Tag: جام کمال

  • حمایت کے حصول کے لیے سرگرم جام کمال کی محنت رائیگاں، عدم اعتماد غیر مؤثر

    حمایت کے حصول کے لیے سرگرم جام کمال کی محنت رائیگاں، عدم اعتماد غیر مؤثر

    کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مطلوبہ اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوسکی، تحریک کے لیے 13 اراکین کی حمایت درکار تھی، تاہم 11 لوگوں نے قرارداد کی حمایت کی، مطلوبہ حمایت نہ ملنے پر عدم اعتماد کی تحریک غیر موثر ہوگئی۔

    جام کمال اور سردار یار محمد رند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا تھا مطلوبہ تعداد حاصل نہیں، خالد مگسی کو کہا ہے وفاقی حکومت سے پوچھیں وہ کیوں چپ تھے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹسز بھیجے جائیں گے۔

    قائم مقام اسپیکر نے رولنگ دی کہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی۔ تحریک غیر مؤثر ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں اجلاس بدنظمی کا شکار ہو گیا، سردار یار محمد رند اور اسد بلوچ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، مہمانوں کی گیلری سے بھی آوازیں کسی گئیں۔

    خیال رہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال پی ڈی ایم رہنماؤں کو ان کا وعدہ یاد دلانے کے لیے کئی دن سے سرگرم تھے، اس سلسلے میں انھوں نے ذاتی سطح پر وزیر اعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری، اور مولانا فضل الرحمان سے بالواسطہ طور پر رابطے بھی کیے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے صدر جام کمال نے آج یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اگر پی ڈی ایم جماعتوں نے بلوچستان حکومت کی تبدیلی میں بی اے پی کا ساتھ نہ دیا تو وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھیں گے، انھوں نے کہا ‘ہمیں بھی پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔’

    خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں شہباز حکومت کی اتحادی ہے، اس کے 4 ووٹ ہیں، جب کہ شہباز حکومت صرف 2 ووٹوں کی برتری پر کھڑی ہے، اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو موجودہ حکومت ختم ہو سکتی ہے۔

    جام کمال نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے کچھ ایم این ایز نے یہ تجویز دی ہے کہ اگر حکومت ہماری تحریک میں ساتھ نہیں دیتی، جب کہ یہ تحریک ایک حقیقی سبب رکھتی ہے، تو ہمیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کیوں کہ ہم بلوچستان میں تبدیلی کے نکتے پر وفاق کی طرف گئے تھے۔

    انھوں نے کہا بی اے پی کے بیانیے پر یہاں بلوچستان میں دوست پچھلے دو تین دن سے بہت سختی سے بات کر رہے ہیں، بی اے پی کے سینیٹرز، ہمارے ایم پی ایز، اور چند ایم این ایز نے اس پر بات کی ہے، اس لیے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے کہوں گا کہ اس بات کو سنجیدگی سے لیں، ہم سے تو عمران خان سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کوئی ٹھیک حکومت نہیں ہے، بلوچستان کے مفاد کے خلاف ہے، میرا وزارت اعلیٰ کے منصب میں کوئی دل چسپی نہیں، بات بلوچستان کے مفاد کی ہے۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آج جام کمال نے کہا تھا کہ بی اے پی اراکین کے مابین وفاقی حکومت چھوڑنے پر بات ہوئی ہے، پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مرکز میں حکومت کی تبدیلی پر بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی پر مثبت اشارے دیے تھے، اور ہم نے مرکز میں عدم اعتماد کی حمایت پر یہ بات رکھی تھی، اس لیے ہم امید کرتے ہیں وفاقی حکومت میں موجود جماعتیں یقین دہانی پر پورا اتریں گی۔

    خیال رہے کہ جام کمال نے آج ٹویٹر پر بھی پی ڈی ایم کو یاد دہانی کرائی تھی، اور ذاتی سطح پر بالواسطہ طور پر پی ڈی ایم کی قیادت کو پیغام بھیجا، ان کا کہنا تھا کہ آج کے بعد براہ راست رابطے بھی کیے جائیں گے۔

    میڈیا سے گفتگو میں جام کمال کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ہمارے ذاتی تعلقات خراب نہیں، عمران خان کے دور میں ایک حکومت گئی اور ایک آئی، پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ عبدالقدوس صاحب کی حکومت جائے، سوال یہ ہے کہ ان کا اختلاف کس بات پر ہے، یہاں اقتدار کا لالچ نہیں ہے، ہمارے نمبرز پہلے دن سے پورے نہیں ہیں، ہمارا مؤقف ہے کہ بلوچستان کی بہتری کے لیے تبدیلی لائیں۔

    قبل ازیں، بلوچستان اسمبلی کا اجلاس آج 4 گھنٹے تاخیر کا شکار ہوا، بعد ازاں، جب تحریک پیش کرنے کا موقع آیا تو بی اے پی اراکین کی تعداد پورا نہ کر سکی، تحریک کے لیے 13 اراکین کی حمایت درکار تھی، تاہم 11 لوگوں نے قرارداد کی حمایت کی، جس پر تحریک پیش نہ ہو سکی۔

  • شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنی حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہر پل ایک ڈرامائی موڑ لے رہی ہے، بی اے پی نے وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا ہے، جس سے شہباز حکومت کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے جام کمال گروپ کے بی اے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے ایک اہم میٹنگ کی، جس میں ارکان نے یہ تجویز دی کہ پی ڈی ایم کی جن جماعتوں نے عمران خان کی تبدیلی کے وقت انھیں بلوچستان میں عدم اعتماد اور تبدیلی کے حوالے سے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتی ہیں تو پھر بی اے پی وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور کرے۔

    بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی جانب سے صدر بی اے پی جام کمال کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر پی ڈی ایم ساتھ نہیں دیتی تو وفاقی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

    اس وقت بی اے پی نے شہباز حکومت کو قومی اسمبلی میں 4 ووٹ دیے ہیں، جب کہ وفاقی حکومت کو ایوان میں صرف 2 ووٹ کی برتری حاصل ہے، ایسے میں اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔

    انتہائی قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں اراکین نے جام کمال کو حمایت واپس لینے کی تجویز دی، جس کے بعد جام کمال نے گزشتہ رات ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے پی ڈی ایم پر زور دیا کہ وہ کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔

    اگرچہ بی اے پی نے فی الوقت واضح الفاظ میں وفاقی حکومت چھوڑنے کی بات نہیں کی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات اس آپشن پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور ہوا ہے، اور بی اے پی صدر نے قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعت سے مشاورت شروع کر دی ہے۔

    جام کمال نے ٹویٹ کیا کہ آج ہم عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر رہے ہیں، ہم پی ڈی ایم پارٹیوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عمران خان کے دور میں مسلط کی گئی اور اب بھی شہباز شریف کے دور سے لطف اندوز ہونے والی بلوچستان کی بدعنوان اور بے ایمان حکومت کو ہٹانے کے اپنے وعدے کو پورا کریں گی۔

    واضح رہے کہ بلوچستان صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا اجلاس آج 10 بجے ہوگا، جام کمال، سردار یار محمد رند اور اصغر اچکزئی سمیت 14 اراکین اس تحریک کے محرک ہیں، تحریک پر دستخط کرنے والے پی ٹی آئی رکن مبین خلجی نے رات گئے تحریک سے لا تعلقی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال اور ان کے گروپ کو تحریک پیش کرنے کے لیے 14 اراکین اسمبلی کی حاضری یقینی بنانا ہوگی۔

  • وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفے کی افواہوں‌ کی تردید

    وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفے کی افواہوں‌ کی تردید

    کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے استعفے کی افواہ ایک بار پھر پھیل گئی، جس پر جام کمال کو ایک بار پھر ٹوئٹ کر کے تردید کرنی پڑ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے ٹوئٹ میں افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے استعفی نہیں دیا، افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔

    بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بھی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے استعفے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

    ایک طرف جہاں ابھی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں جام کمال کے ساتھ چیئرمین سینیٹ پاکستان صادق سنجرانی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی کئی گھنٹوں پر مشتمل طویل ملاقات جاری ہے، وہاں ٹوئٹ میں جام کمال نے استعفے کی افواہ کی تردید جاری کر دی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں جام کمال کے اتحادی اور چند ساتھی بھی موجود ہیں، ملاقات میں موجودہ بحران پر وزیر اعلیٰ سے تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ رات جام کمال نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ آزاد سمیت 8 اتحادی جماعتوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 41 ہے، اور ان میں 80 فی صد ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

    انھوں نے لکھا کہ ہم اپوزیشن کو اس اتحاد کا حصہ کیوں سمجھتے ہیں؟ اگر وہ اس پالیسی پر قائم ہیں تو انھیں اپنے آپ کو بھی اپوزیشن کا حصہ قرار دینا چاہیے۔

  • 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمارے لوگ بازیاب کرائے جائیں، ناراض اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کر دیا

    24 گھنٹے کے اندر اندر ہمارے لوگ بازیاب کرائے جائیں، ناراض اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کر دیا

    کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ناراض اور اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر ان کے لوگ بازیاب کرائے جائیں۔

    ناراض رکن اسد بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جام کمال نے اسٹیپ ڈاؤن نہیں کیا تو پہیہ جام ہڑتال ہو سکتی ہے، ہمارے کسی بندے کو نقصان ہوا تو ذمہ دار جام کمال ہوں گے۔

    اسد بلوچ نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ ہمارے لوگ کہاں ہیں، آج کل سائنس کا دور ہے، ہمیں معلوم ہے ہمارے لوگوں کو 25 اکتوبر کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔

    ملک سکندر نے پریس کانفرنس میں کہا 34 اراکین اسمبلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنے، اس عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جام کمال بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔

    انھوں نے کہا اراکین اسمبلی کو آئینی طور پر اسمبلی تک رسائی نہیں دی جا رہی، بلوچستان کے ایم پی ایز خصوصاً خواتین کی رائے کو دبانے کے لیے اغوا کیا گیا، ہم سب سے پہلے چیف سیکریٹری کے آفس گئے وہ غائب ہوگئے، باقی ایم پی ایز کو دھمکی آمیز فون آ رہے ہیں، ہم گورنر بلوچستان کے پاس گئے اور ان سے کہا آپ آئینی اختیارات استعمال کریں، ہم آئی جی ڈھونڈتے رہے ان کے گھر گئے تو پتا چلا وہ گھر پر نہیں ہیں۔

    سردار عبدالرحمان نے کہا چیف جسٹس نے جام کمال کی تینوں درخواستیں مسترد کر دیں، جام کمال ہارس ٹریڈنگ کر رہے ہیں، مجھے 10 کروڑ اور وزارت کی آفر کی گئی لیکن میں نے نہیں مانا، پھر 20 کروڑ کی پیش کش کی گئی۔

    دوسری طرف لاپتا رکن بلوچستان اسمبلی ماہ جبین شیران نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ وہ کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے کل اسمبلی نہیں پہنچ سکی تھیں، الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور محفوظ ہوں۔

    ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے ناراض اراکین کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ارکان کے لاپتا ہونے سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، یہ پی ڈی ایم کے غیر سنجیدہ ساتھی ہیں، ہم اراکین اسمبلی کو لا پتا کرنے سے متعلق الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مستقبل کا فیصلہ پچیس اکتوبر کو ہوگا، بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری پیر کی صبح گیارہ بجے ہوگی، دو دن قبل تحریک عدم اعتماد کی تینتیس ارکان نے کھڑے ہو کر حمایت کی تھی، وزیر اعلیٰ جام کمال نے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

  • کوئٹہ: ناراض اراکین کی اکثریت سامنے آ گئی

    کوئٹہ: ناراض اراکین کی اکثریت سامنے آ گئی

    کوئٹہ: بلوچستان کے ناراض اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے اجلاس میں ناراض اراکین نے اکثریت واضح کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان سیاسی بحران ایک اہم موڑ پر آ گیا ہے، آج کوئٹہ میں ایک بڑا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ناراض اور اپوزیشن پر مبنی 36 اراکین شریک ہوئے، جب کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے 33 ووٹ درکار ہیں۔

    اجلاس کے بعد بی اے پی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں کافی دنوں سے سیاسی بحران چل رہا ہے، کل اسمبلی میں جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دیں گے۔

    میر ظہور بلیدی نے کہا آج کے اجلاس میں 36 اراکین شریک ہوئے، 4 مزید اراکین کل اسمبلی میں آ رہے ہیں، کُل 65 کے ایوان میں ہمیں 40 راکین کی حمایت حاصل ہے، ہماری اکثریت واضح ہے، جام کمال کے پاس وقت ہے استعفیٰ دے دیں۔

    انھوں نے کہا وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ نہ دینے پر ان کے خلاف کل تحریک عدم اعتماد پیش کر دیں گے۔

    پارلیمانی لیڈر جے یو آئی سکندر ایڈووکیٹ نے اس موقع پر کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرتے ہیں، وزیر اعلیٰ جام کمال فوری مستعفی ہو جائیں۔

    اسد بلوچ نے کہا جام کمال کی ناکامی کی وجہ لالچ اور قول و فعل میں تضاد ہے، ان کو رات 12 بجے تک کا وقت دیتے ہیں، مستعفی ہو جائیں، وزیر اعلیٰ ہٹ دھرمی چھوڑ دیں اور استعفیٰ دے دیں۔

    دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنے مؤقف پر قائم ہیں، انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اپوزیشن کے چند ممبران اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے، مخالفین کا اصل مقصد بلوچستان کو تباہی کی طرف لے جانا ہے۔

  • جام کمال نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی: ظہور بلیدی

    جام کمال نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی: ظہور بلیدی

    کوئٹہ: بلوچستان کی سیاسی صورت حال کی گرمی بڑھتی جا رہی ہے، آج اسلام آباد میں موجود کوئٹہ کا وفد واپس روانہ ہو گیا، وفد نے چیئرمین سینیٹ اور ایم این ایز سے اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں، ناراض اراکین مائنس ون فارمولے پر ڈٹے رہے، اور جام کمال پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام بھی لگایا گیا۔

    اسلام آباد سے روانہ ہوتے وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر سابق وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے جام کمال کے پارٹی سے استعفیٰ نہ دینے کے بیان پر کہا ہے کہ جام صاحب نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی ہے، اور کمیٹی نے 10 دن انتظار کیا مگر انھوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔

    12 اکتوبر کو ظہور بلیدی کے قائم مقام صدر کے اعلان کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا تھا کہ وہ پارٹی صدارت سے مستعفی نہیں ہوئے، انھوں نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کے نام خط لکھ کر بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر کی تعیناتی کی تردید کی۔

    انھوں نے کمیشن کو لکھا کہ میں نے استعفیٰ نہیں دیا، پارٹی کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں، قائم مقام صدر کا انتخاب یا اس کے لیے سفارش جنرل سیکریٹری کا اختیار نہیں۔

    ناراض رکن ظہور بلیدی کو بی اے پی کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا

    آج ظہور بلیدی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال نے الیکشن کمیشن سے دوبارہ رابطہ کیا ہے، آئین کے مطابق 3 سال کی مدت پوری ہو چکی ہے، نومبر میں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب کریں گے، جام کمال پارٹی صدارت چاہتے ہیں تو دوبارہ الیکشن لڑیں۔

    ظہور بلیدی نے کہا جام کمال کو کسی نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دینے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا، انھوں نے خود استعفیٰ دیا تھا، وزارت اعلیٰ سے جام کمال کو موقع دیا کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں، لیکن وہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے، 14 ممبران نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے ہیں۔

    بلوچستان کے 3 ناراض وزرا کے استعفے منظور

    قبل ازیں، ظہور بلیدی، اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو، ترجمان بی اے پی سردار عبدالرحمان کھیتران اور ایم پی اے اکبر آسکانی اسلام آباد سے کوئٹہ روانہ ہوئے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ظہور بلیدی کی زیر صدارت کل ناراض ارکان کا مشاورتی اجلاس ہوگا، جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت ہوگی۔

    بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے کوئٹہ روانگی سے قبل اسلام آباد ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 21 اکتوبر تک بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا، اور 25 اکتوبر تک بلوچستان کو ایک خوب صورت اور اچھی حکومت دیں گے۔

    انھوں نے کہا نئے وزیر اعلیٰ کی گردن میں سریا نہیں ہوگا، ہر کسی کی رسائی ہوگی، نیا وزیر اعلیٰ بلوچستان عوامی ہوگا، دفتر کیا گھر کے دروازے بھی کھلے ہوں گے۔

    اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر کہا ہم اسلام آباد گئے ہوئے تھے، چیئرمین سینیٹ، ایم این ایز سے مختلف ایشوز پر بات ہوئی، ہم نے 15 دن کی بجائے جام کمال کو ایک مہینہ دیا تھا، لیکن ایسا لگا جام کمال پارٹی کو یک جا کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے، جب عدم اعتماد ہوگا تو پارٹی کو یک جا کریں گے۔

    بزنجو نے کہا جام کمال میڈیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جام کمال کا استعفیٰ دے کر واپس لینا زیب نہیں دیتا تھا، جام کمال کے قریبی افراد ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، پتا چلے گا کتنے لوگ وہاں سے یہاں آتے ہیں۔

    واضح رہے کہ بی اے پی ترجمان نے گزشتہ روز جام کمال پر ہارس ٹریڈنگ کاالزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے مجھے میرے بیٹے کے ذریعےآفر بھیجی، میرے بیٹے کو من پسند وزارت اور دیگر پیش کش کی گئی،جام کمال میں اتنی جرت نہیں کہ مجھےآفر کرتے، ہم بے کار نہیں کہ جام کمال سے کچھ مانگیں۔

  • جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگلے 24 گھنٹوں میں متوقع

    جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگلے 24 گھنٹوں میں متوقع

    کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگلے 24 گھنٹوں میں متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کے معاملے کوحل کرنے کے لیے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو، جان محمد جمالی اور صالح بھوتانی اسلام آباد سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین آج اہم بیٹھک کریں گے، اجلاس میں تمام قانونی کارروائی اور تمام پہلوؤں پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اگلے 24 گھنٹے اہم ہیں۔

    واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین ایک ہفتے قبل چیئرمین سینٹ کے ہمراہ اسلام آباد آئے تھے، ناراض اراکین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے استعفے کے بغیر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

    بلوچستان کے 3 ناراض وزرا کے استعفے منظور

    دوسری طرف آج گورنر بلوچستان نے 3 صوبائی وزرا کے استعفے منظور کر لیے ہیں، بلوچستان حکومت سے ناراض وزرا نے 2 روز قبل استعفے گورنر کو پیش کیے تھے۔

    استعفے دینے والوں میں اسد بلوچ، ظہور بلیدی اور سردار عبدالرحمان کھیتران شامل ہیں، وزرا کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی جاری کرے گا۔

    ذرائع گورنر ہاؤس نے بتایا کہ 4 پارلیمانی سیکریٹریز کے استعفے واپس کر دیے گئے ہیں، کیوں کہ آئین کے تحت پارلیمانی سیکریٹری کا استعفیٰ گورنر کو نہیں دیا جاتا۔

  • وزیر اعلیٰ بلوچستان سے اختلاف، ناراض ارکان کا بڑا فیصلہ

    وزیر اعلیٰ بلوچستان سے اختلاف، ناراض ارکان کا بڑا فیصلہ

    کوئٹہ: بلوچستان میں سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے اختلافات پر ناراض ارکان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کابینہ سے 3 وزرا اور 2 مشیروں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے استعفے ظہور بلیدی کو لکھ کر دے دیے۔

    وزرا اور مشیروں کے علاوہ 4 پارلیمانی سیکریٹریز بھی استعفیٰ جمع کرنے والوں میں شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ استعفیٰ جمع کرنے والے وزرا میں وزیر خزانہ ظہور بلیدی، عبدالرحمان کھیتران، اسد بلوچ شامل ہیں، جب کہ مشیروں میں اکبر آسکانی، محمد خان لہڑی شامل ہیں، چار پارلیمانی سیکریٹریز میں بشریٰ رند، رشید بلوچ، سکندر عمرانی اور ماہ جبین شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ ناراض اراکین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو استعفیٰ دینے کے لیے ڈیڈ لائن پیش کی تھی، جو آج ختم ہو گئی، اور جام کمال کا استعفیٰ نہیں آیا۔

    ایک طرف وزیر اعلیٰ جام کمال صوبائی کابینہ کی صدارت میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے ناراض اراکین کا اہم مشاورتی اجلاس جاری ہے، جس میں محمد خان لہڑی، اکبر آسکانی، لالہ رشید، نصیب اللہ مری، بشریٰ رند، ماہ جبیں شیران، لیلیٰ ترین شریک ہیں۔

    ناراض صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے اجلاس کی تصاویر بھی ٹوئٹ کر دی ہیں۔

  • کوئٹہ کے طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم

    کوئٹہ کے طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم

    کوئٹہ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب ہوئی، اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب ہوئی، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے تقریب سے خطاب کیا۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہمیں مل کر بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوگا، نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت یونیورسٹیاں بہت کم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں سہولیات میں اضافہ کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، صوبائی حکومت ڈھائی ارب سالانہ یونیورسٹیوں پرخرچ کر رہی ہے۔

    وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک سے 10 ہزار لوگوں کو روزگار ملتا، ماضی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے آج ریکوڈک بند ہے۔

  • وندر ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، تختی 15 سال قبل لگی تھی

    وندر ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، تختی 15 سال قبل لگی تھی

    کوئٹہ: بلوچستان میں آخر کار وندر ڈیم کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا، اس منصوبے پر تختی 15 سال قبل لگائی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے وندر ڈیم منصوبے کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا، منعقدہ تقریب میں وزیر اعلیٰ کو محکمہ آب پاشی کے حکام کی جانب سے وندر ڈیم پروجیکٹ سے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ 15230.76 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے، وندر ڈیم پراجیکٹ 4 سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا، اور اس ڈیم کی تعمیر سے دس ہزار ایکڑ زرعی رقبے کی آب پاشی ہوگی۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان نے وندر ڈیم کے سنگ بنیاد کی تقریب کے شرکا سے خطاب میں کہا وندر ڈیم کی تعمیر سے 10 ہزار ایکڑ رقبے کو پانی دستیاب ہوگا، اور علاقے کی سماجی و معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا۔

    انفرا اسٹرکچر اور ڈیموں کے بڑے منصوبے منظور

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سبزل روڈ توسیع منصوبے کے فیز ون کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا بلوچستان میں کئی کئی سال پہلے تختیاں لگیں، لیکن منصوبوں پر کوئی کام نہیں ہوا۔

    ڈیم کی تعمیر کا تنازع، عدالت نے حکومت کے حق میں فیصلہ سنا دیا

    انھوں نے کہا تھا ویسٹرن روٹ پر 7 سال اور وندر ڈیم پر 15 سال قبل تختیاں لگائی گئی تھیں، لیکن ہم کام پہلے اور تختیاں بعد میں لگائیں گے۔