Tag: جارج فلائیڈ

  • سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالے سابق پولیس افسر پر قاتلانہ حملہ

    سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالے سابق پولیس افسر پر قاتلانہ حملہ

    امریکی ریاست مینیا پولس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالا سابق پولیس افسر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی ریاست مینیا پولس کے سابق پولیس افسر ڈیرک چوون پر ساتھ رہنے والے قیدی نے چاقو سے حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگیا۔

    امریکی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایری زونا میں واقع فیڈرل کریکشنل انسٹی ٹیوٹ میں جمعہ کو پیش آیا جس میں سابق پولیس افسر کو شدید زخم آئے ہیں۔

    فیڈرل بیورو آف پریزن نے ڈیرک پر چاقو سے حملے کی تصدیق کی اور ملزم کا نام بتانے سے گریز کیا ہے، جبکہ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس واقعے پر فوری طور پر کوئی ردعمل جاری نہیں کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ سال 2020 میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلایئڈ کو ریاست مینیا پولس میں اس وقت کے پولیس افسر ڈیرک نے گرفتار کرکے سڑک پر گھٹنے کے بل لٹا دیا تھا، اس دوران ڈیرک نے مسلسل 9 منٹ جارج کے گلے پر گھٹنا رکھا، جس کے باعث وہ موت کی وادی میں چلا گیا۔

    مذکورہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نام سے ایک تحریک بھی چلائی گئی تھی۔

    مقامی عدالت کی جانب سے سابق پولیس افسر کو سیاہ فام شہری کے قتل کے الزام میں جون 2022 کو ساڑھے 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

  • معزّز اور رئیسِ شہر ایڈورڈ کولسٹن جسے صدیوں بعد رسوائی کا سامنا کرنا پڑا

    معزّز اور رئیسِ شہر ایڈورڈ کولسٹن جسے صدیوں بعد رسوائی کا سامنا کرنا پڑا

    ایڈورڈ کولسٹن کی شخصیت کا شاید بُت اسی روز ٹوٹ گیا تھا جب برطانیہ میں اس کی سواںح عمری شایع ہوئی تھی۔

    مصنّف نے تاریخ کے اس کردار کی زندگی، ذریعۂ معاش اور اس کے ایک ‘غیر انسانی فعل’ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کولسٹن کی اصل تصویر پیش کرنے کے لیے کچھ باتوں کا پس منظر بھی ضرور جاننا چاہیے، جس کے بعد کولسٹن کے لیے مقامی لوگوں کے خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور اس کی شخصیت متنازع ہوگئی۔

    ایڈورڈ کولسٹن کون تھا؟
    (Bristol) برطانیہ کا ایک رہائشی علاقہ ہے جس کی مجموعی آبادی آج چار لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ کولسٹن 1636ء میں برسٹل میں پیدا ہوا اور زندگی کی 84 بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 1721ء میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    اس کا تعلق ایک مال دار تجارت پیشہ خاندان سے تھا۔ وہ بھی کاروبار کی طرف مائل ہوا اور قسمت کی یاوری سے خود کو جلد مستحکم کرلیا۔ اس نے کپڑا اسپین، پرتگال، اٹلی اور افریقا بھیجنا شروع کیا اور وہاں سے مختلف مصنوعات منگوا کر برطانیہ میں‌ فروخت کرنے لگا۔ اسی دوران وہ "رائل افریقی کمپنی” کے لیے خدمات انجام دینے لگا جو دراصل مغربی افریقا سے سیاہ فاموں کو امریکا لاکر ان کی تجارت کرتی تھی۔

    یہ کمپنی عورتوں اور بچّوں سمیت سیاہ فام افراد کو کیریبین کے جزائر میں سفید فام کاروباری شخصیات کو بیچ کر ‘دام کھرے’ کر لیتی۔ اس زمانے میں‌ آج کے مہذّب اور ترقّی یافتہ ممالک میں غلام رکھنا اور ان کی خریدوفروخت معیوب تھی اور نہ ہی اسے غیرانسانی فعل تصوّر کیا جاتا تھا۔ کولسٹن نے بھی انسانوں کی اس خرید و فروخت میں خوب دولت کمائی۔

    سترہویں صدی عیسوی میں کولسٹن نے افریقا سے سیاہ فام عورتوں اور بچّوں سمیت کئی انسانوں کو ان کے گھر بار اور اپنوں سے دور کرکے انھیں‌ جبری مشقّت اور اپنے آقاؤں کا ظلم و ستم سہنے پر مجبور کردیا۔

    کولسٹن کو یاد رکھنے کی کیا وجہ تھی؟
    اس رئیسِ شہر نے اپنی کمائی کا بڑا حصّہ فلاح و بہبود کے کام پر لگایا اور برسٹل شہر کے علاوہ لندن میں اسکول اور اسپتال بنوائے۔ کہتے ہیں کہ اس نے بے گھر افراد کو چھت فراہم کی اور غریبوں‌ کی مدد کی۔

    اس کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1895ء میں کولسٹن کی یادگار کے طور پر برسٹل میں‌ اس کا 18 فٹ لمبا مجسمہ نصب کیا گیا تھا جب کہ شہر میں آج بھی اس سے کئی سڑکیں اور عمارتیں منسوب ہیں اور چھوٹے بڑے مجسمے بھی شاہ راہوں‌ اور مختلف عمارتوں کے باہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ کولسٹن اپنی دولت اور اثر رسوخ کے سبب رکنِ پارلیمان بھی رہا اور اسی لیے وہ ایک معزّر اور قابلِ احترام شخص تھا۔

    کولسٹن کی شخصیت متنازع کیوں؟
    کئی دہائیوں تک برسٹل کے باسی اسے غریب پرور، رحم دل اور اپنا محسن سمجھتے رہے، لیکن اس امیر تاجر کی اوّلین سوانح عمری نے انھیں خاصا بددل اور متنفر کردیا۔ اسے انسان دوست نہیں‌ بلکہ ظالم کہا جانے لگا۔

    1990ء میں یہ کہا جانے لگا کہ انسانوں‌ کی خرید و فروخت میں‌ ملوّث کولسٹن قابلِ احترام نہیں‌ ہے اور شہر میں‌ موجود اس کی یادگاروں کو ہٹانا ہوگا جب کہ درس گاہوں اور دیگر عمارتوں کو اس سے منسوب نہ رکھا جائے۔

    عام لوگ ہی نہیں برطانیہ کی سنجیدہ اور اہم شخصیات بھی اسے بے شمار انسانوں کا خون بہانے اور ان پر ظلم کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو تاریخ کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہو گا تاکہ ہم نسل پرستی کا خاتمہ کر سکیں گے جو باعثِ شرم ہے۔

    کولسٹن سے متعلق مختلف مطالبات کرتے ہوئے احتجاجی روش اپنانے کا سلسلہ مختلف برسوں میں جاری رہا ہے، لیکن 2020ء میں‌ ایڈورڈ کولسٹن کا پیتل کا تاریخی مجسمہ ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران رسیوں سے باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور بعد میں اس مجسمے کو برسٹل کی بندرگاہ پر پانی میں غرق کردیا گیا۔

    مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ نسل پرستی کا خاتمہ یقینی بنایا جائے جس کے لیے ایسے گھناؤنے کاروبار میں ملوث شخصیات کو معاشرے میں عزّت اور احترام دینے کے بجائے ان کا اصل چہرہ سامنے لانے کی بھی ضرورت ہے۔

    یہ سب اچانک کیسے ہوا؟
    یہ احتجاجی مظاہرہ دراصل سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت اور نسلی امتیاز کے خلاف شروع ہوا تھا جس کے دوران مظاہرین نے ایڈورڈ کولسٹن سے اپنی نفرت کا اظہار اس طرح‌ کیا۔

  • جارج فلائیڈ کا قتل: موبائل ویڈیو پر لڑکی کے لیے بڑا ایوارڈ

    جارج فلائیڈ کا قتل: موبائل ویڈیو پر لڑکی کے لیے بڑا ایوارڈ

    واشنگٹن: امریکی ریاست منیسوٹا کے ایک شہر منیپولس میں سیاہ فام شہری ہپ ہاپ آرٹسٹ جارج فلائیڈ کے پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں دردناک موت کی ویڈیو بنانے والی نوجوان لڑکی کو صحافت کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نوجوان لڑکی 18 سالہ ڈارنیلا فریزیئر گزشتہ سال مئی میں امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک سیاہ فام شہری کے قتل کے وقت 17 برس کی تھی، وہ موقع پر موجود تھی اور اس نے جرات مندی کے ساتھ موبائل فون سے فوٹیج بنائی۔

    ڈارنیلا کو صحافت کا یہ خصوصی ایوارڈ پلٹزر پرائز بورڈ کی جانب سے دیا گیا ہے، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ڈارنیلا کو یہ اعزاز اس کی جرات کے لیے دیا گیا ہے۔

    ڈارنیلا کی ویڈیو نے پوری دنیا میں نسلی انصاف کے لیے احتجاج کی ایک بڑی لہر بیدار کر دی تھی، یہی ویڈیو پولیس افسر ڈیرک شاوین کے مقدمے میں بہ طور ثبوت استعمال کی گئی تھی، جس کی بنیاد پر جرم ثابت ہوا اور سزا سنائی گئی۔

    ایوارڈ دینے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ڈارنیلا فریزیئر کی ویڈیو نے دنیا بھر میں پولیس کی بربریت کو اجاگر کیا، جس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، ویڈیو میں ثابت ہوا کہ پولیس افسر ڈیرک شاوین ہی جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی وجہ بنا۔

    ڈارنیلا گزشتہ سال اپنے کزن کے ساتھ وہاں موجود تھی جب یہ واقعہ پیش آیا، اور اس نے اپنے موبائل فون پر واقعے کی ریکارڈنگ کی، ڈارنیلا نے ویڈیو بنا کر اپنے فیس بک پر اپ لوڈ کر دی اور جارج فلائیڈ کا قتل ایک ایسی خبر بن گیا، جس نے اس واقعے کو امریکا ہی نہیں، دنیا کے کئی شہروں میں مہینوں تک نسلی امتیاز کے خلاف جاری رہنے والے احتجاج میں تبدیل کر دیا۔

    ڈارنیلا فریزیئر کی ویڈیو میں پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا، طبی معائنے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کی گردن پر 8 منٹ 46 سیکنڈ تک گھنٹا دبائے رکھا تھا، تاہم 3 منٹ بعد ہی جارج کی ہلاکت ہو گئی تھی۔

    ڈارنیلا کے بیان کے مطابق جارج فلائیڈ اپنی مدد کے لیے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، اس نے اپنی والدہ کو بھی پکارا لیکن پولیس افسر نے اسے دبائے رکھا۔

  • 2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    امریکا کے اُس شہری کی جلد کا رنگ کالا تھا اور وہ غیرمسلح تھا۔ دنیا اُسے مظلوم کہتی ہے، کیوں کہ جس وقت اس کی موت واقع ہوئی، وہ ایک پولیس افسر کی گرفت میں‌ تھا۔ مکمل طور پر بے بس اور وہ وہاں‌ سے بھاگ بھی نہیں‌ سکتا تھا۔ اس کے گرد دوسرے پولیس اہل کار بھی موجود تھے۔

    25 مئی 2020ء کو، اس سیاہ فام، غیر مسلح شخص کو ایک سفید فام پولیس افسر نے ‘موت کے گھاٹ’ اتار دیا۔ اس کا نام جارج فلوئیڈ تھا جسے ایک سڑک پر پولیس افسر نے ‘قابو’ کیا اور پھر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ 46 سالہ جارج یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اس نے دَم توڑ دیا۔

    پولیس کی اس بربریت اور سفاکی کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ سڑک پر تکلیف دہ حالت میں پڑا ہوا سیاہ فام شخص اور وہاں موجود افراد اُس پولیس افسر کو گردن پر دباؤ کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

    جارج کہہ رہا تھا، ’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔‘ لیکن اس کی یہ آواز پولیس افسر کو اپنے ارادے سے باز نہیں‌ رکھ سکی اور جارج فلوئیڈ مر گیا۔

    اس سیاہ فام کے آخری جملے نے امریکیوں کو غم و غصّے اور احتجاج کی طرف دھکیل دیا۔ اس دردناک منظر کو دیکھنے والے امریکیوں اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں نے ‘بلیک لائیوز میٹر’ کا نعرہ بلند کیا اور عظیم ریاست اور سپر پاور ہونے کے دعوے دار امریکا کو اس غیر انسانی سلوک اور ناانصافی پر مطعون کرتے ہوئے جارج کے لیے انصاف کا مطالبہ کردیا۔

    امریکا کی تاریخ میں‌ 2020ء کا یہ واقعہ سیاہ فام افراد سے نفرت، تعصب اور ظلم و ناانصافی کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    گو کہ امریکا میں‌ کسی سیاہ فام کی ہجوم یا پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، لیکن اس واقعے نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران لوگوں‌ کو اس کے خلاف اجتماع اور سڑکوں پر مظاہروں پر مجبور کردیا تھا۔ ان میں‌ سفید فام امریکی بھی شامل تھے۔

    سیاہ فام امریکا کی کُل آبادی کا 13 فی صد بتائے جاتے ہیں۔ ان کے اجداد افریقی تھے جنھوں نے غلام کی حیثیت سے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ آج بھی امریکا میں غلاموں‌ کی یہ اولادیں‌ رہائش، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بدترین مسائل سے دوچار ہیں۔ انھیں‌ تعصب اور نسل پرستی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے خلاف کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں، لیکن تارکینِ وطن سیاہ فام افراد پر پولیس تشدد اور ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    2020ء میں‌ نسل پرستی کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹر’ وہ بڑی تحریک تھی جس نے کرونا وائرس سے خوف زدہ انسانوں دنیا بھر میں اکٹھا ہوکر اس کے خلاف احتجاج پر اکسایا۔

    امریکا میں نسل پرستی، سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک اور پولیس کے ہاتھوں قتل کے ایسے واقعات کے خلاف سڑکوں پر آنے والوں کا کہنا تھاکہ صدیوں پرانی عصبیت اور مخصوص ذہنیت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی سوچ نے ایک اور نہتّے اور بے بس انسان سے اس کی زندگی چھین لی۔

    اس واقعے کے خلاف آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں بھی احتجاجی اجتماعات ہوئے، اور‌ شرکا نے نسلی مساوات اور سیاہ فام امریکیوں‌ کے حق میں‌ آواز بلند کی اور بلیک لائیوز میٹر کی تحریک نے زور پکڑا۔ امریکا میں‌ مظاہرین جائے وقوع پر جمع ہوئے اور جارج کے آخری الفاظ دہراتے رہے۔

    اس برس انتخابات نے ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکی عوام کو محبوب نہیں‌ رہے اور انھیں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا، لیکن اس سے پہلے انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو بھی اپنے سخت اور متنازع بیان کی وجہ سے مایوس اور ناراض کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات ادا کرنے سے خود کو نہیں روک سکے تھے جس نے اس بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا وہ نسل پرست ہیں؟

    گو سیاہ فاموں کے حق میں مظاہرے امریکا میں‌ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس گزرتے ہوئے سال میں‌ جارج فلوئیڈ کی موت نے ایک بار پھر امریکی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور نسلی امتیاز کے خلاف اس کے آخری الفاظ اور اس کی فریاد ایک نعرہ بن گئی۔

  • اسلحے کی سرعام نمائش کرنے والا وکیل صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں پیش پیش

    اسلحے کی سرعام نمائش کرنے والا وکیل صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں پیش پیش

    امریکی ریاست سینٹ لوئیس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین کو، اسلحے سے دھمکانے والا وکیل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ بن گیا۔

    سینٹ لوئیس میں 28 جون کو سیاہ فام امریکی شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ ہوا تھا، فلائیڈ منیا پولس پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوگیا تھا۔ یہ مظاہرہ اس احتجاجی لہر کا حصہ تھا جو فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد پورے امریکا میں پھوٹ پڑے تھے اور بعد ازاں پرتشدد شکل اختیار کر گئے تھے۔

    ایسے میں ایک شاندار بنگلے کے باہر بندوق لہراتے میاں بیوی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی جو مظاہرین کو دھمکاتے دکھائی دے رہے تھے۔

    سینٹ لوئیس کے رہائشی میاں بیوی مارک اور پیٹریکا مک کلوسکی دونوں وکیل ہیں اور ان کی عمریں بالترتیب 63 اور 61 سال ہے۔

    یہ دونوں اب ری پبلکن پارٹی کے نیشنل کنونشن میں شریک ہونے جارہے ہیں جہاں یہ صدر ٹرمپ کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کریں گے۔ امریکی میڈیا کے مطابق مک کلوسکی کنونشن سے خطاب بھی کریں گے اور لوگوں کو صدر ٹرمپ کو ووٹ دینے کی ترغیب دیں گے۔

    ان کی اہلیہ پیٹریکا بھی ان کے ساتھ موجود ہوں گی لیکن وہ خطاب نہیں کریں گی۔

    ری پبلکن پارٹی کا نیشنل کنونشن 24 سے 27 اگست کے درمیان نارتھ کیرولینا میں منعقد ہوگا جس میں مک کلوسکی جوڑے سمیت متعدد شرکا بذریعہ ویڈیو لنک شرکت اور خطاب کریں گے۔

    28 جون کو کیا ہوا تھا؟

    مذکورہ جوڑا 28 جون کو اس وقت امریکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا جب یہ اپنے شاندار بنگلے کے باہر اسلحہ لہراتے دکھائی دیے تھے۔ 11 لاکھ 50 ہزار ڈالر مالیت کے اس بنگلے کے ساتھ کی سڑک بھی جوڑے کی ملکیت تھی۔

    مظاہرین جب اس سڑک پر آئے تو دونوں میاں بیوی اسلحہ لے کر باہر آگئے اور مظاہرین کو دھمکانے لگے، مظاہرین وہاں سے گزر کر سینٹ لوئیس کے میئر کے گھر کی طرف، ان سے استعفے کا مطالبہ کرنے جارہے تھے۔

    مارک کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی املاک کا دفاع کرنے کا قانونی حق حاصل تھا، ان کے مطابق مظاہرین نے سڑک سے باہر لگے داخلہ ممنوع ہے اور نجی املاک کے سائن بورڈز بھی توڑ دیے تھے۔

    جوڑے کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین میں کچھ افراد مسلح بھی تھے جن سے انہیں خطرہ محسوس ہوا تو وہ بھی اسلحہ نکال کر باہر آگئے۔

    جوڑے پر بعد ازاں اسلحے کی نمائش کامقدمہ بھی دائر کردیا گیا تھا جس کی سزا 4 برس تک ہوسکتی ہے، ان کی سیاسی وابستگی کے باعث فی الحال اس مقدمے پر قانونی مشاورت جاری ہے۔

  • امریکی پولیس مظاہرین پر تیز آواز اور روشنی والے گرنیڈ پھینکنے لگی

    امریکی پولیس مظاہرین پر تیز آواز اور روشنی والے گرنیڈ پھینکنے لگی

    واشنگٹن: امریکا میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی فوجی دستے واپس بھیجے جائیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے پولیس اہل کار کے ہاتھوں قتل کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ ختم نہ ہو سکا، ریاست اوریگان کے شہر پورٹ لینڈ اور واشنگٹن اسٹیٹ کے شہر سیاٹل میں ایک بار پھر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔

    مظاہرین نے پولیس کی فنڈنگ ختم کرنے اور وفاقی فوجی دستے واپس بھیجنے کا مطالبہ کر دیا ہے، ڈیموکریٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ فوجی دستے طاقت کا استعمال کر کے شہریوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پُر تشدد احتجاجی مظاہروں کو جرم قرار دے چکے ہیں، ٹرمپ نے پُر تشدد احتجاج کو روکنے کے لیے کئی شہروں میں وفاقی فوجی دستے بھیجے تھے، ادھر ڈیموکریٹ گورنرز اور میئرز نے بھی فوجی دستے واپس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    دوسری طرف شہر سیاٹل میں بڑے احتجاجی مظاہروں کے بعد شہری انتظامیہ نے مظاہروں کو فساد قرار دے دیا ہے، مظاہرین نے احتجاج کے لیے ایک بڑا علاقہ ایک ہفتے سے گھیرا ہوا ہے، جسے خالی کرانے کے لیے پولیس نے مظاہرین پر فلیش بینگ گرنیڈ اور مرچوں کے اسپرے کا استعمال کیا، فلیش بینگ گرنیڈ سے تیز آواز اور روشنی پیدا ہوتی ہے جسے مظاہرین کو منتشر کرنے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کوئی شدید زخم نہیں لگتے۔

    سیاٹل پولیس نے کہا ہے کہ 11 مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے، جن سے ہفتے کو پولیس اسٹیشن کی دیواروں کو ممکنہ دھماکا خیز مواد سے نقصان پہنچائے جانے کے سلسلے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

  • امریکی صدر نے پولیس سے متعلق اہم حکم نامے پر دستخط کر دیے، گلا دبانے پر پابندی

    امریکی صدر نے پولیس سے متعلق اہم حکم نامے پر دستخط کر دیے، گلا دبانے پر پابندی

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پولیس سے متعلق اہم ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے، پولیس اہل کار کے لیے گلا دبانے پر پابندی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں سیاہ فام شہریوں کے ساتھ پولیس کے امتیازی سلوک کے مسلسل واقعات کے بعد ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والوں سے متعلق ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے۔

    صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس اہل کار کے لیے گلا دبانے پر پابندی ہوگی سوائے اس کے کہ افسر کی جان کو خطرہ ہو۔ انھوں نے کہا پولیس محکموں کو بدنام کرنے اور انھیں تحلیل کرنے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے دستخط شدہ حکم نامے میں طاقت کے بہترین طریقوں کے استعمال پر زور دیا گیا ہے، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولیس محکموں میں ذہنی صحت اور دیگر امور کے لیے ماہرین تعینات کیے جائیں، اور اعلیٰ پولیسنگ کے معیار کو برقرار رکھا جائے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں احتساب کو فروغ دیا جائے اور پولیس افسران کو تعمیری کمیونٹی سروس کی تربیت دی جائے۔

    متعصب امریکی پولیس باز نہ آئی، ایک اور سیاہ فام ہلاک، پولیس چیف مستعفی

    قوانین میں اصلاحات کے حکم نامے پر دستخط کے بعد صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا قانون کے بغیر انتشار اور سیکورٹی کے بغیر تباہی مچ سکتی ہے، محکمہ انصاف پولیس محکموں کو گرانٹ فراہم کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی پولیس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا پولیس سروس کا ملک میں اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ معیار ہے، تمام امریکیوں کے لیے امن، وقار اور مساوات کو یقینی بنانے کے لیے ہم متحد ہیں۔

    ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے سفید فاموں کے ہاتھوں ہلاک احمد آربیری کے اہل خانہ سےملاقات کی ہے، نفرت اور تعصب کا نشانہ بننے والے دیگر افراد کے خاندانوں سے بھی ملاقات کی، تمام امریکی ان تمام خاندانوں کے ساتھ غم میں برابر کے شریک ہیں، آپ کے پیاروں کی جان رائیگاں نہیں جائے گی۔

    دریں اثنا، امریکا میں قانون نافذ کرنے والوں کی تنظیم ایف او پی نے ٹرمپ کے حکم نامے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکم نامے کی موجودہ دور میں بہت ضرورت تھی، حکم نامے سے عوام اور افسران محفوظ ہوں گے۔

  • پاکستانی ٹرک آرٹسٹ کا جارج فلائیڈ کو منفرد انداز میں خراج عقیدت

    پاکستانی ٹرک آرٹسٹ کا جارج فلائیڈ کو منفرد انداز میں خراج عقیدت

    کراچی: پاکستانی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی نے امریکی پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے رہائشی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی نے امریکی پولیس کے تشدد سے جان کی بازی ہارنے والے جارج فلائیڈ کو منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔

    ٹرک آرٹسٹ نے اپنے گھر کی دیوار پر جارج فلائیڈ کی تصویر بنا کر سیاہ فام نسل پرستی کے خلاف لڑنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

    حیدر علی نے روایتی ٹرک آرٹ کے انداز کو اپناتے ہوئے جارج فلائیڈ کی نہ صرف پینٹنگ بنائی بلکہ ساتھ میں ٹرک پر لکھی جانے والی شاعری کے انداز میں لکھا کہ ہم کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں۔

    پاکستانی آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ یہ ٹرک آرٹ نہ صرف جارج فلائیڈ بلکہ دنیا بھر میں نا انصافی اور ظلم کے خلاف لڑنے والے ہر شخص کے لیے خراج تحسین ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کس طرح مقبوضہ کشمیر، فلسطین، میانمار اور دیگر ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہوں گے اور وہ اپنا ہر دن کس اذیت اور خوف میں بسر کرتے ہوں گے۔

    پاکستانی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ مظلوم لوگوں کے حق میں آواز بلند کی جائے اور کمزور آواز کو طاقت بخشی جائے تاکہ کوئی ظالم کسی پر ظلم نہ کرسکے۔

  • امریکا میں سیاہ فام شخص کے قتل کی پیشگوئی بھی 27 سال قبل ہوگئی تھی؟

    امریکا میں سیاہ فام شخص کے قتل کی پیشگوئی بھی 27 سال قبل ہوگئی تھی؟

    امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کئی پوسٹس اور ویڈیوز میں ایک منظر دکھایا جا رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ دی سمپسنز سے لیا گیا ہے اور دیگر کئی واقعات کی طرح سمپسنز نے جارج فلائیڈ کے قتل اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں کی بھی پیشنگوئی کردی تھی، تاہم اب اس منظر کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔

    مشہور ٹی وی کارٹون سیریز دی سمپسنز کو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں یہ کچھ متنازعہ اور کسی حد تک خوفزدہ کردینے والی سیریز بن گئی جس میں دکھائے گئے مناظر حقیقت بن رہے ہیں۔

    دی سمپسنز کے کچھ ویڈیو کلپس گزشتہ 2 ماہ میں بے حد وائرل ہوئے ہیں جس میں کرونا وائرس کے پھیلنے اور امریکا و یورپ کے قاتل مکھیوں سے متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی، اس سے قبل اس سیریز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کا صدر بننے کی بھی پیشنگوئی کی گئی تھی۔

    اب گزشتہ چند روز سے دی سمپسنز کے نام سے ایک اور منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں کارٹون کا ایک کردار ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر گھٹنا رکھے دکھائی دیتا ہے جبکہ ایک اور کردار ایک بینر اٹھائے کھڑی ہے جس پر جسٹس فار جارج کے الفاظ درج ہیں۔

    یہ بالکل وہی واقعات ہیں جو چند روز قبل امریکا میں پیش آئے جب 4 پولیس اہلکاروں نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو پکڑا اور ایک اہلکار اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر کھڑا ہوگیا۔

    پولیس اہلکار کی اس حرکت سے جارج فلائیڈ دم گھٹنے سے مرگیا جس کے بعد پورا امریکا پرتشدد مظاہروں کی زد میں آگیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    Normally you’re used to see colorful and cheerful drawings from me, but since i’ve got quite a good audience, i’d like to use it as much as i can in the right way when the situation requires it, and bring something good, and useful with my drawings, and you guys know it. Especially in this exact moment. With this piece i’d like you to think deeply, Taking the chance to bring The Simpsons as an example for the cause. The Simpsons has always been everyone’s childhood, so the message will be clear and strong enough i suppose. Imagine you’re sat with you daughter/son watching the Simpsons, and all of a sudden this scene happens in the show, as cruel as it has been, no jokes, no irony, nothing that the Simpsons normally has, and what it’s loved for. Imagine that, how would you feel? … Think about that deeply, and give yourself an answer, no need to add anything else! 🙏🏻 • • • • • • #noracism #georgefloyd #justiceforgeorgefloyd #ripgeorgefloyd #georgefloyd🙏🏾 #noracismo #equality #humanrights #art #artist #simpsons #simpson #thesimpsons #illustration #illustrationartists #digitalart #digitalillustration #yuripomo #cartoon #cartoonist #icantbreathe #blacklivesmatter #blacklives #blacklivesmatter✊🏾 #blacklivesmatters #racism #colinkaepernick #riots

    A post shared by Yuri Pomo (@yuripomo) on

    دی سمپسنز کے اس منظر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس کارٹون سیریز میں اس تمام منظر نامے کی بھی پیشنگوئی کردی گئی تھی تاہم جلد ہی علم ہوا کہ یہ منظر ایک مصور کا تخلیق کردہ ہے۔

    اٹلی سے تعلق رکھنے والے مصور یوری پومو نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ ڈرائنگ انہی کی بنائی ہوئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر و بیشتر دی سمپسنز کی تھیم پر مختلف واقعات کی منظر کشی کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ حقیقت ہے، اور نہایت خوفناک ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    •”On February 23, 2020, Ahmaud Marquez Arbery, an unarmed 25-year-old African-American has been chased and gunned down by two white men claiming they were conducting a citizen’s arrest for a burglary. Ahmaud was simply just going for a run.” 🙏🏾 •”In the middle of the night on March 13 in Louisville, KY, two police officers and one sergeant entered the wrong home without knocking or announcing themselves. They claim they were executing a search warrant for a suspected drug dealer, but this person did not live at Breonna’s address and had actually already been arrested. Breonna’s boyfriend fired a shot when he thought people were trying to break in. The police then fired 20 shots, 8 of which hit and killed Breonna.”🙏🏾 •”on 25th May 2020 George Floyd yelled “I can’t breathe” and pleaded for his life as a white Minneapolis police officer violently pinned him down with his knee on his neck. George died after.”🙏🏾 This must stop! We gotta fight racism all together, together we’ll end this endless tragical and abominable situation! This is my homage to these three poor souls, may you rest in piece! The world won’t let it slip, and justice will be served! ❤️✊🏻✊🏾 • • • • • • • • • • • • #noracism #georgefloyd #justiceforgeorgefloyd #ripgeorgefloyd #georgefloyd🙏🏾 #noracismo #equality #humanrights #art #artist #simpsons #simpson #thesimpsons #illustration #illustrationartists #digitalart #digitalillustration #yuripomo #cartoon #cartoonist #icantbreathe #blacklivesmatter #blacklives #blacklivesmatter✊🏾 #blacklivesmatters #racism #colinkaepernick #riots #breonnataylor #ahmaudarbery

    A post shared by Yuri Pomo (@yuripomo) on

  • امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    واشنگٹن: امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد جہاں پورا امریکا پرتشدد مظاہروں کی آگ میں جل رہا ہے وہیں اس کی تپش دوسرے ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے۔

    پرتشدد مظاہروں اور دکانوں کو لوٹنے کے ساتھ ان مظاہروں میں ایسے واقعات بھی پیش آرہے ہیں جن سے انسانیت پر یقین پھر سے بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

    واشنگٹن ڈی سی میں جب پولیس نے ایک سڑک کو بلاک کر کے مظاہرین کو محصور کردیا تو راہول نامی ایک شخص نے 80 کے قریب مظاہرین کو اپنے گھر کے اندر بلا لیا جہاں انہوں نے رات گزاری اور آرام کیا۔

    واشنگٹن میں ہی ایک سیاہ فام نو عمر لڑکے پر پولیس نے گنیں تانیں تو ایک سفید فام لڑکی دونوں کے درمیان لڑکے کی ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی۔

    ںیویارک کے شہر بروکلن میں چند مظاہرین نے ایک برانڈ کے اسٹور کو لوٹنے کی کوشش کی تو مظاہرین ہی میں سے چند افراد ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور اسٹور کو لٹنے سے بچا لیا۔

    ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں پولیس چیف کو مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن وہاں پہنچ کر وہ مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگئے اور نہایت پرجوش تقریر کرڈالی۔ تارک وطن پولیس چیف نے کہا کہ ہم تارکین وطن نے ہی اس ملک کی تعمیر کی ہے اور ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

    متعدد شہروں میں مظاہرین نے گا کر اور رقص کر کے جارج فلائیڈ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جارج کے آخری الفاظ میرا دم گھٹ رہا ہے ایک انقلابی نعرے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

    ریاست کولوراڈو میں ہزاروں مظاہرین نے 9 منٹ تک زمین پر لیٹ کر میرا دم گھٹ رہا ہے کے نعرے لگائے، یہ اتنا ہی وقت ہے جتنا سفید فام پولیس اہلکار نے جارج کے گلے کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا۔

    متعدد شہروں میں پولیس والوں نے گھٹنے ٹیک کر مظاہرین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

    نسلی تعصب کے خلاف امریکا سے بھڑکنے والی یہ چنگاری دیگر ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے، نیوزی لینڈ، برطانیہ، نیدر لینڈز، آسٹریلیا، جرمنی اور فرانس میں بھی لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نسلی تعصب کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔

    جنگ زدہ ملک شام میں ایک مصور نے جارج فلائیڈ کی تصویر بنا کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔

    دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے معاملے میں برطرف تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف نئی دفعات عائد کردی گئی ہیں۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق پولیس اہلکار ڈیرک شووین کے خلاف سیکنڈری ڈگری قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ باقی پولیس اہلکاروں پر بھی اس قتل میں مدد کرنے اور قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔