Tag: جارج برنارڈ شا

  • نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے نوبل انعام یافتہ ڈراما نویس، ناول نگار اور نقّاد جارج برنارڈ شا نے 2 نومبر 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اس مفکّر، عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی اور تھیٹر کی تاریخ کی نام وَر شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    جارج برنارڈ شا آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1856ء ہے، وہ 15 سال کی عمر میں لندن آیا اور پھر لندن کا ہو کر رہ گیا۔ اس کا باپ شرابی تھا، لیکن ماں‌ موسیقی کے فن میں‌ طاق تھی اور خوب صورت آواز کی مالک تھی۔ اس نے اپنے شرابی شوہر کو چھوڑ دیا اور بچّوں کے ساتھ لندن چلی گئی جہاں گھر چلانے کے لیے لوگوں کو موسیقی سکھانا اور اوپیرا میں گیت گانا شروع کردیا۔ یوں‌ برنارڈ شا کو بھی فنونِ لطیفہ، ادب اور موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا تاہم وہ لکھنے لکھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہوئے ذہانت سے بہت کچھ سیکھا اور کتابوں سے دوستی نے اس کا علم بڑھایا جو بعد میں اس کے کام آیا۔

    برنارڈ شا لندن گیا تو اس کی جیب خالی تھی۔ اس نے لائبریریوں اور میوزیم میں وقت گزارا، علمی و ادبی مباحث میں‌ شریک رہا، اور پھر ایک دن سوچا کہ وہ ناول لکھ سکتا ہے۔ اس نے ناول لکھے، لیکن مایوسی اس کا مقدر بنی اور کسی نے اسے نہ سراہا، تب موسیقی کا فن اس کے کام آیا جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔ اسی زمانے میں‌ وہ کالم نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور موسیقی سے متعلق مضامین اور تبصرے کرنے لگا۔

    برنارڈ شا 1892ء تک مختلف اخباروں میں تبصرہ نگار، نقّاد اور مبصّر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اس نے لندن کے مشہور اخبارات میں موسیقی پر کالم لکھے اور ادبی فن پاروں پر تبصرے کرنے لگا۔ اس کے قلم اور فقرے کی کاٹ بہت تیز تھی۔ بعد میں اس نے ڈرامے لکھنے کی طرف دھیان دیا۔

    اس کی پہلی تخلیق جو نیم خود نوشت کہی گئی "امیچوریٹی” کے نام سے شایع ہوئی جسے ابتدا میں لندن کے تمام پبلشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد چار ناول بھی مسترد کر دیے گئے۔ لیکن وہ ایک زبردست نقّاد اور ڈرامہ نویس کے طور پر تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوا۔ اس کی تخلیقات کا دنیا کی متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اس کے تحریر کردہ ڈراموں کو تھیٹر کے شائقین میں زبردست پذیرائی ملی۔

  • "مجھ غریب کی نیلی کار نہ جلانا”

    "مجھ غریب کی نیلی کار نہ جلانا”

    جارج برنارڈ شا کا شمار بیسویں صدی کے مشہور ادیبوں اور اہم تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔

    علم و ادب کے رسیا، فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کا شوق رکھنے والے جارج برنارڈ شا کی سنجیدہ تحاریر اور سماجی مسائل پر طنز و مزاح سے ہی نہیں بلکہ لوگ ان کی فکر اور نظریات سے بھی متاثر تھے۔ اسی مشہور ادیب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    لندن کے ایک ہال میں جارج برنارڈ شا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تقریر کررہے تھے۔

    جوشِ خطابت میں انھوں نے سرمایہ داروں کو خوب للکارا، اور اس نظام سے عام آدمی، غریب اور مزدور طبقے کی حق تلفی اور اس کے نقصانات پر مجمع کو خوب بھر دیا۔

    تقریر ختم ہونے کو تھی، جارج برناڈ شا خود بھی نہایت جذباتی ہوچکے تھے اور اس موقع پر انھوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو مزید مشتعل کردیا کہ باہر جو کاریں کھڑی ہیں وہ تمھارے خون پسینے کی کمائی سے لی گئی ہیں، جاؤ انھیں جلا ڈالو۔

    مجمع کا عالم یہ تھا کہ وہ ہر امیر کبیر اور سرمایہ دار کو اپنی ناآسودہ خواہشات، ادھورے خوابوں اور محرومیوں کا ذمہ دار مان چکا تھا اور جارج برناڈ شا کی تقریر کے باعث ماحول گرم تھا، وہ گاڑیوں کو جلانے کی بات سنتے ہی بپھر گیا اور لوگ غصے سے کاروں کی طرف بڑھے۔

    یہ دیکھا تو برنارڈ شا چلّا کر بولے:

    دیکھو، ٹھیرو ذرا، باہر ایک نیلے رنگ کی کار کھڑی ہے، اسے مت جلانا، یہ تمھارے غریب برنارڈ شا کی کی ہے۔