Tag: تھیٹر کا عالمی دن

  • یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    ایک زمانے میں جب آج کی طرح تفریح کے ذرایع میّسر نہ تھے تو لوگ میلوں ٹھیلوں میں عوامی تھیٹر سے وابستہ آرٹسٹوں کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتے تھے۔ یہ میلہ بڑے میدان اور کھلی جگہ پر منعقد ہوتا تھا۔ سن اسّی کی دہائی تک خصوصاً پنجاب کے چھوٹے شہروں اور دیہات میں‌ میلوں ٹھیلوں کا یہ سلسلہ جاری رہا جن میں عوامی تھیٹر تفریح کا ایک مقبول ذریعہ تھا۔

    پاکستان میں‌ شہروں شہروں مجمع لگانے اور عوامی تھیٹر کو اپنی پرفارمنس سے سجانے والے مرد فن کاروں میں عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی اور عاشق جٹ کے علاوہ بھی کئی نام لیے جاسکتے ہیں، لیکن بالی جٹّی اور دیگر آرٹسٹوں کا نام شاذ ہی لیا جاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم بالی جٹّی کا تذکرہ کررہے ہیں جو 8 جون 1996ء کو دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ عوامی تھیٹر کی اس باکمال آرٹسٹ کا اصل نام عنایت بی بی تھا۔ وہ 1937ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔ 1958ء میں پنجاب کے لوک تھیٹروں کا حصّہ بن کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگیں اور متعدد ڈراموں میں پرفارم کیا۔ وہ گلوکارہ بھی تھیں اور ان کی آواز میں‌ گائے ہوئے پنجاب کے لوک گیت آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔

    بالی جٹّی نے 1967ء کی ایک پنجابی فلم منگیتر میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں‌ وہ اپنے وقت کے مشہور اداکار منور ظریف کے ساتھ نظر آئی تھیں۔

    بالی جٹّی کے ڈراموں میں ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سلطانہ ڈاکو اور نورِ اسلام سرفہرست ہیں۔ وہ ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتی تھیں۔ اس زمانے میں عوامی تھیٹر کے ان آرٹسٹوں کی شہرت اور مقبولیت میلوں ٹھیلوں کے شرکا کے دَم سے قائم رہتی تھی۔ بالی جٹّی بھی اپنی عمدہ پرفارمنس کے سبب پنجاب بھر میں‌ مشہور تھیں۔ کہتے ہیں ان کی گرج دار آواز نے بھی انھیں تھیٹر کی دنیا میں‌ دیگر فن کاروں سے ممتاز کیا جب کہ تھیٹر کے شائقین نے انھیں ببر شیرنی کا خطاب دیا تھا۔

    عوامی تھیٹر کی یہ مقبول اداکارہ اور گلوکارہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔

    اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    theatre-2

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: آغا حشر کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی ناپا میں پیش

    برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    theatre-3

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    تھیٹر میں نئی جہت

    چند روز قبل لندن میں پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں روبوٹ اداکار کو پیش کر کے اس شعبے میں نئی جہت اور نئی جدت پیش کردی گئی۔

    ڈرامے کے اداکار و فنکاروں کا کہنا ہے کہ گو روبوٹ انسانوں جیسے تاثرات تو نہیں دے سکتا، تاہم اداکاری کے شعبے میں سائنسی مشین کی شمولیت فن، محبت اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین امتزاج ہے۔