Tag: جاسوسی ڈائجسٹ

  • یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    اردو میں سرّی ادب یا جاسوسی کہانیوں کو ناقدوں نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا اور اردو ادب میں پاپولر ادب بمقابلہ ادبِ عالیہ کی بحث آج بھی جاری ہے، لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جاسوسی ادب میں‌ قارئین کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جب ڈائجسٹوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جاسوسی کہانیوں کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔

    آج دنیائے ڈائجسٹ کی ایک معروف ہستی معراج رسول کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے 2019ء میں وفات پائی۔ معراج رسول طویل عرصے سے علیل تھے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں ڈائجسٹ کے لیے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کو مقبولیت کی معراج نصیب ہوئی، جس میں‌ معراج رسول کا سرگزشت، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ صفِ اوّل کے ماہ نامے تھے جو سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔ معراج رسول ان کے بانی اور مدیر تھے۔ سسپنس کا پہلا شمارہ 1972 میں بازار میں‌ آیا تھا جب کہ جاسوسی ڈائجسٹ کا سلسلہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

    ان ڈائجسٹوں میں غیر ملکی ادیبوں کی پُراسرار، آسیبی اور مہم جوئی کے واقعات پر مبنی کہانیوں کے اردو تراجم شایع کیے جاتے تھے جنھیں قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو اہلِ قلم اور طبّاع کہانی نویس بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور سرّی ادب میں نام بنایا۔

    5 اگست 1942ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے معراج رسول کے والد شیخ عبدالغفّار تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے بی کام کیا اور چند سال بعد اپنے اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، معراج رسول نے خود بھی لکھاری تھے اور چند ناول بھی تخلیق کیے، ان کا ادارہ اپنے مستقل قلم کاروں کو بہت مناسب مشاہرہ دیا کرتا تھا۔ معراج رسول کو ڈائجسٹ نکالنے کی تحریک اپنے والد سے ملی جو اپنے دور کے ایک کام یاب رسالے ’سراغ رساں‘ کے روح رواں تھے۔ معراج رسول نے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے ڈائجسٹوں میں سلسلے وار کہانیوں سے لاکھوں قارئین کو عرصے تک جوڑے رکھا اور کہتے ہیں کہ ان ڈائجسٹوں کے قارئین 20 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ مرحوم نے دو شادیاں کی‌ تھیں۔ معراج رسول کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    معراج رسول نے اپنے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ کے عنوان سے 33 سال تک ہر ماہ بلاناغہ کہانی شایع کی جس کے مصنّف محی الدّین نواب تھے۔ یہ اردو ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

  •  ڈائجسٹ کی دنیا کا معتبرنام ’معراج رسول‘انتقال کرگئے

     ڈائجسٹ کی دنیا کا معتبرنام ’معراج رسول‘انتقال کرگئے

    اردو ڈائجسٹ کی دنیا کا سب سے معتبر نام  معراج رسول اب اس دنیا میں نہیں رہے، وہ پاکستان کے صف اول کے ڈائجسٹوں کے بانی اورمدیرتھے۔

    تفصیلات کے مطابق جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکشنز کے روح ِ رواں معراج رسول کا انتقال آج 22 فروری  2019 کو کراچی میں ہوا ، ان کے زیر ادارت سرگزشت، پاکیزہ ، جاسوسی اور سسپنس جیسے صف اول کے جریدے نکلا کرتے  ہیں۔

    معراج رسول 5 اگست 1942 کو  پیدا ہوئے تھے ، ان کے والد سنہ 1947 میں ممبئی سے کراچی آئے تھے،  تب معراج رسول کی عمرپانچ سال تھی۔ ان کے والد شیخ عبدالغفار بھی ایک کامیاب رسالہ’سراغرساں ‘نکالتے تھے۔

     سنہ 1960  کی دہائی میں معراج رسول نے بی کام کیا اور کچھ ناول بھی لکھے، سنہ  1971 میں جاسوسی ڈائجسٹ کی شروعات کی۔ شروعات میں انہیں بہت مشکلات کا سامنا رہا ان کے معاون دوست ان سے الگ ہوکر اپنے رسالے نکالتے رہے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔

     مارچ 1973 میں انہوں نے پاکیزہ ڈائجسٹ بھی شروع کیا جو کہ خاص خواتین کیلئے تھا۔ بعد میں انہوں نے سسپنس اور سرگزشت ڈائجسٹ بھی نکالا اور یوں وہ وقت بھی آیا جب تقریبا بیس لاکھ قارئین ان کے ڈائجسٹوں سے مستفید ہونے لگے۔ ا س زمانے میں  معراج رسول لکھاریوں کو انتہائی عمدہ مشاہرہ دیا کرتے تھے ۔ محی الدین نواب کو ایک قسط کے 25 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔

    اردو دنیا کا سب سے طویل اور ضیغم ترین ناول ’دیوتا‘ معراج رسول کی ہی تحریک پر محی الدین نواب نے لکھا ۔ یہ ناول مسلسل 33 سال تک ہر ماہ چھپتا رہا۔

     معراج رسول نے دو شادیاں کی اوران کے بقول دونوں ہی محبت کی شادیاں تھیں، ان کی دوسری اہلیہ عذرا رسول ان کے شانہ بشانہ ڈائجسٹوں کی اشاعت کے تھکادینے والے سلسلے میں مسلسل شریکِ سفررہیں۔

    معراج رسول طویل عرصے سے صحت کے مسائل میں مبتلا تھے ، جس کے سبب  ان کا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزرتا تھا۔ ان کی تمام عمر مسائل سے جواں مردی کے ساتھ نبرد آزما ہوتے گزری۔ ان کی تدفین کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع قبرستان
    میں کی گئی ہے، ان کے انتقال سے  جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکشنزکے لاکھوں قارئین دل گرفتہ ہیں۔


    تصویر بشکریہ : شبینہ فراز ( ماہرِ ماحولیات)۔