Tag: تھر پارکر

  • غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت اور سردی نے مزید تین بچوں کی جان لے لی ہے۔ یکم اکتوبر سے ابتک مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو چوہتر ہوگئی ہے۔

    غذائی قلت، سرد موسم کی سختی اور حکومتی سرد مہری تھری واسیوں کو توڑ رہی ہے۔ کنووں میں پانی نہیں، زمین پر فصلیں نہیں، بھوک و افلاس کا شکار بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہیں۔

    تھر کے سیکڑوں دیہات غذائی قلت اور امداد کی عدم فراہمی کے باعث ویران ہوگئے ہیں۔ ضلع بھر کے مختلف سرکاری اور نجی طبی مراکز میں درجنوں بچے زیر علاج ہیں لیکن ڈاکٹرز کی کمی، انکوبیٹرز، ادویات کی قلت اور اب خون ٹیسٹ کی مشین کی خرابی نے تھر میں سب اچھا ہے کا دعوی کرنے والی حکومتی کار کردگی کا پردہ فاش کررہے ہیں۔

  • خشک سالی کے شکار مزید 7 بچےجاں بحق، تعداد169 ہو گئی

    خشک سالی کے شکار مزید 7 بچےجاں بحق، تعداد169 ہو گئی

    تھر پارکر: خشک سالی کے شکار تھر میں آج مزید سات بچے غذائی قلت کے سبب جاں بحق ہوگئے ہیں۔ خشک سالی سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد ایک سو انہتر ہوگئی ہے۔

    خشک سالی اورسرد موسم، حالات کے ستم در ستم اور سردی میں ٹھٹھرتے تھری باسی، جن کی تقدیر میں بچوں کی موت کا دکھ لکھا گیا ہے۔ جسے تھر کے باسی روز سہتے ہیں۔ ننھے بچوں کی قلقاریوں کے بجائے ان کے بچے بھوک کی شدت سے روتے ہیں۔

    سوکھے جسم پر نظر آتی ہڈیاں قحط کے اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسپتالوں میں علاج کے لیے لے جائیں تو لاشے واپس آتے ہیں۔ طبی مراکز میں سینکڑوں ڈاکٹرز کی ٹیمیں بھی نجانے کہاں غائب ہوجاتی ہیں جو والدین کی دُہائیوں پر واپس نہیں آتیں۔

    صحرا کی سردی بھی اثر دکھا رہی ہے۔ بچے بخار، نمونیا اور دیگر امراض میں مبتلا ہوکر بھی جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔

  • مٹھی میں مزید 7بچے جاں بحق، تعداد 158 ہو گئی

    مٹھی میں مزید 7بچے جاں بحق، تعداد 158 ہو گئی

    تھر پارکر: تھر میں بچوں کی اموات کاسلسلہ رک نہ سکا۔ سول اسپتال مٹھی میں سات بچے دم توڑ گئے ہیں، خشک سالی کے باعث جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو اٹھاون ہوگئی ہے۔ گورنر سندھ نے بچوں کی اموات کا نوٹس لے لیا ہے۔

    صحرائے تھر میں بھوک نے کئی بچوں کو مٹی میں ملادیا ہے۔ تھر میں پیدا ہونے والے بچے صرف کچھ دن ہی جی پاتے ہیں اور پھر بھوک سے بلکتے بلکتے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ بھوک سے بےحال والدین اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر بچوں کو دوردراز علاقوں سے طبی مراکز لے جاتے ہیں جہاں انہیں ڈاکٹر ہی نہیں ملتے ہیں۔

    آج بھی اکیس دن کے بچے کو لے کر والدین اسپتال پہنچے مگر ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایک اور ننھی جان نے دم توڑ دیا ہے۔

    بچوں کی مسلسل اموات پر گورنر سندھ نے نوٹس لے لیا ہے۔ ایک سو ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم کل تھرپار کر پہنچے گی اور اموات کے اسباب معلوم کرےگی۔ ڈاکٹرز کی ٹیم بچوں کی اموات کی روک تھام کے لئے پالیسی بھی مرتب کرے گی۔

    تھر بن گیا ہے تھر والوں کیلئے موت کا گھر اور ریگستان کی مشکل ترین زندگی میں اب قحط نے جینا دوبھر کردیاہے۔ بنیادی سہولتوں کی کمی بچوں میں موت کا سبب بن رہی ہے تاہم حکومت کی خاموشی اس معاملے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

  • تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ایک اور بچی نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا ہے اور سوا دو ماہ میں موت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک پہنچ گئی ہے۔

    صرف سوا دو ماہ میں تھر پارکر کے مختلف علا قوں میں زندگی کی بازی ہارنے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک جا پہنچی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اموات کی وجہ خوراک کی کمی ہے۔

    یہ کہانی صحرائے تھر کی ہے، جہاں ہر گزرتے دن کوئی کلی بن کھلے مرجھا جاتی ہے۔ خون کی کمی کاشکار لاغر مائیں جسمانی اور دماغی طور پر کمزور بچوں کو جنم دے رہی ہیں جس کے سدباب کیلئے صوبائی حکومت تو خاموش ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ وقافی حکومت بھی زبانی جمع خرچ کر نے میں مصروف ہے۔

    تھر کے اسپتال بیمار اورلاچار بچوں سے بھرے پڑے ہیں، جو تکلیف سے کراہتے رہتے ہیں، بلکتے ہیں اور پھر روتے روتے زندگی ہارجاتے ہیں۔ اسپتال تو موجود ہے لیکن علاج کی بہتر سہولت دستیاب نہیں ہے۔

    ایک طرف خوراک کی کمی تو دوسری جانب ادویات نہ ملنے کی بھی شکایات مل رہی ہیں۔ بیماری اور بھوک بچوں کو نگل رہے ہیں۔

  • مٹھی: قحط نے مزید 2بچے نگل لئے،تعداد 113ہوگئی

    مٹھی: قحط نے مزید 2بچے نگل لئے،تعداد 113ہوگئی

    مٹھی :سول اسپتال مٹھی میں آج مزید دو بچے دم توڑ گئے ۔ غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد اب تک ایک سو تیرہ تک جا پہنچی۔
    تھر کا قحط بچوں کی جان کے در پے ہے۔

    غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔مٹھی کے سول اسپتال میں چار روز کی بچی دم توڑ گئی جبکہ چھاچھرو کے گائوں میں نوزائیدہ بچہ چل بسا۔

    قحط نے اب تک ایک سو تیرہ بچوں کو نگل لیاہے۔اور تھر کی موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس وقت سول اسپتال مٹھی میں سینتالیس سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔

  • تھر میں موت کا رقص جاری، ایک اور ننی جان دنیا سے منہ موڑ گئی

    تھر میں موت کا رقص جاری، ایک اور ننی جان دنیا سے منہ موڑ گئی

    تھر پارکر: تھر میں آج بھی ایک اور نونہال زندگی سے منہ موڑ گیا ہے۔ قحط سے مٹھی کی صورتحال دن بدن گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اکیاون دن میں ننانوے بچے دم توڑ گئے۔

    تھرپارکر میں غذائی قلت سے صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ خوراک کی کمی اور حکومت کی ستم ظریفی نے تھر واسیوں کو غم کی تصویر بنادیا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں پچاس بچے زیر علاج ہیں جبکہ دو بچوں کو تشویشناک حا لت میں حیدر آباد منتقل کیا گیا ہے۔ مٹھی کے علاقے چھا چھرو اسپتال میں پانچ بچے زیر علاج ہیں۔

    وزیر اعلی کے دھواں دار دورے اور امداد کے دعوے بس دعوں کی حد تک ہی رہے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں انکیوبیٹر اور ادویات کی کمی سے روزانہ کئی بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

  • اے آر وائی کی کوششوں سے مٹھی اسپتال میں صفائی ستھرائی

    اے آر وائی کی کوششوں سے مٹھی اسپتال میں صفائی ستھرائی

    تھر پارکر: اے آروائی نیوز کی کوششیں رنگ لے آئیں ۔ہر طرف کچرے سے بھرے مٹھی کے سول اسپتال میں دی مارننگ شو کی خصوصی کوریج کے بعد بالآخرصفائی کروا دی گئی۔

    صاف ستھری راہداریاں اور بچوں کے وارڈ میں بجلی کی فراہمی بحال کردی گئی۔ اے آر وائی کی جانب سے مٹھی کے سول اسپتال میں دی مارننگ شو کی خصوصی کوریج کی گئی تھی ،

    جس میں بچوں کے وارڈمیں انکیوبیٹر نہ چلنے اور پچیس منٹ تک بجلی نہ ہونے کے مسئلے پر بحث ہوئی، اس سے قبل کل تک بکھری ہوئی بوتلیں اورکچرا ہر طرف پھیلا نظر آرہاتھا ۔

    آخر کار اےآروائی نیوز کی کوششوں سے پچیس منٹ بعد جنریٹر تو چل گیا لیکن بد قسمتی سے ایک بچہ ہمیشہ کےلئے  موت کی نیند سوگیا۔

    انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کا حال یہ تھا کہ سول اسپتال مٹھی کے وارڈ میں صفائی کا نام و نشان تک نہ تھا۔مگر مارننگ شو اور اےآروائی نیو زکی ٹیم کی کوششیں رنگ لائیں اور مٹھی سول اسپتال میں موت سے لڑتے بچوں کے وارڈ میں انتظامیہ کو صفائی کا خیال آ ہی گیا۔

  • تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھرپارکر: تھر پارکر میں نو مو لود بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے، ضلع میں مزید دس بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے اور تھر پارکر میں اموات کی تعداد پچانوے ہوگئی ہے۔

    ایک جانب حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب تھر میں موت کا رقصاں جاری ہے۔ صوبہ سندھ  کا ضلع تھرپار کر جہاں ننھے معصوم بچوں کے مرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    صوبائی حکومت کی جا نب سے سہولیات کی فراہمی کے بلند و با نگ دعوےکئے جارہیں ہیں اور وزرا کے دوروں اور فوٹو سیشن کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن عملا ً پے درپے بچوں کی اموات کی سدباب کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔

    سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ گزشتہ تین دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد اٹھا ئیس ہے اور ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد ترانوے ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب وزیر اعلی قائم علی شاہ کارکردگی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور تھر میں بڑھتی ہوئی اموات بھی حکومت کو نیند سے نہ جگا سکیں۔ تھر میں بڑھتی ہو ئی اموات پر حکومتی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

    وزیر اعلی سند ھ نے لاہور میں گفتگو کر تے ہو ئے فرمایا کہ تھر میں غربت آج سے نہیں بہت پہلے سے ہے اور حکومت وہاں فری گندم فراہم کر رہی ہے۔ قائم علی شاہ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں تھر کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ بھی جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما محمد حسین نے کہا ایک دن میں دس بچوں کی اموات افسوسناک ہے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ تھرکے معاملے پر سندھ اسمبلی میں کمیٹی بن چکی ہے۔

    ان باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تھر کے باسی بھو ک، پیاس، غربت، اموات، بیماری، دواؤں کی کمی اور ڈاکٹرز کی کمی جیسے مسائل سے پہلے بھی دو چار تھے اور آج بھی ہیں۔

  • تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھر پارکر: بھوکے تھر میں ادویات کی کمی کے باعث مزید دو بچے جان سے گئے  اکتوبر سے اب تک جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد ستاسی ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق  وزیراعلٰی سندھ کے وعدے اور تھر کے اسپتالوں میں بہترین علاج کے دعوے محض ہوا میں باتوں کے سوا کچھ نہیں۔

    کئی گاڑیوں کے پروٹوکول میں  ہنگامی دوروں اور صحرا میں کابینہ کے اجلاس کے باوجود نہ تھر میں اب تک غذائی قلت کو کم کیا جاسکا اورنہ ہی اسپتالوں میں ادویات کی کمی کو پورا کیا جاسکا ہے۔

    ادھر سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی پر کوئی اثر نہیں ۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد اسی سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔

    علاوہ ازیں تھر کے باسی جان اور مال کے بعد مویشی بھی کھوتے جارہے ہیں ۔ خشک سالی کے باعث جانور بھی موت کا شکار بنتے جارہے ہیں۔نہ صرف تھر واسی بلکہ پیاس اور بھوک سے ان کے مویشی بھی نڈھال  ہوگئے ہیں۔

    تھر میں جہاں ایک طرف موت کا رقص جاری ہے وہیں تھر کے جانور بھی خشک سالی کے باعث کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ تھر کا صحرا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور کو بھی نگلتا جارہا ہے ۔نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ کوئی عملہ ،طبی مراکز پر بڑے بڑے تالے سندھ حکومت کی کارکردگی کی پول کھلتے نظر آرہے ہیں ۔

    تھر کی پہچان خوبصورت مور بھی دن بہ دن اپنی خوبصورتی کھوتے جارہے ہیں۔ بے بس اور بے زبان جانور حسرت کی تصویر بنے توجہ اور خوراک کے منتظر ہیں۔

  • مٹھی کے سول اسپتال میں ایک اور نومولود بچہ دم توڑ گیا

    مٹھی کے سول اسپتال میں ایک اور نومولود بچہ دم توڑ گیا

    تھر پارکر: مٹھی کے سول اسپتال میں ایک اور نومولود بچہ دم توڑ گیا۔ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد پچاس ہوگئی ہے۔

    ضلع تھر پار کر کے اسپتالوں میں حکومتی اعلانات کے باوجود خاطر خواہ اقدامات نظر نہ آئے بلکہ آئینہ دکھانے کے باوجود حکومت پر کوئی اثر نہ ہوا، ضلع ہیڈ کواٹر مٹھی کے سول اسپتال میں غذائی قلت نے ایک اور بچے کی جان لے لی۔

    اسپتال ذرائع کے مطابق بیالیس دن میں مٹھی کے سول اسپتال میں مرنے والے بچوں کی تعداد پچاس تک جا پہنچی ہیں۔

    اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اکاون بچے تاحال زیرِ علاج ہے جبکہ دو بچوں کو حیدر آباد کے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔