Tag: تھر پارکر

  • تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے سب سے بڑے تھر کول پروجیکٹ میں ایک خاتون انجینئر بھی شامل ہیں، تاہم اس انجینیئر کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ تھر سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔

    ابھی تھر کول منصوبے میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں خواتین نے ہیوی ڈمپرز چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہی تھا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی بھی منظر عام پر آگئیں جو تھرکول منصوبے کی تعمیراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: تھری خواتین نے ہیوی ڈمپر چلانا شروع کر دیا

    کرن تھر کی پہلی خاتون انجینئر ہیں جنہوں نے مہران یونیورسٹی سے اپنی انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے تھر کول منصوبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں کیونکہ اس کے لیے انہیں بے شمار ٹیسٹوں سے گزرنا تھا۔ تاہم ایک کے بعد ایک وہ مختلف مرحلوں میں کامیاب ہوتی گئیں اور تھر کول ٹیم کا حصہ بن گئیں۔

    فی الوقت وہ اس منصوبے میں کام کرنے والی واحد خاتون ہیں۔

    کرن کا کہنا تھا کہ جب انہیں ملازمت مل گئی تو ان کے والد نے انہیں اس علاقے میں رہائش کی اجازت دینے کے لیے صاف انکار کردیا جو تھر کول کی ٹیم اور کارکنان کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

    انہوں نے اسے کہا کہ اسے روز سفر کر کے ملازمت پر جانا اور شام میں واپس گھر آنا ہوگا۔

    تاہم کرن وہاں رہ کر کان کنی اور دیگر تمام کاموں کو دیکھنا اور سیکھنا چاہتی تھی۔ بعد ازاں کرن کے والد نے اس جگہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں کا محفوظ ماحول دیکھ کر وہ کرن کو وہاں بھیجنے کے لیے رضا مند ہوگئے۔

    کرن کہتی ہے، ’لڑکیاں صرف استاد نہیں بن سکتیں، وہ مشکل شعبوں میں بھی جا سکتی ہیں اور وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں‘۔

    جب تھر میں خواتین ٹرک ڈرائیورز کو منتخب کیا جارہا تھا تب کرن نے مختلف علاقوں میں جا کر کئی خواتین سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے گھر اور علاقے کی خوشحالی کے لیے اس معاشی عمل کا حصہ بنیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    انہوں نے بتایا، ’لیکن بہت سی خواتین پہلے ہی اس کے لیے پرجوش تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جنہیں کوئی معاشی تنگی نہیں تھی، تاہم وہ باہر نکل کر کام کرنا چاہتی تھیں اور خود کو منوانا چاہتی تھیں‘۔

    کرن کو موسیقی سننا اور کتابیں پڑھنا بے حد پسند ہے، اس کے علاوہ وہ ٹیبل ٹینس کھیلنے کی بھی شوقین ہے۔

    کرن سدھوانی مستقبل میں مزید ایسے کام کرنا چاہتی ہے جس سے اس کے علاقے تھر میں خوشحالی آئے اور وہاں کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    مٹھی: ڈپٹی کمشنر تھرپارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی لگا دی۔

    محکمہ اطلاعات سندھ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے درختوں کو زمین کا حسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو اس حسن کو برباد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    مزید پڑھیں: عامر خان کا تھر کے پیاسوں کی امداد کے لیے میچ

    انہوں نے کہا ہے کہ تھر کے صحرا میں ان درختوں کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ جانوروں کے چارے کا ذریعہ ہیں لہٰذا یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ درختوں کی حفاظت کی جائے۔

    مزید پڑھیں: چنار کا ڈھائی ہزار سال قدیم درخت دریافت

    تھر میں یہ پابندی دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت لگائی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایبٹ آباد میں 200 سال قدیم درخت برفباری کی نذر

    ڈپٹی کمشنر نے ایس ایس پی تھر کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ درختوں کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں اور ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں جو درختوں کی کٹائی میں ملوث پائے جائیں۔

  • تھر پارکر قحط سالی سے موروں کی اموات کا سلسلہ نہ رک سکا

    تھر پارکر قحط سالی سے موروں کی اموات کا سلسلہ نہ رک سکا

    تھرپارکر: تھر میں شدید قحط سالی کے باعث موروں کی اموات کاسلسلہ جاری، رواں سال دو سواگیارہ مور ہلاک ہوئے.

    تفصیلات کے مطابق رواں سال شدید قحط سالی سے دو سواگیارہ مور زندگی کی بازی ہارگئے، انسانی جانوں کےضیاء کے ساتھ ساتھ نایاب نسل کے مور اور پرندے بھی مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں.

    رواں سال دو ماہ کے دوران دوسوسے زائد مور مختلف دیہاتوں واٹو، کھرک، کیر بارو، صندوق، بپو ہار و میں ہلاک ہوئے جبکہ سیکڑوں مور بیمار ہیں.

    محمکہ وائلڈ لائف کی جانب سے تھر کے نایاب نسل کے موروں کی ہلاکت پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، بڑے پیمانے پر بیمار موروں کا علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت علاج کرہے ہیں،

    تھرپارکر کےلوگ موروں کو اپنے بچوں کی طرح پالتےہیں اور موروں کی بیماری پر مایوس ہیں.

    وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے موروں کی ہلاکت اور بیماری کا نوٹس لیتے ہوئےمحکمہ وائلڈلائف کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ ماہر ڈاکٹرز کی ٹیمیں ادویات کےساتھ تھرپارکر روانہ کی جائیں.

  • تھرپارکر: مزید 3 بچےجاں بحق، ہلاکتوں کی تعداد 82 ہوگئی

    تھرپارکر: مزید 3 بچےجاں بحق، ہلاکتوں کی تعداد 82 ہوگئی

    تھر پارکر : سندھ کے علاقے تھرپارکر میں ایک جانب گھروں میں صف ما تم بچھی ہوئی ہے تو دوسری جانب حکمران سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہے ہیں، آج بھی تین ما ؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔

    رواں ماہ جاں بحق بچوں کی تعداد بیاسی تک جا پہنچی۔ تھر میں غذائی قلت کے باعث زندگی سسک رہی ہے۔ تھر کے مختلف علاقوں میں موت کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

    غذائی قلت،علاج کی نامناسب صورتحال اور بوند بوند پانی کی کمی۔۔تھر باسیوں کی مشکلات کم نہ ہوسکیں۔ روزانہ ماؤں کی گو دیں اجڑ رہی ہیں۔

    حکومتی دعوؤں کے برعکس تھر میں بچوں کی اموات کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔ نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی زخموں پر مرہم رکھنے والا۔۔تھر باسی اپنے بچوں کی مستقل لا شیں اٹھا رہے ہیں۔

    تھر کے مختلف علاقو میں بنیادی صحت کے مراکز میں سہولیات کا فقدان ہونے سے بچوں کے والدین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    تھر میں غذائی قلت سےرواں ماہ مجموعی طور پراسی سے زائد بچوں کی اموات پر ارباب اختیار کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔

    سب ٹھیک ہے کا دعویٰ کرنے والے بتائیں کہ ماؤں کی گودیں اجڑنے سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کب ہوں گے؟؟

  • تھرمیں غذائی قلت: مزید پانچ بھوکے بچے موت کا نوالہ بن گئے

    تھرمیں غذائی قلت: مزید پانچ بھوکے بچے موت کا نوالہ بن گئے

    تھر پارکر : مٹھی میں غذائی قلت اوربیماریوں سے لڑتے مزید پانچ بچے زندگی ہارگئے۔ تھر پارکر کے تمام مضافا تی علاقوں میں قائم ہیلتھ سنٹر وزیرِاعلی سندھ کی ہدایت کےباوجود نہ کھل سکے۔

    مٹھی میں بھوک وافلاس کے سائے گہرے ہونے لگے۔ لمحہ بہ لمحہ ریت کی طرح ہاتھوں سےسرکتی زندگی۔ وعدے۔ دعوے ہزاروں ہیں لیکن عملی اقدامات صفر۔  بھوک سے بلکتے اور بیماریوں سے لڑتے بچے زندگی کابوجھ نہیں سہارسکتے۔

    معصوم بچوں کےلاشے اُٹھاتے تھری واسیوں کے کاندھےاب تھک چکے ہیں۔ ماؤں کی اُجڑتی گودیں اپنی بے بسی پرماتم کناں ہیں۔

    وزیرِاعلیٰ سندھ کادس بار دورہ اورکیبنٹ کااجلاس بھی معصوم بچوں کی اموات نہ روک سکا۔ مضافا تی علاقوں میں قائم ہیلتھ سینٹرزبھی وزیراعلی قائم علی شاہ کی ہدایت کے باوجود نہیں کھل سکے۔

    دوسری جانب غذائی قلت اوربیماریوں کےباوجودمٹھی اسپتال سے ایمرجنسی ہٹادی گئی ہے۔ تاہم اے آروائی نیوزکی خبرپرنوٹس لیتے ہوئے پانچ ریلیف جج مٹھی اسپتال پہنچ گئے۔

    حکومت سےمایوس تھری باشندےاپنےمسائل کےحل کی اُمیدلئےروزجیتے ہیں اورروزمرتے ہیں۔

  • تھر پارکر میں سابق صدر نے آر او پلانٹ کا افتتاح کردیا

    تھر پارکر میں سابق صدر نے آر او پلانٹ کا افتتاح کردیا

    مٹھی: تھر پارکر میں سابق صدر آصف علی زراری نے آر او پلانٹ کا افتتاح کردیا ہے۔

    آصف زرداری بذریعہ ہیلی کاپٹر مٹھی پہنچے جہاں انہوں نے تھر پارکر میں کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے والے آر او پلانٹ کا افتتاح کردیا۔

    آر او پلانٹ روزانہ بیس لاکھ گیلن کڑوے پانی کو میٹھا کرے گا، جس کے بعد پینے کا صاف پانی مٹھی اور اسلام کوٹ سمیت متعدد شہروں اور دیہات کے مکینوں کو فراہم کیا جائے گا۔

    پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر سابق صدر کے ہمراہ بختاور بھٹو, شرجیل میمن اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سمیت دیگر وزراء بھی موجود تھے۔

    دوسری جانب مٹھی کےسول اسپتال میں آج بھی تین بچے جان سے گئے، تھر میں رواں سال صرف سات دنوں میں ہی اٹھائیس بچے قحط کا نوالہ بن گئے۔

  • تھر کے مزید چار بچے جان کی بازی ہار گئے

    تھر کے مزید چار بچے جان کی بازی ہار گئے

    تھر پارکر: صحرا میں موت کے گڑے پنجے اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہیں،موت تھر میں مزید چار بچوں کو نگل گئی۔ صحرائے تھر میں موت اور زندگی کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔

    موت کے سائے تاحال تھر واسیوں کے کچے جھونپوڑوں کا رخ کئے ہوئے ہیں۔ مٹھی کے سول اسپتال میں زیر علاج تین بچوں کو موت نے آن دبوچا جبکہ ڈیپلو گاؤں میں بھوک سے بلکتا ایک اور بچہ دم توڑ گیا۔

    سال نو کے آغاز سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد سترہ ہوگئی ہے ۔ تھرواسیوں کی بےقرار آنکھیں کسی مسیحا کی منتظر ہیں ۔ایسے میں ہے کوئی ایسا جو ان کے غموں کا مداوا کرے۔

  • مٹھی میں قحط اور سرد موسم سےمزید3بچے جاں بحق

    مٹھی میں قحط اور سرد موسم سےمزید3بچے جاں بحق

    مٹھی: قحط اور سرد موسم سےمزید تین بچے انتقال کرگئے،نئےسال کے تین دن میں تیرہ بچے جان کی بازی ہارچکےہیں۔

    مٹھی میں موت کا کھیل جاری ہے،سرد موسم میں تھرواسی کھانے کو ایک لقمے اور پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں،ایسے میں ٹھنڈی ہوا نے صحرا میں بیماریوں کو جنم دیا ہے، سردی سے بخار اور نمونیا نے بچوں کو لاغر کردیاہے۔

    مٹھی سے قریبی دیہاتوں کے رہائشی تو کسی نہ کسی طرح سول اسپتال تک اپنے بچوں کو علاج کے لئے لے آتے ہیں مگر دوردراز علاقوں کے رہنے والے بھوک سے بلکتے بچوں کے علاج کے لئے طبی مراکز تک نہیں پہنچ پاتےہیں۔

    اسپتالوں کی خراب حالت زار ، طبی مراکز کی کمی، ایمبولینسوں کی کمی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی ہونے کی وجہ سے تھری واسیوں کی زندگی مشکل سے مشکل ترہوتی جارہی ہے۔

  • مٹھی میں مزید ایک بچہ جاں بحق، تعداد243 ہو گئی

    مٹھی میں مزید ایک بچہ جاں بحق، تعداد243 ہو گئی

    تھر پارکر: تھر کے علاقے مٹھی کے سول اسپتال میں بھوک چار سال کے بچے کو نگل گئی۔ غذائی قلت کے باعث اب تک جاں بحق بچوں کی تعداد دو سو تینتالیس ہو گئی ہے۔

    قحط زدہ تھر میں اموات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ تھر کے علاقے مٹھی کے سول اسپتال میں غذائی قلت کے باعث ایک اور بچہ دم توڑگیا ہے۔ قحط سالی کی شکار پانی کی قلت سے تھر کی چٹختی زمین ہر طلوع ہونیوالی صبح کیساتھ کئی بچوں کو نگل لیتی ہے۔ غذائی قلت کے باعث معصوم کلیاں بن کھلے مرجھا رہی ہیں۔

    حکومتی دعوے اور امداد صرف اعلانات اور فائلوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں میں امدادی گندم کی ترسیل بھی شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اسپتالوں میں ادویات کی کمی کے باعث والدین پریشان ہیں۔

    ادھر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں، جس سے بچے کمزور پیدا ہو رہے ہیں۔ بچوں کی اموات کی بڑی وجہ قبل ازوقت پیدائش اور وزن کم ہوناہے۔

    مٹھی، چھاچھرو، ننگر پارکراور ڈیپلو کے اسپتالوں میں کئی بچے زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں چوالیس بچے، چھاچھرو تحصیل اسپتال میں اکیس سے زائد جبکہ ڈیپلو کے اسپتال میں بھی بارہ بچے زیرعلاج ہیں۔

    سینکڑوں دیہاتوں میں خشک سالی برقرار ہے جبکہ ہزاروں افراد بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ تھر میں رواں سال تین سو سولہ بچوں کی اموات ہوئیں ہیں۔

  • چار تھری بچے جاں بحق:تعداد دو سو تیس تک جا پہنچی

    چار تھری بچے جاں بحق:تعداد دو سو تیس تک جا پہنچی

    تھر پارکر: بھوک اور موسمی بیماریوں کا مقابلے کرنے سے تھر کے رہائشی تا حال قاصرہیں ، مزید چار بچے دم توڑ گئے۔ ہلاکتوں کی تعداد دو سو تیس ہو گئی۔

    بھوک، پیاس ، موسمی بیماریاں اور اب سردی نے مشکلات میں اضافہ کردیا  ۔تھر واسیوں کی زندگی ہر گزرتے دن کےساتھ مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ہر روز افلاس اور بیماری ننھے بچوں کو نگل رہی ہے ۔

    غذائی قلت روزانہ ماؤں کی گود یں اجاڑرہی ہے۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ والدین کی کوئی دہائی حکمرانوں کے کانو ں کو پہنچتی ہی نہیں۔اقدامات صرف دوروں اور زبانی دعوؤں تک محدود ہیں ۔

    آج بھی مٹھی میں مزید چار ننھی کلیاں جان کی بازی ہار گئیں۔ سول اسپتال میں انچاس بچے اب بھی زندگی اورموت کی کشمش میں مبتلاہیں۔ بے بس لوگوں کے لیے صبح زندگی کے بجائے موت کا پیغام لاتی ہے۔