Tag: جارج آرویل

  • جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    انڈین سول سروس سے وابستہ کنبے کے گھر میں آنکھ کھولنے والے ایرک آرتھر بلیئر کو دنیا جار آرویل کے قلمی نام جانتی ہے۔ ہندوستان میں‌ ان کی تصنیفات کا اردو ترجمہ ہوا تو یہاں انھیں بہت مقبولیت ملی۔ جارج آرویل ایک ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    آرویل کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ آرویل یہیں پیدا ہوئے۔ مگر ایک سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور پھر کبھی ہندوستان نہیں آسکے، لیکن یہاں ان کو اپنے قلمی نام سے خوب شہرت ملی۔

    جارج آرویل نے 1903ء میں برطانوی دور میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے اپنے زمانہ میں کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ ان تجربات اور مشاہدات کو آرویل نے قلم بند کیا۔ 1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں آرویل کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ شایع ہوا تو دنیا بھر میں‌ ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور بشمول اردو اور دنیا کی متعدد زبانوں میں‌ اس کا ترجمہ کیا گیا۔

    1949ء میں جارج آرویل نے ایک خیالی دنیا پر ناول بعنوان ”1984“ سپردِ قلم کیا اور یہ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ثابت ہوا۔ اس ناول میں مصنّف نے ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہیں رکھ سکتے جو سرکار کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    مطلق العنانی کس طرح انسانی سوچ کو جکڑ لیتی ہے، اس موضوع پر برطانوی مصنف جارج آرویل کا یہ ناول ہمیں دنیا کی کئی حکومتوں اور وہاں کے حالات کے تناظر میں بہت حد تک حقیقت دکھائی دیتا ہے۔

    21 جنوری 1950ء کو انتقال کرنے والے جارج آرویل شاعر بھی تھے۔

  • جارج آوریل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور نقّاد

    جارج آوریل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور نقّاد

    جارج آرویل وہ قلمی نام ہے جس نے ایرک آرتھر بلیئر کو بالخصوص ہندوستان بھر میں ایک ناول نگار، نقّاد اور صحافی کے طور پر شہرت دی۔ جارج آرویل متحدہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ پیدا ہوئے جہاں ان کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ لیکن ایک سال کی عمر میں‌ جارج آرویل اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور کبھی ہندوستان نہیں‌ لوٹے۔ برسوں بعد ہندوستان میں ان کی تحریریں ان کے قلمی نام سے لوگوں نے پڑھیں اور ان کی کتابوں کے تراجم مشہور ہوئے۔

    جارج آرویل کا سنہ پیدائش 1903ء ہے۔ جارج آرویل ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب انھوں‌ نے اپنے قلم کے زور پر کتابوں میں محفوظ کردیا جو ان کی قابلِ‌ ذکر تصانیف ہیں۔ جارج آرویل عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سروس سے بھی منسلک رہے اور اسی زمانے میں وہ دوسرے اخباروں کے لیے بھی تحریریں قلمی نام سے لکھتے رہے۔ انھیں ایک ایسا قلم کار کہا جاسکتا ہے جس نے اس زمانے کی سیاست اور ثقافت کی نیرنگیوں‌ پر طنزیہ اور عقل و دانش سے آراستہ تبصرے کیے یا ان پر تحریریں سپردِ قلم کیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان جارج آرویل کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، اور چھے سال بعد 1945ء میں ایک سیاسی تمثیل پر مبنی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنّف جارج آرویل کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ اینیمل فارم میں مصنّف نے ایک فارم اور جانوروں کی منظر کشی کرتے ہوئے ان پر ظلم اور مالکان کی جانب سے استحصال کا نقشہ کھینچا ہے، جس سے بیزار ہو کر جانور اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کے بعد فارم پر ان کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس ناول کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا کی مختلف زبانوں‌ بشمول اردو اس ناول کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل اپنے شہرۂ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس کا اطلاق روس پر ہوتا ہے، لیکن اس کا اطلاق کہیں بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    جارج آرویل نے 1949ء میں اپنے ناول بنام ”1984“ میں ایک تصوّراتی دنیا کو پیش کیا اور یہ ناول بھی شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ کتاب میں‌ جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جب یورپ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گِھر چکی تھی اور مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن انگریز ناول نگار جارج آرویل کی خوبی یہ ہے انھوں نے ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا سبق بھی دیا ہے۔ آرویل کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا کہ جابرانہ حکومتوں کو ہمیشہ کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ناول میں انھوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح عوامی جذبات کو استعمال کر کے پراپیگنڈہ کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق نئے دشمن گھڑے جا سکتے ہیں۔

    جارج آرویل 21 جنوری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔

  • جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    ایرک آرتھر بلیئر کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے اور ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ ایرک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہیں‌ لوٹے، لیکن کئی برس بعد ایرک آرتھر بلیئر کو ان کے قلمی نام جارج آرویل سے ہندوستان بھر میں‌ پہچانا گیا۔ وہ ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    1903ء میں برطانوی راج میں پیدا ہونے والے جارج آرویل بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنھوں‌ نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا اور قلم کی طاقت کو آزماتے ہوئے قابلِ‌ ذکر تصانیف قارئین کے سامنے رکھیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں ان کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا اور ناول کا اردو اور متعدد دیگر زبانوں میں‌ ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    اسی طرح 1949ء میں انھوں نے ایک خیالی دنیا پر ”1984“ کے عنوان سے ناول سپردِ قلم کیا جو شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    انگریزی کے اس مشہور مصنّف اور صحافی نے 21 جنوری 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔