کراچی کے نجی اسپتال میں طب کی جدید ٹیکنالوجی تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے ہڈیوں کی پیوند کاری کا شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔
اب ٹوٹ جانے والی انسانی ہڈیوں کی جگہ مریض کی مخصوص ہڈی کی ساخت اور ضرورت کے مطابق پیوند کاری کی جاسکے گی۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں نیورو سرجن ڈاکٹر شہزاد شمیم نے تھری ڈی امپلانٹس سرجری سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ امپلانٹ ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جو قدرتی طور پر جسم کا حصہ نہیں ہوتی، لیکن اسے خاص طور پر تیار کرکے جسم میں لگایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امپلانٹ کا استعمال عام طور پر مختلف ہڈیوں کے ٹوٹنے یا نقصان کی صورت میں کیا جاتا ہے، جیسے گھٹنے یا کولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے کی صورت میں۔
کسٹمائزڈ امپلانٹ پہلے سے تیار شدہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں مریض کی مخصوص ہڈی کی ساخت اور ضرورت کے مطابق ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد شمیم نے بتایا کہ دیگر مٹیریل کے امپلانٹس چند سالوں میں سکڑ جاتے ہیں اور وزن بھی رکھتے ہیں، جبکہ پیک امپلانٹ اس سے مختلف ہے۔ پیک ایک مضبوط اور بائیو کمپیٹبل مٹیریل ہے جو انسانی جسم کی ہڈی کی طرح سخت ہوتا ہے اور اس کا وزن بھی کم ہوتا ہے۔
ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں دنیا کی پہلی ایسی مسجد تعمیر کی جارہی ہے جو مکمل طور پر تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار ہوگی۔
اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں اسلامی و فلاحی امور کے ادارے نے تھری ڈی پرنٹڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کی پہلی مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مسجد سنہ 2025 میں مکمل ہوگی جس میں 600 نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ اس کی تعمیر کا کام صرف 3 افراد کر رہے ہیں۔
فلاحی و اسلامی امور کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر حمد الشیبانی کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کی پہلی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ نائب صدر شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کے تصور کا نتیجہ ہے۔
شیخ محمد بن راشد آل مکتوم ریاست دبئی کو زندگی کے ہر شعبے میں آگے دیکھنے کے آرزو مند ہیں، ان کی خواہش ہے کہ دبئی بین الاقوامی مسابقت کے انڈیکس میں سرفہرست رہے۔
دبئی میں امور مساجد شعبے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد الفلاسی کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی والی مسجد کا منصوبہ ادارے کی ورکنگ ٹیم کی کوششوں کا پہلا ثمر ہے۔
ادارے میں شعبہ انجینیئرنگ کے سربراہ علی الحلبان السویدی کا کہنا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے مسجد کی تعمیر کا کام صرف تین افراد کررہے ہیں، ایک اور پرنٹر کے اضافے کی صورت میں ان کی تعداد 6 تک پہنچ جائے گی۔
مسجد کی تعمیر کا آغاز اکتوبر 2030 میں ہوگا اور 2025 کی پہلی سہ ماہی میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوگی۔
حکام کے مطابق مسجد کی تعمیر کی لاگت روایتی مساجد کی لاگت سے تقریباً 30 فیصد زیادہ ہے، یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے جیسے جیسے تجربات کیے جائیں گے لاگت بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔
مصنوعی اعضا کی پیوند کاری کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ ایک نہایت مہنگا عمل ہے جس کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا کا بیش قیمت ہونا ہے۔
تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس میدان میں بھی نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں اور اس عمل کی لاگت اور اس کی تیاری کا وقت کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایسی ہی ایک کوشش برازیل میں کی گئی جہاں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ایک خاتون کے نصف چہرے پر پیوند کاری کی گئی۔
53 سالہ ڈینس وسنٹن نامی یہ خاتون کینسر کے باعث اپنی ایک آنکھ کھو چکی تھیں جبکہ ان کے چہرے کا کچھ حصہ بھی بگڑ چکا تھا، تاہم ڈیجیٹلی طور پر تیار کیے گئے مصنوعی اعضا کی بدولت انہیں نئی زندگی مل گئی۔
برازیل کی پولیسٹا یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے سیلیکون کے اعضا بنائے جن پر ڈیجیٹلی طور پر چہرے کے تاثرات بھی شامل کیے گئے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور اس میں روایتی پیوند کاری کے برعکس نصف لاگت اور وقت خرچ ہوا۔ محققین کے مطابق مصنوعی اعضا تیار کرنے میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ اب تک ہاتھ سے مصنوعی اعضا تیار کیے جاتے رہے ہیں، اس میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے جبکہ اس کی لاگت بھی کئی گنا زائد ہے۔
اب مذکورہ پیوند کاری سہ جہتی تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے عمل میں لائی گئی اور اس کے لیے صرف اسمارٹ فون سے کھینچی گئی تصاویر کی مدد لی گئی۔
یہ تکنیک دندان سازی میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہے اور اسے پہلی بار سر اور گردن کی سرجری کے لیے استعمال کیا گیا۔ سنہ 2015 سے اب تک اس نوعیت کی پیوند کاری سے 50 افراد فیضیاب ہوچکے ہیں۔
پیوند کاری کیسے کی گئی؟
وسنٹن کی سرجری کا عمل سنہ 2018 سے شروع ہوا۔ سب سے پہلے ان کی آنکھوں کے حلقوں میں ٹائٹینیم کی سلاخیں ڈالی گئی جو مصنوعی پیوند کو سہارا دے سکیں۔
اس کے بعد ایک سال کے اندر ان کی متعدد سرجریاں کی گئیں جس میں ان کے چہرے کے ٹشوز پر کام کیا گیا۔ محققین نے خاتون کے چہرے کی مختلف تصاویر لیں جس کی مدد سے سہ جہتی ماڈل بنایا جا سکا۔
ایک گرافک ڈیزائنر کی مدد سے ان کے نصف صحت مند چہرے کی تصویر تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد اسی تصویر کو سلیکون اور سنتھٹک فائبر پر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔
اس پیوند کو اصل کی طرح دکھانے لیے اس کا رنگ وسنٹن کی جلد کی طرح رکھا گیا جبکہ آنکھ کو بھی سبز رنگ کا بنایا گیا۔
پیوند کی تیاری کے حتمی مرحلے میں 12 گھنٹے لگے، اور یہ دیگر طریقوں سے تیار کیے جانے والے اعضا کی تیاری کا نصف وقت ہے، البتہ پیوند کاری کا عمل مکمل ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔
یہ چھوٹا سا پیوند وسنٹن کے چہرے پر فٹ بیٹھ گیا، اس پر لگے ننھے مقناطیسی ٹکڑے آنکھ کے حلقوں میں موجود ٹائٹینیم کی سلاخوں سے چپک گئے اور یوں یہ پیوند مکمل طور پر چہرے کا حصہ بن گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر مصنوعی اعضا کی تبدیلی میں 5 لاکھ ڈالرز خرچ ہوسکتے ہیں، تاہم یہ عمل لاگت میں بے حد کم ہے اور اس کے لیے صرف کمپیوٹر اور اسمارٹ فون درکار ہے۔
تھری ڈی پرنٹنگ نے بہت سے کاموں کو آسان کردیا ہے، اس نے نہ صرف انسانی محنت کو کم کیا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی ایک نئی جہت بھی متعارف کروائی ہے۔
تاہم اٹلی میں اس پرنٹنگ سے ایک نہایت دلچسپ کام لیا گیا اور تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مختلف اقسام کا پاستا تیار کیا گیا۔
اٹلی کی فوڈ کمپنی بریلا نے ایک انوکھا مقابلہ منعقد کیا جس میں شرکا کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مختلف ڈیزائنز کا پاستا تیار کرنے کو کہا گیا۔
اس مقابلے کے فاتح وہ ٹہرے جنہوں نے پاستا کو پھول، چاند اور کرسمس ٹری کی شکل میں تیار کر کے پیش کیا۔
اس تھری ڈی پرنٹر نے پرنٹنگ کے لیے میدے کا ڈو اور پانی استعمال کیا، پرنٹنگ کی بدولت پاستا کو ان ڈیزائنز میں پیش کیا گیا جو اس سے قبل ہاتھ یا عام مشین سے بنائے گئے پاستا میں پیش کرنا مشکل تھا۔
مختلف ڈیزائنز کے ان پاستا کی وجہ نوڈلز میں بھی نئی جہت پیدا ہوگئی اور یہ بچوں اور بڑوں کے مزید پسندیدہ بن گئے۔
آپ نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بے شمار اشیا کی پرنٹنگ ہوتے دیکھی ہوگی، تاہم حال ہی میں یورپی ملک نیدر لینڈز میں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے کنکریٹ کا پل تیار کرلیا گیا ہے جو دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹڈ پل ہے۔
ڈچ حکام کا کہنا ہے کہ یہ پل فی الحال صرف سائیکل سواروں کے لیے ہے۔
پل کو بنانے والے ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پل کی ’پرنٹنگ‘ میں 3 ماہ کا عرصہ لگا ہے۔ اس میں مختلف اجزا کی 800 تہیں شامل ہیں جبکہ پرنٹنگ کے بعد بھی اس کی مضبوطی پر کام کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے ایک عام پل بنانے کے مقابلے میں تھری ڈی پل پرنٹ کرتے ہوئے کنکریٹ کا استعمال کم ہوتا ہے۔
ندی کے اوپر بنایا جانے والا 26 فٹ طویل یہ پل تکمیل کے بعد ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد علم ہوا کہ یہ 2 ٹن کا وزن اٹھا سکتا ہے اور اس پر سے 40 ٹرک روز گزر سکتے ہیں، تاہم حفاظت کے پیش نظر اسے فی الحال صرف سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ایک تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار شدہ پل نصب کیا گیا تھا تاہم وہ صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا میں داعش کے ہاتھوں تباہ شدہ مجسموں کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعہ ان کی اصل حالت میں تقریباً واپس لے آیا گیا۔
گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔
داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔
یہاں سے ملنے والے مسخ شدہ مجسموں کو مختلف ممالک میں بھیجا گیا جہاں ان کی بحالی و مرمت کا کام جاری ہے۔
ایسے ہی کچھ مجسموں کو روم میں تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے کسی حد تک ان کی اصل حالت میں واپس لایا جا چکا ہے۔
داعش کے جنگجوؤں نے ان مجسموں کے چہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور ان پر بھاری اوزاروں سے ضربیں لگائیں تھی۔
روم میں ماہرین نے ان مجسموں کے چہرے کے بچ جانے والے حصوں کی لیزر سے اسکیننگ کی۔ بعد ازاں چہرے کو مکمل کرنے کے لیے ان سے مطابقت رکھتے ہوئے نئے حصے بنائے گئے۔
نئے ٹکڑوں کو مقناطیس کی مدد سے نصب کیا گیا۔
بحالی کے بعد ان مجسموں کو اب کچھ دن بعد واپس شام بھجوا دیا جائے گا جہاں انہیں دمشق کے میوزیم میں رکھا جائے گا۔