Tag: جانوروں کی کہانیاں

  • بھیڑیے کی آنکھ

    بھیڑیے کی آنکھ

    یہ ایک بھوکے بھیڑیے کی کہانی ہے جو شکار کی تلاش میں گھومتے گھومتے ایک ایسے غار کے دہانے پر آپہنچا جس کے اندر سے تازہ گوشت کی بُو آرہی تھی۔

    اسے سخت بھوک لگی تھی اور تازہ گوشت کی بُو بھیڑیے کو بے حال کیے دے رہی تھی۔ وہ غار کے اندر چلا گیا۔

    بھیڑیا اندر داخل ہوا تو وہاں اس کی ملاقات پرانے دوست چیتے سے ہوگئی جو ایک بکری اڑا رہا تھا۔ بھیڑیے نے اسے دیکھا تو حیرانی سے بولا: ارے تم! کہاں غائب تھے اتنے عرصے سے؟ بڑے مزے آرہے ہیں اکیلے ہی پوری بکری ہڑپ کرو گے کیا۔

    چیتا بولا، ہاں بھائی! شکار کے لئے محنت کی اور اب اس محنت کا پھل کھا رہا ہوں، میرا پیٹ بھر چکا ہے، جو بچا ہے وہ تم کھا سکتے ہو۔ اس دعوت کو بھیڑیے نے غنیمت جانا اور جانور کا بچا کھچا گوشت نوچنے لگا۔ چیتے نے اسے غور سے دیکھا اور بولا، سب خیریت تو ہے؟ بڑے کمزور دکھائی دے رہے ہو حالانکہ پہلے تو اچھے بھلے صحت مند تھے۔

    بھیڑیا اس کی بات سن کر کہنے لگا، بس کیا بتاؤں! تم تو آسانی سے شکار کر کے کھا لیتے ہو مگر مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے۔ قریب کے گاؤں سے روزانہ جنگل میں بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چَرنے آتا تو ہے مگر ریوڑ کے ساتھ محافظ کتّے ہوتے ہیں اس لئے میں ان کا شکار نہیں کر پاتا۔

    چیتے بھائی! تم مجھے کوئی آئیڈیا دو کہ میں کس طرح ان بکریوں کا شکار کروں اور واپس پہلے جیسی صحت بنا سکوں؟

    چیتے نے اپنے دوست کی پریشانی سنی تو فوراً دماغ لڑایا اور کہا، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے، تم اس بکری کی کھال تم لے لو اور کل صبح اسے پہن کر بیٹھ جانا پھر جیسے ہی ریوڑ آئے تم بکری کا بھیس بدل کر اس میں چپکے سے شامل ہو جانا اور آگے کیا کرنا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو۔

    سمجھ گیا چیتے بھائی! کیا آئیڈیا دیا ہے آپ نے واہ! چیتے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیڑیے نے وہاں سے کھال سمیٹی اور رخصت ہوگیا۔

    پھر روزانہ کی طرح جب اگلے دن بکریوں کا ریوڑ آیا تو بھیڑیا وہ کھال پہن کر چپکے سے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہوگیا اور ان کے باڑے میں پہنچ گیا۔ اس نے یہ راستہ دیکھ لیا تھا اور سب سے آنکھ بچا کر قریب ہی رہنے لگا۔ اس کے ساتھ روزانہ رات کو ایک بکری کو اپنی خوراک بنانا بھی شروع کر دیا۔ بھیڑیا بڑا خوش تھا کیوں کہ وہ بغیر محنت کے کئی روز سے ایک بکری کو اپنی خوراک بنا رہا تھا، کچھ دن گزرے تو مالک کو بکریوں کے کم ہونے پر تشویش ہوئی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سیکیورٹی ہونے کے باوجود بکریاں کیسے کم ہورہی ہیں؟

    مالک نے ایک چالاک لومڑی کو اس کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

    چالاک لومڑی ایک رات بکریوں کے باڑے میں گئی۔ اس وقت سب بکریاں آرام کررہی تھیں۔ وہ دور بیٹھ کر ایک ایک بکری کو بغور دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی نظر ایک ایسی بکری پر پڑی جو ایک آنکھ سے سو رہی تھی اس طرح کہ ایک آنکھ کھولے دوسری بند کر لے اور دوسری کھولے تو پہلی آنکھ بند کر لے۔ اسے یہ بہت عجیب لگا۔ وہاں سے نکل کر لومڑی نے ساری بات مالک کو بتا دی۔ مالک جانوروں کی عادات سے خوب واقف تھا، اس نے جان لیا کہ اس طرح تو بھیڑیا سوتا ہے۔ اس نے اگلی رات اس دھوکے باز بھیڑیے کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے انجام تک پہنچا دیا۔

    سچ کہتے ہیں دھوکے بازی اور فریب سے چند روز کا فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے، مگر دائمی اور مستقل کام یابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ عارضی فائدے کے لیے ایسی کوئی کوشش نہ کریں جس کے بعد پچھتانا پڑے۔

    (جانوروں کی حکایات سے انتخاب)

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص، پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔

    ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں۔‘‘ چوہیا نے کہا چلو۔ دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔

    چڑیا تو اُڑتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک پھدک چلتی جاتی تھی۔ راستے میں آیا ایک دریا۔ چڑیا اس دریا کے کنارے پر بیٹھ کر نہانے لگی۔ چڑیا نے کہا، بہن چوہیا تم بھی منہ ہاتھ دھولو۔ چوہیا جو اپنا منہ ہاتھ دھونے لگیں تو دریا میں ڈوب گئیں۔

    چڑیا لگی رونے اور دعا مانگنے کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں۔ میں کونڈا (نذر) دوں گی۔ چوہیا نکل آئی۔

    آگے چلیں تو ایک ہاتھی جارہا تھا۔ چوہیا بی اس کے پاؤں کے نیچے دب گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں تو میں کونڈا دوں گی۔ چوہیا ہاتھی کے پیر تلے سے بھی جتنی جاگتی نکل آئی۔

    آگے چلیں تو بہت سی کانٹوں کی جھاڑیاں تھیں۔ چوہیا بی اس میں پھنس گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی اور وہی دعا مانگی۔ چوہیا وہاں سے بھی صحیح و سلامت نکل آئی۔

    دونوں سہیلیاں گھر پہنچیں۔ چڑیا نے کورا کونڈا منگایا۔ ملیدہ بنا کے صحنک دی اور شکر کیا کہ میری چوہیا بہن سب جگہ سے صحیح و سلامت نکل کر گھر پہنچیں۔

    ایک روز چوہیا اور چڑیا میں لڑائی ہوئی۔ چڑیا بولیں، وہ دن بھول گئیں جب دریاؤں میں ڈوب ڈوب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا تمہیں میری کیا پڑی؟ میں اپنا منہ ہاتھ دھلواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب ہاتھی کے پیر تلے دب دب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: تجھے کیا پڑی؟ میں اپنے ہاتھ پاؤں دبواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب کانٹوں میں چِھد چِھد جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: ’’تمہیں میری کیا پڑی؟ میں تو اپنے ناک کان چِھداتی تھی۔

    سبق: سچ ہے کہ لڑائی جھگڑا اور غصّہ ہمارے تعلقات اور برسوں کی رفاقت کو پل بھر میں‌ ختم کردیتا ہے اور ایسا شخص غصّے کے عالم میں دوسرے کی تمام اچھائیوں اور احسانات کا انکار کرتے ہوئے اپنے منصب سے گر جاتا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں‌ یہ بھی سبق ملتا ہے کہ نیکی اور احسان کے جواب میں کسی صلے اور ستائش کی توقع کم ہی رکھنی چاہیے۔

    (اردو زبان کے پرانے کتابی نسخے سے لی گئی سبق آموز کہانی جس پر مصنف یا تدوین کار کا نام درج نہیں‌ ہے)