Tag: تھر

  • تھرمیں موت کی دیوی کا رقص جاری

    تھرمیں موت کی دیوی کا رقص جاری

    تھر: سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج پانچ روز کی بچی اور دس سالہ علی حسن کو بھی بھوک نگل گئی، غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو آٹھ ہوگئی ہے۔

    تھر میں موت کی دیوی کا رقص جاری ہے، بھوک مزید کئی بچوں کو نگل گئی، سول اسپتال مٹھی میں سینتالیس بچے زیرِ علاج ہیں، ایک بچے کو تشویشناک حالت میں حیدر آباد منتقل کر دیا گیا جبکہ اسلام کوٹ تحصیل اسپتال میں تیرہ، ننگرپارکر میں نو، ڈیپلو میں آٹھ اور چھاچھرو تحصیل کے اسپتال میں سترہ بچے داخل ہیں اور موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

    پانی اور دودھ کی ایک ایک بوند کو ترستے تھری بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں اور مائیں اپنے معصوم شہزادوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر آنسو بہا رہی ہیں لیکن حکمران بھوک و پیاس سے اموات کو تھر کا معمول قرار دے کر انکے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔

  • تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھرپارکر: تھر پارکر میں نو مو لود بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے، ضلع میں مزید دس بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے اور تھر پارکر میں اموات کی تعداد پچانوے ہوگئی ہے۔

    ایک جانب حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب تھر میں موت کا رقصاں جاری ہے۔ صوبہ سندھ  کا ضلع تھرپار کر جہاں ننھے معصوم بچوں کے مرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    صوبائی حکومت کی جا نب سے سہولیات کی فراہمی کے بلند و با نگ دعوےکئے جارہیں ہیں اور وزرا کے دوروں اور فوٹو سیشن کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن عملا ً پے درپے بچوں کی اموات کی سدباب کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔

    سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ گزشتہ تین دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد اٹھا ئیس ہے اور ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد ترانوے ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب وزیر اعلی قائم علی شاہ کارکردگی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور تھر میں بڑھتی ہوئی اموات بھی حکومت کو نیند سے نہ جگا سکیں۔ تھر میں بڑھتی ہو ئی اموات پر حکومتی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

    وزیر اعلی سند ھ نے لاہور میں گفتگو کر تے ہو ئے فرمایا کہ تھر میں غربت آج سے نہیں بہت پہلے سے ہے اور حکومت وہاں فری گندم فراہم کر رہی ہے۔ قائم علی شاہ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں تھر کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ بھی جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما محمد حسین نے کہا ایک دن میں دس بچوں کی اموات افسوسناک ہے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ تھرکے معاملے پر سندھ اسمبلی میں کمیٹی بن چکی ہے۔

    ان باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تھر کے باسی بھو ک، پیاس، غربت، اموات، بیماری، دواؤں کی کمی اور ڈاکٹرز کی کمی جیسے مسائل سے پہلے بھی دو چار تھے اور آج بھی ہیں۔

  • تھر: 7 دن کی بچی دم توڑ گئی، ہلاکتوں کی تعداد 57 ہوگئی

    تھر: 7 دن کی بچی دم توڑ گئی، ہلاکتوں کی تعداد 57 ہوگئی

    تھر : چھاچھرو کے نواحی گائوں مبارک رند میں سات دن کی بچی دم توڑ گئی، ہلاکتوں کی تعداد ستاون ہوگئی ہے۔

    وزیرِاعلٰی سندھ تھر کے اسپتالوں کو اعلٰی معیار کا قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن اسپتال مٹھی کا یا چھاچھرو کا  بھوک و افلاس، ادوایات کی کمی اور غیر معیاری علاج روز کی بنیاد پر ماؤں کی گودیں سونی کررہا ہے۔

    اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود ہے عملا کچھ نہیں۔

    چھاچھرو کے نواحی گاؤں مبارک رند میں ایک اور ماں کی گود سونی ہوگئی، جب اسپتال میں طبی امداد بروقت نہ ملنے کے باعث سات دن کی بچی دم توڑ گئی۔

  • تھر: بھوک اور افلاس مزید ایک نومولود جاں بحق

    تھر: بھوک اور افلاس مزید ایک نومولود جاں بحق

    تھر: تھرپار کر میں بھوک ماؤں کی گودیں اجاڑرہی ہے، آج ایک اور نومولود جاں بحق ہوگئی۔

    تھر میں بھوک اور افلاس مزید ایک نومولود کی جان لے لی، مرنے والے بچوں کی تعداد چون ہوگئی، ضلع تھر پار کی ننھی کلیاں کھلتی نہیں کہ بھوک و افلاس اُن کو موت کی آغوش میں دھکیل دیتی ہیں، ماؤں کی سُونی ہوتی گود حکومتی اقدامات کی فریاد کررہی ہیںٕ، حکومتی ہدایات اور اعلانات کے باوجود بچوں کی ہلاکتوں کو نہ روکا جا سکا۔

    ضلع ہیڈ کواٹر مٹھی کے سول اسپتال میں بھوک نے آج ایک اور بچے کی جان لے لی، اسپتال ذرائع کے مطابق تینتالیس دن میں مٹھی کے سول اسپتال میں مرنے والے بچوں کی تعداد چون تک پہنچ گئی ہے۔

    اسپتال انتظامیہ کے مطابق متعدد بچے تاحال زیرِ علاج اور حکومتی اقدامات کے منتظر ہیں۔

  • اپوزیشن لیڈرحادثات پرسیاست چمکاتےہیں،شرجیل میمن

    اپوزیشن لیڈرحادثات پرسیاست چمکاتےہیں،شرجیل میمن

    کراچی: وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اپنے وسائل سے بھی زیادہ بڑھ کر تھرپارکر کو ترقی دینے اور وہاں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت پر تنقید کرنے والے 20 سال سے محکمہ صحت اپنے پاس رکھ کر بیٹھے تھے اور تھرپاکر کے وزیر اعلیٰ بھی تھے تو انہوں نے کیوں تھرپارکر کی ترقی کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے۔

    سندھ اسمبلی اجلاس سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہاں سالانہ 2 لاکھ بچوں کی اموات تشویش ناک ہے، اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ سانحہ خیرپور پر سیاست افسوس ناک ہے تاہم یہ ایک حادثہ ہے اور اس میں جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس ہے۔  انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کے احکامات دئیے ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر میڈیا سے مخاطب ہو کر کہا کہ تھرپارکر کے حوالے سے منفی خبروں کی بجائے حقائق پیش کرے۔

    شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سکھر سے کراچی آنے والی بس کا حادثہ اور اس میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حادثہ کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دینا بھی قابل افسوس ہے کیونکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اس پر سیاست کرنا قابل افسوس ہے وہ ایک جانب پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہیں تو بیک ڈور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لئے منتیں کررہے ہیں۔

    تھرپارکر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال اور اس پر ایم کیو ایم کی جانب سے گذشتہ روز نائین زیرو پر پریس کانفرنس میں سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ سندھ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ تھرپارکر ایک پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں کی آبادی دور دور علاقوں میں چند چند گھروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنقید کرنے والے صرف مٹھی، چھاچھرو، اسلام کوٹ نگر پارکر کوشاید تھرپاکر تصور کرتے ہیں، جو تھرپارکر کا 10 فیصد بھی نہیں ہے اور 90فیصد آبادی صحرا میں رہتی ہے جہاں عام ٹرانسپورٹ کا جانا بھی ممکن نہیں ہے۔

    شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سابقہ دور حکومت اور رواں دور میں بھی تھرپارکر کو ترقی دینے اور وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کوشاں ہے اور سندھ حکومت اپنے وسائل سے بڑھ کر وہاں کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے والے بتلائیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے قبل وہ مشرف دور میں اور اس سے قبل بھی حکومت میں شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 سال تک محکمہ صحت ان کے پاس تھا۔ وزیر اعلیٰ بھی اس دور میں تھرپارکر سے تھا اور تمام وسائل بھی ان کے پاس دستیاب تھے تو انہوں نے اس وقت وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے کیا اقدامات کئے۔ وہاں پر پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں تھا اور جب میں پہلی بار وہاں سے منتخب ہوا تو 54 کلومیٹر طویل پانی کی لائن کی اسکیم شروع کی اور اس پر آج بھی کام جاری ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے وہاں زیر زمین پانی کو منرل واٹر بنانے کے لئے مہنگے آر او پلانٹس لگائے اور بجلی کی عدم دستیابی پر ان کو سولر سسٹم پر منتقل کیا۔ اس سے قبل کسی بھی حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں الزام کا جواب الزام سے نہیں دینا چاہتا لیکن 20 سال تک محکمہ صحت اپنے پاس رکھنے والوں کو وہاں اس وقت صحت کے مسائل کیوں نظر نہیں آئے اور انہوں کیوں اقدامات نہیں کئے۔

    انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے وہاں عوام کی خدمت کی تب ہی وہاں کے عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے ہیں اور ان روائتی لوگوں کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور مسائل پر سیاست کرنے کی بجائے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر میں ڈاکٹروں کو دگنی تنخوائیں دی جارہی ہیں اور وہاں کام کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں اسپتالوں میں سہولیات کی عدم دستیابی پر ایک سال کے دوران ایک ہزار بچے جاں بحق ہوئے جبکہ فیصل آباد تو تھرپارکر کے مقابلے میں ترقی یافتہ ہے لیکن میڈیا صرف اور صرف تھرپاکر پر نیگیٹیو رپورٹنگ کی بجائے مثبت رپورٹ پیش کرے۔

    شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ ایک بھی انسان کی جان کا کوئی متبادل نہیں ہوتا اور ہر جان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اس ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری الزمہ بھی قرار نہیں دے رہے لیکن صرف اور صرف سیاست کی بجائے حقائق سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر پر اگر صوبے کے پاس وسائل کم ہیں تو وفاقی حکومت کیوں خاموش ہے اور وہ کیوں وسائل فراہم نہیں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھسب سے زیادہ ریونیو دینے والا صوبہ ہے تو وفاقی حکومت بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ تھرپارکر میں گندم کی بوریوں میں مٹی اور اس حوالے سے شکایت کنندہ کو ہی جیل میں ڈالے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر خود وہاں گئے اور انہوں نے پورے واقعہ کی خود انکوائیری کی ہے اور اس میں جو ملوث ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور افسران کو بھی معطل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب جو غلط کام کرے گا اس کے خلاف ایکشن ہوگا یہی حکومت کی پالیسی ہے اور جو بے گنا ہوں گے وہ آزاد ہوجائیں گے۔

  • شرجیل میمن اور اظہارالحسن تھر میں بچوں کی اموات پر آمنے سامنے

    شرجیل میمن اور اظہارالحسن تھر میں بچوں کی اموات پر آمنے سامنے

    کراچی: تھر میں قحط سالی سے پید اہو نے والی صورت حال اور اس دوران بچوں کی اموات پر سندھ حکومت شدید دباوں میں ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے تھر کی صورت حال پر پیپلز پارٹی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تھر میں بچوں کی اموات پر شرجیل میمن اور اظہار الحسن آمنے سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کےوزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت تھر میں قدرتی آفات سے نمٹنےکی کوششیں کررہی ہےتاہم پاکستان میں روزانہ چھ سو بچے جاں بحق ہوتے ہیں۔ محض تھر کےحوالےسےاس مسئلے کو نہ دیکھا جائے۔

    دوسری جانب تھرایم کیو ایم کے رہنما اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ میں ایک بھی بچہ مرےگاتو ایم کیو ایم جواب طلب کرےگی۔ ایم کیو ایم کےرہنماخواجہ اظہارالحسن نے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو تھر کےمسئلے سے نہ جوڑا جائے۔ سندھ میں ایک بچہ بھی بھوک سے مرےگا تو ایم کیو ایم حکومت سے جواب طلب کرے گی۔

    شرجیل میمن  اور اظہار الحسن علیحدہ علیحدہ سندھ اسمبلی کےباہر میڈیا سے گفتگوکررہے تھے۔

  • تھر: غذائی قلت سے آج بھی 2نومولود بچے دم توڑ گئے

    تھر: غذائی قلت سے آج بھی 2نومولود بچے دم توڑ گئے

    تھر: غذائی قلت سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے، اکتالیس دنوں میں اڑتالیس بچے زندگی کی جنگ ہار گئے ہیں ، خوراک کی عدم دستیابی اورفوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے آج بھی دو نومولود بچے دم توڑ گئے۔

    صحرائے تھر میں قحط سالی نے زندگی مشکل کردی ہے، بھوک سے بلکتے تھری باشندے آج بھی غذائی قلت کا شکار ہیں، اکتالیس دن میں اڑتالیس بچے موت کی وادی میں جاسوئے، آج بھی تھر کی تحصیل ڈیپلو کے نواحی گائوں ورنائی میں دو نومولود دم توڑ گئے۔

    یکم نومبر سے اب تک گیارہ بچے دم توڑ چکے ہیں، ان بچوں کو ابتدائی طبی امدام ملنے میں تاخیر ہوجاتی ہے تو کہیں دوائیاں زائد المعیاد ہونے کی بنیاد پر زندگی بچانا مشکل ہوجاتی ہے، سول اسپتال مٹھی میں ترپن بچے زیرِ علاج ہیں جبکہ تھر کے ضلع تھر کے مختلف علاقوں ڈیپلو ، اسلام کوٹ ، کلوہی ، چھاچھرو اور ننگر پارکر سمیت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بچے زیرِ علاج ہیں۔

  • تھر قحط سالی،  آج ایک اور ننھی کلی مرجھا گئی

    تھر قحط سالی، آج ایک اور ننھی کلی مرجھا گئی

    تھر : مٹھی اسپتال میں غذائی قلت کا شکار ایک اور معصوم پھول آج مرجھا گیا جبکہ عمرکوٹ میں پراسرار بیماری سے سولہ بچے متاثر ہوگئے۔

    تھر کے تپتے صحرا میں موت کے سائے ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں جبکہ حکام بالا کے دعوے کہیں پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، ذرائع کےمطابق مٹھی کےاسپتال میں زیرِ علاج غذائی قلت کا شکار دو سالہ ننھی بچی موت کے آغوش میں چلی گئی ۔

    جس کے بعد تھر میں قحط سے جاں بحق بچوں کی تعداد سینتیس ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب عمر کوٹ میں انوکھی بیماری پنجے گاڑ رہی ہے، صحرائی گاوٴں جھمراڑی میں ایک سال سے پندرہ سال تک کی عمر کے سولہ بچے پُراسرار جسمانی معذوری کا شکار ہو گئے ہیں جو کہ انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

  • تھرمیں تین دن کا بچہ دم توڑ گیا، ہلاکتوں کی تعداد تینتیس ہوگئی

    تھرمیں تین دن کا بچہ دم توڑ گیا، ہلاکتوں کی تعداد تینتیس ہوگئی

    مٹھی: سول اسپتال میں غذائی قلت کے باعث تین دن کا بچہ دم توڑ گیا اورہلاکتوں کی تعداد تینتیس ہوگئی۔

    سندھ کی صوبائی حکومت کےاعلانات اوراحکامات کے باوجود غذائی قلت کے باعث بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے مٹھی کےسول اسپتال میں مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کو لایا جارہا ہے۔

    تھرپارکرمیں خشک سالی انتہائی سطح تک پہنچ چکی ہے اورصحرائے تھرمیں موت کے سائے منڈلارہے ہیں ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں۔

    مٹھی سول اسپتال میں چھیالیس بچے زیرعلاج ہیں جن میں سے تین بچوں کو تشویشناک حالت میں حیدرآباد منتقل کردیا گیا ہے۔

    صوبائی حکومت نے جو وعدے تھر پارکر کے عوام سے کئے تھے وہ سب خام خیالی ثابت ہوئےتھرواسیوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آسکی مٹھی کے اسپتال میں مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔

    مٹھی میں ہرگزرتا دن کسی معصوم کی دنیا سے رخصتی کے بعد اختتام پذیرہوتا ہے۔

  • پاک فوج کی تھرکےقحط زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری

    پاک فوج کی تھرکےقحط زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری

    تھرپارکار: پاک فوج کی تھر کے قحط زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، جھانجر،اسلام کوٹ سمیت دوردراز علاقوں میں متاثرین کو ریلیف کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

    آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق تھر کے قحط زدہ علاقوں میں متاثرین میں تیرہ ٹن راشن تقسیم کردیا گیا ہے، جبکہ پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے تھر کے متاثرہ علاقوں کے دور دراز حصوں میں راشن کی فراہمی کا عمل بھی جاری ہے۔

    ترجمان کے مطابق چھاچھرو ، خنصر، ڈپلو اور دھنائی میں پاک فوج کے قائم کئے گئے چار میڈیکل کیمپوں میں ڈیڑھ ہزار مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔