Tag: جاندار

  • وہ جاندار جس کے 32 دماغ ہیں

    وہ جاندار جس کے 32 دماغ ہیں

    حضرت انسان کا ایک دماغ ہوتا ہے جس سے وہ اس زمین پر بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں زمین پر ایک جاندار ایسا بھی ہے جس کے 32 دماغ ہیں۔

    یہ جاندار جونک ہے جو انسانوں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

    دراصل جونک کا جسم اندرونی طور پر 32 حصوں میں منقسم ہوتا ہے اور ہر حصے کا اپنا الگ دماغ ہوتا ہے، گویا جونک کے اندر 32 دماغ موجود ہیں۔

    جونک کا کاٹا تکلیف دہ یا زہریلا نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی حد تک انسانوں کے لیے فائدہ مند ہے، کسی انفیکشن کی صورت میں اسے جسم پر لگانے سے یہ زہریلا خون چوس لیتی ہے اور انسان کی جان بچا لیتی ہے۔

    جونک کے 300 دانت ہوتے ہیں اور ان کی اوسط عمر 1 سال ہوتی ہے۔

  • معدوم شدہ جانور اچانک ’گمشدہ شہر‘ سے دریافت ہوگئے

    معدوم شدہ جانور اچانک ’گمشدہ شہر‘ سے دریافت ہوگئے

    وسطی امریکی ملک ہونڈرس کے گھنے جنگلات میں وہ سینکڑوں جاندار پائے گئے جنہیں اب تک معدوم سمجھا جاتا رہا تھا۔

    ہونڈرس کے موسکیشا جنگل میں واقع مضافاتی علاقہ جسے ’لوسٹ سٹی آف دا منکی گاڈ‘ یا ’سفید شہر‘ کہا جاتا ہے حیاتیاتی تنوع کی بہترین مثال ہے۔ اس جنگل میں چمگادڑ، تتلیوں، اور دیگر حشرات الارض کی سینکڑوں اقسام موجود ہیں۔

    سنہ 2017 میں حیاتیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی تحقیقاتی ٹیم نے اس علاقے کا تحقیقاتی دورہ کیا، اس دورے کے دوران 3 ہفتوں تک مختلف مقامات کا سفر کیا گیا اور وہاں کا جائزہ و تحقیق کی گئی۔

    اس دورے کے دوران جنگلات میں قدیم کھنڈرات بھی دریافت ہوئے۔ دورے کی مکمل رپورٹ اسی ہفتے جاری کی گئی ہے جس نے دنیا بھر کو حیران کردیا۔

    رپورٹ کے مطابق اس جنگل میں کئی ایسی جانداروں کی اقسام موجود ہیں جنہیں اب تک معدوم سمجھا جاتا رہا۔ اس دریافت میں کچھ ایسی حیاتیاتی اقسام بھی سامنے آئیں جو ہونڈرس میں بالکل اجنبی تھیں اور اس سے پہلے ان کی موجودگی کے بارے کسی کو علم نہیں تھا۔

    رپورٹ کے مطابق اس علاقے سے پرندوں کی 189 اقسام، تتلیوں کی 94، حشرات الارض کی 56، 40 چھوٹے اور 30 بڑے ممالیہ جانوروں کی اقسام سامنے آئی ہیں۔ بڑے ممالیہ جانوروں میں جیگوار اور پوما (شیر کی اقسام) بھی شامل ہیں۔

    اس کے ساتھ ہی پودوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں کی درجنوں اقسام بھی سامنے آئیں۔ اس دریافت کے بعد تحقیقاتی ٹیم شدید حیرانی کا شکار ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کی یہاں موجوگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر اب تک اپنی اصل حالت میں برقرار ہے اور یہاں انسانی مداخلت بہت کم ہوئی۔ اس کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

    ہونڈرس میں اس علاقے کی حفاظت کے لیے ہمیشہ سے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ٹمبر مافیا اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خطرے کے باوجود یہ علاقہ اپنی اصل حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔

  • اپنی ماں کو کھانے والے جاندار

    اپنی ماں کو کھانے والے جاندار

    آپ نے ہارر فلموں میں ایسی کئی کہانیاں دیکھی ہوں گی جس میں انسان ایک دوسرے کو یا کوئی جانور اپنی ہی جنس کے دوسرے جانور کو کھاتے ہیں۔ سائنسی طور پر یہ عمل اس وقت وقوع پذیر ہوسکتا ہے جب کسی جاندار کے جینز میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوجائے۔

    تاہم ایسے تمام واقعات فلموں تک ہی محدود ہیں اور اصل زندگی میں ایسا واقعہ بہت کم سننے میں آتا ہے۔

    لیکن آج ہم آپ کو حقیقی زندگی کی ایسی ہی مثال سے آگاہ کرتے ہیں جس میں جانداروں کی ایک قسم اپنی ماں کو کھا جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: 400 سال تک زندہ رہنے والی شارک

    یہ جاندار بغیر ٹانگوں کے، زمین پر رینگنے والے، لمبے کیڑے نما جانور ہیں جنہیں سیسیلنز یا کیچوا کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ انواع انڈے دیتی ہیں جبکہ کچھ بچے دیتی ہیں۔

    بچے دینے والی انواع نسبتاً بڑی عمر کے بچوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ ان کی زیادہ تر افزائش ماں کے جسم کے اندر ہی ہوچکی ہوتی ہے۔

    ایک عام مشاہدہ ہے کہ یہ بچے پیدا ہونے کے فوراً بعد اپنی ماں کے جسم پر گردش کرنے لگتے ہیں۔ جب اس سلسلے میں تحقیق کی گئی اور ان کی حرکات کو سکنات پر غور کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ یہ بچے دراصل اپنی ماں کی جلد کو کھاتے ہیں۔

    caecilians

    یہ اس کی جلد کو چھلکوں کی طرح چھیل اور نوچ کر کھاتے ہیں۔

    جب اس بارے میں مزید تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ ان جانداروں میں ماں کی بیرونی جلد مختلف معدنیات سے بھرپور ہوتی ہے جو اس کے نومولود بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے اور انہیں توانائی فراہم کرتی ہے۔

    گویا یہ ایسا ہی عمل ہے جیسے کسی ممالیہ جاندار کے نومولود بچے کی سب سے بہترین، ابتدائی اور غذائیت بخش شے ماں کا دودھ ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    اسی جاندار کی وہ اقسام جو نسبتاً بڑے بچوں کو جنم دیتی ہے، جب زیر تحقیق لائی گئیں تو دیکھا گیا کہ ماں کے جسم کے اندر جس حصے میں یہ بچے پرورش پاتے ہیں، اس حصے کی بیرونی تہہ کو (اندر سے) کھا کر اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔

    چونکہ ان جانداروں کا جسم حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ان پر لکیریں بنی ہوتی ہیں، تو بچوں کے کھانے کے بعد ماں کے مذکورہ حصے کی لکیریں ختم ہوجاتی ہیں جو کچھ عرصہ بعد دوبارہ ابھر آتی ہیں۔

    caecilians-2

    اپنے ہی خاندان کو کھانے کی ایک اور مثال شارک کی ایک انواع میں بھی دیکھی گئی جسے سینڈ ٹائیگر شارک کہا جاتا ہے۔

    shark-2

    اس شارک میں انڈے ماں کے جسم کے اندر ہی افزائش پاتے ہیں، حتیٰ کہ ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔ یہ سارا عمل ماں کے جسم کے اندر ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔

    انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد کوئی ایک بچہ جو قدرتی طور پر مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے، ان انڈوں کو کھانا شروع کردیتا ہے جن سے ابھی بچے نہیں نکلے ہوتے۔ اس کے بعد ان بچوں کی باری آتی ہے جو نسبتاً کمزور اور چھوٹے ہوتے ہیں۔

    shark

    یہ ایک طاقت ور بچہ تمام انڈوں اور دیگر بچوں کو کھا کر اپنی افزائش کا مقررہ وقت پورا کرنے کے بعد ماں کے جسم سے باہر نکل آتا ہے۔

    گویا یوں کہا جائے کہ شارک کے یہ بچے پیدائش کے وقت سے ہی کمزور اشیا کو کھانے کی تربیت حاصل کرچکے ہوتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔