Tag: تھری ڈی پرنٹ

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ نوڈلز

    تھری ڈی پرنٹ شدہ نوڈلز

    تھری ڈی پرنٹنگ نے بہت سے کاموں کو آسان کردیا ہے، اس نے نہ صرف انسانی محنت کو کم کیا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی ایک نئی جہت بھی متعارف کروائی ہے۔

    تاہم اٹلی میں اس پرنٹنگ سے ایک نہایت دلچسپ کام لیا گیا اور تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مختلف اقسام کا پاستا تیار کیا گیا۔

    اٹلی کی فوڈ کمپنی بریلا نے ایک انوکھا مقابلہ منعقد کیا جس میں شرکا کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مختلف ڈیزائنز کا پاستا تیار کرنے کو کہا گیا۔

    اس مقابلے کے فاتح وہ ٹہرے جنہوں نے پاستا کو پھول، چاند اور کرسمس ٹری کی شکل میں تیار کر کے پیش کیا۔

    اس تھری ڈی پرنٹر نے پرنٹنگ کے لیے میدے کا ڈو اور پانی استعمال کیا، پرنٹنگ کی بدولت پاستا کو ان ڈیزائنز میں پیش کیا گیا جو اس سے قبل ہاتھ یا عام مشین سے بنائے گئے پاستا میں پیش کرنا مشکل تھا۔

    مختلف ڈیزائنز کے ان پاستا کی وجہ نوڈلز میں بھی نئی جہت پیدا ہوگئی اور یہ بچوں اور بڑوں کے مزید پسندیدہ بن گئے۔

    کیا آپ یہ پاستا کھانا چاہیں گے؟

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    شہد کی مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں، اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ شہد کی مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتی ہیں۔

    اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں اور ہمیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں ان مکھیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے ماہرین کو تشوش میں مبتلا کردیا ہے۔

    اسی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نیدر لینڈز کی ایک طالبہ نے تھری ڈی پرنٹ شدہ پھولوں کو شہروں کے اندر اصل پھولوں کے ساتھ اور درختوں پر نصب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

    یہ پھول بارش کے پانی کو جمع کرتے ہیں اور اپنے اندر پہلے سے موجود چینی کے ساتھ اسے مکس کر کے مکھیوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ مکھیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں ایمرجنسی فوڈ فلاورز کا نام دیے جانے والے ان پھولوں میں موجود چینی، ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    ایسی ہی ایک تجویز کچھ عرصہ قبل معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے بھی دی تھی جب انہوں نے کہا کہ گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر ان مکھیوں کے لیے رکھ دی جائے، تاہم بعد ازاں ان کی یہ فیس بک پوسٹ جعلی ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے۔

  • تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی دل تیار

    تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی دل تیار

    تھری ڈی پرنٹنگ ہر سائنسی شعبے میں انقلاب لانے والی ٹیکنالوجی ہے جسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اب محققین نے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے ایسا پہلا دل تیار کر لیا ہے جس کے لیے انسانی جسم کی بافتوں کو استعمال کیا گیا ہے۔

    اپنی نوعیت کا یہ منفرد تجربہ اسرائیلی ماہرین نے کیا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے دل کی تیاری انسانوں میں دوران خون کے امرض کے خلاف جنگ میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔

    ماہرین کے مطابق یہ دل ان طبی خطرات اور پیچیدگیوں کو بھی کم کر سکے گا جو کسی مریض کے جسم میں کسی دوسرے انسان کے دل کی پیوند کاری سے جنم لیتے ہیں۔

    خرگوش کے دل کے جتنا یہ دل پہلی بار پوری کامیابی کے ساتھ خلیوں، رگوں اور دل کا خون وصول کرنے والے خانے ’وینٹریکل‘ سے بنایا گیا ہے۔ ماضی میں دل کی تھری ڈی ساخت بنائی گئی تھی مگریہ خلیوں یا خون کی رگوں کے ساتھ نہیں بنایا گیا تھا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں دنیا کے بہترین اسپتالوں میں اعضا کے پرنٹرز دستیاب ہوں گے اور یہ معمول کے طریقہ کار کے مطابق ٹرانسپلانٹ کیے جائیں گے۔

  • 3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں دنیا کی سب سے بڑی 3 ڈی پرنٹ شدہ مونگے کی چٹانوں یعنی کورل ریفس کی سمندر میں اصل چٹانوں کے ساتھ پیوند کاری کیے جانے کے بعد، اب ان کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

    مونگے کی یہ چٹانیں کمپیوٹر پر ڈیزائن کی گئی ہیں جس کے بعد انہیں تھری ڈی پرنٹ کیا گیا اور اس کے لیے چکنی مٹی استعمال کی گئی۔ پرنٹ کرنے کے بعد انہیں گزشتہ برس سمندر میں مونگے کی چٹانوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔

    دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے کی یہ چٹانیں بے شمار آبی حیات کا مسکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان چٹانوں کے رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہی رنگ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    تاہم اب یہ چٹانیں تیزی سے اپنی رنگت کھو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    مالدیپ میں تھری ڈی پرنٹ سے تیار کی جانے والی مونگے کی چٹانیں دراصل ان چٹانوں کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ تھری ڈی پرنٹ شدہ یہ ڈھانچہ ان چٹانوں کی افزائش میں مدد کر رہا ہے۔

    اسی طرح مختلف آبی حیات نے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مصنوعی ڈھانچے کو قبول کرلیا ہے اور اس میں اپنا گھر بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد اس ڈھانچے میں نباتات کی افزائش بھی شروع ہوگئی ہے۔

    ماہرین کی جانب سے کورل ٹرانسپلانٹ کا نام دیے جانے والا یہ عمل نہ صرف سمندر میں ان جگہوں پر کیا جارہا ہے جہاں پہلے سے یہ چٹانیں موجود ہیں بلکہ ان مقامات پر بھی انہیں نصب کیا جارہا ہے جہاں یہ چٹانیں سرے سے موجود ہی نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی چٹانیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بھی مطابقت کرسکتی ہیں کیونکہ قدرتی چٹانوں کی طرح یہ حساس نہیں ہیں۔ دراصل ان چٹانوں کا مقصد تباہ ہوتی پرانی چٹانوں کو سہارا دے کر انہیں بحال کرنا اور ان کی افزائش کرنا ہے۔

  • اپنا تھری ڈی ہمزاد تیار کریں

    اپنا تھری ڈی ہمزاد تیار کریں

    آپ نے فلموں میں ننھے منے کرداروں کو تو ضرور دیکھا ہوگا جو حرکت کرتے ہیں، چلتے پھرتے، اور گاتے ناچتے نظر آتے ہیں۔ یہ ننھے ننھے سے انسان دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتے ہیں۔

    لیکن اب دعا دیجیئے سائنس کو کہ اس کی بدولت آپ خود اپنا بھی ایسا ہی ننھا سا کردار تیار کرسکتے ہیں۔

    11

    12

    پولینڈ سے تعلق رکھنے والے دو سائنسی تخلیق کار بھائیوں نے اس پر کام شروع کیا کہ کس طرح کوئی شخص بالکل اپنے جیسا ننھا سا کردار تخلیق کرسکتا ہے۔

    13

    14

    کئی مہینوں تک تجربے کرنے کے بعد وہ بالآخر کسی انسان کی ہو بہو ننھی سی نقل تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن یہ بے رنگ تھی، یعنی صرف سفید اور سیاہ رنگ کی۔

    اس کے بعد انہوں نے مزید اس پر کام کیا اور بالآخر وہ کسی انسان کی تھری ڈی نقل تیار کرنے میں کامیاب رہے۔

    15

    16

    اس نقل اور اصل انسان میں فرق صرف اتنا تھا کہ یہ جسامت میں اپنے اصل سے چھوٹا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی جسمانی ساخت، چہرہ، ہاتھ پاؤں وغیرہ بالکل اپنے اصل جیسے ہی تھے۔

    17

    19

    انسان سے مشابہت رکھنے والے اس تھری ڈی مجسمے کی تیاری کے لیے مطلوبہ شخص کی اسکیننگ کی جاتی ہے جس کے لیے نہایت جدید کیمرے اور اسکینرز استعمال کیے جاتے ہیں۔

    Who’s this handsome gentleman in my office today? #bodyscan #bodyscanning #my3Dtwin #3dprintinglondon

    A video posted by Levavo Limited (@my3dtwin) on

    یہی نہیں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے ’ہمزاد‘ کی جسامت کتنی رکھوانا چاہتے ہیں۔ آپ مختلف جسامت کے بہت سارے ہمزاد بھی تیار کروا سکتے ہیں۔