Tag: تھیٹر

  • دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔

    مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔

    ہدایت کاری

    اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔

    کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔

    اداکاری

    اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار ارشد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔

    آخری بات

    یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے

    عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
    اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
    جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
    عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
    ان کی منزل ہیں
    اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
    کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
    اس کی شان ہے
    اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
    جہالت اور وحشت تنہائی
    اور بے جادہ گردش ہے
    عشق مزرعِ زندگی ہے
    (دشتِ سُوس)

  • فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے مختلف اہم شعبوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والی ممتاز ترین شخصیت رفیع پیرزادہ کی ہے اور بعد میں اسی گھرانے کی شخصیات تھیٹر اور فلم، ڈراما، رقص، موسیقی اور پتلی تماشے کے فن میں نمایاں ہوئیں۔

    رفیع پیرزادہ 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے گجرات میں آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے گئے۔ وہ علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یوں رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور فنونِ لطیفہ سے اوائلِ عمری ہی میں واقف ہوگئے۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیرزادہ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر پیش کرنے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا، اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے اور معلوم ہوا کہ تھیٹر کا یہ آخری دن ہے اور اب یہ لوگ دلّی روانہ ہو رہے ہیں۔ کم عمر رفیع پیرزادہ کے دل میں کیا آیا کہ کچھ نہ دیکھا اور کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ ادھر اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ دلّی پہنچ کر جب وہاں تھیٹر کے منتظمین نے شو کا آغاز کیا تو جس مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا، وہ رفیع پیر کے دادا کے دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑ گئی اور اسے پہچان لیا، پوچھنے پر آگاہ ہوئے کہ رفیع پیر نے تھیٹر کے شوق میں کیسی حرکت کی ہے۔ فوراً اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور یوں وہ چند روز بعد لاہور پہنچا دیے گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رفیع پیر اداکاری کے کس قدر دیوانے تھے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ ان کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے اور رفیع ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ اکثر جلسوں میں آگے آگے رہتے اور قائدین کے ساتھ ساتھ وہ بھی پولیس کی نظروں میں آ گئے۔ تب اہلِ خانہ نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں وہ قانون کی تعلیم کی غرض سے اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ برلن گئے جو پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے اور یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا تھی۔انھوں نے کسی طرح برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کی توجہ حاصل کر لی تھی جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں خاصا کام کیا اور اس عرصے میں معروف فن کاروں کے درمیان رہنے اور سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    اسی زمانے میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور ہٹلر سے نفرت اور کچھ معاملات کے سبب چند سال بعد رفیع پیر وہاں سے ہندوستان پہنچ گئے، لیکن خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں جب کہ بیٹی بچ گئی اور طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے اور وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے ان کی شادی کروا دی۔ 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی صلاحیتوں اور فن کی دھوم مچ گئی تھی۔ انھوں نے تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    رفیع پیر پاکستان کے ایسے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی علمی و ادبی حلقوں اور فن و ثقافت کی دنیا کے بڑے ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے فن کی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کی یاد میں مختلف پروگرام پیش کیے گئے اور ان کے فن کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

    رفیع پیر 1974ء کو آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔

    یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
    بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
    ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
    اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
    او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
    بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
    آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
    جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
    حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
    اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں

  • دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    آج کل ایسے بچوں کی پیدائش عام ہوگئی ہے جن کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دونوں بچوں کو علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بعد دونوں ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

    تاہم آج سے ایک صدی قبل تک ایسے بچوں کو عفریت تصور کیا جاتا تھا اور ایسے بچے نہایت ترحم آمیز زندگی گزارتے تھے۔ ایسے ہی حالات کا شکار ہلٹن سسٹرز بھی تھیں جنہیں خوفزدہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا تاہم یہ اپنے وقت کی سپر اسٹارز بھی تھیں۔

    ہلٹن سسٹرز کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا تھا، ڈیزی اور وائلٹ نامی یہ دھڑ جڑی بچیاں سنہ 1908 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کا نظام دوران خون ایک تھا، اور الگ کرنے کی صورت میں دونوں کی موت واقع ہوسکتی تھی۔

    ان بچیوں کی والدہ کیٹ اسکنر ایک 21 سالہ غیر شادی شدہ خاتون تھیں جو ایسی بچیوں کی پیدائش کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھنے لگی اور ایک دن اسپتال میں ہی لاوارث چھوڑ کر چلی گئی۔

    اسپتال کی ایک مڈ وائف میری ہلٹن نے ان بچیوں کو گود لے لیا لیکن اس کی نیت اچھی نہیں تھی اور یہیں سے ان بہنوں کی پر اذیت زندگی کا آغاز ہوا۔

    میری ان بچیوں کو ’عفریت‘ کا نام دیتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ ان کی نمائش کر کے وہ ان سے منافع کما سکتی ہے۔ میری نے انہیں ایک پب میں رکھا اور ان کی تصاویر پر مشتمل پوسٹ کارڈ بیچنا شروع کردیے۔

    پب میں آنے والے لوگ ان بچیوں کی تصاویر دیکھ کر تجسس میں مبتلا ہوجاتے اور ان بچیوں کو دیکھنا چاہتے جس کی انہیں قیمت ادا کرنی ہوتی۔ پب میں بھی کسی بھی وقت کوئی بھی شخص ان بچیوں کو دیکھنے کی فرمائش کر سکتا تھا اور انہیں چھو بھی سکتا تھا۔

    بعد میں ایک انٹرویو میں ہلٹن سسٹرز نے بتایا، کہ ان کی یادداشت میں بچپن کی یاد کے نام پر صرف سگاروں اور پائپوں کی بو محفوظ ہے، اور انہیں دیکھنے آنے والوں کا ناخوشگوار لمس، ’وہ بعض اوقات کپڑے ہٹا کر یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ہم کس طرح آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘۔

    صرف 3 سال کی عمر میں ان بہنوں کو مختلف میلوں میں لے جایا جانے لگا جہاں ان کی باقاعدہ نمائش کی جاتی تھی۔ ان کی منہ بولی ماں میری نے انہیں گانا اور آلات موسیقی بجانا بھی سکھایا۔ جب بھی یہ بچیاں اس کی مرضی کے خلاف چلنے کی کوشش کرتی تو وہ بیلٹ سے ان پر تشدد کرتی۔

    یہ سب چلتا رہا، بچیاں بڑی ہوتی گئیں، اس دوران میری نے انہیں لے کر پورے انگلینڈ، جرمنی، اور آسٹریلیا کا سفر بھی کیا لیکن اسے زیادہ کامیابی اور خوشحالی نصیب نہ ہوسکی۔

    سنہ 1915 میں اس نے ایک بار پھر اپنی قسمت آزماتے ہوئے امریکا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ امریکا آنے کے 4 برس بعد میری کا انتقال ہوگیا اور اس کے داماد میئرز نے ان بہنوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

    میئرز اور اس کی بیوی ان کے لیے میری سے بھی زیادہ سخت نگہبان ثابت ہوئے، وہ ہر وقت ان کی کڑی نگرانی کرتے حتیٰ کہ انہیں اپنے کمرے میں ہی ساتھ سلاتے۔ اکثر اوقات وہ انہیں گھر سے نکالنے کی بھی دھمکی دیتے جس سے لڑکیاں خوفزدہ ہوجاتیں۔

    سنہ 1920 میں ان بہنوں نے تھیٹرز ایکٹس کرنا شروع کیے اور یہاں سے ان کی قسمت کھلی۔ یہ ووڈیول کا دور تھا جو اس وقت امریکا کی واحد عوامی تفریح تھی۔ جلد ہی یہ بہنیں مقبول ہوگئیں اور ایک وقت ایسا تھا کہ اخبار کے انٹرٹینمنٹ صفحات پر صرف ان بہنوں کا نام ہوتا۔

    ہلٹن سسٹرز اس وقت سیکسو فون بجاتیں اور گانے گاتیں جسے دیکھنے کے لیے اس قدر لوگ امڈ آتے کہ یہ ہفتے میں 5 ہزار ڈالر کمانے لگیں۔ اس قدر کمانے کے باوجود انہیں ایک پیسہ بھی نہ ملتا، وہ کہتی تھیں، ’ہم بے تحاشہ امیر لیکن تنہا لڑکیاں تھیں جو جدید غلامی کرنے پر مجبور تھیں‘۔

    سنہ 1931 میں اپنے ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور اپنے نگران میئرز کے خلاف کیس کردیا۔ جلد ہی کیس کا فیصلہ ہوا اور یہ بہنیں عدالت کے حکم پر میئرز سے 1 لاکھ ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔

    اب یہ بہنیں آزاد تھیں، انہوں نے صحیح معنوں میں اب زندگی کو دریافت کیا، اور گھومنا پھرنا اور پارٹیز میں جانا شروع کیا۔ اپنی علیحدہ شخصیتوں کے اظہار کے لیے انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف کپڑے پہننا شروع کیے۔

    ان دونوں نے اپنا شو شروع کیا، لیکن اس وقت بولتی فلموں کی مقبولیت کا دور شروع ہوچکا تھا اور ووڈیول زوال پذیر ہورہا تھا۔ جلد ہی ان بہنوں کو بھی ایک فلم ‘فریکس‘ میں کاسٹ کرلیا گیا۔ یہ فلم اس وقت متنازعہ قرار پائی لیکن آج اسے کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    سنہ 1951 میں ان دونوں نے اپنی زندگی پر بنی فلم ’چینڈ فار لائف‘ میں کام کیا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان بہنوں کی مقبولیت میں بھی کمی آتی جارہی تھی۔ یہ دونوں شادی بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔

    10 سال بعد ان دونوں نے اپنی زندگی کا آخری عوامی شو کیا۔ جب عوامی زندگی کی رونقیں ختم ہوئیں تو یہ دونوں خالی ہاتھ تھیں اور ان کے پاس رہنے کے لیے گھر بھی نہ تھا۔

    زندگی گزارنے کے لیے ان بہنوں نے ایک گروسری اسٹور میں کیشیئر کا کام شروع کردیا جبکہ ایک چرچ کی جانب سے انہیں گھر فراہم کردیا گیا جس کے بعد ان کی زندگی پرسکون ہوگئی۔ شاید یہ ان کی زندگی کا واحد وقت تھا جو ان کے لیے پرسکون ثابت ہوا۔

    سنہ 1968 میں ہانگ کانگ فلو نامی وبا پھیلی جس نے دنیا بھر میں 10 لاکھ لوگوں کو اپنا شکار بنایا۔ اپنی زندگی کے آخری دن گزارتی یہ بہنیں بھی اس وبا کا شکار ہوگئیں، اور تھوڑے ہی عرصے میں کچھ دن کے وقفے سے انتقال کرگئیں۔ نشیب و فراز، پراسرار انفرادیت اور اذیت سے بھرپور زندگی کی یہ کہانی ان بہنوں کی موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

  • ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    صاحبو، آج تھیٹر کا عالمی دن ہے،ایک قدیم فن سے جڑا دن، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی اپنے ذوق سلیم کی تسکین کے لیے کچھ انوکھا کرگزرنے کی چاہ ہزاروں برس قدیم ہے۔

    شاید اِس خواہش کا آغاز تب ہوا تھا، جب انسان خوف اور بھوک کے عفریت پر کچھ حد تک قابو پاچکا تھا اور تہذیب کی تعمیر کی جانب پہلا قدم بڑھا رہا تھا۔

    آج کے روز یہ موزوں ہے کہ پاکستانی تھیٹر سے جڑے ایک ایسے فن کار کو یاد کیا جائے، جس نے کتنے ہی یادگار کردار نبھائے۔ اپنی آواز، مخصوص انداز سے ہزاروں کو گرویدہ بنایا۔ اداکاری کا علم نئی نسل میں منتقل کیا۔ سوچتا ہوں؛ اگر یہ صاحب نہ ہوتے، تو پاکستانی ڈراما شاید ادھورا رہ جاتا!

    [bs-quote quote=”پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔” style=”style-2″ align=”right” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala60x60.jpg”][/bs-quote]

    یہ معروف فن کار طلعت حسین کا ذکر ہے، جن سے کبھی تو اُس روزنامہ کے دفتر میں، جس سے میں بہ طور انٹرویوکار ایک عشرے منسلک رہا، ملاقاتیں ہوئیں، کبھی آرٹس کونسل کے چائے خانے میں سامنا ہوا، کبھی ناپا کے سامنے موجود ریسٹورنٹ میں، جو اب نہیں رہا۔ اور ہر بار یہ تجربہ پرمسرت اور یادگار رہا۔

    اُنھوں نے ہوائیں، کشکول، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، طارق بن زیاد اور ٹائپسٹ جیسے یادگار ڈرامے کیے۔ انسان اور آدمی، گم نام ، لاج اور جناح جیسی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ہندوستانی فلم سوتن کی بیٹی اور برطانوی سیریز ٹریفک میں بھی خود کو منوایا۔ کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    طلعت حسین نے تھیڑ میں خاصا کام کیا۔ لندن میں قیام کے دوران وہ اس فن کے اوج پر نظر آئے۔ اس کلاکار کی زندگی کے کئی پہلو خاصے دل چسپ ہیں۔ آئیں، ایسے ہی چند گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    1945 دہلی میں پیدا ہونے والے اس فن کار کے اہل خانہ نے بٹوارے کے سمے ہجرت کی۔ ان کی والدہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھیں۔ وہ ان کے ریڈیو کی سمت آنے کے خلاف تھیں، ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا سول سروس میں جائے، مگر قسمت کو کچھ اور منظو تھا۔ انھوں نے ریڈیوآڈیشن پاس کیا۔ ”اسکول براڈ کاسٹ“ نامی پروگرام سے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

    پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔

    ڈرامے ”ارجمند“ سے 1967میں ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا۔ پہلے ڈرامے کے فوراً بعد گاڑی خرید لی تھی۔ پھر وہ لندن چلے گئے۔ ایکٹنگ کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔

    [bs-quote quote=”لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ طور نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔” style=”style-2″ align=”left” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala_60x60.jpg”][/bs-quote]


    لندن میں قیام کے دوران بی بی سی کے لیے بھی کام کیا۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں خاصے مقبول تھے، مگر گزر بسر کے لیے انھیں دیگر ملازمتیں بھی کرنی پڑیں۔ وہاں بہ طور ویٹر بھی کام کیا۔

    لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ حیثیت نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔

    طلعت حسین ادب پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ لٹریچر کے موضوع پر جم کر گفتگو کرتے ہیں۔ کتابوں سے ان کا پرانا ناتا ہے۔ کراچی کے چند کتب فروش اپنے اس مستقبل گاہک کو خوب پہچانتے ہیں۔

    وہ قرة العین حیدر کو اردو کی نمایندہ فکشن نگارسمجھتے ہیں۔ شوکت صدیقی بھی انھیں پسند ہیں۔ بین الاقوامی ادیبوں میں چیخوف، گورکی، ہیمنگ وے کو سراہتے ہیں۔ طلعت حسین نے افسانے بھی لکھے، جو مختلف جرائد میں چھپے۔ انھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔

    کلاسیکی شعرا میں وہ میر کے مداح ہیں۔ اس خیال سے متفق ہیں کہ ہر اچھا شعر، میر کا شعر ہے۔ فیض کو بنیادی طور پر جدید اور معروف معنوں میں رومانوی شاعر ٹھہراتے ہیں۔ جالب، ان کے مطابق پکے انقلابی تھے، ان کے ہاں نعرے بازی تھی۔ قمرجمیل کی شاعری کے معترف ہیں۔


    تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔

    اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    theatre-2

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: آغا حشر کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی ناپا میں پیش

    برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    theatre-3

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    تھیٹر میں نئی جہت

    چند روز قبل لندن میں پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں روبوٹ اداکار کو پیش کر کے اس شعبے میں نئی جہت اور نئی جدت پیش کردی گئی۔

    ڈرامے کے اداکار و فنکاروں کا کہنا ہے کہ گو روبوٹ انسانوں جیسے تاثرات تو نہیں دے سکتا، تاہم اداکاری کے شعبے میں سائنسی مشین کی شمولیت فن، محبت اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین امتزاج ہے۔

  • سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    آج کل کے دور میں کتاب خریدنا ایک آسان عمل بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ڈھیروں سائٹس کے ذریعہ آپ گھر بیٹھے اپنی پسند کی کتاب نہایت موزوں قیمت پر منگوا سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایک بک شاپ ایسی بھی ہے جہاں لوگ کتاب خریدنے تو جاتے ہی ہیں لیکن صرف اسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

    یہ کتاب گھر یا بک شاپ ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ہے جہاں ایک قدیم تھیٹر کو بک شاپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب یہ جگہ تاریخ اور مطالعہ دونوں کے شوقین افراد کا مرکز بن چکی ہے۔

    book-8

    book-7

    دراصل یہ کتابوں کا ایک سپر اسٹور ہے جس کے اندر کتابوں کی 734 دکانیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں پڑھنے کے لیے مختلف حصے بھی مخصوص کیے گئے ہیں۔

    book-5

    book-3

    سو سال قدیم یہ تھیٹر اپنے زمانے میں بھی فن و ادب کا مرکز رہا ہوگا جس کا اندازہ اس کے در و دیوار اور چھت پر کی گئی مصوری کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

    book-9

    book-2

    تھیٹر سے بک شاپ میں تبدیل کرنے کے لیے اس پر ارجنٹینی ماہر تعمیر فرنینڈو مینزون نے کام کیا۔ فرنینڈو نے اس میں صرف الماریوں اور صوفوں کا اضافہ کیا جبکہ بقیہ تمام ساز و سامان ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا۔

    book-4

    book-6

    اسٹور میں جانے والے افراد خوبصورت اسٹیج، ریشمی پردے، شاندار مصوری اور سلیقہ سے سجی لاکھوں کتابیں دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

  • لاہور: فلمیں نہ ملنے پر میرا نے تھیٹرکواپنا لیا

    لاہور: فلمیں نہ ملنے پر میرا نے تھیٹرکواپنا لیا

    ملک میں فلمیں نہ بننے کے باعث اداکارہ میرانے تھیٹر میں کام کرنے کا اعلان کردیا،اسکینڈل کوئین میرا نے پاکستان میں فلموں کی عدم دستیابی کے باعث اپنے کیرئیر کو نیا موڑ دینے کیلئے تھیٹر ڈراموں میں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے،میراکہتی ہیں پاکستان پر پندرہ سال سے انکی حکومت ہے،مقامی تھیٹر میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کی جانب سے  کیپٹن نوید اور عتیق الرحمان کے ساتھ شادی اور پھر طلاق کے سوال پر میرا سیخ پا ہوگئیں اور میڈیا کو برابھلا کہتے ہوئے پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلی گئیں ،واضح رہے کہ وار،زندہ بھاگ ، تمنا ،اور میں ہوں شاہد آفریدی جیسی سپرہٹ فلموں میں کام نہ ملنے پر میرالالی وڈ سے مایوس ہو چکی ہیں۔