Tag: تھریسامے

  • روس کو غیر مستحکم سرگرمیاں بند کرنے کی ضرورت ہے، برطانیہ

    روس کو غیر مستحکم سرگرمیاں بند کرنے کی ضرورت ہے، برطانیہ

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے روسی صدر پیوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ ’سالسبری کیمیکل حملے میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اور روسی صدر ولادی میرپیوٹن ان دنوں جاپان میں ہونے والی جی 20 سمٹ میں موجو دہیں، جہاں انہوں نے صدر پیوٹن سے ملاقات کے دوران سالسبری نوویچک کیمیکل حملے کے ملزمان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تھریسامے مے نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کو ’غیر مستحکم سرگرمیاں‘ روکنے کی ضرورت ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو یقین ہے کہ روس کے دو ملٹری انٹیلی جنس سروس (جی آر یو) کے افسران مارچ 2018 میں ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپال اور اس کی بیٹی یویلیا اسکریپال پر زہریلے کیمیکل کا حملہ کرنے میں ملوث تھے۔

    دوسری جانب کریملن نے سالسبری حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیاہے اور مارچ 2018 سے مسترد کرتا آرہا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ سرگئی اسکریپال اور ان کی بیتی تو نوویچک حملے زندہ بچ گئی تاہم جولائی 2018 میں برطانوی خاتون ڈان اسٹرگیس نوویچک کیمیکل کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی تھی جنہیں پرفیوم کی بوتل میں زہر دیا گیا تھا۔

    اسکاٹ لینڈ یارڈ اور سی پی ایس کا کہنا ہے کہ ہم نےالیگزینڈر پیٹرو اور رسلن بوشیرو نامی دو روسی شہریوں کو نوویچک حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوتوں کی بنیاد پرگرفتار کرکے قتل کا مقدمہ درج کیا ہوا ہے جبکہ صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد عام شہری ہیں نا کہ مجرم نہیں۔

    واضح رہے کہ جمعے کو دونوں رہنماؤں کے درمیان اوساکا میں جی 20 سمٹ کے دوران ہونے والی ملاقات مارچ 2018 میں سالسبری حملے کے بعد پہلی ملاقات ہے۔

  • ماحولیاتی کارکن سے نامناسب سلوک، برطانیہ میں وزیر مملکت کو معطل کردیا گیا

    ماحولیاتی کارکن سے نامناسب سلوک، برطانیہ میں وزیر مملکت کو معطل کردیا گیا

    لندن: برطانیہ میں ماحولیاتی خاتون کارکن سے نامناسب سلوک کرنے والے وزیر مملکت مارک فیلڈ کو معطل کردیا گیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر مملکت برائے ایشیا اور پیسیفک نے گزشتہ روز ایک تقریب میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اقدامات کے لیے مظاہرہ کرنے والی خاتون کارکن کو زبردستی تقریب سے باہر نکال دیا تھا۔

    مارک فیلڈ پر مذکورہ واقعے کے بعد سے شدید تنقید کی جارہی تھی اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
    برطانوی میڈیا کے مطابق وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ روز ویڈیو دیکھی اور وزیر مملکت مارک فیلڈ کو معطل کردیا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران وزیر مملکت مارک فیلڈ اپنی کرسی پر براجمان تھے کہ ایک خاتون کارکن ماحولیاتی آلودگی پر احتجاج کے لیے کھڑی ہوئی تو انہوں نے خاتون کو گردن سے پکڑ کر باہر نکال دیا تھا۔

    ایک پارٹی ورکر جینت بارکر کا کہنا تھا کہ فیلڈ نے خاتون کی گردن کو بہت زور سے پکڑ رکھا تھا اور وہ دروازے پر جاتے وقت گرتے گرتے بچیں۔

    بارکر نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ مارک فیلڈ نے اس طرح کا رویہ کیوں اپنایا۔

    لیبر پارٹی نے کہا ہے کہ مارک فیلڈ کی معطلی کافی نہیں ہے ان کے اس روئیے کی پولیس سے تحقیقیات کرائی جانی چاہئے۔

    مارک فیلڈ جیرمی ہنٹ کی ٹیم کی وزیر ہیں اور اور برطانوی وزیراعظم کے انتخاب میں ٹوری لیڈر شپ کی حمایت کررہے ہیں۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد وزارت ِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے، استعفے کا سبب بریگزٹ پر ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہ کرسکنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 جون کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی، ساتھ ہی ساتھ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کا منصب بھی چھوڑدیں گی۔

    برطانوی وزیراعظم کوبریگزٹ ڈیل میں ناکامی پرتنقیدکاسامناتھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام نے2016میں یورپی یونین سےنکلنےکاانتخاب کیا، تاہم میں بطور وزیراعظم بریگزٹ ڈیل پرارکان کوقائل کرنےکی کوشش میں ناکام رہی ہوں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ بطورجمہوری لیڈرعوام کی رائےکااحترام اورنفاذان کی ذمہ داری تھی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکتا لہذا بہتر ہے کہ وہ وزارت ِ عظمیٰ کا منصب کسی ایسے شخص کو سونپ دیں جو ان سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو۔

    وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری نہ مل سکی۔

    منظوری نہ ملنے کے سبب یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات ہوئے جن میں بریگزٹ سے متعلق طویل مدتی توسیع پراتفاق ہوگیا، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے 31 اکتوبر تک بریگزٹ میں لچک دار توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ نے 29 مارچ کو یورپین یونین سے نکلنا تھا۔

    یادر ہے کہ آج سے تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔ استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے، برطانیہ کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے اور سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانوی معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہوگا، جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے ابتداء میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے استعفے کا مطالبہ مسترد کردیا

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے استعفے کا مطالبہ مسترد کردیا

    لندن: برطانیہ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست اور بریگزٹ ڈیل میں ناکامی پر تھرسامے نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں گذشتہ ہفتے بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں تھریسا انتظامیہ کو شکست ہوئی جبکہ وہ بریگزٹ ڈیل کو حتمی شکل دینے میں بھی ناکام ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ انڈریو جینکنس نے تھریسامے سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس ناکامی اس مستعفی ہوجائیں تاہم برطانوی وزیراعظم سے مطالبہ مسترد کردیا۔

    خاتون رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ تھریسامے کی محنت پر کوئی شک نہیں، تاہم وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہیں، انہوں نے وعدے کی خلاف ورزی کی جس پر ہم سب کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔

    اس بیان کے ردعمل میں برطانوی وزیراعظم کے ترجمان سر گراہم کا کہنا تھا کہ تھریسامے نے عوامی اعتماد نہیں کھویا، بریگزٹ مے کا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے ملک کا معاملہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ 23 مئی کو یورپی پارلیمانی انتخابات سے پہلے ایک بار پھر بریگزٹ ڈیل کی شرائط پر ووٹنگ ہوئی چاہیئے۔

    قبل ازیں برطانیہ میں کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے چار مئی کو ہونے والی کانفرنس بدمزگی کا شکار ہوگئی تھی، کانفرنس میں موجود شرکار نے بھی وزیراعظم تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

    کنزرویٹیوپارٹی کی کانفرنس بدمزگی کا شکار، تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • کنزرویٹیوپارٹی کی کانفرنس بدمزگی کا شکار، تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ

    کنزرویٹیوپارٹی کی کانفرنس بدمزگی کا شکار، تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ

    لندن: برطانیہ میں کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے ہونے والی کانفرنس بدمزگی کا شکار ہوگئی، کانفرنس میں موجود شرکار نے وزیراعظم تھریسامے سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی کاؤنٹی ویلز میں کنزرویٹیوپارٹی کی جانب سے کانفرنس منعقد کی گئی، کانفرس کےشرکاء نے وزیراعظم تھریسامے پرکڑی تنقید کرتے ہوئے ان سے مستعفٰی ہونے کا مطالبہ کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے خطاب کرنے جیسے ہی اسٹیج پر آئیں تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر بلدیاتی انتخابات میں شکست کا ذمہ دار انہیں ٹھرایا۔

    کانفرنس کے شرکا نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ استعفیٰ کیوں نہیں دیتیں ؟ ہم آپ کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے۔

    کانفرنس کو مزید بدمزگی سے بچانے کے لیے سیکیورٹی اہلکار نے مداخلت کار کو کمرے سے باہر نکال دیا۔

    برطانوی وزیراعظم نے کہا بلدیاتی انتخاب کامرحلہ ان کی جماعت کے لیے بہت سخت تھا اور یورپی یونین سےعلیحدگی میں تاخیر کے باعث لوگ مایوسی کاشکار ہیں۔

    خیال رہے کہ برطانیہ میں دو روز قبل کل 248 کونسلوں کے انتخابات ہوئے، جن میں 8425 نشستوں پر 33 ہزار کے قریب امیدوار میدان میں اترے جن میں سیکڑوں برٹش پاکستانی بھی شامل تھے۔

    دوسری جانب بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم تھریسامے شدید دباؤ کا شکار ہیں، البتہ یورپی رہنما برائے بریگزٹ ڈیل مذاکرات نے رواں ہفتے کو اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔

    برطانیہ میں بلدیاتی انتخابات، تاریخ میں پہلی بار500سےزائدپاکستانی نژاد برطانوی امیدوار میدان میں

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے آغاز رمضان پر مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالم اسلام میں رمضان کے آغاز پر برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کیا۔

    وزیر اعظم تھریسامے نے برطانوی مسلمانوں کو برٹش معاشرے کا اہم حصہ قرار دیا، اپنے پیغام میں کہا ’برٹش مسلمان ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔‘

    انھوں نے ماہِ رمضان سے متعلق کہا کہ رمضان صبر، ایثار اور برداشت کا مہینہ ہے، رمضان کے روحانی اثرات مثبت معاشرتی تبدیلیاں لاتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ہوگا

    دریں اثنا، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کو بھی مذکور کیا، کہا کرائسٹ چرچ مسجد اور کولمبو چرچ حملہ آور امن و محبت کے دشمن ہیں۔

    واضح رہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار 5 مئی کو ہوگا، مفتی منیب الرحمان اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    26 اپریل کو محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ رمضان کا چاند 30 شعبان یعنی 6 مئی کو نظر آنے کا امکان ہے اور پہلا روزہ 7 مئی بروز منگل ہوگا۔

  • بریگزٹ پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا

    بریگزٹ پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا

    لندن : ایسٹر کے تہوار کے بعد حکومت برطانیہ اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان بریگزٹ سے متعلق مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی حکومت کے اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا تاکہ اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کا مقصد ایسا حل تلاش کرنا ہے کہ جس کے ذریعے یورپی یونین سے عدم سمجھوتہ کے بعد ہونے والی بدنظمی سے بچا جا سکے۔

    تھریسامے نے رواں ماہ 12 اپریل کو قانون سازوں سے اپیل کی تھی کہ وہ بریگزٹ ڈیل پر کسی سمجھوتے پر متفق ہونے میں تعاون کریں۔

    بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ کے التویٰ میں کامیابی کے بعد اب فوری طور پر نو ڈیل بریگزٹ کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ اب برسلز نے لندن کو بریگزٹ کے لیے اکتیس اکتوبر کی تاریخ دی ہے۔ اس طرح اب برطانیہ مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لے سکے گا۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کے لیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانوی وزیراعظم کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ سے منظوری نہیں مل سکی جس کے سبب اس معاملے میں تعطل پیدا ہوا۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • یورپی یونین کا خصوصی اجلاس، بریگزٹ میں توسیع متوقع

    یورپی یونین کا خصوصی اجلاس، بریگزٹ میں توسیع متوقع

    برسلز: یورپی یونین کے آج ہونے والے سربراہی اجلاس میں بریگزٹ ڈیل کی تاریخ میں توسیع پر غور کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی تاریخ میں مزید توسیع کی خواہش مند ہیں، جس کے لیے آج وہ یورپی یونین کو خصوصی خط لکھیں گی۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیراعظم یورپی یونین کے آج ہونے والے خصوصی سربراہی اجلاس میں بریگزٹ کو جون کے آخر تک مؤخر کرنے کے لیے کہیں گی۔

    یورپی یونین اس سے قبل بھی بریگزٹ ڈیل کی تاریخ میں توسیع کرچکاہے، عالمی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یورپ بریگزٹ کی تکمیل کے لیے برطانیہ کو مزید مہلت دے گا۔

    البتہ یورپی یونین بریگزٹ کو مارچ 2020ء تک ملتوی کرنے پر غور کررہا ہے۔ بریگزٹ کے لیے 29 مارچ کی گزشتہ طے شدہ تاریخ میں پہلے 12 اپریل تک کی توسیع کر دی گئی تھی اور اب تھریسامے اس میں 30 جون تک کی توسیع چاہتی ہیں۔

    آج ہونے والے یورپی یونین کے خصوصی سربراہی اجلاس میں بریگزٹ کے حوالے سے کئی دیگر اقدامات پر بھی بحث کی جائے گی، جبکہ برطانوی سیاسی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم آج اہم ملاقاتیں کریں گی

    یاد رہے کہ ملکی ارکان پارلیمان یورپ سے ڈیل کے ذریعے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں، جبکہ یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

  • بریگزٹ ڈیل، لیبر پارٹی سے رابطے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، تھریسامے

    بریگزٹ ڈیل، لیبر پارٹی سے رابطے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے لیبر پارٹی کے ساتھ رابطے کے سوا میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ لیبر پارٹی سے رابطے کا مقصد بریگزٹ پر عمل کرنا تھا، ورنہ اس کے ہمارے ہاتھوں سے نکل جانے کا خطرہ تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو واضح آپشن تھے، ڈیل کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدگی یا سب کچھ چھوڑ کر الگ ہوجانا۔

    دوسری جانب وزیر تجارت ریبیکا لانگ بیلے نے کہا ہے کہ اگر نوڈیل آپشن ہے تو لیبرپارٹی بریگزٹ منسوخ کرنے کے لیے ووٹ دینے پر سنجیدگی سے غور کرسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ بعض ٹوری ارکان نے اپنی ڈیل پر لیبرپارٹی سے مدد مانگنے پر برطانوی وزیراعظم پر تنقید کی تھی۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ پر تھریسامے کے اپوزیشن لیڈر جیریمی کاربن سے مذاکرات ناکام

    اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ان پر ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے حکومت کے ساتھ کسی بھی ڈیل کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے، 80 ارکان پارلیمنٹ نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں عوام سے رائے لیے جانے کا مطالبہ شامل رکھا جانے کا کہا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی یورپی یونین سے برطانوی انخلاء سے متعلق معاملات حل کرنے کےلیے اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن سے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔

    خیال رہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

  • بریگزٹ پر تھریسامے کے اپوزیشن لیڈر جیریمی کاربن سے مذاکرات ناکام

    بریگزٹ پر تھریسامے کے اپوزیشن لیڈر جیریمی کاربن سے مذاکرات ناکام

    لندن : اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم پر سمجھوتہ نہ کرنے کا الزام عائد کردیا، جس کے باعث بریگزٹ کی تاریخ میں توسیع کے امکانات بڑھ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی یورپی یونین سے برطانوی انخلاء سے متعلق معاملات حل کرنے کےلیے اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن سے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ برطانوی قائد حزب اختلاف جریمی کاربن نے وزیر اعظم تھریسامے پر سمجھوتہ نہ کرنے کا الزام عائد کردیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے بریگزٹ کےلیے ایک سال کا وقت دینے کا امکان ہے، اس سے قبل تھریسامے نے بریگزٹ میں توسیع کے لیے یورپین یونین کو خط لکھ دیا تھا۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر جیریمی کاربن نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم تھریسامے کے ان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ہے،

    برطانوی میڈیا کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے کہا ہے کہ تھریسامے توسیع کی درخواست کے بجائے متبادل منصوبہ پیش کرے۔

    یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کی جانب سے تجویز دی گئی تھی کہ یورپی ممالک کے سربراہان بریگزٹ کی تاریخ میں ایک برس کی لچکدار توسیع کردیں لیکن یورپی ممالک برطانیہ کو مزید وقت دینے کےلیے تیار نہیں۔

    یورپی یونین کے رکن ممالک کا کہنا ہے کہ اگر بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کی گئی تو برطانیہ یورپی یونین کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی بحیثیت رکن ملک استعمال کرسکتا ہے۔

    یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔