Tag: تھامس آرنلڈ

  • سَر آرنلڈ کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کہا!

    سَر آرنلڈ کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کہا!

    نالۂ فراق کے عنوان سے ایک نظم علّامہ اقبال نے اپنے استاد ڈاکٹر تھامس واکر آرنلڈ کی یاد میں 1904ء میں لکھی تھی۔ ڈاکٹر آرنلڈ ہی تھے جنھوں نے علّامہ اقبال کو فلسفہ اور حکمت کا شیدائی بنایا۔ علّامہ اقبال نے اپنے اس استاد کو ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے جو بجا طور پر اس لقب کے مستحق تھے۔ 9 جون 1930ء کو ڈاکٹر آرنلڈ وفات پاگئے تھے۔

    متحدہ ہندوستان میں اُس زمانے کی عالم فاضل اور سربرآوردہ شخصیات جن میں‌ مسلمان اور ہندو سبھی شامل ہیں، ڈاکٹر آرنلڈ کی قابلیت، ان کے کمالاتِ علمی کے معترف تھے۔

    ڈاکٹر آرنلڈ 1887ء کے قریب علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہو کر آئے تھے۔ عربی کا ذوق رکھنے کے سبب انہوں نے مولانا شبلی نعمانی مرحوم سے (جو اس زمانہ میں وہاں عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے) عربی ادب کی بعض کتابیں پڑھی تھیں۔ مولانا نے ان سے فرینچ سیکھی تھی۔ 1895ء میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب Preaching of Islam شائع کی، جس کو انہوں نے بیس سال کی مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اور اس میں تاریخی شواہد کی بنا پر یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی خوبیوں کی بدولت پھیلا۔ اس کتاب کا مسٹر عنایت اللہ صاحب دہلوی نے ترجمہ کیا تھا جو 1896ء میں شائع ہوا۔

    سَر تھامس واکر آرنلڈ فلسفہ کے استاد، برطانوی متشرق اور مؤرخ تھے جنھوں‌ نے اسلامی فلسفہ و تعلیمات کا مطالعہ کیا اور بالخصوص فنونِ لطیفہ اور مسلم ثقافت کے حوالے سے کام کیا۔ اس موضوع پر ان کے مضامین، مقالے اور لیکچرز اس وقت ایک بڑا کام تھا اور مسلم ثقافت پر ان کی تحریروں کو بہت اہمیت دی گئی۔ وہ ہندوستان میں انگریز دور میں‌ محمڈن اینگلواورینٹل کالج، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہاں ان کی دوستی سر سید احمد خان سے ہوئی اور انہی کے اصرار پر آرنلڈ نے اپنی مشہور کتاب "اسلام کی تبلیغ” لکھی۔ ڈاکٹر آرنلڈ شاعر اور فلسفی علّامہ محمد اقبال اور سیّد سلیمان ندوی کے استاد بھی رہے، وہ شبلی نعمانی کے بھی گہرے دوست تھے۔

    ڈاکٹر آرنلڈ 19 اپریل 1864 کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لندن میں تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان میں استاد کی حیثیت سے اپنی زندگی کے کئی برس گزارے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا تھا۔ سَر آرنلڈ کے بارے میں‌ کتب میں‌ لکھا ہے کہ وہ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی جانتے تھے۔ لگ بھگ 1897ء میں آرنلڈ علی گڑھ سے لاہور آئے اور یہیں علّامہ اقبال سے ملاقات ہوئی جو ان کے شاگرد بنے۔ یہاں ڈاکٹر آرنلڈ نے کئی اہم اسلامی کتب اور تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ 1904ء کے شروع میں ڈاکٹر آرنلڈ ولایت واپس چلے گئے اور انڈیا آفس میں لائبریرین کے طور پر کام کیا۔ 1920ء میں لندن یونیورسٹی آف اورینٹیل اسٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

    ممتاز مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب شبلی نعمانی عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔