Tag: تھر

  • پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل

    پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دنیا بھر کی 100 متاثر کن خواتین ’بی بی سی 100‘ کی فہرست جاری کردی جس میں پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر کرشنا کماری بھی شامل ہیں۔

    بی بی سی کی جانب سے یہ فہرست ہر سال جاری کی جاتی ہے جس میں پاکستانی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، رواں برس یہ اعزاز صحرائے تھر کی کرشنا کماری کے حصے میں آیا ہے جو ہندوؤں کی کولھی / دلت قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    کرشنا کولھی قبیلے کے ایک غریب خاندان میں فروری 1979 میں پیدا ہوئیں۔ وہ اور ان کے اہل خانہ 3 سال تک ایک وڈیرے کی نجی جیل میں قید رہے۔

    39 سالہ کرشنا کی 16 سال کی عمر میں ہی شادی ہوگئی تھی، شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں تاہم ان کے شوہر نے انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اور کرشنا نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

    وہ سماجی کارکن بھی ہیں اور کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    رواں برس مارچ میں سینیٹ انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں خواتین کی مخصوص نشست پر ٹکٹ جاری کیا، بعد ازاں کامیاب ہو کر انہوں نے پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

    کرشنا قانون سازی کے عمل کا حصہ بن تھر کے باسیوں کی صحت اور تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

  • سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی

    سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی

    اسلام آباد: صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں 400 بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں عدالت نے تھر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعیناتیوں کی مکمل رپورٹ 3 دن میں طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں 400 بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں کمیٹی رپورٹ پیش کردی۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غذائی اجناس کی فراہمی اور علاج سمیت دیگر سہولتیں دی جارہی ہیں، غذائی قلت پر قابو کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پروگرام شروع کردیا۔

    عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ کئی رپورٹس پیش کی گئیں، عمل ایک پر بھی نہیں ہوا۔ اب بھی ایک رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب اچھا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 4 سال سے تھر میں اسپتالوں میں 70 آسامیاں خالی ہیں۔ کاغذوں پر سارا کام پورا کر دیا گیا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ عدالتی حکم پر کتنا عملدر آمد ہوا جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پسماندہ علاقے میں ڈاکٹر جانے کے لیے تیار نہیں۔

    عدالت نے پوچھا کہ کیا ڈاکٹرز کو وہاں کام کے لیے ڈھائی لاکھ سے زائد کی پیشکش کی گئی؟ سیکریٹری خزانہ سندھ بتائیں کیا رقم مختص کی ہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کے اندر ڈاکٹر بھوکے مر رہے ہیں۔ 2016 میں سندھ حکومت کی مرضی سے میں نے کمیشن بنایا، بتائیں اس کی سفارشات کہاں ہیں؟

    انہوں نے پوچھا کہ بتائیں آپ نے کتنے ڈاکٹر بھیجے اور کتنوں نے جانے سے انکار کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 3 دن میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی فہرست دیں گے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ تھر جانے سے انکار کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ’کلرک حکم عدولی کرے تو اسے نوکری سے نکالنے کی دھمکی ملتی ہے‘۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تھر میں کتنے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہے جامع رپورٹ دیں۔ 3 دن میں رپورٹ جمع کروائیں۔

    ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ مٹھی اور اسلام کوٹ میں اسپتال مکمل فعال ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج تھر پارکر رپورٹ دیں آیاخوراک دی جا رہی ہے یا نہیں۔

    عدالت نے تھر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعیناتیوں سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھر پارکر کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کمیشن تھر میں خوراک اور پانی سمیت دیگر سہولتوں کا جائزہ لے اور 15 دنوں میں جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔

    عدالتی معاون نے کہا کہ تھر میں بڑا مسئلہ زرعی قرضوں کی واپسی ہے، قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔

    عدالت نے قرضوں کے معاملے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

  • تھر میں قحط کی صورتحال کا مستقل حل نکالنا ہوگا: بلاول بھٹو

    تھر میں قحط کی صورتحال کا مستقل حل نکالنا ہوگا: بلاول بھٹو

    کراچی: پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں‌ تھر میں قحط کی صورت حال کا مستقل حل نکالنا ہوگا.

    ان خیالات انھوں نے پارٹی کے ایم پی اےارباب لطف اللہ سے ملاقات کے موقع پر کیا. ملاقات کے دوران تھر میں قحط کے حالات پرپارٹی چیئرمین کو بریفنگ دی۔ 

    انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت تھر میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، مقامی منتخب نمائندگان تجاویز  دیں، حکومت مسائل حل کرے گی.

    انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ تھرکو ترقی کی راہ پرگامزن کرنا چاہتی ہے، تھر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، کول جیسے ذخائر  بھی یہاں ہیں، حکومت انتقامی کارروائیوں پرنہیں،عوامی خدمت پریقین رکھتی ہے.


    مزید پڑھیں: سندھ حکومت کا تھر میں غذائی قلت دور کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ


    ملاقات میں ارباب لطف اللہ نےایک سیاسی رہنماکی انتقامی کارروائیوں کی بھی شکایت کی، بلاول بھٹو نے معاملے کا نوٹس لے کر وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ طلب کرلی.

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا جلد تھرکے دورے کا اعلان کریں گے.

    واضح رہے کہ تھر میں بچوں‌ کی ہلاکت کے معاملے پر حکومت سندھ کو شدید تنقید کا سامنا ہے، مخالفین ایسے واقعات کو پی پی پی سرکار کی غفلت قرار دیتے ہیں، البتہ پارٹی کا موقف ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے، حکومت تھر کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے.

  • تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    صحرائے تھر 50 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا وسیع و عریض علاقہ ہے جہاں تا حدِ نگاہ صرف ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے، لیکن اب اسی صحرا کے چند محدود گوشوں میں منظر بدل رہا ہے، اور وہاں خوشحالی سبزے کی شکل میں لہرانا شروع ہوچکی ہے۔

    دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہونے والے صوبہ سندھ کا علاقہ تھر ایک قدرتی صحرا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے صحرا کے طور پر ہوتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر کا علاقہ بھارت میں جبکہ لگ بھگ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان میں ہے۔ یہاں کا سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ یہاں کے رہائشیوں کی معیشت کا غیر متوازن ہونا ہے ۔

    یہاں کے باشندوں کی معیشت کا دارومدار مویشیوں اور بارانی زراعت پر ہے،جس سال مون سون کے موسم میں بارشیں 150ملی میٹرسے کم ہوں، یہاں گوار اور باجرے کی فصل خراب ہوجاتی ہے اور قدرتی گھاس بھی نہیں اگ پاتی جس کے سبب مویشی اور مور مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    یہاں کی مقامی آبادی بالخصوص بچے غربت اور غذائی قلت کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تھر واسیوں کے اس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے کراچی کے سماجی کارکنوں کی ایک تنظیم ’دعا فاؤنڈیشن‘ نے صحرائے تھر میں زیرِ زمین پانی سے کاشت کاری اور فروٹ فارمنگ کا آغاز کیا ہے۔

    اس تنظیم نے گذشتہ دوسالوں میں تھر کی تحصیل کلوئی ، ڈپلو اور نگرپارکر میں تیس ایگروفارم منصوبے بنا کر مقامی لوگوں کے حوالے کئے ہیں اور ان ایگروفارمزمیں گندم، کپاس، سرسوں اور پیاز جیسی فصلیں زیرِ زمین پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے کامیابی سے کاشت کی جارہی ہیں۔

    حال ہی میں دعا فاونڈیشن نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ واقع تھر کی دور دراز اور سب سے پس ماندہ تحصیل ڈاہلی میں ایک ماڈل ایگرو وفروٹ فارم بنایا ہے۔ اس فروٹ فارم کی تعمیر کے لیےڈاہلی کے گوٹھ سخی سیار کے ایک سرکاری اسکول ٹیچرشہاب الدین سمیجو کی آبائی زمین پر پہلے ساڑے چار سو فٹ بورنگ کروائی گئی۔

    پانی نکالنے کے لئے سولرسسٹم نصب کیا گیا اورتین ایکڑزمین پرڈرپ اری گیشن سسٹم کی تنصیب کی گئی۔ ڈرپ سسٹم کی تنصیب میں عمر کوٹ میں واقع پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کےڈاکٹر عطاء اللہ خان اور انجینئر بہاری لال نے تیکنکی مدد فراہم کی۔

    یہ تھرپارکر کاپہلا فروٹ فارم ہے جہاں کھجور اور بیر کے دو دو سو، اور زیتون اور انار کے سو سو پودے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگل جلیبی اور سوہاجنا کے بھی 25،25 پودے لگائے گئے ہیں اور اب یہ پودے آہستہ آہستہ پھلنا پھولنا شروع ہوگئے ہیں۔

    تنظیم کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ تھرپاکر میں زیر زمین پانی سے کئی علاقوں میں نہ صرف محدود پیمانے پر کاشت کاری ہوسکتی ہے بلکہ ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعہ بڑے پیمانے پر پھلوں کےدرخت لگا کرعلاقے کے لوگوں کی معیشت کو بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیتوں کے پودے اسپین کی نسل کے ہیں اور اسلام آباد کی ایک نرسری سے منگوائے گئے ہیں جبکہ کھجور کےدرخت اصیل نسل کے ہیں اور خیر پور سے منگوائے گئے ہیں۔

    ڈاکٹر فیاض نے یہ بھی بتایا کہ سندھ حکومت زراعت کو فروغ دینے کے لیے ڈرپ اری گیشن سسٹم اورسولر سسٹم کی تنصیب پر کسانوں کوساٹھ فیصد سبسڈی بھی دے رہی ہے لیکن ہمیں اس سہولت کے بارے میں معلومات نہیں تھیں، تاہم اپنے اگلے منصوبوں کے لئے ہم یہ سبسڈی حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

    تھر میں فروٹ فارمنگ کا آغاز ریت کے اس سمندر میں ایک سرسبز اور صحت مند مستقبل کی نشانی ہے اور امید ہے کہ جب یہ درخت تناور ہوکر پھل دینا شروع کردیں گے تو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔

  • تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم

    تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر کے لیے بنائے گئے خصوصی محکمے کے بجٹ کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 3 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے صحرا تھر پارکر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

    چیف سیکریٹری سندھ نے تھر سے متعلق رپورٹ پیش کردی۔ چیف سیکریٹری نے کہا کہ تھر کی ترقیاتی اسکیمیں متعلقہ محکموں کے حوالے کردیں۔

    چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ وسیم احمد نے کہا کہ سندھ حکومت نے اسپیشل ڈپارٹمنٹ بنایا تھا، محکمے کے پاس آر او پلانٹس اور پمپنگ اسٹیشنز کی اسکیمیں تھیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر محکموں کے ہوتے ہوئے اس محکمے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے 105 ارب روپے کا بجٹ اس محکمے کو دیا۔

    عدالت نے اسپیشل انیشیٹو ڈپارٹمنٹ پر خرچ کیے گئے بجٹ کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 3 ہفتے میں فرانزک آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کی جائے، جو رقم خرچ ہوگئی ہے اس کا آڈٹ بہت ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا تھا کہ تھر میں خوراک اور سہولتوں کی فراہمی کا کام شروع ہوجائے گا، 15 دن کی مہلت دی جائے۔

    چیف جسٹس نے تنبیہہ کی تھی کہ تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا۔

  • سندھ حکومت کا تھر میں غذائی قلت دور کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ

    سندھ حکومت کا تھر میں غذائی قلت دور کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ

    کراچی : سندھ حکومت نے تھر میں غذائی قلت دور کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جس کے مطابق 50 ہزار خاندانوں کو ہر ماہ راشن بیگ دیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات جاری ہیں، سندھ حکومت نے تھر میں غذائی قلت دور کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    پروگرام کے مطابق 50 ہزار خاندانوں کو ہر ماہ راشن بیگ دیےجائیں گے، راشن بیگ میں اشیائےضروریہ اورطاقت بخش خوراک شامل ہوگی۔

    راشن بیگ کی تقسیم کا سلسلہ آئندہ ہفتے سے شروع ہونے کا امکان ہے، نادرا اور دیگر اداروں کی مدد سے 50ہزار خاندانوں کی نشاندہی کی گئی۔

    راشن بیگ کی تقسیم کا پائلٹ پراجیکٹ تین ماہ کے لیے ہوگا اور سندھ حکومت ہرماہ راشن بیگ پر 22کروڑ سے زائد خرچ کرے گی۔

    مشیراطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ایسےاقدامات کررہے ہیں جس سے تھر میں شرح اموات کم ہو ، تھرکےلیےمربوط حکمت عملی پر کام پیپلزپارٹی نے ہی کیا۔

    مزید پڑھیں : تھر کی صورتحال سے کیسے نمٹیں؟ سندھ حکومت حرکت میں آگئی

    دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی تھر کے لیے 35ہزار صحت کارڈ کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی نے کہا تھا کہ حکومت جلد تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی۔

    اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی تھر کی صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایک بھی بچہ غذائی قلت سے نہیں مرنا چاہیئے۔

    واضح رہے رواں سال قحط کی وجہ سے 400 سے زائد بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔

  • تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچی جاں بحق

    تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچی جاں بحق

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات جاری ہیں۔ غذائی قلت کے سبب سول اسپتال مٹھی میں ایک اور بچی انتقال کرگئی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے سبب سول اسپتال مٹھی میں ایک اور بچی انتقال کرگئی۔ اسپتال ذرائع کے مطابق صرف سول اسپتال مٹھی میں رواں ماہ انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مٹھی اسپتال میں رواں سال 530 بچے انتقال کر چکے ہیں۔

    دوسری جانب بچوں کی اموات سے متعلق مٹھی میں اجلاس جاری ہے جس میں شرکت کے لیے وزیر صحت سندھ بھی پہنچ گئیں۔

    مٹھی کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ہونے والے اجلاس میں ضلع بھر کے ڈاکٹرز شریک ہیں۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی نے کہا تھا کہ حکومت جلد تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی۔

    اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی تھر کی صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایک بھی بچہ غذائی قلت سے نہیں مرنا چاہیئے۔

    سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ تھر کے مسئلے کے حل کے لیے جلد ہی پیکج کا اعلان کریں گے، چیف جسٹس نے جب پیکج کی تاریخ کے بارے استفار کیا تھا تو اے جی سندھ نے کہا تھا کہ آئندہ 15 روز میں تھر میں امدادی کارروائیاں شروع ہوجائیں گی۔

  • تھرمیں مزید دو بچے دم توڑ گئے، رواں ماہ تعداد 54 ہوگئی

    تھرمیں مزید دو بچے دم توڑ گئے، رواں ماہ تعداد 54 ہوگئی

    مٹھی: تھر پارکر میں آج مزید دو بچے بھوک اور بیماری کے سبب دم توڑگئے، رواں ماہ تھر میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد54 ہوچکی ہے۔

    مٹھی اسپتال ذرائع کے مطابق رواں سال مٹھی اسپتال میں علاج کی غرض سے لائےگئے518بچےانتقال کرچکےہیں جبکہ اسپتال میں اس وقت بھی 80 بچے زیرعلاج ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے تھر کی صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایک بھی بچہ غذائی قلت سے نہیں مرنا چاہیے۔ وہ کل تھر کا دورہ بھی کریں گے۔

    دوسری جانب سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ تھر کے مسئلے کے حل کے لیے جلد ہی پیکج کا اعلان کریں گے ، چیف جسٹس نے جب پیکج کی تاریخ کے بارے استفار کیا تھا تو اے جی سندھ نے کہا تھا کہ آئندہ 15 روز میں تھر امدادی کارروائیاں شروع ہوجائیں گی۔

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو یہ بھی کہا تھا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد دو ردراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    دوسری جانب پیپلز پارٹی کی رہنما کرشنا کماری کا اس موضوع پر کہنا تھا کہ جنہوں نے تھر دیکھا تک نہیں وہ تجزیے کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی ترجیح تھر کی ترقی ہے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ تھر والوں کو گزشتہ چھ سال سے وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو تھر کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں، یہاں غربت اور کم عمری میں شادی کی روایت کے سبب یہ مسائل پیش آتے ہیں۔

  • تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    اسلام آباد: تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ بچوں کی اموات روکنے کے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام آپ کب تک کریں گے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی جلدی والی بات نہ کریں ہمیں مدت بتائیں۔ اے جی سندھ نے کہا کہ 15 دن میں خوراک اور سہولتوں کا کام شروع ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا تمام انتظام کریں۔

  • تھر وہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا‘ رمیش کمار

    تھر وہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا‘ رمیش کمار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کی زندگی کا معاملہ ہے چیف سیکریٹری اوروزیراعلیٰ سندھ کوبلا لیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران سیکریٹری ہیلتھ نے بتایا کہ ماؤں کی صحت ٹھیک نہیں، بچوں کی پیدائش میں وقفہ کم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرزصرف 40 فیصد علاقے میں کام کرتی ہیں، جن علاقوں میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کام کررہی ہیں وہاں اموات کم ہیں، ان علاقوں میں ماؤں کی صحت بھی بہتر ہے۔

    سیکریٹری ہیلتھ نے کہا کہ ماں کی غذا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ہیموگلوبین کم ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ حل کر نے کے لیے جو اقدمات کیے گئے وہ بتائیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عوام کی زندگی کا معاملہ ہے چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ کوبلالیتے ہیں، ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جوغیر جانبدار رپورٹ پیش کرے۔

    تھرکے رکن قومی اسمبلی رمیش کمارنے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ میں بنیادی دیہی مراکز بنانا ہوں گے۔

    رمیش کمار نے کہا کہ تھروہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا، وزرات صحت کے بس کی بات نہیں دیگر اداروں کو شامل کرنا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں اس میں ہم کیا اقدمات کرسکتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اسپتال بنائے جاتے ہیں وہاں ڈاکٹرنہیں ملے گا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشینیں بہت بڑی بڑی ہوں گی ان کا آپریٹرنہیں ہوتا، مٹھی کے ڈسٹرکٹ جج کو بلا کر پوچھ لیں کیا حال ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ میں خود تھر کا دورہ کروں گا۔

    سپریم کورٹ نے غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت 11 اکتوبرتک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرچیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری فنانس ، سیکریٹری ہیلتھ ، اے جی سندھ، سیکریٹری پاپولیشن اورسیکریٹری ورک اینڈ سروسز کو طلب کرلیا۔