Tag: جان بولٹن

  • ٹرمپ پر تنقید کا نتیجہ، ایف بی آئی کا جان بولٹن کے گھر اور دفتر پر چھاپا

    ٹرمپ پر تنقید کا نتیجہ، ایف بی آئی کا جان بولٹن کے گھر اور دفتر پر چھاپا

    واشنگٹن (23 اگست 2025): ایف بی آئی نے میری لینڈ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت ناقد جان بولٹن کے گھر اور دفتر پر چھاپا مارا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعہ کی صبح کاش پٹیل کی زیرِ نگرانی ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے سابق مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے، یہ کارروائی ان پر خاندان کو خفیہ سرکاری دستاویزات بھیجنے کے الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سابق مشیر قومی سلامتی پر خفیہ دستاویزات رکھنے کا الزام ہے، صدر ٹرمپ نے جان بولٹن کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کیا، اور کہا کہ وہ تحقیقات سے مطمئن ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ’’وہ ذہین آدمی نہیں ہے، لیکن ممکن ہے وہ ایک انتہائی غیر محبِ وطن شخص ہو۔ ہمیں جلد معلوم ہو جائے گا۔‘‘

    یہ کارروائی اس اعلیٰ سطحی تفتیش کا حصہ تھی جس میں بولٹن پر الزام ہے کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس میں کام کے دوران ایک نجی ای میل سرور سے انتہائی حساس خفیہ دستاویزات اپنے خاندان کو بھیجی تھیں۔

    ٹرمپ نے بھارت میں نیا سفیر نامزد کر دیا

    ایک وفاقی تحقیقاتی افسر نے ’دی پوسٹ‘ کو بتایا کہ یہ تفتیش ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل کی ہدایت پر کی گئی، اور ایجنٹس صبح 7 بجے جان بولٹن کے بیتهیسڈا، میری لینڈ میں واقع گھر پہنچے۔ بعد ازاں ایجنٹس نے ڈی سی کے مرکزی علاقے میں واقع ان کے دفتر کا بھی رخ کیا، لیکن اس وقت تک اندر داخل نہیں ہوئے جب تک کہ ایک جج نے جمعے کی دیر صبح اس مقام کے لیے باقاعدہ وارنٹ پر دستخط نہ کر دیے۔

    چھاپے کے آغاز کے کچھ دیر بعد کاش پٹیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ’پر اسرار‘ پیغام میں لکھا: ’’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں… ایف بی آئی ایجنٹس مشن پر ہیں۔‘‘

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جان بولٹن کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس وقت ان پر کسی جرم کا باضابطہ الزام عائد کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ صدر پر تنقید کرنے والوں کے گھر ایف بی آئی پہنچ جاتی ہے، جان بولٹن نے ٹرمپ پیوٹن ملاقات اور جنگی منصوبہ لیک ہونے پر کڑی تنقید کی تھی۔

  • سابق امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے بیان پر دفترِ خارجہ کا ردعمل

    سابق امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے بیان پر دفترِ خارجہ کا ردعمل

    اسلام آباد : سابق امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے بیان پر دفترخارجہ کا ردعمل سامنے آگیا ، جس میں کہا قابل افسوس ہے جان بولٹن کا بیان راج ناتھ جیسے رہنما کے بیان کے بعد سامنے آیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے بیان پر دفترخارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا پاکستان کو اپنے جوہری تحفظاتی نظام اور کمانڈاینڈکنٹرول ڈھانچے کی مضبوطی پر اعتماد ہے، قابل افسوس ہے جان بولٹن کا بیان راج ناتھ جیسے رہنما کے بیان کے بعد سامنے آیا۔

    ترجمان شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ راج ناتھ سنگھ ایک ہندو انتہا پسند تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں، راج ناتھ سنگھ پاکستان کیخلاف باربار جارحیت کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں، بھارتی جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول راج ناتھ جیسے افراد کے ہاتھ میں ہے۔

    شفقت علی خان نے کہا کہ عالمی برادری کو زیادہ تشویش بھارتی جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہونی چاہے ، راج ناتھ سنگھ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف شدید تعصب رکھتے ہیں، راج ناتھ خود کو حد سے بڑھاکر دیکھنے کے خطرناک فریب میں مبتلا ہیں۔

    مزید پڑھیں : پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے اشتعال انگیز الزامات کو مسترد کردیا

    ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی جوہری تحفظ سے متعلق جائز خدشات کوجنم دیتی ہے، بھارتی سیاسی منظرنامے، میڈیا، معاشرے کے مختلف طبقات میں انتہا پسندی بڑھ گئی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بھارت میں جوہری بلیک مارکیٹ کے تسلسل نے ان خدشات کو مزید تقویت دی، بلیک مارکیٹ بھارت کے جوہری تحفظاتی نظام میں سنگین خامیوں کو ظاہر کرتی ہے، واضح مثال جوہری مواد کی چوری ، اسمگلنگ کے بار بار پیش آنیوالے واقعات ہیں۔

  • ٹرمپ نے اپنے سابق مشیر سے سیکیورٹی واپس لینے کا قدم کیوں اٹھایا؟

    ٹرمپ نے اپنے سابق مشیر سے سیکیورٹی واپس لینے کا قدم کیوں اٹھایا؟

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق مشیر جان بولٹن کی سیکیورٹی ختم کر دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اپنے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن سے خفیہ سروس کا تحفظ چھین لیا۔

    بولٹن کے ترجمان نے کہا کہ خفیہ سروس نے پیر کی رات بولٹن کو فون کیا اور کہا کہ ان کی سیکیورٹی اگلے دن دوپہر کو ختم ہو جائے گی۔ ٹرمپ نے منگل کو صحافیوں کو تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’ہم لوگوں کو ساری زندگی کے لیے سیکیورٹی نہیں دیں گے۔‘‘

    جان بولٹن نے نومبر 2019 میں وائٹ ہاؤس چھوڑ دیا تھا، ایران کی جانب سے انھیں دھمکیاں دی گئی تھیں، جس کی وجہ سے انھیں امریکی خفیہ سروس کے تحفظ کی ضرورت تھی، تاہم ٹرمپ نے پہلی مدت میں اپنی انتظامیہ چھوڑنے کے بعد ابتدائی طور پر ان کا تحفظ ختم کر دیا تھا، لیکن صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے بحال کر دیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری میں کن ارب پتیوں نے شرکت کی؟

    بولٹن نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انھیں ٹرمپ کے اقدام سے مایوسی ہوئی، تاہم حیرانی نہیں ہوئی۔ وائٹ ہاؤس اور خفیہ سروس نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

    واضح رہے کہ جان بولٹن نے وائٹ ہاؤس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد اپنے سابق باس کے لیے سخت الفاظ کہے تھے۔ انھوں نے 2024 میں اپنی کتاب کے ایک نئے ایڈیشن میں ٹرمپ کو ’’صدر کے عہدے کے لیے نااہل‘‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے ٹرمپ کو ایک مکمل مفاد پرست آدمی قرار دیا، جو ذاتی دشمنوں کو سزا دیتا ہے اور روس اور چین کو خوش کرتا ہے۔ جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو بولٹن کو ’گونگا شخص‘ قرار دیا۔

    یاد رہے کہ امریکا نے 2022 میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے ایک رکن پر بولٹن کے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ محکمۂ انصاف کے مطابق 45 سالہ شہرام پور صفی جو مہدی رضائی کے نام سے بھی معروف تھا، نے بولٹن کو قتل کرنے کی کوشش کی، جس کا محرک کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینا تھا۔

  • کیا امریکی صدر سابق مشیر کی آنے والی کتاب سے خوف زدہ ہیں؟

    کیا امریکی صدر سابق مشیر کی آنے والی کتاب سے خوف زدہ ہیں؟

    واشنگٹن: امریکی عدالت کے جج نے سابق امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی آمدہ کتاب کے حوالے سے دائر کیس کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کتاب کی اشاعت رکوانا اب بہت مشکل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے سابق مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کی شایع ہونے جا رہی کتاب رکوانے کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ میں محکمہ انصاف کی جانب سے جان بولٹن کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے سابق امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی کتاب آئندہ منگل کو فروخت کے لیے پیش کی جائے گی، محکمہ انصاف کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ جان بولٹن نے حساس معلومات شائع نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا، جان بولٹن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کتاب کی کاپیاں واپس منگوائیں۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومتی حساس معاملات کو عام نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کتاب کی اشاعت کو فوری طور پر رکوایا جائے۔

    ٹرمپ نے انتخاب میں کامیابی کیلئے چین سے مدد مانگی، سابق مشیر نے بھانڈا پھوڑ دیا

    سرکاری وکیل کا مؤقف سننے کے بعد جج روئس لیم برتھ نے اپنے ریمارکس میں کہا کیا کتاب کی اشاعت رکوانے کے لیے کافی دیر نہیں ہو گئی، مشکل لگتا ہے کہ کتاب کی اشاعت رکوانے کے لیے میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ جان بولٹن اپنے پبلشر اور ڈسٹری بیوٹرز سے رابطہ کر کے کتاب کی اشاعت رکوا سکتے ہیں۔

    عدالت میں جان بولٹن کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ کتاب کے حوالے سے معاہدے کی پاسداری کی گئی ہے، اور کتاب میں کوئی حساس معلومات نہیں، اس لیے کتاب کی اشاعت کے خلاف محکمہ انصاف کی درخواست رد کی جائے۔

    جان بولٹن کے وکیل نے کہا کہ اب تو کتاب کی ہزاروں کاپیاں دنیا بھر میں پہنچ بھی چکی ہیں۔ دریں اثنا، درخواست پر دلائل 2 گھنٹے تک جاری رہے تاہم جج کوئی فیصلہ نہ کر سکے، انھوں نے کہا کہ وہ محکمہ انصاف کی جانب سے مزید تفصیلات کا انتظار کریں گے۔

    واضح رہے کہ امریکی محکمہ انصاف کا مؤقف ہے کہ جان بولٹن نے کتاب کی اشاعت کے لیے باضابطہ منظوری نہیں لی ہے، اور کتاب میں اب بھی حساس تفاصیل درج ہیں جو امریکی قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں، تاہم کیس عدالت میں جانے کے بعد جان بولٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان تصادم اب لگتا ہے کہ آزادی اظہار کی جنگ میں بدل گئی ہے۔

  • ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے راز افشا کر دیا

    ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے راز افشا کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے مواخذے کے دوران اہم راز افشا کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق مواخذے کا سامنا کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا، ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر نے مواخذے سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے یوکرین کی امداد جوبائڈن کے خلاف تحقیقات سے مشروط کی تھیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سابق سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی گواہی صدر ٹرمپ کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مواخذے کی کارروائی میں جان بولٹن کو طلب کیے جانے کا امکان ہے۔

    ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے جواب میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جان بولٹن سے یوکرینی امداد ڈیموکریٹس کے خلاف تحقیقات سے مشروط کرنے کی کوئی بات نہیں کی، جان بولٹن اپنی کتاب بیچنے کی کوشش کر رہا ہے، میری یوکرین کے ہم منصب سے گفتگو تحریری شکل میں موجود ہے۔

    ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے سب سے خطرناک صدر قرار

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یوکرینی صدر اور وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ تحقیقات کے لیے ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا، میں نے یوکرین کے لیے امداد بغیر کسی شرط کے جاری کی، یوکرین کو ٹینک شکن میزائل خریدنے کی بھی اجازت دی تھی۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے سلسلے میں ایوان نمایندگان کی عدلیہ کمیٹی نے ٹرمپ پر 2 الزامات عائد کیے تھے، ایک یہ کہ ٹرمپ نے سیاسی مخالف کی تفتیش کے لیے یوکرین پر دباﺅ ڈال کر اختیارات کا غلط استعمال کیا، جو ملک سے دھوکا دہی کے مترادف ہے، دوسرا یہ کہ اسکینڈل کے حوالے سے ہونے والی کانگریس کی تفتیش میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ امریکی ایوان نمایندگان میں صدرٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کی جا چکی ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے استعفیٰ لے لیا

    ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے استعفیٰ لے لیا

    واشنگٹن: طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے آفٹر شاکس سامنے آنے لگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر  جان بولٹن سے استعفیٰ لے لیا.

    تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس میں بڑی تبدیلی آئی ہے، جان بولٹن اب امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نہیں‌ رہے.

    اس ضمن میں امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میں تفصیلات فراہم کی ہیں. انھوں نے لکھا کہ میں‌ نے گزشتہ رات جان بولٹن کو آگاہ کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو اب ان کی خدمات درکار نہیں کیوں.

    ٹرمپ کو کہنا تھا کہ مجھے جان بولٹن کی بہت ساری تجاویز سے اختلاف تھا، میں نے گزشتہ روز جان بولٹن سے استعفیٰ طلب کیا تھا جو آج صبح مجھے مل گیا۔

    مزید پڑھیں: امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کردی

    ابھی اگلے مشیر قومی سلامتی کا نام سامنے نہیں آیا، توقع کی جارہی ہے کہ اگلے سات دن میں نئے نام کا اعلان کیا جائے گا.

    جان بولٹن کو اپریل 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا، وہ 520 دن اس عہدے پر فائز رہے.

    خیال رہے کہ جون بولٹن کو لاتے ہوئے کئی دعوے کیے گئے تھے، عام خیال ہے کہ ٹرمپ اور جان بولٹن میں‌ اختلاف طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر سامنے آئے. بولٹن طالبان سے مذاکرات کے بھی خلاف تھے.

  • جان بولٹن کا دورہ برطانیہ، اہم امور پر تبادلہ خیال

    جان بولٹن کا دورہ برطانیہ، اہم امور پر تبادلہ خیال

    واشنگٹن/لندن :میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ جان بولٹن نے دورہ برطانیہ کے دوران ایران اور چینی کمپنی ہواوے کے خلاف مزید سخت مؤقف اختیار کرنے پر زور دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن ان دنوں دورہ برطانیہ کے دوران دارالحکومت لندن میں موجود ہیں جہاں وہ برطانوی حکام سے دوطرفہ دلچسپی کے امور اور عالمی معاملات پر گفتگو کررہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جان بولٹن کا دورہ برطانیہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب دو ماہ بعد برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی جیوپولیٹیکل تبدیلی ہے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ بولٹن اپنے دو روزہ دورے کے دوران برطانوی حکام سے یورپی یونین سے علیحدگی، مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت اور چین کی ٹیلی کمیونیکشن کمپنی ہواوے کے حوالے بات چیت کررہے ہیں۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیر اعظم تھریسامے کے کچھ معاملات پر امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں لیکن نئے وزیر اعظم بورس جانسن امریکا کےساتھ تعلقات مزید بہتر بنانے کےلیے کوشاں ہیں۔

    فی الحال برطانیہ یورپی یونین کے اس موقف کا حامی ہے جس میں ایران کے ساتھ سنہ 2015ء کو طے پائے معاہدے کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے، یورپی ممالک اور ایران نے ‘مشترکہ جامع ایکشن پلان’ کے عنوان سے ایک نیا پروگرام تیار کیا ہے۔

  • ایران ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھے، جان بولٹن

    ایران ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھے، جان بولٹن

    واشنگٹن : امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے تحمل اور تدبر کے مظاہرے کو اس کی کم زوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔

    غیرملکی خبررساں دارے کے مطابق امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا ایران سے متعلق یہ سخت بیان فقط تہران حکومت ہی کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ خطے میں امریکی اتحادی ممالک کے لیے یقین دہانی بھی ہے کہ امریکا خلیج کے خطے کے استحکام کا عزم رکھتا ہے۔

    امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے تحمل اور تدبر کے مظاہرے کو اس کی کم زوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے،ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے کے بعد امریکی صدر نے ایران کے خلاف طے شدہ اہداف پر حملوں کا حکم دیا تھا، تاہم بعد میں یہ ہدایات آخری لمحات میں واپس لے لی گئیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ اور بن سلمان کا ٹیلی فونک رابطہ، ایرانی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال

    واضح رہے کہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا، ایک روز قبل ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دے کر واپس لیا جس کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی۔

    امریکا نے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے مشرق وسطیٰ میں بحری بیڑے اور 1500 فوجی تعینات کر رکھے ہیں جبکہ مزید ایک ہزار اہلکاروں کو بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

    واضح رہے کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دیا تھا لیکن حملے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا۔

    امریکی اخبار کا کہنا تھا امریکی طیارے فضاؤں میں آگئےتھے اور بحری جہازوں نے پوزیشن لےلی تھی تاہم آپریشن کے آغاز سے چندگھنٹے قبل ہی صدرٹرمپ نے حملے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا۔

    یہ بھی پڑھیں: ایران نے امریکی ڈرون گرا کر بہت بڑی غلطی کی، ٹرمپ کا ردعمل

    اس سے قبل ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نے امریکی ڈرون گرا کر بہت بڑی غلطی کی۔

  • ایران کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ٹلا نہیں، جان بولٹن

    ایران کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ٹلا نہیں، جان بولٹن

    لندن : جولٹن نے ایران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے فوری حرکت میں آنے اور خطے میں اپنی فوج تعینات کرنے کے نتیجے میں ایران کی طرف سے درپیش خطرہ کم کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ٹلا نہیں، تاہم امریکا کے فوری حرکت میں آنے کے بعد ایران کو روک دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دورہ برطانیہ کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جان بولٹن نے کہا کہ امریکا کی طرف سے فوری حرکت میں آنے اور خطے میں اپنی فوج تعینات کرنے کے نتیجے میں ایران کی طرف سے درپیش خطرہ کم کر دیا۔

    جب ان سے پوچھا گیا کیا ایران کے خلاف کارروائی کے معاملے میں ان کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اختلافات ہیں تو ان کا کہنا تھاکہ صدر ٹرمپ کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ ہم ایران میں نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے، مگر ہمارے پیغام کو سمجھا جانا چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل میں وہ ایران کے دہشت گردانہ حملوں بالخصوص امارات کے سمندر میں تیل بردار جہازوں پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اور ثبوت پیش کریں گے۔

    ایک سوال کے جواب میں جان بولٹن نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ خطے کی صورت حال سے آگاہ کوئی بھی شخص یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ امارات کے قریب تیل بردار جہازوں پر حملے ایران اور اس کے ایجنٹوں نے کیے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایران اور اس کے ایجنٹ امریکی مفادات پر حملے کی حماقت کر کے بہت بڑی غلطی کریں گے۔ اگر ایران مذاکرات کا خواہاں ہے تو اسے طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا۔

  • شمالی کوریا نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کو جنگ کا سوداگر قرار دے دیا

    شمالی کوریا نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کو جنگ کا سوداگر قرار دے دیا

    پیانگ یانگ: شمالی کوریا نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو جنگ کا سودا گر قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا کہ جب امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے نئے میزائل تجربات اقوام متحدہ کے قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے ایک بار پھر میزائل کے کامیاب تجربے کی کوشش کی ہے، البتہ یہ میزائل کم فاصلے تک ہدف کا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    شمالی کوریا نے جان بولٹن پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر شمالی کوریا کے خلاف اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، قبل ازیں اشتعال انگیز اقدامات بھی اٹھائے گئے۔

    خیال رہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جاپان کے چار روزہ دورے پر ہیں۔ اس دوران وہ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کے ساتھ ملاقاتوں میں علاقائی امن اور شمالی کوریائی کی طرف سے لاحق خطرات پر بھی گفتگو کریں گے۔

    امریکا اورشمالی کوریا کے درمیان کشید گی عروج پر

    دریں اثنا حال ہی میں شمالی کوریا کے نئے میزائل تجربے پر امریکی صدر نے کہا تھا کہ تجربے سے کوئی بھی خوش نہیں، امریکا نے شمالی کوریا کا جہاز قبضے میں لے لیا۔ دوسری جانب شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان نے اپنی فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔