادویات اس بیماری میں مبتلا بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے ضمن میں نہایت اہم کردار ادا کریں گی۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس ٹی بی کی موذی بیماری ایک لاکھ چالیس ہزار بچوں چودہ لاکھ بالغ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن چُکی ہے۔

    اس عالمی ادارے نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ سال ٹی بی کی متعدی بیماری نے مزید ایک ملین بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق کا عالمی دن منایا جارہا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال دو لاکھ چالیس ہزارکے قریب افرادتپ دق سے متاثر ہوتے ہیں۔

    چوبیس مارچ دنیا بھر ٹی بی کے عالمی دن کے طور پر ،منایا جاتا ہے،اس دن کو منانے کا مقصد تپ دق کی علامات اور بچاو سے متعلق آگاہی دینا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ اوکے مطابق دنیا بھر میں ٹی بی کے مریضوں میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے پاکستان میں ہر سال لگ بھگ دو لاکھ چالیس ہزارافرادکو ٹی بی ہوجاتی ہےجبکہ ایک لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر تعداد خواتین کی ہے، پاکستان میں اس مرض میں مسلسل اضافہ کا سبب بر وقت تشخیص اور مکمل علاج نہ کرایاجانا ہے۔

     عالمی ادارہ صحت کے مطابق تپ دق کےخاتمے کی مسلسل کوششوں کے باوجود دنیا کی ایک تہائی آبادی میں اس مرض کے جراثیم موجود ہیں جن میں سے دس فیصد لوگ بیمار ہو جاتے ہیں۔