Tag: جانور

  • جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے، اس وقت جب دنیا بھر میں جان لیوا کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی اور امید کی کرن بھی ثابت ہوا ہے۔

    جنگلی حیات کا عالمی دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’زمین پر ہر نوع کی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش‘ کے تحت منایا جارہا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    کرونا وائرس ۔ امید کی کرن

    گزشتہ برس کے اختتام پر سامنے آنے والے جان لیوا کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب تک اس وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 90 ہزار جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وائرس چینی شہریوں کے ہر قسم کے گوشت کے بے تحاشہ غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث سامنے آیا ہے اور یہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔

    چین میں گوشت کی اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اور پھر چین میں ان کی تجارت کی جاتی ہے کیونکہ چین اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

    تاہم اب کرونا وائرس کے زبردست جھٹکے کے بعد چین اب جنگلی حیات کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس سے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت اور شکار میں کمی آئے گی۔

    چین میں کرونا وائرس سے سب سے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔

    یہیں سے سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی، پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا بالآخر اب سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ پینگولین بنا۔

    چین میں اس وقت پینگولین کے علاوہ، چیتے اور رائنو سارس کی غیر قانونی تجارت عروج پر ہے، ان جانوروں کی کھالیں اور مختلف اعضا فر، ملبوسات، اور چینی دوائیں بنانے کے کام آتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین جنگلی حیات اور ماہرین ماحولیات پرامید ہیں کہ چین کی جانب سے جنگلی حیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی ان جانوروں کی بقا میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • پارسل چرانے پر ڈاکیے نے بے زبان لومڑی کو ہاکی اسٹک سے پیٹ ڈالا

    پارسل چرانے پر ڈاکیے نے بے زبان لومڑی کو ہاکی اسٹک سے پیٹ ڈالا

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو نے صارفین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس میں ایک ڈلیوری بوائے پارسل سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر ایک معصوم بے زبان لومڑی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔

    یہ پریشان کن ویڈیو لندن کی معلوم ہوتی ہے، ویڈیو میں دو افراد معلوم موجود ہوتے ہیں جن میں سے ایک ویڈیو بنا رہا ہے۔

    دونوں افراد ایک کوریئر وین کے ساتھ موجود ہیں جس کا دروازہ کھلنے پر کچھ پارسلز گاڑی سے باہر آ گرے ہیں، اور اسی وقت ایک لومڑی کہیں سے ان پارسلز کے قریب آجاتی ہے۔

    اپنے پارسلز کے قریب لومڑی کو دیکھ کر دونوں افراد پریشانی کا شکار ہیں اور اسے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم لومڑی اپنے ساتھ ایک پارسل لے جانے میں کامیاب رہتی ہے۔

    لیکن چند قدم چل کر ہی پارسل اس کے منہ سے چھوٹ کر گر پڑتا ہے، اس دوران وین ڈرائیور اس کے سر پر پہنچ جاتا ہے اور ہاکی اسٹک سے اس پر زور دار وار کرتا ہے۔

    ڈرائیور کی اس وحشیانہ حرکت سے معصوم بے زبان لومڑی بری طرح قلابازی کھاتی اور زخمی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

    یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی جس کے بعد صارفین نے ویڈیو میں موجود افراد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور شدید غصے کا اظہار کیا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ میں لومڑیوں کی آبادی میں اضافہ ہوچکا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے شہروں میں، جنگلوں سے زیادہ لومڑیاں موجود ہیں۔

    اس کی وجہ خوراک کی عدم دستیابی ہے، خوراک کی تلاش میں لومڑیاں شہروں اور مصروف سڑکوں پر آجاتی ہیں اور مختلف حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں۔

  • چار مویشیوں‌ کی وجہ سے ایجاد ہونے والا انگریزی زبان کا ایک لفظ

    چار مویشیوں‌ کی وجہ سے ایجاد ہونے والا انگریزی زبان کا ایک لفظ

    ٹیکساس ایک وسیع و عریض ریاست ہے جس نے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل ریاست ہائے متحدہ سے ناتا جوڑا تھا اور اب یہ امریکا کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔

    وسیع سبزہ زاروں پر مشتمل اس علاقے کی زمین انتہائی زرخیز تھی۔ اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ چراگاہوں کے لیے بھی نہایت موزوں علاقہ تھا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز میں ریاست ورجینیا سے یہاں آنے والے سیموئل آگسٹس میورک کو یہاں کے حسین نظاروں، صاف ستھری آب و ہوا نے اتنا متأثر کیا کہ وہ یہیں آباد ہو گیا۔

    اس نے یہاں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور اس پر گھر بنایا جب کہ باقی کو معاش اور گزر بسر کے لیے آباد کرلیا۔
    قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور اپنی محنت سے تھوڑے ہی عرصے میں وہ علاقے کا بڑا زمیں دار بن گیا۔

    کہتے ہیں ایک روز کوئی اجنبی اس سے ملنے آیا اور ایک عجیب بات کہی۔ اس اجنبی کا کہنا تھا کہ برسوں پہلےاس نے میورک سے کچھ رقم ادھار لی تھی اور اس اب اپنے سَر سے یہ بوجھ اتارنا چاہتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ وہ میورک کو قرض کی رقم کی جگہ دو گائے اور دو بیل دینا چاہتا ہے۔

    میورک مویشی نہیں پالنا چاہتا تھا، مگر اس شخص کے صرار پر وہ چوپائے قبول کرلیے اور انھیں اپنی زمینوں پر آزاد چھوڑ دیا۔

    میورک کو یہ جاننے میں کوئی دل چسپی نہ تھی کہ وہ چوپائے کیسے ہیں اور کوئی انھیں چُرا کر تو نہیں لے گیا۔ وہ گائے اور بیل کھلی فضا اور سر سبز چراگاہوں میں خوب مزے سے گھومتے پھرتے اور خوب کھا پی کر موٹے تازے ہو گئے تھے۔

    اس دوران جانور افزائشِ نسل بھی کرتے رہے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ میورک کو ان کی کوئی پروا نہ تھی، مگر علاقے کے دوسرے زمیں داروں نے مشورہ دیا کہ یہ تمھارے جانور ہیں، ان کی کھال پر کوئی نشان داغ دو تاکہ نشانی رہے۔

    یہ ایک عام طریقہ تھا اور آج بھی رائج ہے کہ مالک اپنے مویشیوں کی کھال پر لوہے کی سلاخ کی مدد سے یا آہنی مہر کو گرم کر کے جسم داغ دیتا اور وہ مخصوص علامت یا نشان اس پر ظاہر ہو جاتا، لیکن میورک نے اس مشورے کے جواب میں بھی کمال بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا چوں کہ علاقے کے ہر مویشی کی پُشت پر مالک کی کوئی نشان داغ رکھا ہے اس لیے جو جانور بغیر نشان کا ہو گا، سمجھو وہ میرا ہے۔

    اس پر سب چُپ ہو گئے۔ سبزہ زاروں میں بغیر نشان کے گائے بیل نظر آتے تو مقامی لوگ یہی مانتے کہ وہ میورک کا ہو گا۔ رفتہ رفتہ بغیر نشان کے جانوروں‌ کے لیے وہاں‌ لوگوں‌ نے صرف میورک بولنا شروع کر دیا اور یوں ایک لفظ ایجاد ہوا جو بعد میں لغت کا حصّہ بنا اور بول چال میں داخل ہو گیا۔

    ابتدا میں تو اس لفظ کو ایسے جانوروں کے لیے برتا گیا جو آزاد پھرتے ہوں یا انھیں آوارہ اور بھٹکا ہوا خیال کیا جائے، مگر بعد میں اس لفظ نے نئے معنیٰ پہنے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ جانور کی تخصیص نہ رہی اور یہ عمومی اسمِ صفت بن گیا۔ یعنی یہ ہر اُس شخص کے لیے برتا جانے لگا جو کوئی نئی طرز ایجاد کرے۔ اسے انوکھے پن یا جداگانہ طرز اور منفرد رویے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

  • انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

    زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

    دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

    پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

    اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

    اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

    زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

    4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

    اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

    حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

    اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

    ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

    دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

    اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

    اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

    قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

    یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

  • جنگلات میں لگی قیامت خیز آگ سے کروڑوں جانور ہلاک

    جنگلات میں لگی قیامت خیز آگ سے کروڑوں جانور ہلاک

    سڈنی: آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگی قیامت خیز آگ سے جہاں کئی انسان ہلاک ہوئے اور کئی گھر تباہ ہوئے، وہیں نصف ارب کے قریب جانور بھی اس ہولناک آگ میں ہلاک ہوگئے۔

    یونیورسٹی آف سڈنی کے ماہرین ماحولیات کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ سے، ستمبر سے اب تک اندازاً 48 کروڑ ممالیہ جانور، پرندے اور رینگنے والے جانور ہلاک ہوچکے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ جاری ہے۔

    صرف چند دن کے دوران اس آگ سے متعدد افراد بھی ہلاک جبکہ کئی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے ساتھ موجود بے شمار گھر تباہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

    اب تک سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خوفزدہ کینگروز شعلوں کو پھلانگ کر جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ریکسیو اہلکاروں کو کوالا کی لاتعداد جھلسی ہوئی لاشیں بھی ملی ہیں۔

    مقامی شہریوں نے بھی کئی جانوروں کی دلدوز کراہیں سن کر ان کی جانیں بچائیں جو آگ سے بری طرح جھلس گئے تھے اور شدید زخموں کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔

    ان جانوروں میں بڑی تعداد کوالا کی ہے جو آہستہ حرکت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی خوراک کا انحصار بھی یوکلپٹس کے پتوں پر ہے جن کے درخت پہلے ہی جل کر خاک ہوچکے ہیں۔

    تاہم ان کوالاز کو اسپتال پہنچانے کے بعد ان کی تکلیف دیکھتے ہوئے انہیں موت کی نیند سلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    خیال رہے کہ آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریا کے جنگلات میں چند روز قبل آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرلی۔

    سرکاری حکام کی جانب سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری کیے گئے جن کے مطابق اب تک 17 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

    سرکاری اعلامیے کے مطابق آتشزدگی کے باعث اب تک 175 گھروں کے نذر آتش ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ آسمان بھی آگ کے شعلوں کی وجہ سے بالکل سرخ ہو رہا ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اگلے ایک دو روز میں درجہ حرارت 46 سینٹی گریڈ تک جائے گا جس سے صورتحال مزید بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔

  • جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر لاکھوں ریال کا جرمانہ

    جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر لاکھوں ریال کا جرمانہ

    ریاض: سعودی عرب کی وزارت ماحولیات نے حیوانات کے تحفط کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے 29 افراد کو 17 لاکھ ریال کے جرمانے عائد کیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی وزارت ماحولیات کا کہنا جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی صحت سے متعلق لاپروائی پر 29 افراد کو 17 لاکھ ریال کے جرمانے کیے گئے ہیں۔

    وزارت ماحولیات کے مطابق جانوروں کی باقیات سے تیار کردہ مصنوعات کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ طریقے سے فروخت کرنا اور جانوروں کی صحت کے سرٹیفکیٹ کے بغیر انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتا ہے۔

    وزارت ماحولیات کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سب سے زیادہ 16 خلاف ورزیاں مکہ مکرمہ، ریاض میں 7، تبوک میں 2 اور عسیر، مدینہ منورہ، حائل اور جازان میں 1،1 خلاف ورزی سامنے آئی ہے۔

    جانوروں کے نگران اور مالکان سے وزارت نے کہا کہ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مکمل تعاون کریں۔ وزارت نے عوام پر زور دیا کہ جانوروں پر ایسی کسی بھی زیادتی یا خلاف ورزی دیکھنے پر وزارت کو ٹال فری نمبروں پر اطلاع کریں۔

    وزارت ماحولیات نے جانوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے متعلق رپورٹ کرنے والوں کی تعریف کی۔

  • بچے کو پیکٹ والی غذا کھلانے والی انوکھی بلی

    بچے کو پیکٹ والی غذا کھلانے والی انوکھی بلی

    سیول: عمومی طور پر پالتو بلیوں کے برعکس گلیوں میں رہنے والی بلیاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بھوک مٹانے کی خاطر وہ غذا بھی استعمال کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتیں۔

    مگر جنوبی کوریا میں ایک بلی نے رضاکاروں کو اس وقت حیرت زدہ کریا جب اس نے فراہم کیا گیا کھانا کھانے سے انکار کردیا، بلی کے منہ پھیرنے پر شیلٹر ہوم کے رضاکاروں کو عجیب لگا کہ کوئی بلی دوسروں کی طرح کھانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔

    اس کا راز جاننے لیے خواتین رضاکاروں نے مذکورہ بلی پر نظر رکھی اور اس کی حرکات و سکنات نوٹ کیں، رضاکاروں نے بلیوں کے پسندیدہ کھانے اس کے سامنے رکھے بغیر اس نے ذرا بھی دلچسپی نہیں دکھائی۔

    کچھ دن بعد بلی کے منہ میں پیکٹ بند خوراک لٹکی دیکھی جسے بلی لوگوں کی نظروں سے دور لے جارہی تھی، اگلے روز رضاکاروں نے پیک فوڈ رکھا تو بلی فوراً آگئی اور اس نے پیکٹ کو دانتوں سے پکڑا اور دوڑ لگا دی۔

    بلی کا پیچھا کرتے کرتے رضا کار بھی اس مقام پر پہنچ گئے جہاں بلی روزانہ کھانا لے جاتی تھی، رضاکار یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ دور دراز علاقے کے ویرانے میں بلی نے آواز نکالی تو اس کا بچہ باہر نکل آ گیا جسے اس نے پیکٹ میں بند خوراک فراہم کی اور خود بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی۔

  • بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    ہم جس حیوان کا ذکر یہاں کر رہے ہیں، اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے۔ یہ جانور لمحوں میں شکار تک پہنچ کر اسے دبوچ لیتا ہے۔

    ہم پاکستانی اس کی تیز رفتاری سے اتنے متأثر ہیں کہ جب کسی شعبے کی شخصیت کے کام اور پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرنا اور اس کی غیرمعمولی کارکردگی کی مثال دینا ہو تو اس درندے کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ جملہ اس حوالے سے یقینا آپ کی الجھن دور کر دے گا۔

    جناب، میں جو بندہ لایا ہوں اسے کمپنی میں ایک موقع ضرور دیں۔ تھوڑا گپ باز ہے سَر، مگر اپنے کام میں ‘‘چیتا’’ ہے!

    چیتے کی سب سے بڑی خوبی اس کی رفتاری ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ چیتا شیر کی طرح دہاڑ نہیں پاتا بلکہ یہ جانور غراتا ہے اور بلیوں کی طرح آوازیں نکالتا ہے۔

    چیتے کو رات کے وقت دیکھنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ ماہرینِ جنگلی حیات کے مطابق چیتا زیادہ تر صبح کی روشنی میں یا دوپہر کے بعد شکار کرتے ہیں۔

    بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور درختوں پر بھی آسانی سے نہیں چڑھ پاتا
    چیتے کا سَر اور پاؤں چھوٹے جب کہ ان کی کھال موٹی ہوتی ہے۔
    افریقی اور ایشیائی چیتوں کی جسمانی ساخت میں کچھ فرق ہوتا ہے جب کہ ان کی بعض عادات بھی مختلف ہیں۔
    افریقی چیتوں پر کئی سال پہلے ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا تھا کہ چیتے کے 100 بچوں میں سے صرف پانچ ہی بڑے ہونے تک زندہ رہتے ہیں۔
    جنگل کے دوسرے جانور جن میں ببون، لگڑ بگھے اور مختلف بڑے پرندے شامل ہیں، موقع پاتے ہی چیتے کے بچوں کا شکار کرلیتے ہیں۔
    ماہرین کے مطابق دوڑتے ہوئے یہ جانور سات میٹر تک لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ یعنی 23 فٹ لمبی چھلانگ جس میں اسے صرف تین سیکنڈ لگتے ہیں اور یہ حیرت انگیز ہے۔

  • جانوروں کو بھی جینے کا حق ہے، سیکریٹری بلدیات

    جانوروں کو بھی جینے کا حق ہے، سیکریٹری بلدیات

    کراچی: سیکریٹری بلدیات روشن شیخ نے کہا کہ جانوروں کو بھی جینے کا حق دینا چاہیے، ان کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہیے، آوارہ کتوں کے خلاف ترکی کی طرز کا ماڈل اپنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز کے پروگرام باخبرسویرا میں گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری بلدیات روشن شیخ نے کہا کہ کتوں کو تلف کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، کتوں کو مارنے کے بجائے ویکسین لگانا بہتر سمجھا۔

    انہوں نے کہا کہ کتوں کو ویکسین دینے سے متعلق این جی اوز کا تعاون حاصل ہے، باقاعدہ کوئی سروے نہیں ہوا، تقریباََ 12 سے 15 لاکھ کتے ہیں، کتوں کو ویکسین کے بعد ریبیز کا خطرہ نہیں رہتا۔

    روشن شیخ نے کہا کہ کتوں کی ویکسین کے لیے 90 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا جائے گا، کراچی میں اینیمل سینٹر بنا رہے ہیں، پی سی ون کی تیاری جاری ہے۔

    سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ لاڑکانہ سمیت دیگر اضلاع میں کام کیا جائے گا، آوارہ کتوں کے خلاف ترکی کی طرز کا ماڈل اپنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جانوروں کو بھی جینے کا حق دینا چاہیے، ان کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 16 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کو آوارہ کتے پکڑنے کا حکم دیا تھا۔

  • لمبی زندگی جینے کا آسان نسخہ

    لمبی زندگی جینے کا آسان نسخہ

    انسان اپنی زندگی کو طویل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کئی جتن کرتا ہے، یوں تو طویل صحت کا تعلق اچھی صحت سے ہے تاہم آج ہم آپ کو طویل صحت کا بہترین نسخہ بتانے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پالتو جانور رکھنے والے افراد صحت مند رہتے ہیں اور ان کی زندگی طویل ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پالتو جانور بے شمار فائدوں کا باعث ہے، یہ جسم میں سیرو ٹونین اور اوکسی ٹوسن نامی ہارمون میں اضافہ کرتے ہیں جس سے خوشی اور محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق پالتو جانور قبل از وقت موت کا باعث بننے والے عوامل سے بچاتا ہے، یہ اپنے مالک کو تنہائی اور ڈپریشن سے محفوظ رکھتا ہے۔ مالک جب اپنے جانور کو باہر گھمانے کے لیے لے کر جاتا ہے تو اس کے سماجی رابطے قائم ہوتے ہیں جس سے اس میں تنہائی کا احساس کم ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پالتو جانور اپنے مالک کو ذہنی تناؤ سے بچا کر رکھتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم رہتا ہے، جبکہ کولیسٹرول کی سطح بھی مناسب رہتی ہے جس سے دل صحت مند رہتا ہے۔

    بعض اوقات پالتو جانور کسی کی جان بھی بچاسکتے ہیں، بعض مرگی کے مریض کے پالتو کتوں کو ایسی تربیت دی جاتی ہے جس سے وہ دورے کی کیفیات بھانپ کر دیگر افراد کو مدد کے لیے بلانا شروع کردیتے ہیں۔

    ایسے کتے مریض کے قریب بھی لیٹ جاتے ہیں تاکہ اگر وہ دورے کی حالت میں نیچے گریں تو انہیں چوٹ نہ لگے۔

    کیا آپ طویل زندگی کے لیے پالتو جانور رکھنا چاہیں گے؟