Tag: جامعہ کراچی

  • سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    کراچی: جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی 4 سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دیے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی یونی ورسٹی میں ڈگری پروگرام کے لیے پہلے 2 سال کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری 2 سال کی کلاسز سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں ہوں گی۔

    یہ پروگرام جامعہ کراچی اور چین کی سچوان نارمل یونی ورسٹی کے اشتراک اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے، جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب بدھ کے روز وائس چانسلر سیکریٹریٹ جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔

    جامعہ کراچی کی جانب سے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جب کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے چینی ڈائریکٹر شاؤپنگ نے معاہدے پر دستخط کیے، دستخط کے سلسلے میں ڈائریکٹر شاؤپنگ نے سچوان نارمل یونی ورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر وانگ مینگی (Professor Dr Wang Mingyi) اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ماجیانفی (Professor Dr Ma Jianfei) کی نمائندگی کی۔

    پاکستان اور چین کے درمیان ایک اور بڑا معاہدہ طے پاگیا

    مفاہمتی یادداشت کے مطابق جامعہ کراچی کے طلبہ پہلے دو سال کی کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری دو سال کا تدریسی عمل سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں مکمل کریں گے، یہ پروگرام شروع کر کے جامعہ کراچی پاکستان کی پہلی جامعہ بن گئی ہے۔

    اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کا بنیادی مقصد پاکستانی طلبہ کو چینی زبان اور ثقافت سے روشناس کرانا ہے، عصر حاضر میں چین ایک بڑی عالمی معیشت بن کر ابھرا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی نئے سنگ میل عبور کر رہا ہے اس ضمن میں چینی زبان اور کلچر سے آگاہی انتہائی ناگزیر ہے۔

    انھوں نے کہا اس ضمن میں طلبہ اور اساتذہ کے ایکس چینج پروگرامز اور ریجنل اسٹڈی پروگرامز بھی منعقد کیے جائیں گے، چین میں دوران تدریس سینٹر فار لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن طلبہ کو اسکالر شپ فراہم کرے گا جس میں ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات شامل ہیں۔

    چینی ڈائریکٹر پروفیسر ژانگ شاؤپنگ (Zhang Xiaoping) نے کہا کہ جامعہ کراچی میں قائم کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ ملک کا سب سے بڑا انسٹی ٹیوٹ بن چکا ہے جس میں 30 چینی اساتذہ، 2 مقامی اساتذہ اور جامعہ کراچی سمیت 6 ٹیچنگ سائٹز ہیں جس میں 7 ہزارسے زائد طلبہ انرولڈ ہیں۔

    دستخط تقریب میں رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر سلیم شہزاد، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے پاکستانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین خان، ممبر سنڈیکیٹ جامعہ کراچی صاحب زادہ معظم قریشی، ناظم امتحانات ڈاکٹر سید ظفر حسین، ناظم مالیات طارق کلیم، مشیر امور طلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی، فارن اسٹوڈنٹس ایڈوائزر ڈاکٹر شمائلہ شفقت اور چائنیز فیکلٹی ممبران اور دیگر بھی موجود تھے۔

  • ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    آج اردو زبان کے نام ور ادیب، محقق، نقاد سید ابوالخیر کشفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 15 مئی 2008 کو انتقال کرجانے والے ابوالخیر کشفی اپنی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932 کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے ان کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

    وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی شروع کرنے کے لیے انھوں نے تدریس کا سہارا لیا اور کالج سے لے کر جامعہ کراچی تک اپنے علم و کمال سے نسلِ نو کو سنوارا۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جامعہ کراچی میں میں کورونا ٹیسٹ لیبارٹری قائم، روزانہ 800 ٹیسٹ ہوسکیں گے

    جامعہ کراچی میں میں کورونا ٹیسٹ لیبارٹری قائم، روزانہ 800 ٹیسٹ ہوسکیں گے

    کراچی : سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں قائم کورونا ٹیسٹ لیبارٹری آج سے کام شروع کرے گی ، جس کے بعد جامعہ کراچی روزانہ800ٹیسٹ ہوسکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ سندھ حکومت نے جامعہ کراچی میں میں کورونا ٹیسٹ لیبارٹری قائم کردی، لیبارٹری انٹرنیشنل سینٹرفورکیمیکل اینڈبائیولوجیکل ریسرچ سینٹرمیں قائم کی گئی، لیب آج سے کام شروع کرے گی، جس کے بعد روزانہ 800ٹیسٹ ہوسکیں گے۔

    خیال رہے چند روز قبل ہی جناح اسپتال میں پہلی بائیوسیفٹی لیول تھری لیب قائم کی گئی تھی، مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ جناح اسپتال میں قائم بائیوسیفٹی لیبارٹری نےکام شروع کردیا، لیبارٹری میں یومیہ100کورونا ٹیسٹ ہوں گے ، اگلےمرحلےمیں کوروناٹیسٹ کی استعداد بڑھائی جائے گی۔

    یاد رہے رواں ماہ سندھ حکومت نے کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لئے کورونا کے ٹیسٹ کے مراکز کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، اس مقصد کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 58.28 ملین روپے جاری کرنے کی بھی منظوری دی تھی، جس پر وی سی خالد عراقی نے اظہار تشکر کیا تھا۔

    واضح رہے پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 24 گھنٹوں میں 15 افراد کی موت ہوئی، جس کے بعد پاکستان میں جاں بحق افراد کی تعداد 224 ہوگئی۔

    پنجاب میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 4590 تک پہنچ گئی جبکہ سندھ میں 3373 افراد میں وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔

  • تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    تمام کتابیں، آدھی جائیداد کالج کو عطیہ کرنے والا کون تھا؟

    جان ہارورڈ کو نوجوانی میں تپِ دق (ٹی بی) نے آ گھیرا۔ یہ 1638 عیسوی کی بات ہے جب ایسے کسی مرض کے لاحق ہوجانے کے بعد زندہ رہنے کی امید کرنا تو فطری اور یقینی تھا، مگر ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔

    جان ہارورڈ کا تعلق لندن سے تھا۔ بعد میں وہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جا بسا تھا۔

    وہ اپنے زمانے کا نہایت مال دار اور صاحبِ جائیداد شخص تھا۔ وہ اپنے قصبے کے ایک گرجا گھر کا مہتمم بھی تھا۔ اسے علم و ادب کا شائق کہا جاتا ہے جس کے ذاتی کتب خانہ میں کئی کتابیں موجود تھیں۔

    ٹی بی کے موذی مرض میں شدت آتی گئی اور اسے موت کا خوف ستانے لگا۔ اس نے لوگوں سے میل جول ترک کردیا اور گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا تھا۔

    دوست احباب گھر پر اس سے ملنے آتے رہتے تھے۔ ایک روز اس کا قریبی دوست اور مقامی گرجا کے پادری اس کے گھر آئے ملنے آئے تو جان ہارورڈ نے انھیں اپنی وصیت میں کہا کہ بعد از موت اس کی ساری کتابیں اور آدھی جائیداد مقامی کالج کو دے دی جائیں۔

    1638 میں ایک روز وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کی وصیت کے مطابق کتابیں اور جائیداد کالج کو عطیہ کردی گئیں۔ اگلے برس کالج انتظامیہ نے جان ہارورڈ کے اس جذبے اور پُرخلوص مالی مدد پر متعلقہ مجلس کے فیصلے کے مطابق درس گاہ کو جان ہارورڈ سے منسوب کر دیا جو آج دنیا بھر میں جانی پہچانی جامعہ ہے۔

  • کرونا وائرس کا شکار نوجوان جامعہ کراچی کا طالبعلم نکلا

    کرونا وائرس کا شکار نوجوان جامعہ کراچی کا طالبعلم نکلا

    کراچی : شہر قائد میں کروناوائرس سے متاثر 22سالہ نوجوان جامعہ کراچی کا طالبعلم نکلا، جس کے بعد ساتھی طلبامیں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ، بیرون ملک سےکراچی پہنچنےکےبعدطالبعلم نےجامعہ کراچی میں کلاسیں لی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق کروناوائرس سے متاثرہ 22سالہ نوجوان یحیی جعفری جامعہ کراچی کا طالبعلم نکلا  اور یحییٰ کے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد بھی کلاسز لینے کا انکشاف سامنے آیا۔

    جامعہ کراچی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ متاثرہ مریض ایم اے پر یویس بین الاقوامی ایوننگ پروگرام میں زیرتعلیم ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ کروناکےمریض کےتمام کلاس فیلوز کامعائنہ کیاجائےگا، جامعہ کراچی کے سینئر میڈیکل آفیسر مریض کے دوستوں کامعائنہ کریں گے، مشیر امور طلبا ڈاکٹر سیدعاصم علی تمام طلباسے رابطےمیں ہیں، کسی طالب علم میں تشخیص ہوئی توعلاج جامعہ کراچی کرائےگی۔

    دوسری جانب ساتھی طالبعلم ہلال سعیدنے کہا یحیی20فروری کوکراچی پہنچاتھااورتب سےکلاس لےرہاتھا، ہم سب آئی آر کے طالبعلم بہت ہی پریشانی کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں : پاکستان میں‌ کرونا وائرس کے 2 کیسز کی تصدیق

    ہلال سعید نے مزید کہا کہ یحیی جس کلاس میں پڑھتاہے ، وہاں 37 طالبعلم زیرتعلیم ہیں، ہم سب طالبعلموں کی بھی اسکریننگ کرائی جائے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس سے شکار ہونے والے دو افراد کی تفصیلات سامنے آئیں تھیں،  کراچی میں رپورٹ ہونے والے کرونا وائرس کے شخص کی شناخت یحییٰ جعفری کے نام سے ہوئی ، جو زیارت کر کے چند روز قبل ایران سے کراچی پہنچا تھا۔

  • مذہبی ہم آہنگی تعلیم کے ذریعے گراس روٹ لیول سے پروان چڑھائی جائے: امریکی مشیر

    مذہبی ہم آہنگی تعلیم کے ذریعے گراس روٹ لیول سے پروان چڑھائی جائے: امریکی مشیر

    کراچی: امریکی خصوصی مشیر برائے مذہبی اقلیتی امور ناکس ٹیمس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا اقلیتوں کے تحفظ اور مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دے رہے ہیں، مذہبی ہم آہنگی تعلیم کے ذریعے گراس روٹ لیول سے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے کلیہ معارف اسلامیہ کے دورے کے موقع پر جامعہ کراچی میں موجود مختلف ممالک اور پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مذہبی اسکالرز اور طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا مذہبی حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتا رہا ہے، امریکا میں مقیم مسلم کمیونٹی امریکی سسٹم کا جز ہے اور ملک کی ترقی میں کردار ادا کر رہی ہے، اگر کسی اسکول میں طالبات کو حجاب سے منع کیا جاتا ہے تو ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس شکایت پر قانونی کارروائی کرتا ہے۔

    ناکس ٹیمس نے قائد اعظم محمد علی جناح کی 1947 کی تقریر کا حوالہ بھی دیا، کہا قائد اعظم نے قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ان کے مذہب کے مطابق آزادانہ عبادت کی ادائیگی کی اجازت ہے۔

    جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ دنیا کی خوب صورتی کا راز مختلف رنگ، نسل، زبان، عقائد اور خیالات کے تنوع میں ہے، عدم برداشت اور تشدد کے رجحانات کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی سوچ کو امن کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

    دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ کہ دنیا میں مثبت تبدیلیوں اور دیرپا امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مکالمے کے کلچر کو فروغ دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسروں کی رائے کو سننے، سمجھنے اور قبول کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

  • جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    پروفیسر شریفُ المجاہد نے جامعہ کراچی میں صحافت کے شعبے کو منظم کیا اور اس میدان میں قدم رکھنے والوں کی راہ نمائی کی۔

    نام وَر ماہرِ تعلیم، مؤرخ اور صحافت کے استاد مدرس شریفُ المجاہد کا انتقال 27 جنوری کو ہوا۔ انھیں‌ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کا بانی کہا جاتا ہے۔

    انھوں نے تین نسلوں کی فکری تربیت کے ساتھ علم و آگاہی اور بالخصوص متعلقہ شعبے میں ان کی راہ نمائی کی۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کے لیے پروفیسر شریف المجاہد کی خدمات ایک روشن باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    ایک نہایت قابل استاد، بہترین منتظم اور نسلِ نو کے لیے راہ نما کی حیثیت سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پروفیسر شریف المجاہد ہندوستان اور پاکستان کے مختلف روزناموں اور جرائد کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے اور متعدد غیر ملکی اخبار اور جرائد کے لیے بطور نمائندہ خدمات انجام دیں۔

    وہ 1955 میں بحیثیت لیکچرار جامعہ کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔ امریکا سے جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے والے شریف المجاہد نے جامعہ کراچی میں شعبہ صحافت کو منظم کیا اور اسے ترقی دی۔

    متحدہ ہندوستان کی تاریخ، آزادی کی تحریک، قیامِ پاکستان کے لیے مسلمان اکابرین اور راہ نماؤں کی کوششیں اور قربانیاں ان کا خاص موضوع رہے۔

    انھوں نے 1945 میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے اور اپنی فکر سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ 1976 میں قائدِ اعظم اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ان کی متعدد تصانیف سامنے آئیں۔

    پروفیسر شریف المجاہد کی کتابوں اور مقالات کا عربی، فرانسسیی، پرتگیزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • جامعہ کراچی ایوننگ پروگرام کے طلبا و طالبات کے لیے بڑا اعلان

    جامعہ کراچی ایوننگ پروگرام کے طلبا و طالبات کے لیے بڑا اعلان

    کراچی : جامعہ کراچی میں ایوننگ پروگرام کے طلباوطالبات کے لیے لیٹ فیس میں 50 فیصدکمی کردی گئی، طلباوطالبات 15 جنوری تک لیٹ فیس جمع کراسکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر ایوننگ پروگرام پروفیسر ڈاکٹر نبیل احمدزبیری کا کہنا ہے کہ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالدمحمود نے ایوننگ پروگرام کی لیٹ فیس میں 50 فیصد کمی کی منظوری دے دی۔

    جس کے بعد ایوننگ پروگرام کے ایسے طلباوطالبات جنہوں نے تاحال اپنی فیس جمع نہیں کرائی ، وہ لیٹ فیس 50 فیصد کمی کے ساتھ 15 جنوری تک جمع کراسکتے ہیں ، اس کے بعد کسی بھی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی۔

    یاد رہے نئے تعلیمی سال کے موقع پر جامعہ کراچی میں مشیر امور طلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا ، اس ضابطہ اخلاق میں طلبہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ اسلام، نظریہ پاکستان اور ملکی وقومی سالمیت کی معروف تعبیر کے مطابق ان کے خلاف کوئی سرگرمی ،کوئی نعرہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

    ضابطہ اخلاق میں کہا گیا تھا کہ جامعہ میں تعلیم کے معیار کی بہتری ،تعلیمی مواقع کی ترقی اور تعلیمی مسائل کے حل کو مقدم رکھا جائے اور جامعہ کے انتظامی امور میں مداخلت ممنوع ہے۔

    ڈاکٹر سید عاصم علی کا کہنا تھا کہ جامعہ کے تقدس کا احترام سب پر لازم ہے کلاس کے اندر اورباہر ایسی تمام سرگرمیوں سے اجتناب کیا جائے جو اس کے تقدس کو پامال کریں۔

  • عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    سائنس اور تحقیق کا شعبہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فعال و سرگرم خواتین سے محروم ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں سماجی سائنس ہو یا اس کے دیگر شعبے خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ملک میں خواتین نے فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین اور دوسرے سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم نہیں رکھا، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی سائنس داں مانا جاتا ہے جب کہ عقیلہ برلاس کیانی، عذرا قریشی نے بھی مختلف سائنسی علوم اور تحقیقی شعبوں میں مقام بنایا۔

    ہم بات کر رہے ہیں عقیلہ برلاس کیانی کی جو جامعہ کراچی کی ایک محسن اور نہایت قابل خاتون تھیں۔ 1921 میںٰ پیدا ہونے والی عقیلہ کیانی کے والد کا نام مرزا شاکر حسین برلاس تھا جو وکالت کے پیسے سے وابستہ تھے۔ عقیلہ کیانی کی والدہ کا نام بی بی محمودہ بیگم تھا۔

    عقیلہ کیانی نے سوشیالوجی کے مضمون میں سند حاصل کر کے جامعہ کراچی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن ہے ۔ انھوں نے 1943 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، مگر مزید پڑھنے کا شوق اور سیکھنے کی لگن تھی اور 1949 میں لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ یہ تعلیمی سلسلہ یہاں نہ رکا اور 1953 میں انھوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی جس کے دو سال بعد امریکا ہی سے ڈاکٹریٹ کیا۔

    تدریس کے ساتھ خود کو تحقیقی کاموں میں مصروف رکھا اور پھر کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ امریکا سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد عقیلہ کیانی پاکستان آکر جامعہ کراچی کے سوشیالوجی کے شعبے کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ انھوں نے نصاب کی تیاری اور تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نام سوشیالوجی، خصوصا دیہاتی زندگی اور علم البشریات کے حوالے سے بھی متعبر جانا جاتا ہے۔

    کراچی یونیورسٹی میں عقیلہ کیانی سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن رہیں۔ وہ صرف ایک استاد ہی نہیں تھیں بلکہ اپنے مضامین اور شعبوں کی فعال ترین شخصیت تھیں اور یہی وجہ ہے کہ مقامی اورغیر ملکی سطح پر سیمینارز اور لیکچرز میں شریک ہوتیں۔

    لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اپنا فیلو مقرر کیا۔ عقیلہ کیانی کا علمی اور تحقیقی کام معتبر اور نہایت وقیع جریدوں میں شایع ہوا۔ ان کا اہم کام سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے متعلق تھا جس میں انھوں نے خاص طور پر دیہات کے حوالے سے معاشرت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

    انھوں نے عمرِ عزیز کے آخری ایّام کینیڈا میں گزارے۔ نہایت قابل، باصلاحیت استاد اور جامعہ کراچی کی محسن 2012 میں مارچ کے مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

  • آج سورج پر ایک کالا دھبا پڑے گا، جامعہ کراچی میں منظر دیکھنے کی تیاریاں

    آج سورج پر ایک کالا دھبا پڑے گا، جامعہ کراچی میں منظر دیکھنے کی تیاریاں

    لاہور: آج شام سیارہ عطارد سورج کے عین سامنے سے گزرے گا، پاکستان میں منفرد نظارہ صرف کراچی اور زیریں سندھ میں دیکھا جاسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں نظام شمسی کا سیارہ عطارد آج سورج کے سامنے سے گزرے گا اور دنیا کے کئی ممالک میں ٹیلی اسکوپ کے ذریعے عطارد کے اس سفر کا مشاہدہ ممکن ہوگا۔

    پاکستان میں کراچی اور زیریں سندھ میں سیارہ چند منٹوں کے لیے نمودار ہوگا۔ جامعہ کراچی میں حالیہ نصب کی جانے والی 16 انچ میڈ دوربین کے ذریعے صحافیوں، طلبہ وطالبات اور عام افراد کو یہ منظر دیکھنے کی دعوت دی گئی ہے۔

    سیارہ عطارد نقطے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یہ واقعہ اگلی مرتبہ 13 سال بعد 2032ء میں نمودار ہوگا کیونکہ ایک صدی میں ایسا 13 مرتبہ ہی ہوتا ہے۔

    اس سے قبل جون 2012ء میں زہرہ سیارہ سورج کے سامنے سے گزرا تھا اور اسے دیکھنے کے لیے جامعہ کراچی سمیت کئی اداروں نے خصوصی انتظامات کیے تھے۔

    واضح رہے کہ عطارد سورج کے گرد بہت تیزی سے گزرتا ہے لیکن اکثر اوقات اس کے مدار کی سطح زمین کی سیدھ میں نہیں ہوتی یا تو وہ سورج کے پس منظر میں اوپر ہوتا ہے یا پھر نیچے سے گزر جاتا ہے لیکن یہ ایک خاص لمحہ ہے جب ہماری زمین، عطارد اور سورج ایک ہی سیدھ میں ہیں۔