Tag: تھر کے لوگ

  • تھر: میگھا برسے تو خوش، ورنہ در بہ در، خاک بہ سَر!

    تھر: میگھا برسے تو خوش، ورنہ در بہ در، خاک بہ سَر!

    سندھ کے جنوب مشرق میں واقع تھرپارکر کے باسیوں کی مشکلات، ان کی درد بھری کہانیاں، کئی الم ناک قصے تو ہم نے سنے ہیں، مگر جب برسات اور اس کے ساتھ ہی تھر میں فطرت کی دل ربائی اور قدرت کی کرم فرمائی کے بارے میں سنتے ہیں تو تھرپارکر جانے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ اس ضلع کا ہیڈ کوارٹر مٹھی رہا ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریبا 21 ہزار مربع کلو میٹر بتایا جاتا ہے۔

    سندھی مؤرخ اور محقق لکھتے ہیں کہ قدیم دور میں یہ علاقہ سرسوتی دریا کے ذریعے سیراب ہوتا تھا۔ بعد ازاں ’’مہرانوں نہر‘‘ کے ذریعے اسے سیراب کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ تھرپارکر کی سیرابی کے لیے دریائے سندھ سے ایک بڑی نہر’’باکڑو‘‘ نکلا کرتی تھی، جسے 17 ویں صدی میں سیاسی بنیاد پر بند کردیا گیا اور یہ فیصلہ کئی مسائل کی وجہ بنا۔

    ملک بھر میں‌ ان دنوں‌ برسات کا شور ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں‌ شدید بارش ہوئی ہے جب کہ آنے والے دنوں‌ میں مزید اور تیز بارش کا امکان ہے۔

    ہم برسات اور تھرپارکر کے حوالے سے وہ دو کہاوتیں‌ آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں جو مقامی لوگوں میں‌ زیادہ مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں ’دو سے تہ، تھ نہ تہ بر‘‘ یعنی اگر بارش ہو تو تھر گلستان بن جاتا ہے ورنہ بیابان جیسا ہے۔

    دوسری کہاوت ہے کہ تھر آھے کن تے یادھن تے‘‘ یعنی تھر کا انحصار بارشوں کی بوند پر ہے یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پر ہے۔

    تھری لوگوں‌ کی زندگی میں‌ برسات کی بہت زیادہ اہمیت ہے، جس کا اندازہ شاید شہر کے لوگ کم ہی لگا سکتے ہیں۔ مذکورہ کہاوتیں بھی تھر کے لوگوں کے لیے برسات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

    صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے بھی تھر کے باشندوں کے کرب کو بھانپتے ہوئے ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں تھر کی برسات سے قبل اور بعد کی کیفیات کو قلم بند کیا ہے۔

    تھر کے لوگوں کا سہارا ہی میگھ (بارش) ہے میگھا برسا تو لوگ خوش ورنہ در بہ در، خاک بہ سر۔

  • آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں!

    سناٹا اور اتنا گہرا۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے، ایسی جگہ جہاں انسانوں پر انسان خدا ہیں۔

    پالنے والی تو رب کی ذات ہے، ہاں بس وہی، لیکن جہاں ارباب ہوں وہاں کیا ہوتا ہوگا، میں نہیں جانتا، جانتا تو وہی ہے جس پر بیت رہی ہو ہم تو بس سفید صفحات کو اپنے من کی سیاہی میں ڈبوتے رہتے ہیں۔

    یاد آیا ایک دن میں نے اپنے استاد سے جو ہمیں تختی پر لکھنا سکھاتے تھے کہا، سَر، سیاہی ختم ہوگئی ہے اب میں تختی کیسے لکھوں؟ ہاں یاد ہے مجھے، مسکرائے تھے اور کہا تھا، بیٹا سیاہی کا مقدر ختم ہوجانا ہی ہے، لکھنا ہے تو روشنائی سے لکھو کہ جسے زوال نہیں۔
    وقت کی دھول سَر میں ڈالتا، در بہ در گھومتا پھرتا میں ایک اور جگہ پہنچا، جہاں میں نے سنا، چراغ تو بجھائے جاسکتے ہیں، پھونکوں سے نہ بجھ سکیں تو زور آور ہوائیں انہیں گل کردیتی ہیں لیکن نور ہاں نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا، ہاں کوئی بھی نہیں کہ زوال بس تاریکی کا نصیبا ہے۔

    ہم سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں سب کیوں؟ میں، ہاں میں ہوں، تھر کی اس حالت کا ذمے دار۔ اور کوئی نہیں۔ میں پچھلے پچیس برس سے تھر جاتا رہتا ہوں میں نے ان تھریوں کا نمک کھایا ہے جن کے پاس نمک خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے!

    ہاں میں نے ان کا نمک کھایا ہے، ان کے گیت سنے ہیں، انہوں نے اپنے حصے کا پانی مجھے پلایا، خود پیاسے رہے اور میری پیاس بجھائی ہے، میں شہروں کے اذیت ناک خون آلود ماحول سے فرار ہو کر وہاں جاتا رہا ہوں اور وہ مجھے آسودہ اور تازہ دم کر کے واپس بھیجتے رہے ہیں۔ میں جاتا بھی رہا اور اس اصرار کے ساتھ کہ میں واپس آؤں گا، وہ خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے اپنے بازو وا کیے رہے۔ ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔

    ان کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے، میں کیا کیا لکھوں لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا، کچھ بھی تو نہیں مانگا انہوں نے، کبھی نہیں، کبھی بھی تو نہیں۔

    تپتی ریت کے جہنم میں انہوں نے میرے لیے جنت بنائی ہوئی تھی۔ کالی، مگر تاروں بھری رات میں وہ پیتل کی تھالی اور خالی مٹکے کو ساز بناتے اور گیت گاتے، سوز سے تو وہ خود بنے ہوئے ہیں، ہجر و فراق کی آگ میں جلتے ہوئے گیت، محبوب اور برسات کو رجھانے والے گیت اور نہ جانے کیا کیا گیت، دل میں اتر جانے والے گیت، اکھیوں کو بھگو دینے والے گیت۔

    سوتے سمے، وہ میرے لیے دودھ بھرا پیتل کا کٹورا لاتے اور پیار سے کہتے، سائیں ہمارا سب کچھ آپ کے لیے حاضر ہے، لیکن سائیں، ہمارے پاس یہی کچھ ہے، بس قبول کریں۔ میرا سن کر کوسں دور سے کوئی تھری آتا۔ بس سائیں آپ کا سنا تو ملنے آگیا، ہاں ننگے پاؤں
    آگیا، آپ حاضری قبول کریں اور جاتے سمے وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا۔ سائیں حاضری قبول! اتنی عاجزی تو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اس وقت بھی دیکھتا تو تھا، لیکن میں سوچتا کہ ان کی آنکھیں ریت کی چنگاریاں، جو تھر میں اڑتی رہتی ہیں، کی وجہ سے نَم ہوں گی۔ بینا دیکھتے ہیں اور میں کہاں ہوں بینا۔

    ہاں خالق نے ہی تو کہا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں، ان کے کان تو ہیں لیکن سماعت سے محروم۔ ہندو مسلم ہاں دونوں ہی میرے دوست ہیں، ایک ہی محلے میں رہنے والے کوئی فریق نہیں جن کی جھونپڑیاں، جنہیں وہ گھاس پھونس سے بناتے اور انہیں چونرا کہتے ہیں، ساتھ ساتھ تھیں اور تھیں کیا اب بھی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو برا نہیں کہتا۔ عید دیوالی ساتھ ساتھ، ہاں ایسا ہی ہے۔

    عیدِ قرباں قریب تھی، جب میں تھر میں تھا، میں نے اپنے دوست جان محمد، جسے ہم جانو کہتے ہیں کے چونرے میں مقیم تھا۔ میں نے اس کے والد، جنہیں میرے بچے دادا کہتے ہیں، سے پوچھا بابا سائیں عید آگئی ہے، آپ کس جانور کی قربانی کریں گے؟

    تُو بڑا چَریا ہے، دیکھ نہیں رہا کتنی بکریاں اور بکرے گھوم رہے ہیں۔ بس کر لیں گے قربانی میں نے کہا۔ بابا سائیں گائے کی قربانی کیوں نہیں؟ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا اور قریب آکر رازدارانہ انداز میں کہا دیکھو! ہم یہاں گائے کی قربانی نہیں کرتے، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہا۔ اس لیے کہ ہندو ہمارے بھائی ہیں اور ان کے لیے گائے مقدس ہے۔ ہاں گؤ ماتا کہتے ہیں وہ اسے، اس لیے ہم گائے کی قربانی نہیں کرتے۔ حیرت سے پوچھا، کیا آپ نہیں کرتے یا۔۔۔ ابھی میرا سوال ادھورا تھا کہ بابا سائیں بولے، پورے تھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب سے نہیں سدا سے ایسا ہی ہے۔

    رواداری کسے کہتے ہیں یہ مجھے اس دن معلوم ہوا تھا، لچھمن داس اور ماما شیرو، دین محمد اور رام لعل، دُرمحمد اور کیلاش اگر ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں، ایک ہی کٹورے سے پانی پی رہے ہوں، ایک سا لباس پہنے ہوئے ہوں، تو کون پہچان پائے گا کہ ہندو کون ہے اور مسلم کون جب شادی بیاہ میں، دکھ سکھ میں، رونے ہنسنے میں سب ایک جیسے ہوں تو کون پہچان پائے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلم، اور پھر جب درد سانجھا اور بھوک ایک جیسی ہو تو پھر رہ جاتا ہے بس انسان اور درد۔

    تھر میں ایسی ہی رواداری ہے، ہاں کبھی کبھی سننے میں ضرور آتا ہے کہ کوئی ساہوکار وڈیرا کسی معصوم کو روند دیتا ہے لیکن اس مظلوم کے درد کا مداوا نہ بھی کرسکتے ہوں، اس کے ساتھ کھڑے ضرور ہوتے ہیں سب۔ کبھی اس کی سنگت نہیں چھوڑتے کہ بس یہی کچھ وہ کرسکتے ہیں۔

    بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن وہ مجسم صبر یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ابر برسے گا اور بھوک پیاس کو صحرا میں دفن کر دے گا اور جب برسات ہو تو پھر بے خودی کو سراپا دیکھا جا سکتا ہے۔ تھر میں تھری بے خود ہوجاتے اور مست ملنگ ناچتے ہیں کہ برسات وہاں زندگی کی علامت جو ہے لیکن برسات بھی تو ساتھ نہیں دیتی ان کا، بس برسی تو برسی، نہیں تو نہیں۔ قناعت کیا ہوتی ہے، ہاں یہ آپ تھر میں دیکھ سکتے ہیں، میں نے اگر کبھی کسی کا قصیدہ پڑھا ہے تو وہ بس تھر ہی کے باسی ہیں۔

    اخلاص، محبت، اپنائیت کے پُتلے، لیکن کیا بس یہی کافی تھا جو میں نے کیا؟ ان کی بھوک کا مذاق اڑایا، میں نے مرتا چھوڑ دیا انہیں، موت تو سدا سے رقص کناں ہے وہاں، ہمیں ہوش کیوں نہیں آیا، ہاں اس لیے جس تن لاگے وہ تن جانے۔ ہمیں کیا مرتے ہیں تو مریں۔ بھوک سے کہاں مرے وہ، وہ تو نمونیے اور بخار سے مرے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ یہ امراض لاعلاج ہیں، کوئی دوا ہی نہیں دریافت ہوئی اس مرض کی۔ ان کے بچے مریں، ان کے مویشی مریں، ان کے مور مریں اور وہ خود مرجائیں، ہمیں کیا جناب۔

    دل کو ہے درپیش پھر سے ضبط کا اک امتحاں
    آنسوﺅں نے پھر پکڑلی ہے، رواں ہونے کی ضد

    مصنف: عبداللطیف ابُوشامل