Tag: تھرپارکر

  • پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ، وڈیرے کے خلاف مقدمہ درج

    پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ، وڈیرے کے خلاف مقدمہ درج

    تھرپارکر: صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے دوران پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارنے پر وڈیرے غلام محمد جونیجو کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق 26 جون کو بلدیاتی انتخابات کے دوران ضلع تھرپارکر میں پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارنے پر وڈیرے غلام محمد جونیجو کے خلاف 4 دن بعد مقدمہ درج کر دیا گیا۔

    مقدمہ غلام محمد جونیجو اور 5 نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے، مقدمے میں پولنگ اسٹیشن میں مداخلت، ہنگامہ آرائی، تشدد اور دیگر دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ چھبیس جون کو اسلام کوٹ ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران محکمہ صحت کے ضلعی افسر غلام محمد جونیجو نے پریزائیڈنگ افسر گھنشام داس کو تھپڑ مار دیا تھا، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔

    پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ، الیکشن کمیشن نے وائرل ویڈیو کا نوٹس لے لیا

    گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے اس وائرل ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر، ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر سے رپورٹ مانگی تھی، تاکہ باضابطہ کارروائی شروع کی جا سکے۔

    الیکشن کمیشن سندھ نے ریٹرننگ افسر ضلع لاڑکانہ کو بھی ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید جونیجو نے یو سی 13 بلدیاتی انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے، اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فوری جمع کرائی جائے۔

    اس خط کے ساتھ الیکشن کمیشن نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی منسلک کیں، خط میں کہا گیا تھا کہ ویڈیوز میں خورشید جونیجو کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں دھاندلی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ، الیکشن کمیشن نے وائرل ویڈیو کا نوٹس لے لیا

    پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ، الیکشن کمیشن نے وائرل ویڈیو کا نوٹس لے لیا

    تھرپارکر: بلدیاتی انتخابات کے دوران ضلع تھرپارکر میں ایک پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، جس پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لے لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام کوٹ ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران محکمہ صحت کے ضلعی افسر غلام محمد جونیجو نے پریذائیڈنگ افسر گھنشام داس کو تھپڑ مار دیا تھا، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔

    الیکشن کمیشن نے اس وائرل ویڈیو کا نوٹس لے لیا ہے، اور واقعے پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر، ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر سے رپورٹ مانگ لی ہے۔

    الیکشن کمیشن نے متعلقہ ذمہ داران کو ہدایت کی ہے کہ واقعے کی تفصیلی رپورٹ فوری مرتب کر کے بھیجی جائے، تاکہ ضروری کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

    الیکشن کمیشن سندھ نے ریٹرننگ افسر ضلع لاڑکانہ کو بھی ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید جونیجو نے یو سی 13 بلدیاتی انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے، اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فوری جمع کرائی جائے۔

    اس خط کے ساتھ الیکشن کمیشن نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی منسلک کی ہیں، خط میں کہا گیا ہے کہ ویڈیوز میں خورشید جونیجو کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں دھاندلی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ عمل جرم کے مترادف ہے اور ان کے خلاف کئی قانونی اقدامات ہو سکتے ہیں۔

  • غذائیت کی کمی اور امراض، تھرپارکر میں‌ موت کا رقص جاری

    غذائیت کی کمی اور امراض، تھرپارکر میں‌ موت کا رقص جاری

    تھرپارکر: غذائیت کی کمی اور امراض کے سبب تھرپارکر میں‌ موت کا رقص جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائیت کی کمی اور امراض سے کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے، سول اسپتال مٹھی میں آج بھی 3 بچیاں انتقال کر گئیں۔

    اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں رواں سال بچوں کی اموات کی تعداد 619 ہو گئی ہے، تھر کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات و عملے کی قلت بھی برقرار ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے مختلف سرکاری اسپتالوں پر تعینات ڈاکٹرز بھی ڈیوٹیوں سے غائب ہیں، مختلف گائناکالوجسٹس سمیت دیگر ڈاکٹرز بھی حیدرآباد اور کراچی میں مقیم ہیں۔

    ریکارڈ کی حاضری کے لیے تھر پہنچ کر حاضری لگانے کا انکشاف ہوا ہے، ادھر سیکریٹری صحت سندھ نے غیر حاضر 6 ڈاکٹرز کو معطل کر دیا ہے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر سیکریٹری محکمہ صحت سندھ نے عمل درآمد کرتے ہوئے تھر میں ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے کے لیے 36 ڈاکٹرز کا ٹرانسفر نوٹیفکیشن جاری ہفتے کو جاری کیا تھا۔

    تھر میں صحت کے مراکز پر ڈاکٹرز کو فوری ڈیوٹیز جوائن کرنے کی ہدایات کی گئیں، سیکریٹری صحت سندھ کی جانب سے تنبیہ بھی کی گئی کہ تھر میں غیر حاضر ڈاکٹرز کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔

  • چیتے نے گاؤں پر حملہ کر کے افراتفری مچا دی، متعدد دیہاتی زخمی ہو گئے

    چیتے نے گاؤں پر حملہ کر کے افراتفری مچا دی، متعدد دیہاتی زخمی ہو گئے

    تھرپارکر: صوبہ سندھ کے ایک علاقے میں چیتے نے گاؤں پر حملہ کر کے افراتفری مچا دی، متعدد دیہاتی چیتے کا شکار ہو کر زخمی ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع تھرپارکر میں اسلام کوٹ کے نواحی گاؤں میں چیتے نے حملہ کر کے 8 افراد کو زخمی کر دیا، چیتے کے حملے سے گاؤں میں افراتفری مچ گئی۔

    حملے کے بعد دیہاتیوں نے محفوظ رہنے کے لیے خود کو گھروں میں بند کر لیا، تاہم چند علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت ہتھیار لے کر نکلے اور چیتے کو فائرنگ کر کے مار دیا۔

    علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلی حیات تھر کو چیتے کی موجودگی کی اطلاع دی گئی تھی مگر محکمے کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، جس کے باعث گاؤں کے کئی افراد زخمی ہوئے۔

    مارگلہ ہلز میں چیتے کی موجودگی کی تصویر جاری، جنگل جانے سے گریز کی ہدایت

    یاد رہے کہ رواں ماہ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں چیتے کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مارگلہ ہلز آنے والے اندھیرا ہونے پر جنگل جانے سے گریز کریں، بورڈ کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 5 چیتے موجود ہیں۔ چیتے کی موجودگی کی 31 جنوری کو کھینچی گئی تصویر بھی جاری کی گئی تھی۔

    وائلڈ لائف کا کہنا تھا کہ شہزادی نامی مادہ چیتا کی مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں مستقل رہائش پائی گئی ہے، اس چیتے کی رہائش مارگلہ ہلز ٹریلز 4 اور 6 کے درمیان ہے۔

  • این اے 221 تھرپارکر میں ضمنی الیکشن آج ہوگا

    این اے 221 تھرپارکر میں ضمنی الیکشن آج ہوگا

    تھرپارکر: قومی اسمبلی کی نشست این اے 221 تھرپارکر میں ضمنی الیکشن آج ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست این اے 221 تھرپارکر میں ضمنی الیکشن میں آج پاکستان پیپلز پارٹی کے میر علی شاہ جیلانی اور پاکستان تحریک انصاف کے نظام الدین راہمون مد مقابل ہوں گے۔

    انتخابات کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، انتخابی حلقے میں 318 پولنگ اسٹیشنر قائم کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 95 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس جب کہ 13 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

    انتظامیہ نے مٹھی سے پولنگ مٹیریل اور عملے کو پولنگ اسٹیشنز پہنچا دیا ہے، انتخابی حلقے میں ووٹنگ کے دوران سیکیورٹی انتظامات بہتر بنانے کے لیے 4 ہزار پولیس اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔

    انتہائی حساس اور حساس پولنگ اسٹیشنز کے راستوں پر رینجرز اہل کار کو تعینات کیا گیا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 200 پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کر دیے گئے ہیں۔

    این اے 221 تھرپارکر میں 2 لاکھ 81 ہزار 900 رائے دہندگان رجسٹرڈ ہیں، یہ نشست پاکستان پیپلز پارٹی کے نور محمد شاہ جیلانی کے کرونا انفیکشن سے انتقال کر جانے پر خالی ہوئی تھی۔

    ڈی آر او نے ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کے لیے پولیس اور رینجرز اہل کار سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دیں گے، حلقے میں ووٹنگ کا عمل صبح 8 سے لے کر شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔

  • تھر: میگھا برسے تو خوش، ورنہ در بہ در، خاک بہ سَر!

    تھر: میگھا برسے تو خوش، ورنہ در بہ در، خاک بہ سَر!

    سندھ کے جنوب مشرق میں واقع تھرپارکر کے باسیوں کی مشکلات، ان کی درد بھری کہانیاں، کئی الم ناک قصے تو ہم نے سنے ہیں، مگر جب برسات اور اس کے ساتھ ہی تھر میں فطرت کی دل ربائی اور قدرت کی کرم فرمائی کے بارے میں سنتے ہیں تو تھرپارکر جانے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ اس ضلع کا ہیڈ کوارٹر مٹھی رہا ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریبا 21 ہزار مربع کلو میٹر بتایا جاتا ہے۔

    سندھی مؤرخ اور محقق لکھتے ہیں کہ قدیم دور میں یہ علاقہ سرسوتی دریا کے ذریعے سیراب ہوتا تھا۔ بعد ازاں ’’مہرانوں نہر‘‘ کے ذریعے اسے سیراب کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ تھرپارکر کی سیرابی کے لیے دریائے سندھ سے ایک بڑی نہر’’باکڑو‘‘ نکلا کرتی تھی، جسے 17 ویں صدی میں سیاسی بنیاد پر بند کردیا گیا اور یہ فیصلہ کئی مسائل کی وجہ بنا۔

    ملک بھر میں‌ ان دنوں‌ برسات کا شور ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں‌ شدید بارش ہوئی ہے جب کہ آنے والے دنوں‌ میں مزید اور تیز بارش کا امکان ہے۔

    ہم برسات اور تھرپارکر کے حوالے سے وہ دو کہاوتیں‌ آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں جو مقامی لوگوں میں‌ زیادہ مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں ’دو سے تہ، تھ نہ تہ بر‘‘ یعنی اگر بارش ہو تو تھر گلستان بن جاتا ہے ورنہ بیابان جیسا ہے۔

    دوسری کہاوت ہے کہ تھر آھے کن تے یادھن تے‘‘ یعنی تھر کا انحصار بارشوں کی بوند پر ہے یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پر ہے۔

    تھری لوگوں‌ کی زندگی میں‌ برسات کی بہت زیادہ اہمیت ہے، جس کا اندازہ شاید شہر کے لوگ کم ہی لگا سکتے ہیں۔ مذکورہ کہاوتیں بھی تھر کے لوگوں کے لیے برسات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

    صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے بھی تھر کے باشندوں کے کرب کو بھانپتے ہوئے ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں تھر کی برسات سے قبل اور بعد کی کیفیات کو قلم بند کیا ہے۔

    تھر کے لوگوں کا سہارا ہی میگھ (بارش) ہے میگھا برسا تو لوگ خوش ورنہ در بہ در، خاک بہ سر۔

  • آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    سناٹا اور اتنا گہرا۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے، ایسی جگہ جہاں انسانوں پر انسان خدا ہیں۔

    پالنے والی تو رب کی ذات ہے، ہاں بس وہی، لیکن جہاں ارباب ہوں وہاں کیا ہوتا ہوگا، میں نہیں جانتا، جانتا تو وہی ہے جس پر بیت رہی ہو ہم تو بس سفید صفحات کو اپنے من کی سیاہی میں ڈبوتے رہتے ہیں۔

    یاد آیا ایک دن میں نے اپنے استاد سے جو ہمیں تختی پر لکھنا سکھاتے تھے کہا، سَر، سیاہی ختم ہوگئی ہے اب میں تختی کیسے لکھوں؟ ہاں یاد ہے مجھے، مسکرائے تھے اور کہا تھا، بیٹا سیاہی کا مقدر ختم ہوجانا ہی ہے، لکھنا ہے تو روشنائی سے لکھو کہ جسے زوال نہیں۔
    وقت کی دھول سَر میں ڈالتا، در بہ در گھومتا پھرتا میں ایک اور جگہ پہنچا، جہاں میں نے سنا، چراغ تو بجھائے جاسکتے ہیں، پھونکوں سے نہ بجھ سکیں تو زور آور ہوائیں انہیں گل کردیتی ہیں لیکن نور ہاں نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا، ہاں کوئی بھی نہیں کہ زوال بس تاریکی کا نصیبا ہے۔

    ہم سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں سب کیوں؟ میں، ہاں میں ہوں، تھر کی اس حالت کا ذمے دار۔ اور کوئی نہیں۔ میں پچھلے پچیس برس سے تھر جاتا رہتا ہوں میں نے ان تھریوں کا نمک کھایا ہے جن کے پاس نمک خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے!

    ہاں میں نے ان کا نمک کھایا ہے، ان کے گیت سنے ہیں، انہوں نے اپنے حصے کا پانی مجھے پلایا، خود پیاسے رہے اور میری پیاس بجھائی ہے، میں شہروں کے اذیت ناک خون آلود ماحول سے فرار ہو کر وہاں جاتا رہا ہوں اور وہ مجھے آسودہ اور تازہ دم کر کے واپس بھیجتے رہے ہیں۔ میں جاتا بھی رہا اور اس اصرار کے ساتھ کہ میں واپس آؤں گا، وہ خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے اپنے بازو وا کیے رہے۔ ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔

    ان کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے، میں کیا کیا لکھوں لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا، کچھ بھی تو نہیں مانگا انہوں نے، کبھی نہیں، کبھی بھی تو نہیں۔

    تپتی ریت کے جہنم میں انہوں نے میرے لیے جنت بنائی ہوئی تھی۔ کالی، مگر تاروں بھری رات میں وہ پیتل کی تھالی اور خالی مٹکے کو ساز بناتے اور گیت گاتے، سوز سے تو وہ خود بنے ہوئے ہیں، ہجر و فراق کی آگ میں جلتے ہوئے گیت، محبوب اور برسات کو رجھانے والے گیت اور نہ جانے کیا کیا گیت، دل میں اتر جانے والے گیت، اکھیوں کو بھگو دینے والے گیت۔

    سوتے سمے، وہ میرے لیے دودھ بھرا پیتل کا کٹورا لاتے اور پیار سے کہتے، سائیں ہمارا سب کچھ آپ کے لیے حاضر ہے، لیکن سائیں، ہمارے پاس یہی کچھ ہے، بس قبول کریں۔ میرا سن کر کوسں دور سے کوئی تھری آتا۔ بس سائیں آپ کا سنا تو ملنے آگیا، ہاں ننگے پاؤں
    آگیا، آپ حاضری قبول کریں اور جاتے سمے وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا۔ سائیں حاضری قبول! اتنی عاجزی تو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اس وقت بھی دیکھتا تو تھا، لیکن میں سوچتا کہ ان کی آنکھیں ریت کی چنگاریاں، جو تھر میں اڑتی رہتی ہیں، کی وجہ سے نَم ہوں گی۔ بینا دیکھتے ہیں اور میں کہاں ہوں بینا۔

    ہاں خالق نے ہی تو کہا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں، ان کے کان تو ہیں لیکن سماعت سے محروم۔ ہندو مسلم ہاں دونوں ہی میرے دوست ہیں، ایک ہی محلے میں رہنے والے کوئی فریق نہیں جن کی جھونپڑیاں، جنہیں وہ گھاس پھونس سے بناتے اور انہیں چونرا کہتے ہیں، ساتھ ساتھ تھیں اور تھیں کیا اب بھی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو برا نہیں کہتا۔ عید دیوالی ساتھ ساتھ، ہاں ایسا ہی ہے۔

    عیدِ قرباں قریب تھی، جب میں تھر میں تھا، میں نے اپنے دوست جان محمد، جسے ہم جانو کہتے ہیں کے چونرے میں مقیم تھا۔ میں نے اس کے والد، جنہیں میرے بچے دادا کہتے ہیں، سے پوچھا بابا سائیں عید آگئی ہے، آپ کس جانور کی قربانی کریں گے؟

    تُو بڑا چَریا ہے، دیکھ نہیں رہا کتنی بکریاں اور بکرے گھوم رہے ہیں۔ بس کر لیں گے قربانی میں نے کہا۔ بابا سائیں گائے کی قربانی کیوں نہیں؟ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا اور قریب آکر رازدارانہ انداز میں کہا دیکھو! ہم یہاں گائے کی قربانی نہیں کرتے، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہا۔ اس لیے کہ ہندو ہمارے بھائی ہیں اور ان کے لیے گائے مقدس ہے۔ ہاں گؤ ماتا کہتے ہیں وہ اسے، اس لیے ہم گائے کی قربانی نہیں کرتے۔ حیرت سے پوچھا، کیا آپ نہیں کرتے یا۔۔۔ ابھی میرا سوال ادھورا تھا کہ بابا سائیں بولے، پورے تھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب سے نہیں سدا سے ایسا ہی ہے۔

    رواداری کسے کہتے ہیں یہ مجھے اس دن معلوم ہوا تھا، لچھمن داس اور ماما شیرو، دین محمد اور رام لعل، دُرمحمد اور کیلاش اگر ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں، ایک ہی کٹورے سے پانی پی رہے ہوں، ایک سا لباس پہنے ہوئے ہوں، تو کون پہچان پائے گا کہ ہندو کون ہے اور مسلم کون جب شادی بیاہ میں، دکھ سکھ میں، رونے ہنسنے میں سب ایک جیسے ہوں تو کون پہچان پائے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلم، اور پھر جب درد سانجھا اور بھوک ایک جیسی ہو تو پھر رہ جاتا ہے بس انسان اور درد۔

    تھر میں ایسی ہی رواداری ہے، ہاں کبھی کبھی سننے میں ضرور آتا ہے کہ کوئی ساہوکار وڈیرا کسی معصوم کو روند دیتا ہے لیکن اس مظلوم کے درد کا مداوا نہ بھی کرسکتے ہوں، اس کے ساتھ کھڑے ضرور ہوتے ہیں سب۔ کبھی اس کی سنگت نہیں چھوڑتے کہ بس یہی کچھ وہ کرسکتے ہیں۔

    بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن وہ مجسم صبر یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ابر برسے گا اور بھوک پیاس کو صحرا میں دفن کر دے گا اور جب برسات ہو تو پھر بے خودی کو سراپا دیکھا جا سکتا ہے۔ تھر میں تھری بے خود ہوجاتے اور مست ملنگ ناچتے ہیں کہ برسات وہاں زندگی کی علامت جو ہے لیکن برسات بھی تو ساتھ نہیں دیتی ان کا، بس برسی تو برسی، نہیں تو نہیں۔ قناعت کیا ہوتی ہے، ہاں یہ آپ تھر میں دیکھ سکتے ہیں، میں نے اگر کبھی کسی کا قصیدہ پڑھا ہے تو وہ بس تھر ہی کے باسی ہیں۔

    اخلاص، محبت، اپنائیت کے پُتلے، لیکن کیا بس یہی کافی تھا جو میں نے کیا؟ ان کی بھوک کا مذاق اڑایا، میں نے مرتا چھوڑ دیا انہیں، موت تو سدا سے رقص کناں ہے وہاں، ہمیں ہوش کیوں نہیں آیا، ہاں اس لیے جس تن لاگے وہ تن جانے۔ ہمیں کیا مرتے ہیں تو مریں۔ بھوک سے کہاں مرے وہ، وہ تو نمونیے اور بخار سے مرے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ یہ امراض لاعلاج ہیں، کوئی دوا ہی نہیں دریافت ہوئی اس مرض کی۔ ان کے بچے مریں، ان کے مویشی مریں، ان کے مور مریں اور وہ خود مرجائیں، ہمیں کیا جناب۔

    دل کو ہے درپیش پھر سے ضبط کا اک امتحاں
    آنسوﺅں نے پھر پکڑلی ہے، رواں ہونے کی ضد

    مصنف: عبداللطیف ابُوشامل

  • سندھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق

    سندھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق

    تھرپارکر: صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر اور سانگھڑ میں بجلی گرنے کے واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت 26 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر اور سانگھڑ کے مختلف علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں بجلی گرنے سے درجنوں مویشی بھی ہلاک ہوگئے۔

    سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے علاقے اچھڑو تھر میں بھی آسمانی بجلی گرنے کے دو مختلف واقعات میں 3 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔ گاؤں جھواڑ میں آسمانی بجلی گرنے سے تیس سالہ سلیمت اور ان کا دس سالہ بیٹا جاں بحق ہوئے۔

    گورنر سندھ کا تھرمیں آسمانی بجلی گرنے سے اموات پر اظہارافسوس

    گورنر سندھ عمران اسماعیل نے تھرمیں آسمانی بجلی گرنے سے اموات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفت سے ہوئے جانی نقصان پر غمزدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی ڈی سی کی نگرانی میں ریسکیو کاعمل تیز کیا جائے، وفاق مشکل گھڑی میں ہرممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے متاثرہ علاقوں میں بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کو متحرک ہونے کی ہدایت کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز تھر کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش ہوئی جبکہ بعض علاقوں میں ژالہ باری بھی ہوئی جس کے باعث موسم کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔

  • تھرپارکر اور سانگھڑ میں آسمانی بجلی نے تباہی مچا دی، 11 افراد جاں بحق

    تھرپارکر اور سانگھڑ میں آسمانی بجلی نے تباہی مچا دی، 11 افراد جاں بحق

    تھرپارکر: صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر اور سانگھڑ میں تیز بارش کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے 11 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج ضلع تھرپارکر اور سانگھڑ کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش اور ژالہ باری شروع ہوئی ہے، تیز بارش کے دوران مختلف علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

    موصولہ اطلاعات کے مطابق تھرپارکر کے مختلف مقامات پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، جب کہ آسمانی بجلی کی زد میں آکر 10 افراد شدید زخمی ہو گئے، جنھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

    ادھر ضلع سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے علاقے اچھڑو تھر میں بھی آسمانی بجلی گرنے کے دو مختلف واقعات میں 3 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہو گئے، جب کہ تین خواتین زخمی ہوئی ہیں، تاہم کھپرو پولیس نے دو خواتین کی موت کی تصدیق کی، پولیس کے مطابق آسمانی بجلی گرنے کا واقعہ گاؤں موکریا میں پیش آیا جہاں پر ایک ہی گھر کی 55 سالہ سنگھار اور 37 سالہ ماریت موقع پر جاں بحق ہوگئیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسکردو میں آسمانی بجلی گرنے سے 5 افراد جاں بحق

    دوسرا واقعہ گاؤں جھواڑ میں پیش آیا جہاں پر تیس سالہ سلیمت اور ان کا دس سالہ بیٹا جاں بحق ہوئے، زخمیوں کو عمر کوٹ کے اسپتال لے جایا گیا۔

    واضح رہے کہ آج ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اندرون سندھ بھی بارشیں شروع ہو گئی ہیں، کہیں کہیں ژالہ باری بھی ہو رہی ہے۔ اس دوران تھرپارکر میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

    یاد رہے رواں سال جون میں گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں آسمانی بجلی گرنے سے 5 افراد جاں بحق جب کہ 7 سے زائد مکانات جل گئے تھے، یہ واقعہ اسکردو کے ضلع شگر کے نواحی گاؤں میں پیش آیا تھا جس میں جاں بحق ہونے والوں میں 3 بچے بھی شامل تھے۔