Tag: جاسوسی ادب

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    شرلاک ہومز وہ سراغ رساں تھا جس نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا اور یہ خیالی کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا۔ جاسوسی ادب میں شرلاک ہومز جیسا مقبول کردار متعارف کروانے والے آرتھر کونن ڈوئل 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل نے اپنی کہانی اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) میں پہلی مرتبہ شرلاک ہومز کو متعارف کروایا تھا اور اِس کردار کو اپنے چار ناولوں اور پچاس سے زائد کہانیوں میں نہایت پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے واقعات کو اپنی ذہانت اور مہارت سے حل کرتے ہوئے دکھایا۔ اس کردار کو وہ قارئین کے سامنے محدب عدسہ تھامے، کسی مشکل کیس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کے دوران پائپ کے کش لگاتے ہوئے پیش کرتے تھے اور قاری کی بیتابی بڑھ جاتی تھی کہ یہ شاطر اور ذہین جاسوس کب اور کس طرح مجرم تک پہنچے گا اور کوئی راز ان پر کب کھلے گا۔ شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب فروخت ہوئے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا۔ اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور ماہر جاسوس تھا۔ یہ کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اِس کردار نے اپنے برطانوی تخلیق کار کے چار ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور خوب مقبول ہوا۔ کہانی کے کسی منظر میں جب شرلاک ہومز کو قارئین محدب عدسہ تھامے، جرم کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے دوران پائپ کے کش لگاتے اور اپنے ساتھی کو اشاروں میں ہدایات دیتے ہوئے پاتے تو یہ جاننے کے لیے بیتاب ہوجاتے کہ مجرم کون ہے اور کب اس کا راز سب پر کھلے گا؟

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    اردو میں سرّی ادب یا جاسوسی کہانیوں کو ناقدوں نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا اور اردو ادب میں پاپولر ادب بمقابلہ ادبِ عالیہ کی بحث آج بھی جاری ہے، لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جاسوسی ادب میں‌ قارئین کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جب ڈائجسٹوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جاسوسی کہانیوں کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔

    آج دنیائے ڈائجسٹ کی ایک معروف ہستی معراج رسول کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے 2019ء میں وفات پائی۔ معراج رسول طویل عرصے سے علیل تھے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں ڈائجسٹ کے لیے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کو مقبولیت کی معراج نصیب ہوئی، جس میں‌ معراج رسول کا سرگزشت، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ صفِ اوّل کے ماہ نامے تھے جو سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔ معراج رسول ان کے بانی اور مدیر تھے۔ سسپنس کا پہلا شمارہ 1972 میں بازار میں‌ آیا تھا جب کہ جاسوسی ڈائجسٹ کا سلسلہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

    ان ڈائجسٹوں میں غیر ملکی ادیبوں کی پُراسرار، آسیبی اور مہم جوئی کے واقعات پر مبنی کہانیوں کے اردو تراجم شایع کیے جاتے تھے جنھیں قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو اہلِ قلم اور طبّاع کہانی نویس بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور سرّی ادب میں نام بنایا۔

    5 اگست 1942ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے معراج رسول کے والد شیخ عبدالغفّار تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے بی کام کیا اور چند سال بعد اپنے اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، معراج رسول نے خود بھی لکھاری تھے اور چند ناول بھی تخلیق کیے، ان کا ادارہ اپنے مستقل قلم کاروں کو بہت مناسب مشاہرہ دیا کرتا تھا۔ معراج رسول کو ڈائجسٹ نکالنے کی تحریک اپنے والد سے ملی جو اپنے دور کے ایک کام یاب رسالے ’سراغ رساں‘ کے روح رواں تھے۔ معراج رسول نے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے ڈائجسٹوں میں سلسلے وار کہانیوں سے لاکھوں قارئین کو عرصے تک جوڑے رکھا اور کہتے ہیں کہ ان ڈائجسٹوں کے قارئین 20 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ مرحوم نے دو شادیاں کی‌ تھیں۔ معراج رسول کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    معراج رسول نے اپنے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ کے عنوان سے 33 سال تک ہر ماہ بلاناغہ کہانی شایع کی جس کے مصنّف محی الدّین نواب تھے۔ یہ اردو ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

  • آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے، لیکن 26 جولائی ان کی تاریخِ پیدائش بھی ہے۔ ابنِ صفی اپنی 52 ویں سال گرہ کے دن 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ابنِ صفی 1928ء کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے قلمی نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان بنائی اور اردو زبان میں جاسوسی ادب کے اوّلین اور مقبول ترین قلم کار کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ابنِ صفی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ انھوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری کی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے تو طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952ء میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ہندوستان سے شایع ہوا۔ اسی سال ابنِ صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انھوں نے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے جاسوسی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، اس عنوان کے تحت ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں شائع ہوا۔ وہ جلد ہی کہانیوں اور ناولوں کے رسیا قارئین میں مقبول ہوگئے، انھوں نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کیے اور ان کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ان کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    عمران سیریز کی مقبولیت کے دنوں میں اکتوبر1957ء میں ابنِ‌ صفی نے یہاں جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو پاکستان میں ان کا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابنِ صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا۔ 1963ء میں ابنِ صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ان کے مستقل قارئین نے زبردست پذیرائی دی اور ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کہتے ہیں صرف ہفتے بھر میں ناشر کو اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ پاکستان کے اہم ادیبوں اور قلم کاروں ہی نے نہیں بلکہ ابنِ صفی کی تخلیقات کو نام وَر غیر ملکی ادیبوں اور نقّادوں نے بھی سراہا اور انھیں سرّی ادب کا بڑا قلم کار مانا ہے۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے ابنِ صفی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    میجر آفتاب حسن کو سائنسی موضوعات پر اردو زبان کے مصنّف، محقّق اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علمِ سائنس کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مضامین اور تحقیقی کام کا اردو ترجمہ اور سائنسی اصطلاحات سازی میں‌ اہم کردار ادا کیا۔ آج میجر آفتاب حسن کی برسی ہے۔

    میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنسی شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں اردو سائنس کالج، کراچی کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔

    1960ء سے 1972ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے سربراہ رہے۔ اس دوران انھوں نے اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنس و تحقیق کے موضوعات پر کتب کی اشاعت کے لیے نہایت اہم اور قابلِ ذکر کام کیا اور اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد بھی تھے۔ میجر آفتاب حسن 26 فروری 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بچپن کی تصویر

    بچپن کی تصویر

    چلتی ٹرین میں چڑھنے والے نوجوان کو نواب کاشف نے حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ اندر آنے کے بعد اپنا سانس درست کر رہا تھا۔ شاید ٹرین پر چڑھنے کے لیے اس کو کافی دور دوڑنا پڑا۔

    نواب کاشف نے اس سے کہا: "نوجوان! ٹرین پر چڑھنے کا یہ طریقہ درست نہیں، اس طرح آدمی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔”

    "زندگی تو ہے ہی حادثات کا نام چچا۔” نوجوان مسکرایا۔

    "اوہو اچھا۔ یہ جملہ تو ذرا ادبی قسم کا ہے۔ کیا تمھارا تعلق ادب سے ہے؟” نواب کاشف کے لہجے میں حیرت ابھی باقی تھی۔

    "میرا ادب سے تعلق بس پڑھنے کی حد تک ہے چچا۔”

    "چچا۔۔۔! تم مجھے پہلے بھی چچا کہہ چکے ہو، تمھارے منھ سے چچا کہنا کچھ عجیب سا لگا۔ خیر، میں تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ یہ کیبن میں نے مخصوص کروا رکھا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی اور کے لیے سیٹ نہیں ہے۔”

    "لیکن چچا، یہ جگہ تو چار پانچ آدمیوں کی ہے؟”

    "ہاں، یہ فیملی کیبن ہے۔ میری فیملی تین اسٹیشنوں کے بعد سوار ہو گی۔”

    "اوہ، اچھا، میں تیسرا اسٹیشن آنے سے پہلے ہی اتر جاؤں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔”

    "لیکن بھئی، یہ پورا کیبن میرے لیے مخصوص ہے۔”

    "میں سن چکا ہوں، لیکن آپ دیکھ چکے ہیں۔ میں چلتی ٹرین میں سوار ہوا ہوں، خیر میرا وجود اگر آپ کو اتنا ہی ناگوار گزر رہا ہے تو میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا۔ اتنی دیر کے لیے تو آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ مجھے افسوس ہے۔”

    "اچھا خیر، بیٹھ جائیں برخوردار۔” نوجوان سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پھر گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا: "اگلا اسٹیشن کتنی دیر میں آجائے گا؟”

    "پینتالیس منٹ تو ضرور لگیں گے۔”

    "اوہ۔۔۔ تب تو کافی وقت ہے۔ میں ذرا نیند لے سکتا ہوں؟” "ضرور، کیوں نہیں۔” نواب کاشف نے منھ بنایا۔

    نوجوان نے جیب میں ہاتھ ڈالا، اس کا ہاتھ باہر نکلا تو اس میں چیونگم کے دو ٹکڑے تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا: "چچا، چیونگم۔”

    "میں بچہ نہیں۔” نواب صاحب نے منھ بنایا۔ "یہ چیونگم بہت خاص قسم کے ہیں۔ ان سے خاص قسم کے لوگ شغل کرتے ہیں۔ آپ کے لیے اگر یہ انوکھی چیز ثابت نہ ہوں تو پھر کہیے گا۔ آپ ایک چیونگم منھ میں رکھ کر دیکھ لیں۔ ابھی اندازہ ہو جائے گا۔” یہ کہتے ہوئے اس نے دوسرا چیونگم کا کاغذ بائیں ہاتھ اور دانتوں کی مدد سے اتار لیا اور اس کو منھ میں رکھ لیا۔

    غیر ارادی طور پر نواب کاشف نے چیونگم اٹھا لیا، اس کا کاغذ اتار کر اسے منھ میں رکھ لیا۔ وہ جلدی سے بولے۔ "اس میں شک نہیں، چیونگم بہت خاص قسم کا ہے۔”

    "اور پیش کروں؟ راستے بھر شغل کر سکیں گے آپ۔”

    "نہیں بھئی۔ مجھے مسلسل منھ چلانا پسند نہیں۔ آدمی بکرا نظر آنے لگتا ہے۔”

    "آپ کی مرضی۔ ویسے آپ کی شکل صورت کچھ جانی پہچانی سی نظر آ رہی ہے۔ شاید میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ کیا نام ہے بھلا آپ کا؟”

    نواب صاحب نے طنز کہا: "واہ، واہ، وا۔”

    "یہ کیسا نام ہوا؟”

    "حد ہو گئی۔ میں نے اپنا نام نہیں بتایا۔ پہلے تو تم چلتی ٹرین پر سوار ہو گئے، وہ بھی میرے مخصوص کیبن میں، پھر جگہ حاصل کر لی۔ اس کے بعد چیونگم پیش کیا اور اب میرا نام پوچھ رہے ہو۔ خیر تو ہے نوجوان، ارادے تو نیک ہیں؟”

    نوجوان نے ناگواری سے کہا: "اچھی بات ہے، نہ بتائیں نام، میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا۔”

    "برا مان گئے برخوردار! خیر سنو، میرا نام نواب کاشف ہے۔”

    "نواب کاشف!” نوجوان کے لہجے میں حیرت شامل ہو گئی۔

    "ہاں کیوں، کیا تم مجھ سے میرا مطلب ہے۔۔۔ میرے نام سے واقف ہو؟”

    "سنا ہوا سا لگتا ہے۔ اسی طرح آپ کا چہرہ بھی شناسا ہے، خیر ابھی میں یہاں تقریباً چالیس منٹ اور ٹھیروں گا، اس دوران اگر یاد آ گیا تو بتاؤں گا۔”

    نواب کاشف نے جمائی لیتے ہوئے کہا: "اچھی بات ہے، ہا، ہا، شاید مجھے نیند آ رہی ہے۔”

    "میرا بھی یہی حال ہے۔”

    "تب پھر کچھ دیر نیند لے لیتے ہیں۔ اسٹیشن پر پہنچ کر جب ٹرین رکے گی تو آنکھ خود بخود کھل جائے گی۔”

    نواب صاحب بولے: "ٹھیک ہے” پھر جمائی لی اور ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ نیم دراز تو پہلے ہی تھے، اب پیر پھیلا کر لیٹ گئے۔” ان کی آنکھ کھلی تو ان کے گھر کے افراد انھیں بری طرح جھنجوڑ رہے تھے۔

    انھیں آنکھیں کھولتے دیکھ کر ان کی بیگم بول اٹھیں: "آپ گھوڑے بیچ کر سو گئے تھے؟ ہم لوگ کتنی دیر سے آپ کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

    نواب صاحب چونک کر بولے: "اوہو اچھا، حیرت ہے، تین اسٹیشن گزر گئے، لو مجھے پتا ہی نہیں چلا اور، اور وہ نوجوان؟”

    ان کی بڑی بیٹی نے حیران ہو کر پوچھا: "کون نوجوان، کس کی بات کر رہے ہیں ڈیڈی؟”

    "اور ہاں، اسے تو اگلے اسٹیشن پر ہی اتر جانا تھا۔ یہاں تک تو اسے آ نا ہی نہیں تھا۔”

    "کس کی بات کر رہے ہیں؟ ابھی تک نیند میں ہیں کیا۔”

    "نہیں، میں اب نیند میں نہیں ہوں۔ میں بتاتا ہوں، اس کے بارے میں۔”

    پھر وہ اپنے گھر کے افراد کو نوجوان کے بارے میں بتانے لگے۔ چیونگم کے ذکر سے ان کا بیٹا چونکا۔ وہ بولا: "کہیں وہ کوئی چور تو نہیں تھا۔”

    نواب کاشف بولے: "ارے نہیں، وہ تو بہت بھولا بھالا نوجوان تھا۔”

    "پھر بھی آپ اپنی جیبوں کی تلاشی لے لیں۔”

    "ضرورت تو کوئی نہیں، خیر تم کہتے ہو تو میں دیکھ لیتا ہوں۔”

    انھوں نے اپنی جیبوں کا جائزہ لیا۔ شیروانی کی اندرونی جیب ٹٹولتے ہی وہ بولے: "بٹوا موجود ہے اور ساری نقدی اسی میں تھی، اس کا مطلب ہے وہ چور نہیں تھا۔”

    بیٹے نے کہا: "بٹوا بھی تو نکالیں نا۔” اس کے کہنے پر نواب صاحب نے جیب سے بٹوا نکال لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ بہت زور سے اچھلے: "ارے یہ کیا! یہ تو میرا بٹوا نہیں ہے۔”

    "کیا؟” ان سب کے منھ سے نکلا۔ نواب صاحب نے گھبراہٹ کے عالم میں بٹوے کا جائزہ لیا۔ بٹوے میں کاغذات بھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے کاغذات نکال لیے۔ وہ اخبارات کے تراشے تھے۔ جرائم کی خبروں کے تراشے۔ ان کے بٹوے کے دوسرے حصے میں چند تصویریں تھیں۔ یہ تصاویر اسی نوجوان کی تھیں اور ان میں ایک تصویر غالباً اس کے بچپن کی تھی۔

    بیگم صاحب نے تیز لہجے میں کہا: "متو وہ آپ کا بٹوا لے اڑا۔”

    "ہاں یہی بات ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ اوہ ۔ اوہ۔ ارے۔”

    ایک بار پھر وہ زور سے اچھلے۔ ان کی نظریں بچپن والی تصویر پر چپک سی گئی تھیں۔ ان کے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ بچے کی مسکراتی تصویر ان کے دل و دماغ میں اترتی جا رہی تھی۔

    تصویر والا بچہ اپنے ماموں سے پیار بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا: "ماموں جان! آپ کہاں جا رہے ہیں۔”

    "منے! میں فلم دیکھنے جا رہا ہوں۔”

    "آپ مجھے بھی لے چلیں نا۔”

    "لیکن منے! میرے پاس صرف ایک ٹکٹ کے پیسے ہیں۔ میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں، کیا تمھارے پاس پیسے ہیں؟”

    "جی ماموں جان پیسے؟ جی نہیں تو۔”

    "تب پھر تم ایک کام کرو۔ اپنے ابو کی دکان پر جاؤ، وہ تو دکان داری میں لگے ہوں گے۔ ان کے گلّے میں سے کچھ نوٹ چپکے سے نکال لاؤ۔ انھیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ پھر میں تمھیں فلم دکھانے لے چلوں گا۔”

    "اچھا ماموں جان!” منے نے کہا اور دوڑ گیا۔ جلد ہی وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دس دس روپے کے کئی نوٹ تھے۔ ان نوٹوں کو دیکھ کر انھوں نے منھ بنایا اور کہا: "ان سے ٹکٹ نہیں آئے گا۔ ایک بار اور جاؤ۔” ماموں نے جھوٹ بولا۔ حالاں کہ اس کے زمانے میں فلم کا ٹکٹ چند آنوں میں ملتا تھا۔

    "جی اچھا ماموں!” منا گیا اور چند نوٹ اور لے آیا۔ ماموں نے پھر کہا: "نہیں بھئی، ابھی ٹکٹ کے پیسے پورے نہیں ہوئے۔”

    بچے نے کہا: "اچھا ماموں، ایک چکر اور سہی۔”

    اس طرح منّے کو ماموں نے کئی چکر لگوائے، تب فلم دکھائی، لیکن پھر منّے کو پیسے اڑانے کا چسکا پڑ گیا۔ روز روز وہ اس کام میں ماہر ہوتا گیا اور اس کی یہ عادت اسے بری صحبت میں لے گئی۔ ایک دن وہ گھر سے بھاگ گیا۔ بیس سال بعد ماموں جان کی اس سے ملاقات ان حالات میں ہوئی تھی کہ اس کی تصویر اس کے ہاتھ میں رہ گئی تھی۔

    "آپ، آپ اس تصویر کو اس طرح کیوں گھور رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ کس کی تصویر ہے۔ اس طرح تو شاید ہم اس کو گرفتار کرا سکیں۔”

    نواب کاشف بولے: "نہیں، ہم اسے گرفتار نہیں کروائیں گے۔”

    "لیکن کیوں، آپ کو اس چور سے ہم دردی کیوں ہے؟”

    "گرفتار ہی کرنا ہے تو مجھے گرفتار کراؤ۔”

    وہ سب ایک ساتھ بولے: "جی کیا مطلب؟”

    اور وہ انھیں منّے کی اور اپنی پرانی کہانی سنانے لگے۔

    (اس کہانی کے مصنف مشہور جاسوسی ناول نگار اشتیاق احمد ہیں)

  • شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ناول نگار ابنِ صفی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا ہے۔ جاسوسی کی دنیا کے مقبول ترین کردار علی عمران کے خالق کو بعد از مرگ یومِ دفاع پر اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ایوانِ صدر سمیت صوبوں میں گورنر ہاؤس میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ جن شخصیات کو اعزازات دیے گئے ان میں ابنِ صفی شامل کا نام شامل تھا جو 1980 میں انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا، جو دنیا بھر میں‌ قلمی نام ابنِ صفی سے پہچانے گئے۔ 1948 میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسرار احمد نے سنجیدگی سے قلم تھاما اور ان کی پہلی کہانی ایک جریدے میں شایع ہوئی جس کے بعد ہر ماہ ایک جاسوسی ناول لکھنے کا آغاز ہوا اور انھوں‌ نے خود کو ابنِ صفی کے نام سے متعارف کروایا اور آج بھی جاسوسی ادب میں یہ نام سرِفہرست اور نہایت معتبر ہے۔

    وہ 1952 میں پاکستان آگئے تھے اور یہاں جاسوسی دنیا کا وہ لازوال اور مقبول ترین کردار سامنے لائے جس نے گویا انھیں شہرت کے ہفت آسمان طے کروا دیے، یہ کردار تھا علی عمران۔

    یہ 1955 کی بات ہے اور اس کے بعد 1957 سے 1960 تک ابنِ صفی کا تخلیقی جوہر عروج پر نظر آیا۔ انھوں نے فریدی اور حمید جیسے جاسوسی کردار متعارف کروائے اور اسی دوران جاسوسی ناولوں شیدا قارئین عمران سیریز کے دیوانے ہوچکے تھے۔

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں