Tag: تھریسا مے

  • ٹرمپ، تھریسا مے ملاقات، برطانیہ میں امریکی صدر کے خلاف مظاہرے

    ٹرمپ، تھریسا مے ملاقات، برطانیہ میں امریکی صدر کے خلاف مظاہرے

    لندن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آج برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے ملاقات ہوئی، دونوں رہنماوں میں تجارت اور  عالمی ماحول کے تحفظ پر گفتگو ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز برطانیہ کے سرکاری دورے پر پہنچنے والے امریکی صدر  اور برطانوی وزیر اعظم نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔

    اس موقع پر امریکی صدر نے بریگزیٹ کے بعد برطانیہ سے مضبوط تجارتی  روابط کے امکانات پر اظہار خیال کیا۔

    تھریسا مے کا کہنا تھا کہ گفتگو میں ان  امور کے ساتھ ساتھ، جن پر دنوں ممالک کا اتفاق ہے، اختلافی امور بھی زیر بحث آئے۔

    ایک جانب جہاں تجزیہ کار  اس دورے کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں، وہیں ٹرمپ کی برطانیہ آمد کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے.

    برطانیہ کے کئی شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہروں کا اہتمام کیا گیا، توقع کی جارہی ہے کہ ٹرافیلگر اسکوائر پر ہونے والے احتجاج میں ہزاروں افراد شرکت کریں گے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ اور لندن کے میئر صادق خان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔

    لندن کے میئر صادق خان نے اپنی ٹویٹس میں برطانوی حکومت پر  تنقید کی تھی کہ اسے صدر ٹرمپ کے لیے ریڈ کارپٹ نہیں بچھانا چاہیے تھا.

    جوابی ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے لندن کے میئر کو ایک شکست خوردہ اور بے حس شخص قرار دیا تھا۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر برطانیہ میں  ہیں، ان کے ہمراہ اہلیہ میلانیا ٹرمپ اور صاحب زادی ایوانکا ٹرمپ بھی موجود ہیں، امریکی صدر کا برطانیہ کا یہ دوسرا دورہ ہے۔

    ٹرمپ کے برطانیہ پہنچنے پر شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ نے مہمانوں کا استقبال کیا بعدازاں صدر ٹرمپ اور ملکہ برطانیہ کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا آغاز رمضان پر خیر سگالی کا تحریری پیغام

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے آغاز رمضان پر مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالم اسلام میں رمضان کے آغاز پر برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں کو خیر سگالی کا تحریری پیغام جاری کیا۔

    وزیر اعظم تھریسامے نے برطانوی مسلمانوں کو برٹش معاشرے کا اہم حصہ قرار دیا، اپنے پیغام میں کہا ’برٹش مسلمان ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔‘

    انھوں نے ماہِ رمضان سے متعلق کہا کہ رمضان صبر، ایثار اور برداشت کا مہینہ ہے، رمضان کے روحانی اثرات مثبت معاشرتی تبدیلیاں لاتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار کو ہوگا

    دریں اثنا، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کو بھی مذکور کیا، کہا کرائسٹ چرچ مسجد اور کولمبو چرچ حملہ آور امن و محبت کے دشمن ہیں۔

    واضح رہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتوار 5 مئی کو ہوگا، مفتی منیب الرحمان اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    26 اپریل کو محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ رمضان کا چاند 30 شعبان یعنی 6 مئی کو نظر آنے کا امکان ہے اور پہلا روزہ 7 مئی بروز منگل ہوگا۔

  • بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    بریگزٹ ڈیل: تھریسا مے نے ارکانِ پارلیمنٹ سے تعاون کی اپیل کردی

    لندن :برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے قانون سازوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بریگزٹ ڈیل پر کسی سمجھوتے پر متفق ہونے میں تعاون کریں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مشکل مذاکراتی عمل کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر یورپی رہنماوں سے مہلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں ہیں جس کے بعد انہیں امید ہےکہ برطانوی پارلیمنٹ اس معاملے میں منطقی انجام تک پہنچ سکے گی ۔

    برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ کے التویٰ میں کامیابی کے بعد اب فوری طور پر نو ڈیل بریگزٹ کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ اب برسلز نے لندن کو بریگزٹ کے لیے اکتیس اکتوبر کی تاریخ دی ہے۔ اس طرح اب برطانیہ مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لے سکے گا۔

    گزشتہ روز برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء سے کی تاریخ میں توسیع کےلیے برسلز میں مسلسل 5 گھنٹے تک یورپی سربراہوں کا اجلاس جاری رہا،اس موقع پر یورپی یونین کےسربراہ ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ ’میرا پیغام برطانوی دوستوں کیلئے ہے کہ برائے مہربانی اس بار وقت ضائع مت کیجیئے گا‘۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹسک کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے یا بریگزٹ اور آرٹیکل پچاس کو ایک ساتھ منسوخ کردے۔

    اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا تھا کہ برطانیہ کا ابھی بھی مقصد جلد از جلد یورپی یونین سے انخلاء ہے۔اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ،یورپی یونین سے انخلاء کی تاریخ میں 03 جون تک توسیع چاہتا ہے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے بریگزٹ کےلیے معاہدے کے تیار کردہ مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ تین مرتبہ مسترد کرچکے ہیں، مذکورہ معاہدے پر یورپی یونین اور برطانوی وزیر اعظم کے درمیان نومبر 2018 میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن اسے پارلیمنٹ سے منظوری نہیں مل سکی جس کے سبب اس معاملے میں تعطل پیدا ہوا۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 2016 کے ریفرنڈم کے مطابق 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا تاہم ہاؤس آف کامنز کی جانب سے متعدد مرتبہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے باعث بریگزٹ میں 12 اپریل توسیع کی گئی تھی۔

  • بریگزٹ: برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کیا چاہتے ہیں؟

    بریگزٹ: برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کیا چاہتے ہیں؟

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران نے یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا سے متعلق آٹھ مختلف تجاویز مسترد کردیں، اس سے قبل تھریسا مے  کا تجویز کردہ بریگزٹ مسودہ کئی بار مسترد کیا جاچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے بریگزٹ امور کا اختیار چھین لینے کے بعد برطانوی پارلیمنٹ اپنے طور پر یہ مرحلہ کرنے کے لیے کوشاں ہے، اسی سلسلے میں بریگزٹ پر دوسرے ریفرنڈم سے لے کر یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے نکلنے کی تجاویز شامل تھیں۔

    اس سلسلے میں ووٹنگ کی ایک سیریز تیار کی گئی تھی جس کا عنوان نشاندہی ووٹ رکھا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ جانا جائے کہ ممبران پارلیمنٹ بریگزٹ ڈیڈ لاک کے معاملے پر کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں چاہتے۔ اس ووٹنگ کا انعقاد کئی گھنٹوں سے جاری بحث و مباحثے کے بعد ہوا۔

    غیر متوقع طور پر ممبران پارلیمنٹ نے ووٹنگ کے لیے لابیوں کا رخ کرنے کا طریقہ کار اپنانے کے بجائے پرنٹ شدہ ووٹنگ کو ترجیح دی جس کے بعد دارالعوام کے اسپیکر جون بیر کاؤ نے نتائج کا اعلان کیا، جن میں نمائندگان نے مندرجہ ذیل تجاویز کو مسترد کردیا۔

    یورپی یونین سے 12 اپریل کو بغیر کسی ڈیل کے انخلا کیا جائے۔
    اگر 12 اپریل تک کوئی معاہدہ نہ ہو تو یک طرفہ طور پر یورپی یونین سےنکلنے کا منصوبہ ترک کردیا جائے۔
    یورپی یونین سے نکلنے کے لیے کسی ڈیل پر ریفرنڈم کرایا جائے۔
    یورپی یونین سے نکلا جائے لیکن یورپی یونین کے 27 ممالک کے ساتھ کسٹم یونین میں رہا جائے۔
    یورپی یونین کو چھوڑا جائے لیکن یورپی اکانومک ایریا میں رہا جائے اور یورپی فری ٹریڈ ایسو سی ایشن میں دوبارہ شمولیت اختیار کی جائے۔
    انخلا کے معاہدے پر لیبر پارٹی کے نقطہ نثر سے تبدیلی لانے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
    یورپی یونین کی اس پیشکش سے اتفاق کیا جائے کہ دو سال تک برطانوی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک مکمل رسائی حاصل رہے گی۔

    اس رائے شماری میں تھریسا مے کی کنزرویٹو پارٹی نے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو اجازت دی تھی کہ وہ جو بہتر سمجھیں اس کے لیےووٹ دیں، ماسوائے چند سینئر وزراء کے جن سے امید تھی کہ وہ رائے دہی سے الگ تھلگ رہیں گے۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل کی تاریخ میں تبدیلی کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی، قرارداد 105 کے مقابلے میں 441 ووٹوں سے منظور ہوئی۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ کی تاریخ میں تبدیلی کی قرارداد منظور ہوگئی البتہ بریگزٹ ڈیل کی تاریخ مقرر ہونا باقی ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بریگزٹ کی تاریخ میں 12 اپریل یا 22 مئی تک توسیع دی جائے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز بریگزٹ پر تھریسامے کی حکومت کو ایک اور ناکامی سامنا کرنا پڑا تھا، برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے بریگزٹ کا اختیار وزیراعظم تھریسامے سے چھین لیا، پیش کیے جانے والے قرار داد کے حق میں 320 کے مقابلے میں 329 ووٹ پڑے۔

    بعد ازاں تھریسامے حکومت کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے آپشنز پر ترجیحات طے کرنے کا اختیار حاصل کرکے ارکان نے مستقبل کے لیے خطرناک مثال قائم کردی ہے۔

    بریگزٹ ڈیل میں ناکامی، برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے مستعفی ہونے کا عندیہ دے دیا

    دوسری جانب بریگزٹ ڈیل میں پارلیمنٹ سے ناکامی کے بعد برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے مستعفی ہونے کا عندیہ دے دیا تھا۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کنزرویٹو پالیمنٹری گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بریگزٹ پر ہونے والے آئندہ مذاکرات میں حصہ بھی نہیں لوں گی۔

  • برطانوی وزیراعظم کا خط، یورپی یونین بریگزٹ میں تاخیر کے لیے راضی

    برطانوی وزیراعظم کا خط، یورپی یونین بریگزٹ میں تاخیر کے لیے راضی

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے بریگزٹ ڈیل میں تاخیر سے متعلق خط پر یورپی یونین نے رضامندی ظاہر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسامے نے یورپی یونین کو لکھے گئے خط میں درخواست کی تھی کہ بریگزٹ ڈیل کی ڈیڈ لائن میں توسیع دی جائے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین 22 مئی تک بریگزٹ میں تاخیر پر رضامند ہوگیا ہے، یو ای کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ سے ڈیل کی منظوری پر بریگزٹ 22 مئی تک ملتوی کریں گے۔

    یورپی یونین کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہنا تھا کہ ڈیل کی عدم منظوری پر 12 اپریل کو بریگزٹ پر عمل درآمد ہوگا۔

    برطانوی وزیراعظم نے یورپی یونین کے آرٹیکل پچاس کے تحت اس بلاک سے اپنے اخراج کی طے شدہ مدت میں تیس جون تک کی توسیع کی درخواست کی تھی۔

    دوسری جانب بریگزٹ پر نوڈیل کی صورت میں حالات سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ سطحی اقدامات شروع کردیے گئے ہیں، نوڈیل پر امورمملکت ایمرجنسی کمیٹی”کوبرا”کو منتقل ہوں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق متاثرہ محکموں میں 3500ریزروجوان تعینات کر دیے جائیں گے، ایمرجنسی کی صورت میں ریزروملٹری فورس استعمال ہوگی۔

    خیال رہے کہ دوہزار سولہ میں برطانیہ میں ہونے والے ایک عوامی ریفرنڈم میں عوام نے 48 فیصد کے مقابلے میں 52 فیصد کی اکثریت سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے۔

    بریگزٹ ڈیل: تھریسامے کی یورپی یونین سے ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست

    بعد ازاں لندن حکومت نے یونین کے معاہدے کے آرٹیکل پچاس کو استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ لندن اس سال انتیس مارچ تک یونین سے نکل جائے گا۔تاہم اب اس ڈیڈ لائن میں بھی توسیع کی درخواست کردی گئی۔

  • بریگزٹ معاہدے میں پیش رفت؟ وقت بہت کم ہے

    بریگزٹ معاہدے میں پیش رفت؟ وقت بہت کم ہے

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ یورپین یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے میں تبدیلی کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے لیکن وقت بہت کم ہے ۔

    تفصیلات کے مطاب برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے برسلز میں یورپی یونین کے سربراہ جین کلاؤ ڈ جنکر سے ملاقات کی تھی ، جس کے بعد ا ن کا کہنا تھا کہ معاہدے میں ایسی تبدیلی لانے کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے جس پر ممبرانِ پارلیمنٹ راضی ہوجائیں۔

    برسلز میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے آئرش بارڈر کے معاملے میں قانونی گارنٹی سے متعلق امور پر گفتگو کی۔ یاد رہے کہ بریگزٹ معاہدے کے تحت برطانیہ اور یورپی یونین نے 2020 تک معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کرنا ہے ، دونوں فریق ہی شمالی آئرلینڈ اور جمہوری آئرلینڈ کے درمیان ایک سخت روایتی سرحد کے قیام کے قائل نہیں ہیں۔

    بریگزٹ کے منفی اثرات سے برطانیہ کی فلائی بی ایم آئی ایئرلائن بندش کا شکار

    اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ معمولی لیکن کچھ اہم تبدیلیاں ایم پیز کو اس بات پر قائل کرسکتی ہیں کہ آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے پر برطانیہ کسٹم یونین کا شکار نہیں ہوگا۔

    دوسری جانب وزیر داخلہ ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں بغیر کسی معاہدے کے یورپین یونین سے انخلا کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

    دوسری جانب تھریسا مے کا کہنا ہے کہ انہوں نے یورپین یونین پر واضح کردیا ہے کہ برطانیہ کے ممبرانِ پارلیمنٹ اسی صورت بریگزٹ معاہدے کی توثیق کریں گے جب معاہدے میں قانونی معاہدے کے مساوی گارنٹی شامل کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    دریں اثنا ء کچھ روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے نکلنے کےلیے بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کیا تو 29 مارچ کو برطانیہ، یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے ہی نکلنے پر مجبور ہوگا۔

  • بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    لندن: برطانیہ کی ڈپلومیٹک یونینسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل سے یورپی یونین ، برطانیہ کو سزا دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ سے متعلق ڈی یو پی کے ترجمان اور بریگزٹ کے کٹر حامی سیمی ولسن نے خبردار کیا ہے کہ یورپین یونین برطانوی عوام کے جمہوری فیصلے کا احترام نہیں کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ برطانوی عوام اب محسوس کررہے ہیں کہ یورپی یونین برطانیہ کے منتخب نمائندوں کی رائے کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپی یونین نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ نہ ہماری وزیراعظم کی عزت کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے اداروں کی، نہ ان کی نظر میں ہمارے جمہوری فیصلوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی ہمارے عوام کی جنہوں نے ایک جمہوری عمل سے یہ فیصلہ لیا ہے‘‘۔

    انہوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں کسی دوستانہ معاہدے پر پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    سیمی ولسن نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے خواہش ظاہر کی جارہی ہے کہ وہ ہمیں بطور پارٹنر رکھنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن یہ ڈیل ظاہر کررہی ہے کہ وہ ہمیں یورپین یونین سے علیحدگی کی سزا دیناچاہتے ہیں اور اس معاہدے سے انہیں ایسا کرنے میں آسانی رہے گی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ ڈیل پر ممبران ِ پارلیمنٹ کے اعتراض کے بعد برسلز کا دورہ کیا تھااور یورپی یونین سے آئرش تنازعے کے مجوزہ حل پر قانونی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام رہی تھی۔

    یورپی یونین کی جانب سے واضح کردیا گیا تھا کہ اب اس معاہدے کی کسی بھی شق پر مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے اور برطانیہ کو من و عن اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یادر ہے کہ آئندہ سال مارچ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا طے شدہ ہے، جس کے لیے برطانوی عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپی حکمرانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، ملاقاتوں کا مقصد معاہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت اکھٹی کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپ سے مزید یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے یورپی سربراہوں سے ملاقات کے سلسلے میں پہلی ملاقات ڈچ وزیراعظم مارک روٹ اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے کی ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم نے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بریگزٹ ڈیل پر ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی ووٹنگ ملتوی ہونے کے بعد کیا ۔ ان ملاقاتوں کو مقصد شمالی آئرلینڈ کے بارڈر تنازعے کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ بہت اچھا تھا لیکن وہ معاہدے سے متعلق یورپی یونین سے دوبارہ بات کر کے معاہدے کو مزید مؤثر بنانے کی کوشش کریں گی۔ وہ اس سلسلے میں لیگل گارنٹی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ شمالی آئرلینڈ بارڈر تنازعے پر برطانیہ کو پھنسایا نہیں جائے گا۔

    دوسری جانب بریگزٹ پر ووٹنگ ملتوی ہونے پر یورپی یونین کے صدر جین کلاؤڈ جنکر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل پر اب برطانیہ سے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور معاہدے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، تاہم معاہدے کی شقوں کی مزید وضاحت کی جاسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے عوام نے ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ایک طویل پراسس کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاہم برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو اس معاہدے پر ہاؤس آف کامنز کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کاشکار ہیں۔یورپی یونین سے برطانیہ کا باقاعدہ اخراج آئندہ برس 19 مارچ کو ہونا طے ہے۔

  • برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    لندن : برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف شدید احتجاج کیا، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ رواں برس کے اختتام پر یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، برطانیہ اور یورپی یونین حکام کے درمیان بریگزٹ معاہدے کی منظوری ہوچکی ہے اور اب برطانوی پارلیمنٹ نے بل منظور کرنا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج کرنے والے برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم کے بریگزٹ پلان کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے معاہدے کا مسودہ کل اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدہ مسترد کیے جانے کا امکان ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی کابینہ کے ارکان بھی بریگزٹ معاہدے کے مسودے کے خلاف ہیں کئی وزراء معاہدے کی مخالفت میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ لیگل ایڈوائس: تھریسا مےکے لیے نیا محاذ کھل گیا

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نےممبرانِ پارلیمنٹ سے معاہدے کی قانونی پوزیشن کی سمری دکھانے کا وعدہ کیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں ایڈوائس تک مکمل رسائی چاہتی ہیں۔ کچھ ممبران کا خیال ہے کہ شمالی آئرلینڈ کے معاملے پر پیدا ہونے والا تعطل حتمی شکل اختیار کرلے گا۔

    دوسری جانب مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سترہ ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا میں شائع کردہ ایک لیٹر کے ذریعے ایوان سے مطالبہ کیا ہے کہ جلداز جلد ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ‘ برطانوی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوگی

    خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔