Tag: تھریسامے

  • برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوگئی‌، تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکیں لیکن حکومت بچانے میں‌ کامیاب ہوگئیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، تحریک عدم اعتماد پر اراکین پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی حمایت میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ آئے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کام جاری رکھنے کا اعلان کردیا اور اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اظہار اعتماد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکیں لیکن حکومت انہوں نے بچالی ہے، تھریسامے نے پارلیمانی جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ مل کر مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت کو گزشتہ رات کے نتائج پر اقتدار سے الگ ہوجانا چاہئے تھا، بریگزٹ پر عوامی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 13 دسمبر کو بھی برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھی جس کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز روانہ ہوگئی تھیں۔

    یاد رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    گزشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی۔

    پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے کی جانے والی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    دوسری جانب تھریسامے کا کہنا تھا کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

  • برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی

    برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں آج بریگزٹ پر ووٹنگ ہوگی، وزیراعظم تھریسامے آج ایک بار پھر برطانوی پارلیمان کو یورپ سے علیحدگی کے مجوزہ معاہدے کی حمایت کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں حکومت کی جانب سے تجویز کردہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی، ووٹنگ کے بعد فیصلہ ہوگا کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے وقت مجوزہ معاہدے پر عمل پیرا ہوگا یا نہیں۔

    سیاسی ماہرین کے مطابق پارلیمان میں بریگزٹ پر ووٹنگ کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم تھریسامے پر سخت دباؤ ہے اور اگر تھریسامے ہار جاتی ہیں تو وہ یہ راستہ اپنا سکتی ہیں کہ ڈیل دوبارہ پاس کروائی جائے یا نو ڈیل کا راستہ اختیار کیا جائے، بریگزٹ کو روکنا بھی امکانات میں شامل ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق حکومت کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، 1945ء کے بعد سے یہ برطانیہ کا سب سے بڑا سیاسی بحران ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی ارکان پارلیمان نے رواں ماہ 9 تاریخ کو ہونے والی قرارداد کو 297 کے مقابلے میں 308 ووٹوں کی اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس میں بریگزٹ ڈیل پر کل ہونے ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ ممکنہ طور پر ناکام رہنے کے بعد پارلیمانی فیصلہ سازی کا طریقہ کار بدلنے کی بات کی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں: نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل برطانیہ میں پیلی جیکٹ پہنے مظاہرین سڑکوں پر آگئے تھے اور وزیراعظم ہاؤس کے باہر بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب اپوزیشن رہنما جریمی کوربن کے حامی بھی احتجاج میں شریک ہوئے تھے اور برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پرعوامی بھروسے کو متاثر کرے گی، تھریسامے

    بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پرعوامی بھروسے کو متاثر کرے گی، تھریسامے

    لندن : وزیر اعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پر عوام کے ناقابل یقین اعتماد کو تباہ کن حد تک متاثر کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے 15 جنوری کو پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کرائی جائے گی، لیکن حکمران جماعت کے کچھ ایم پیز اور اپوزیشن جماعتیں معاہدے کی مخالف ہیں۔

    تھریسامے نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے کالم میں کہا ہے کہ برطانیہ کا بغیر کسی معاہدے یا بریگزٹ کے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنا برطانیہ کے لیے خطرناک ہوگا۔

    برطانوی وزیر ٹرانسپورٹ سیکریٹری کرس گریلنگ کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی سے ملک میں انتہا پسندی فروغ ملے گا۔

    مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کرس گریلنگ کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے میں ناکام رہا تو یہ ان کروڑوں برطانوی شہریوں سے دھوکہ ہوگا، جنہوں نے بریگزٹ کو ووٹ دیا۔

    وزیر ٹرانسپورٹ بریگزٹ کی ناکامی سے برطانیہ میں صدیوں پرانی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ایم پیز وزیر اعظم کے بریگزٹ منصوبے کو ووٹ دے کر منظور کریں تاکہ عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا ہو۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    وزیر ٹرانسپورٹ کرس گریلنگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ 15 جنوری کو پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کے بھی 100 ایم پیز معاہدے کے مخالف ہیں۔

    واضح رہے کہ کرس گریلنگ نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ برس دسمبر میں پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے حوالے سے ووٹنگ کا اعلان کیا تھا تاہم شکست کے خوف سے انہوں نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی تھی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ برطانیہ مقررہ وقت یعنی 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ برسلز میٹنگ میں 27 یورپی رہنماؤں نے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ سے بزیگزٹ کی توثیق ہونا باقی تھی، جبکہ وزیراعظم تھریسامے نے اپنے ملک کے قانون سازوں کو معاہدے کو قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے معاہدے کو اپنے ملک کے لیے روشن مستقبل قرار دیا تھا۔

    گزشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد اس معاہدے میں شہریوں کے حقوق سمیت مستقبل میں سلامتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے معاملات طے کیے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے متعلق معاہدہ پوری طرح ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ سیکریٹری ڈومینک راب نے کہا تھا کہ مذکورہ پیش کش یورپی یونین کی رکنیت سے کمتر ہے۔

    واضح رہے کہ ایک ماہ قبل 18 ماہ کی طویل بات چیت کے بعد بزیگزٹ ڈیل پر برطانیہ اور یورپی یونین میں اتفاق ہوگیا تھا۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    لندن: برطانوی وزیررچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ایم پیز جو چاہتے ہیں کہ برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے بعد میں کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے مالی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔

    بریگزٹ معاہدے کے مخالف ایم پیز کی جانب سے آج ہاؤس آف کامنز میں فنانس بل میں ترمیم کے لیے ووٹ ڈالا جائے گا، اور اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کچھ ٹیکسز میں اضافہ نہیں کرسکے گی جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    اس سے قبل رواں سال کے آغاز پر برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    لندن : برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے بریگزٹ ڈیل کو پارلیمنٹ سئے منظور کروانے کے لیے کوئی راستہ نکال لیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے بدھ کے روز دورہ سنگاپور کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے شہری اپنے ملک کی یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

    وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ اب اگر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ نہ ہوا تو یہ جمہوریت کےلیے نقصان دہ ہوگا، بریگزٹ ڈیل کو ترک کرنے سے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔

    جیریمی ہنٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم تھریسا مے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے بریگزٹ معاہدے کی اراکین پارلیمنٹ سے منظوری کےلیے جلد کوئی راستہ نکالیں۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے 2018 دسمبر میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے پارلیمنٹ میں رائے شماری کروانی تھی جسے اچانک ملتوی کردیا تھا جو رواں ماہ کے وسط میں کرائی جائے گی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    واضح رہے کہ سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • دوبارہ ریفرنڈم برطانوی عوام کے ’ایمان‘ کو نقصان کو پہنچائے گا، تھریسامے

    دوبارہ ریفرنڈم برطانوی عوام کے ’ایمان‘ کو نقصان کو پہنچائے گا، تھریسامے

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے اراکین پارلیمنٹ کو خبردار کیا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کےلیے دوبارہ ریفرنڈم ’برطانوی عوام کے ایمان کو نقصان پہنچائے گا‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ریفرنڈم کے ذریعے 2019 مارچ میں یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹوبی بلیئر کی جانب زور دیا جارہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کےلیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق تھریسامے نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے پر 11 دسمبر کو پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کی جانے تھی جسے برطانوی وزیراعطم تھریسامے نے ملتوی کردیا تھا، برطانوی وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ معاہدے بڑے پیمانے پر مسترد کردیا جاتا۔

    مزید پڑھیں : ٹونی بلیئر دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے بریگزٹ کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں، تھریسامے کا الزام

    یاد رہے کہ گذشتہ روز برطانوی وزیر اعظم ھریسامے نے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر الزام عائد کیا تھا کہ ٹونی بلیئر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرکے معاہدے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا کہ ٹونی بلیئر کے ردعمل نے اس آفس کی توہین کی ہے جس میں وہ بحیثیت وزیر اعظم کام کرتے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ بھی بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ ریفرنڈم کروا کر اپنی ذمہ داروں سے بری از ذمہ نہیں ہوسکتے۔

    دوسری جانب سابق برطانوی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کے پاس دوبارہ ووٹنگ کے علاوہ کوئی دوسرا اختیار نہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    خیال رہے کہ گذشتہ شب برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تحت ہونے والی ووٹنگ میں تھریسامے نے 200 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ پڑے تھے جس کے باعث تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

  • تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کےلیے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر بریگزٹ معاہدے کے حوالے سے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں جہاں وہ یورپی یونین کے سربراہوں سے ملاقات کریں گی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہےکہ برطانوی وزیراعظم آئرلینڈ تنازعے پر یورپین یونین سے قانونی یقین دہانی طلب کررہی ہیں، یاد رہے کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کا یہی بنیادی سبب ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا خیال ہے کہ یورپی یونین بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی نہیں کرے گا لیکن تھریسامے آئرلینڈ کے معاملے پر نظر ثانی کی زیادہ پُر امید ہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    خیال رہے کہ گذشتہ شب برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تحت ہونے والی ووٹنگ میں تھریسامے نے 200 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ پڑے تھے جس کے باعث تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

    مزید پڑھیں : صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے تھے۔

    تھریسامے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    مقامی میڈیا کے مطابق تھریسامے 2022 کے انتخابات میں کنزویٹو پارٹی کی قیادت نہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

    واضح رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • برطانوی وزیراعظم نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا

    برطانوی وزیراعظم نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا

    لندن: بریگزٹ ڈیل کے لیے کشمکش میں مبتلا برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق وزیراعظم تھریسامے نے عدم اعتماد پر رائے شماری سے قبل پارٹی اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔

    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کی پارٹی لیڈر شپ کے لیے ووٹنگ کا عمل شروع ہوگیا ہے، کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ، وزیراعطم برقرار رہنے کے لیے 159 ووٹ درکار ہیں۔

    پارٹی کے 187 ایم پیز کا کھلے عام تھریسامے کی حمایت کا اعلان کیا ہے، خفیہ رائے شماری کا عمل برطانوی وقت کے مطابق رات 8 بجے تک جاری رہے گا، رات 9 بجے تک برطانوی وزیراعظم کے مستقبل کا فیصلہ متوقع ہے۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں کنزرویٹو پارٹی نئے لیڈر کا انتخاب کرے گی، لیڈر شپ دوڑ میں سابق میئر لندن بورس جناسن، وزیر داخلہ ساجد جاوید بھی شریک ہیں۔

    اقتدار کی اس دوڑ میں مائیکل گوو، ڈومینک گریو، جریمی ہنٹ بھی فیورٹ قرار دئیے جارہے ہیں۔

    برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں ایک سال تک قیادت چیلنج نہیں ہوسکے گی، تھریسامے اعتماد کی صورت میں نئی لیڈر شپ کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکیں گی، کم ووٹوں کی اکثریت پر بھی روایات کے تحت تھریسامے مستعفی ہونا پسند کریں گی۔

    ادھر کنزرویٹو پارٹی کے رہنما گراہم براڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ بریگزٹ ڈیل پر وزیراعظم کے حامی اراکین نے بھی ہماری حمایت کی ہے ہمیں مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور آج پارلیمنٹ اجلاس میں کسی بھی وقت قرارداد پیش کردی جائے گی۔

    واضح رہے کہ 2016 میں برطانوی عوام نے یورپی یونین نے انخلاء پر ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اس عمل کو 2019 کے ابتدا تک مکمل کرنا تھا۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 11 دسمبر کو پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کی جانے تھی جسے برطانوی وزیراعطم تھریسامے نے ملتوی کردیا ہے، تھریسامے کو ایسے خدشات تھے کہ پارلیمانی اراکین کی اکثریت اس معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دے گی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا ووٹنگ ملتوی کرنے سے قبل اپنے بیان میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیے جانے پر ان کی حکومت ختم اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ایڈوائزر اور وزراء کی جانب سے تھریسامے کو مشورہ دیا گیا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ کو منسوخ کردیا جائے ان میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    بریگزٹ سیکریٹری اسٹیفن بارسلے کا دی میل سے گفتتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس معاہدے کی ناکامی قوم کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کردے گی جہاں بریگزٹ نہیں ہونے کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔

    دوسری جانب آج یورپی عدالت برائے انصاف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ دیگر یورپی ممالک کے اتفاق کے بغیر بھی بریگزٹ معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے، دریں اثناء یورپی کمیشن نے بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی کرنے سے انکار کردیا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے 2016 میں اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد سے برطانیہ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا کررہی ہیں۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دئیے تھے۔