Tag: ثقافت

  • ویڈیو رپورٹ: شادیوں کے سیزن میں رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ

    ویڈیو رپورٹ: شادیوں کے سیزن میں رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ

    سکھر: رنگین چارپائیاں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافت کا حصہ ہیں، شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی سندھ کے شہر سکھر کی مارکیٹ میں بھی رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    سکھر کے ہنر مند کاریگر رنگ برنگی چارپائیاں تیار کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، یہ چارپائیاں نہ صرف شادی کے لیے دلہن کے جہیز کا حصہ بنتی ہیں، بلکہ اپنے منفرد ڈیزائن اور خوب صورت رنگوں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بن جاتی ہیں۔

    یہ چارپائیاں مختلف قسم کی لکڑی (جیسا کہ کیکر اور سفیدے کی لکڑی) اور رنگین دھاگوں سے بنائی جاتی ہیں، ہر چارپائی کی تیاری میں کاریگروں کی مہارت اور ذوق شامل ہوتا ہے۔

    مارکیٹ میں ان چارپائیوں کی قیمت کا انحصار ان کے سائز، ڈیزائن، اور استعمال شدہ مواد پر ہوتا ہے، شہر میں رنگ برنگی چارپائیوں کا کاروبار بہتر ہونے پر کاریگر خوشی اور جوش و جذبے سے چارپائیاں بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    خریداروں کا کہنا ہے کہ شادیوں کے اس سیزن میں بیڈ کی قیمتیں چالیس پچاس ہزار تک پہنچی ہیں، کم سے کم قیمت والا بیڈ بھی 20 ہزار میں ملتا ہے، ایسے میں یہ رنگین چارپائی پانچ چھ ہزار روپے میں مل جاتی ہے، اور یہ سندھ کا ثقافتی ورثہ بھی ہے۔

    خریداروں کے مطابق سندھ کی ثقافت کا یہ حصہ ہے کہ مہمانوں کو خوب صورت چارپائیوں پر بٹھا کر ان کی خاطر داری کی جاتی ہے۔ ان چارپائیوں کا استعمال ہوٹلوں پر بھی نظر آتا ہے، کاریگروں کا کہنا ہے کہ خریدار اسے خرید کر گاؤں بھی لے کر جاتے ہیں۔

  • بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    رحمت بی بی کی جھونپڑی میں آج گویا عید کا دن تھا، صرف ایک ان کی جھونپڑی کیا آس پاس کی تمام جھونپڑیوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ آج رحمت بی بی کی سب سے بڑی بیٹی شادی ہو کر رخصت ہونے جارہی تھی۔

    شادی کے لیے رحمت بی بی نے اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ جوڑ لیا تھا۔ وہ سامان جو مستقبل میں نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ اس کے نئے گھر والوں کے بھی کام آنا تھا۔ کپڑے، برتن، ڈھیروں سجانے کی اشیا جو سب ہاتھ سے کڑھی ہوئی تھیں، ہاتھ کے پنکھے اور اس تمام سامان کو رکھنے کے لیے لوہے کے صندوق (جنہیں پیٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ رحمت بی بی کا ایک بیٹا شہر میں ملازمت کرتا تھا سو ان کی حیثیت دیگر گاؤں والوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی لہٰذا وہ بیٹی کو جہیز میں ایک عدد بکری بھی دے رہی تھیں۔ اور سب سے اہم چیز جو سب کو دکھانے کے لیے سامنے ہی رکھی تھی، 50 عدد تکیے۔

    یہ 50 عدد تکیے وہ اہم شے تھی جس کی تیاری رحمت بی بی اور ان کے گاؤں کی ہر ماں بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کردیتی تھی۔ کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع اس گاؤں مٹھو گوٹھ میں بیٹی کی شادی میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر 50 تکیے لازمی تھے۔

    جہیز میں دیے گئے سامان پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے

    مٹھو گوٹھ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    ایک مٹھو گوٹھ ہی کیا سندھ کے طول و عرض میں آباد مختلف ذاتوں، قبیلوں اور برادریوں میں جہاں مختلف روایات دیکھنے کو ملتی ہے، انہی میں ایک روایت بیٹی کو جہیز میں ڈھیروں ڈھیر بستر دینا بھی ہے، البتہ یہ روایت پورے سندھ کی برادریوں میں نہیں ہے۔

    جن برادریوں میں یہ رواج ہے وہاں کم از کم 20 سے 30 کے قریب کڑھی ہوئی چادریں، تکیے اور رلیاں (کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا متنوع رنگوں کا سندھ کا روایتی بچھونا) دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے تیار سجاوٹ کی ایسی اشیا جو دیوار پر آویزاں کی جاسکیں، ازار بند اور پہننے کے لیے کڑھے ہوئے کپڑے ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔

    تاہم بستروں پر اس قدر زور کیوں؟ اس بارے میں اندرون سندھ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والی پرھ قاضی نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا، پرھ اندرون سندھ کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

    پرھ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو سندھ کی مہمان نوازی ہے، سندھ دھرتی کی مہمان نوازی جو بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی اپنائیت سے سرشار کردیتی ہے، سندھ کے رہنے والوں کی سادہ سی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے گھر آنے والوں کی بے انتہا آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بہترین پکوان جو گھر کے شاندار برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے، تمام وقت مہمان کا خیال رکھنا (جس میں بجلی نہ ہو تو انہیں پنکھا جھلنا بھی شامل ہے)، رات سونے کے لیے نئے بستر بچھانا، اور وقت رخصت مہمانوں کو روایتی تحائف دینا سندھ کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

    رحمت بی بی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ڈھیروں بستر تیار کیے

    خاندانوں کا اکثر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا اور رات قیام کرنا عام بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈھیروں بستر ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ اکثر گھروں میں اسی حساب سے چارپائیاں بھی رکھی جاتی ہیں جن پر بچھانے کے لیے چادریں اور تکیے درکار ہوتے ہیں جبکہ فرشی نشست کی صورت میں بھی یہی سامان درکار ہے۔ ایسے میں اگر بہو کے جہیز کے بستر مہمانوں کو بھلے لگیں اور وہ اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف سسرال والوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے بلکہ گھر میں بہو کی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پرھ نے بتایا کہ ایک رجحان جسے بظاہر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رخصتی سے قبل جہیز کی نمائش کرنا ہے تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو کیا کیا دیا ہے۔ ’برادری والے باقاعدہ سوال پوچھتے ہیں کہ کتنے جوڑے دیے ہیں، کتنے بھرے ہوئے (کڑھائی والے)، اور کتنے سادہ ہیں، کتنی رلیاں ہیں، کتنے تکیے ہیں۔ ایسے میں جب بتایا جاتا ہے کہ 40 رلیاں ہیں، یا 50 تکیے، تو نہ صرف بتانے والے والدین کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے بلکہ سسرال والے بھی فخر سے اتراتے ہیں کہ دیکھو ہماری بہو اتنا کچھ لے کر آرہی ہے‘۔

    بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی تیاری کرنا، بظاہر والدین کے کندھوں پر بوجھ لگتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ پرھ نے بتایا کہ بیٹی کو شادی کر کے رخصت کرنے تک ایک بھاری ذمہ داری سمجھنا تو برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، لیکن اگر اس خاص پس منظر میں جہیز کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ ذمہ داری سے زیادہ والدین اور خصوصاً ماں کے لیے وقت گزاری کا ذریعہ بھی ہے۔

    ان کے مطابق گھر کے تمام کاموں سے فرصت پا کر کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا دیہی سندھ کی خواتین کا خصوصی مشغلہ ہے۔ یہ ان کے لیے ایک سماجی تفریح بھی ہے کیونکہ کڑھائی کرنے اور سیکھنے کے بہانے دو چار گھروں کی خواتین ایک گھر میں جمع ہوجاتی ہیں، اس دوران گپ شپ اور کھانے پینے کا سلسلہ چلتا ہے جبکہ ایک سے ایک کشیدہ کاری کے نمونے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ دن کے اختتام پر جب سارا کام سمیٹا جاتا ہے تو ماں اس نئے تیار شدہ سامان کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ بیٹی کی شادی میں کام آئے گا۔ اور صرف جہیز پر ہی کیا موقوف، اس بیٹھک کے دوران گھر کی سجاوٹ کی اشیا اور گھر کے مردوں کے لیے کڑھے ہوئے ازار بند بھی بنائے جاتے ہیں جو چند دن بعد ہی استعمال میں لے لیے جاتے ہیں۔

    سلائی کڑھائی کرنا گاؤں کی خواتین کے لیے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے

    سینئر صحافی اور محقق اختر بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جہیز میں بستروں کا یہ رواج سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو والدین اور بیٹی دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ چونکہ دیہی سندھ میں جہیز کا سامان بازار سے خریدنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے لہٰذا یہ سہل بھی لگتا ہے اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر میں اگر بہت مہمان زیادہ آجائیں تو پڑوس کے گھروں سے بھی بستر یا چارپائیاں ادھار لے لی جاتی ہیں، ایسے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے گھر کی رلیاں بہت اچھی ہیں یا فلاں کے گھر کے تکیے بہت خوبصورت ہیں، یہ تعریف اس سامان کے مالکوں کی خوشی میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔

    گھریلو استعمال کی بھی کئی اشیا ہاتھ سے بنائی اور سجائی جاتی ہیں

    سندھ کی ثقافت پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی امر گرڑو بتاتے ہیں کہ سندھ کا ایک قبیلہ باگڑی اپنی ہر شادی میں ہزاروں مہمانوں کو مدعو کرتا ہے، اتنے مہمانوں کے قیام کے لیے اتنے ہی بستروں کی ضرورت ہے، اب ہر گھر میں سو یا 200 بستر بھی ہوں تو میزبانوں کا کام چل جاتا ہے۔

    ان کے مطابق شہر اور گاؤں کے درمیان فاصلہ ہونا ایک ایسی وجہ ہے جس کے باعث شہری سندھ کے لوگوں کو دیہی سندھ کے باسیوں کی کئی عادات نامانوس لگتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ جب شہر جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے ضرورت خرید کر اسٹاک کرلیں تاکہ بار بار اتنی دور کا سفر نہ کرنا پڑے، ایسے میں مہمانوں کی آمد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اچانک مہمان آجائیں تو کسی شے کی کمی نہ ہو۔ بہت زیادہ تعداد میں بستر جمع کرنا بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔

    امر نے بتایا کہ سندھ کی یہ روایت کچھ علاقوں میں ہے، جہیز کے حوالے سے پورے سندھ میں مختلف روایات دیکھنے کو ملیں گی۔ سندھ کی ایک برادری ایسی ہے جو بیٹی کو جہیز میں کچھ نہیں دیتی، تھر میں جوگیوں کا قبیلہ بیٹی کو جہیز میں سانپ دیتا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات، وہاں کا ماحول اور آب و ہوا وہاں رہنے والوں کی ثقافت و روایات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شہر والوں کے لیے جو روایت بہت اجنبی ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے سندھی قبیلے یا سندھی برادری کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے درمیان جغرافیے کا فرق ہے۔

  • عالمی ورثے میں شامل پاکستان کے 6 خوبصورت مقامات

    عالمی ورثے میں شامل پاکستان کے 6 خوبصورت مقامات

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد قدیم تہذیبوں کی ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا اوراس کے بارے میں آگاہی و شعور اجاگر کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی جانب سے مرتب کی جانے والی عالمی ورثے کی فہرست میں پاکستان کے 6 مقامات بھی شامل ہیں۔ یہ مقامات تاریخی و سیاحتی لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

    آئیں آج ان مقامات کی سیر کرتے ہیں۔

    موہن جو دڑو

    پاکستان کے صوبے سندھ میں موجود ساڑھے 6 ہزار سال قدیم آثار قدیمہ موہن جو دڑو کو اقوام متحدہ نے عالمی ورثے میں شامل کیا ہے۔ ان آثار کو سنہ 1921 میں دریافت کیا گیا۔


    ٹیکسلا

    صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا گندھارا دور میں بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔


    تخت بائی کے کھنڈرات

    تخت بھائی (تخت بائی یا تخت بہائی) پشاور سے تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر بدھ تہذیب کی کھنڈرات پر مشتمل مقام ہے اور یہ اندازاً ایک صدی قبل مسیح سے موجود ہے۔


    شاہی قلعہ ۔ شالامار باغ لاہور

    صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقعہ شاہی قلعہ، جسے قلعہ لاہور بھی کہا جاتا ہے مغل بادشاہ اکبر کے دور کا تعمیر کردہ ہے۔

    شالامار باغ ایک اور مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر کروایا۔ شاہجہاں نے اپنے دور میں بے شمار خوبصورت عمارات تعمیر کروائی تھیں جن میں سے ایک تاج محل بھی ہے جو اس کی محبوب بیوی ممتاز محل کا مقبرہ ہے۔


    مکلی قبرستان

    صوبہ سندھ کے قریب ٹھٹھہ کے قریب واقع ایک چھوٹا سا علاقہ مکلی اپنے تاریخی قبرستان کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    اس قبرستان میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ان قبروں پر نہایت خوبصورت کندہ کاری اور نقش نگاری کی گئی ہے۔


    قلعہ روہتاس

    صوبہ پنجاب میں جہلم کے قریب پوٹھو ہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ جنگی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔


    آپ ان میں سے کن کن مقامات کی سیر کر چکے ہیں؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • پاکستان اور سعودی عرب کا فلم ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے پر اتفاق

    پاکستان اور سعودی عرب کا فلم ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے پر اتفاق

    ریاض: وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سعودی وزیر ثقافت سے بات چیت کے دوسرے دور میں دونوں ممالک کے درمیان فلم اور ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے کے لیے ورکنگ گروپ پر اتفاق ہو گیا ہے۔

    ملاقات میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ پرفارمنگ آرٹ، فیشن ڈیزائننگ اور فن کاروں کی تربیت میں تعاون کیا جائے گا، پاک سعودی ثقافتی تعاون میں مفاہمتی یادداشت کی تفصیلات کو بھی حتمی شکل دی گئی۔

    سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن محمد بن فرحان نے پاکستانی تجربے اور ماہرین سے استفادے کی اہمیت پر زور دیا، فواد چوہدری نے سعودی وزیر ثقافت کا ثقافتی شعبے میں تعاون بڑھانے پر شکریہ ادا کیا اور انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔

    بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ڈراموں کے فروغ کے لیے سعودی حکام سے بات ہوئی ہے، پاک سعودی کلچر کے فروغ میں تعاون کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومت نے سیاحتی و ثقافتی پلان طے کر لیا، خطے کا تین ہزار سالہ تاریخی ورثہ اجاگر کرنے کا فیصلہ

    انھوں نے کہا کہ پاکستانی سعودی عرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ولی عہد کے دورہ پاکستان کے بعد تعاون میں جدت آئی، پاکستان میں سعودی شہریوں کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت دی گئی ہے، عرب ممالک کے سیاح پاکستانی معیشت میں کردار ادا کریں گے۔

    خیال رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین گزشتہ روز سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچے تھے جہاں ان کا استقبال ایئر پورٹ پر پاکستان کے سفیر اعجاز راجا اور سعودی کلچرل وزارت کے حکام نے کیا تھا۔

  • سعودی عرب میں پسند کی مختصر ترین شادی کتنی دیر برقرار رہی؟

    سعودی عرب میں پسند کی مختصر ترین شادی کتنی دیر برقرار رہی؟

    جدہ: شادی انسان کی زندگی کا سب سے اہم اور نازک معاملہ ہوتا ہے، جس میں فریقین ایک دوسرے سے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں، تاہم جدہ میں ہونے والی ایک شادی صرف ایک گھنٹہ ہی برقرار رہی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک مختصر ترین شادی نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، یہ شادی نکاح کے محض ایک گھنٹے بعد ہی ٹوٹ گئی۔

    [bs-quote quote=”دولہے کی ماں اور بہنیں نئی دلہن کو اپنے خاندان میں قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جدہ سے آنے والی نیوز رپورٹس کے مطابق گزشتہ جمعے کے دن نکاح کی تقریب کے صرف ایک گھنٹہ بعد دولہا نے نکاح خوان سے کہا وہ کہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، اور اس نے زبانی طور پر دلہن کو طلاق دے دی۔

    زبانی طلاق کے بعد دولہا نے نکاح خوان سے کاغذی کارروائی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ تقریب سے اٹھ کر جائے، اس کی طلاق پر قانونی کارروائی پوری کی جائے۔

    معلوم ہوا کہ دولہا نے اپنی نئی نویلی دلہن کو طلاق اپنی ماں اور بہنوں کے شدید اصرار پر دیا، جو نئی دلہن کو کسی بھی طور پر اپنے خاندان میں قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔


    یہ بھی پڑھیں:   سعودی طالبہ کے ہاں پرچہ دینے کے فوراً بعد بچے کی پیدائش


    رپورٹس کے مطابق دولہا دلہن کی ملاقات ملک سے باہر تعلیم کے دوران ہوئی تھی، جہاں انھوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کا فیصلہ کر لیا۔

    دولہے کی ماں اور بہنوں کا کہنا تھا کہ دولہن کا تعلق ایک مختلف معاشرے سے ہے اس لیے وہ سعودی معاشرے میں اپنے شوہر کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکے گی۔

    دولہن کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کا تعلق کس ملک سے تھا، یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ماں اور بہنوں نے شادی سے قبل کیوں منع نہیں کیا اور عین نکاح کے بعد شادی توڑنے کی ضد کیوں کی۔

  • بیماریوں سے نجات کے لیے میوزیم کا دورہ کریں

    بیماریوں سے نجات کے لیے میوزیم کا دورہ کریں

    یہ ایک عام بات ہے کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹرز مریض کو بھاری بھرکم دوائیں تجویز کرتے ہیں جو وقتی طور پر فائدہ پہنچانے کے بعد جسم کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہیں جبکہ یہ جیب کے لیے بھی بھاری ہوتی ہیں۔

    تاہم اب مریضوں کے علاج کے لیے ایک مفت طریقہ علاج زیر غور ہے جس میں مریضوں کو دوائیں کھانے کے بجائے میوزیم کا دورہ کرنا ہوگا۔

    کینیڈا کے شہر مانٹریال میں اس منصوبے پر کام کیا جارہا ہے کہ مختلف بیماریوں کا شکار مریضوں کو فن و ثقافت کی طرف راغب کیا جائے تاکہ ان کی جسمانی صحت میں بہتری ہوسکے۔

    مزید پڑھیں: رنگوں اور غباروں سے بھرا دنیا کا انوکھا ترین میوزیم

    مانٹریال کی ڈاکٹرز تنظیم اور مانٹریال میوزیم آف فائن آرٹس مشترکہ طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کو نسخے میں میوزیم کا دورہ لکھ کر دے سکیں۔

    میوزیم تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل نتھالی اس منصوبے کے خالق ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس طرح جسمانی سرگرمیوں کو صحت کے لیے فائدہ مند تسلیم کرلیا گیا ہے، اسی طرح ثقافتی سرگرمیوں کے صحت پر مفید اثرات کو بھی جلد تسلیم کرلیا جائے گا۔

    ڈاکٹر نتھالی کا کہنا ہے کہ میوزیم کا پرسکون، تخلیقی اور خوبصورت ماحول مریضوں کے موڈ کو بہتر بنا سکتا ہے، ان کی جسمانی صحت کو بہتر کر سکتا ہے جبکہ اس سے مریضوں کو موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کو بھول کر فن و ثقافت کے بارے میں سوچ سکے۔

    منصوبے کا مرکزی خیال ہے، ’فن و ثقافت بہترین دوا ہے‘ جس کے تحت مریضوں کو بھاری بھرکم دوائیں تجویز کرنے کے بجائے انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی میوزیم کا دورہ کریں۔

    ڈاکٹر نتھالی کا ماننا ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو اس کا دائرہ دنیا بھر میں وسیع کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر ہیلینا کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں تحقیق کی جارہی ہے کہ فن و ثقافت سے تعلق قائم کرنا جسمانی صحت میں بہتری لاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ جب میرے مریض میوزیم کا دورہ کریں گے تو ان میں خوشی کے جذبات پیدا ہوں گے جس سے ان کی صحت میں بہتری آئے گی۔

    منتظمین کا ماننا ہے کہ یہ اس منصوبے کا ابتدائی مرحلہ ہے، جس کے بعد مریضوں کے لیے آرٹ تھراپیز بھی متعارف کروائی جائیں گی۔

  • لاہور میں‌ سجے گا بچوں کا تین روزہ ادبی میلہ

    لاہور میں‌ سجے گا بچوں کا تین روزہ ادبی میلہ

    لاہور: بچوں میں ادبی سرگرمیاں اجاگر کرنے کے لئے زندہ دلوں‌ کے شہر لاہور میں‌ تین زورہ ادبی میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے،یہ میلہ سی ایل ایف اور ڈبلو سی ایل اے کے اشتراک سے منعقد کیا جائے گا، جس کا مقصد بچوں میں شوق مطالعہ اجاگر کرنا ہے۔

    اس تین روزہ میلے میں جہاں پاکستان کی تاریخی ورثوں کو نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا، وہیں بچوں کے لیے مختلف ورک شاپ، کتابوں کے اسٹال اور دیگر انتظامات کئے گئے ہیں۔

    کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    منتظمین کے مطابق اس میلے کا مقصد بچوں کو کتب بیبی کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ثقافتی ورثہ سے روشناس کروانا ہے. انھیں امید ہے کہ یہ ایک کامیاب میلہ ثابت ہوگا۔

    سی ایل ایف کی بانی رکن بیلا جمیل کا کہنا ہے کہ لاہور ہمارا تہذیب و ثقافتی پس منظر کا حامل شہر ہے، جس کے متخلف پہلوئوں کو ہم اس تین روزہ میلے میں بچوں‌ کے سامنے پیش کریں‌ گے۔

    تین روزہ میلے میں کئی مشہور ادبی شخصیتوں کی آمد بھی متوقع ہے، میلے کی انتظامیہ کو یونیسکو، آکسفرڈ، بریٹش کاؤنسل کا تعاون حاصل ہے۔


    کراچی لٹریچر فیسٹول میں بچوں اور نوجوان شاعروں کے لیے خصوصی پروگرام بھی رکھے گئے ہیں اور اس دوران کل 20 نئی کتابوں کا اجرا کیا جائے گا۔ فیسٹیول 12 فروری تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا۔</p

  • خزانے کی تلاش میں آثار قدیمہ کھودنے والے 3 شہری گرفتار

    خزانے کی تلاش میں آثار قدیمہ کھودنے والے 3 شہری گرفتار

    ریاض: سعودی عرب میں مدفن خزانے کی تلاش کے لیے آثار قدیمہ کی کھدائی کرنے والے 3 شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا جو اب ممکنہ طور پر جیل کی ہوا کھائیں گے۔

    سعودی عرب کے کمیشن برائے سیاحت و قومی ثقافت کے مطابق چند دن قبل انٹرنیٹ پر جھوٹی خبر گردش کرنا شروع ہوئی کہ ریاست میں موجود آثار قدیمہ میں خزانے دفن ہوسکتے ہیں۔

    کمیشن نے پبلک وارننگ جاری کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ ان خبروں پر یقین کر کے خزانے کی تلاش میں آنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا کیونکہ یہ تاریخی و ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے۔

    ایک سعودی اخبار کے مطابق اس سلسلے میں حال ہی میں گرفتار کیے گئے تینوں شہریوں کو ریاست میں رائج قانون برائے تحفظ آثار قدیمہ کے تحت سزا دی جائے گی جس کے تحت کم سے کم 1 ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک سال کی قید ہو سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا: شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا کے کھنڈرات میں محبت بھری موسیقی کی لہریں گونج اٹھیں جب کچھ گلوکاروں نے وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    شام سے تعلق رکھنے والے نو عمر گلوکار اینجل دیوب نے مشہور نغمہ ’اے محبت! ہم واپس آرہے ہیں‘ گا کر کھنڈرات میں ایک بار پھر زندگی کی لہر دوڑا دی۔

    syria-2

    یاد رہے کہ گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے کھنڈرات داعش سے قبل اور بعد میں

    دس ماہ تک قبضے کے دوران داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ بعد ازاں اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔

    شامی گلوکار دیوب اور اس کے ساتھیوں نے پالمیرا میں موجود قدیم تھیٹر کے کھنڈرات میں گلوکاری اور فن موسیقی کا مظاہرہ کیا۔ دیوب اور اس کے ساتھیوں نے عربی آلات موسیقی کی دھن پر محبت کا نغمہ گایا۔

    syria-3

    syria-5

    syria-4

    syria-6

    دیوب کا کہنا ہے، ’میں ہر اس جگہ جاؤں گا جہاں داعش نے تباہی و بربادی کی داستان چھوڑی ہے۔ میں وہاں جا کر محبت کا نغمہ گاؤں گا‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص جنگ سے تباہ حال شام کو اپنے طریقے سے سنوارنا اور پھر سے اس کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم موسیقی کے ذریعے اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ ’داعش اندھیرا ہے، موسیقی روشنی ہے‘۔

    دیوب اور اس جیسے کئی فنکار جنگ زدہ شام کے تاریخی، فنی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

  • آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    برطانیہ کے علاقے اسٹیفورڈ شائر سے عہد آہن یعنی آئرن ایج کے زمانے کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت کر لیے گئے۔

    یہ دریافت دو ماہرین آثار قدیمہ مارک ہیمبلٹن اور جو کانیا نے کی۔ گلے کے گلوبند اور ہاتھوں میں پہنے جانے والے کنگن نما ان زیورات کی عمر ممکنہ طور پر ڈھائی ہزار سال قدیم ہے۔

    gold-5

    gold-6

    عہد آہن کے نوادرات پر مشتمل برطانوی میوزیم کی نگران ڈاکٹر فیئرلی کے مطابق یہ زیورات 400 سے 250 سال قبل مسیح میں تیار کیے گئے۔ ان کے مطابق یہ آئرن ایج کے بالکل ابتدائی زمانے میں تیار کیے گئے سونے کے زیورات ہیں۔

    gold-3

    gold-4

    gold-7

    ماہرین کے مطابق یہ برطانیہ میں عہد آہن کی سب سے قدیم دریافت ہے۔ اس دریافت سے برطانیہ میں اس دور کی تاریخ و تمدن کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔

    فی الحال ان زیورات کی مزید جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور بہت جلد اسے میوزیم میں عوام کے لیے پیش کردیا جائے گا۔