Tag: جان لیوا

  • طویل وقت تک بیٹھے رہنا آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے!

    طویل وقت تک بیٹھے رہنا آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے!

    اگر آپ بھی آفس یا گھر میں ایک ہی جگہ طویل وقت تک بیٹھے رہنے کے عادی ہیں تو جان لیں کہ یہ آپ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    اندرا پرستھ اپولو اسپتال کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر سدھیر کمار نے اپنی ایک پوسٹ میں انکشاف کیا ہے کہ زیادہ دیر تک ایک جگہ بیٹھنا آپ کو موٹاپے اور تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے برابر موت کے خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔

    بھارتی نیورولوجسٹ نے اس خطرے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے سے صحت کو سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    ایسی صورت میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، پیٹ کی چربی (موٹاپا)، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈز، ہارٹ اٹیک، فالج، کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق 60 سے 75 منٹ کی اعتدال پسند جسمانی سرگرمی جیسے تیز چلنا، دوڑنا یا سائیکل چلانا روزانہ طویل بیٹھنے کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔

    سدھیر کمار نے یہ بھی کہا کہ دن میں اگر 13 گھنٹے سے زیادہ بیٹھا جائے تو ورزش بھی زیادہ دیر تک بیٹھنے کے مضر اثرات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

    ماہرین نے بیٹھنے کے دورانیے کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات تجویز کیے ہیں اور ہر 30 سے 45 منٹ کے بیٹھنے کے بعد 5 منٹ کھڑے ہونے یا چہل قدمی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

    ڈاکٹر سدھیر کا کہنا تھا کہ بیٹھے کا دورانیہ کم کریں، آفس میں کھڑے ہو کر کافی یا چائے کا وقفہ لیں ہر روز 45 سے 60 منٹ کی چہل قدمی کو عادت بنائیں۔

  • جینا چاہتے ہیں تو ان غذاؤں سے دور ہوجائیں

    جینا چاہتے ہیں تو ان غذاؤں سے دور ہوجائیں

    سب ہی جانتے ہیں کہ تلے ہوئے کھانے کھانا انسانی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہے، اور اب حالیہ تحقیق نے اسے جان لیوا بھی ثابت کردیا ہے۔

    طبی جریدے جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق کے مطابق تلے ہوئے کھانے، پراسیس گوشت اور میٹھے مشروبات پر مشتمل غذا کا زیادہ استعمال اچانک حرکت قلب تھم جانے سے موت کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

    تحقیق میں 45 سال یا اس سے زائد عمر کے 21 ہزار افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا۔ ان افراد کی غذائی عادات کو 18 سال سے زیادہ دیکھا گیا اور ان کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    مثال کے طور پر سبزیاں پسند کرنے والے، میٹھے کے شوقین اور مکس غذاؤں کو خوراک کو حصہ بنانے والے وغیرہ۔

    ان میں سے ایک گروپ ایسا تھا جن کی غذا کا زیادہ تر حصہ چکنائی، تلے ہوئے کھانوں، انڈوں، پراسیس گوشت اور میٹھے مشروبات پر مشتمل تھا اور اسے سدرن کا نام دیا گیا تھا، کیونکہ امریکا کے جنوبی علاقوں میں اس طرح کا غذائی رجحان عام ہے۔

    تمام تر عناصر کو مدنظررکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ سدرن طرز کی غذا میں اچانک حرکت قلب تھم جانے یا سڈن کارڈک اریسٹ سے موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 46 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، گریوں، مچھلی اور زیتون کے تیل پر مشتمل غذا سے کارڈک اریسٹ سے موت کا خطرہ 26 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل امریکا کے وی اے بوسٹن ہیلتھ کییئر سسٹم ہاسپٹل کی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ بہت زیادہ تلی ہوئی غذاﺅں کو کھانا خون کی شریانوں کے مسائل بڑھا کر امراض قلب کا شکار بنا سکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ تلی ہوئی غذائیں جیسے فرنچ فرائز یا دیگر کو کھانا دل کی شریانوں کے مرض سی اے ڈی کا خطرہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

  • سائبرحملے جان لیوا بھی ہوسکتے ہیں

    سائبرحملے جان لیوا بھی ہوسکتے ہیں

    نیویارک: انٹرنیٹ کے ذریعے آلات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، اکثر لوگوں کے ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں، نیویگیشن سسٹم بھی اب سمارٹ فونز میں موجود ہیں، اب آفس میں موجود رہتے ہوئے گھر کے ہیٹنگ سسٹم کو کھول بھی سکتے ہیں اور بند بھی کرسکتے ہیں۔

    بوخم یونیورسٹی میں کمپیوٹر کے شعبے کے ماہر کرسٹوف پار کا کہنا ہے کہ جیسے ہی کسی آلے کا انٹرنیٹ سے رابطہ ہوتا ہے تو اسے ہیک  کیا جاسکتا ہے، ڈیجیٹل آلات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں سمارٹ ہومز ہوا کریں گے۔

    ان گھروں میں موبائل فون یا ٹیبلٹ  کے ذریعے واشنگ مشین، ٹیلی وژن، لائٹ اور چولہے کو کنٹرول کیا جائے گا اور اگر یہ آلات سائبر حملے کا نشانہ بننے لگیں تو ہیکر ایسے وقت میں چولہا کھول سکتا ہے، جب گھر میں کوئی بھی نہ ہو۔

    کرسٹوف پار کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی بہترین مثال گیرج کے دروازے کی ہے، یہ دروازے انتہائی غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اس نظام کو بہت آسانی سے ہیک کیا جاسکتا ہے، لیکن گیرج کے دروازے کے ذریعے چوریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔