Tag: جاپان

  • کرونا مریض ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں، ماہرین کی تنبیہ

    کرونا مریض ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں، ماہرین کی تنبیہ

    ٹوکیو: ماہرین نے کرونا وائرس کے مریضوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے کرونا وائرس کے ماہرین نے ہیپی ہائپوکسیا (happy hypoxia) سے خبردار رہنے کی تلقین کی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر پر صحت یابی کے عمل سے گزرنے والے کرونا وائرس کے مریضوں کو خون میں آکسیجن کی سطح کی باقاعدگی سے پیمائش کرنی چاہیے، کیوں کہ ایسا ممکن ہے کہ انھیں پتا چلے بغیر ان کی حالت بگڑ جائے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نمونیا میں مبتلا ہونے والے درمیانے درجے کے بعض بیمار افراد میں آکسیجن کی کم سطح کے باوجود طبیعت کی خرابی کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اس قسم کی کیفیت کو ہیپی ہائپوکسیا کہا جاتا ہے جس میں مریض بظاہر ٹھیک ٹھاک اور خوش دکھائی دیتا ہے۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ جاپان میں اسپتالوں پر غیر معمولی دباؤ کا سبب بن رہا ہے، یہ دباؤ خاص طور پر ٹوکیو و ملحقہ علاقوں، اور جنوبی علاقے اوکیناوا میں زیادہ ہے، اس صورت حال میں بہت سے متاثرہ افراد کے پاس گھر پر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

    ماہرین ایسے افراد کو خون میں آکسیجن کی سطح کی بار بار پیمائش کے لیے پلس آکسی میٹر نامی آلے کے استعمال، اور کسی بھی خلاف معمول صورت میں طبی امداد طلب کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

    حکومتِ جاپان کے کرونا وائرس مشاورتی پینل کے رکن اور توہو یونیورسٹی کے پروفیسر تاتیدا کازُوہیرو کا کہنا ہے کہ ایسے مریض اچانک بے ہوش ہو سکتے ہیں یا ان کی حالت سنگین ہو سکتی ہے، ایسے افراد کو اگر دھندلا نظر آئے یا ان کے ہونٹوں اور ناخنوں کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہو تو انھیں مقامی سرکاری طبی مرکز یا کسی اسپتال سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

  • جاپان: سمندر میں ہلال کی شکل کا جزیرہ نمودار (ویڈیو)

    جاپان: سمندر میں ہلال کی شکل کا جزیرہ نمودار (ویڈیو)

    ٹوکیو: جاپان میں زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے سمندر میں ایک نیا جزیرہ نمودار ہو گیا ہے جو ہلال کی مانند ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے جنوب میں زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے ٹوکیو سے 12 سو کلومیٹر دور سمندر میں ایک مکمل طور پر نیا ہلال نما جزیرہ بن گیا ہے۔

    یہ نیا جزیرہ ہلال کی مانند ہے، جسے نجیما (Niijima) کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب بھی نیا جزیرہ ہے، یہ قطر میں 0.6 میل ہے، اور سلفر آئی لینڈ سے محض 5 کلومیٹر دوری پر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جزیرے کی تشکیل فوکوٹوکو اوکانوبا (Fukutoku-Okanoba) آتش فشاں پھٹنے سے ہوئی ہے، یہ ایک زیر آب آتش فشاں ہے جو پہلی بار 1904 میں دریافت کیا گیا تھا۔

    دس برس بعد یہ آتش فشاں ایک بار پھر 12 اگست کو پھوٹنا شروع ہوا تھا، اور ابھی چند دن قبل اسے جاپان کوسٹ گارڈ نے دریافت کیا۔

    اگرچہ اس جزیرے کی خبریں بہت زور و شور سے پھیل رہی ہیں، تاہم جاپان کی موسمیاتی ایجنسی نے کہا ہے کہ یہ جزیرہ عارضی بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ فوکوٹوکو اوکانوبا آتش فشاں میں پھٹنے کا عمل ابھی بھی جاری ہے۔

    جاپان کوسٹ گارڈ نے آتش فشانی سرگرمی کی وجہ سے تمام بحری جہازوں کو تنبیہ جاری کی ہے کہ اس علاقے سے دور رہیں، کیوں کہ لاوے سے کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نئے جزیرے میں لاوے کے بہاؤ سے پائیدار کوٹنگ ہو سکتی ہے، اور اگر آتش فشانی سرگرمی جاری رہی تو یہ بھی طویل عرصے تک موجود رہے گا۔

  • جاپان میں‌ نئے مریض کرونا کی کون سی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں؟

    جاپان میں‌ نئے مریض کرونا کی کون سی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں؟

    ٹوکیو: کرونا کی بھارتی قسم نے جاپان میں صورت حال خراب کر دی، ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاپان میں بیش تر نئے متاثرہ لوگ کرونا وائرس کی بھارتی قِسم ڈیلٹا سے متاثر ہوئے ہیں۔

    سروے رپورٹ کے مطابق اب جاپان میں انفیکشن کا شکار ہونے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کرونا وائرس کی انتہائی وبائی قِسم یعنی ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہو رہی ہے، ٹوکیو کے علاقے میں ڈیلٹا کے متاثرین کی شرح 98 فی صد تک پہنچی ہے۔

    قومی انسٹیٹیوٹ برائے وبائی امراض نے کرونا وائرس ٹیسٹنگ کرنے والی نجی شعبے کی 7 کمپنیوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تھا، اس ڈیٹا میں یہ دیکھا گیا کہ مصدقہ کیسز میں L452R والی متغیر وائرسز کی شرح کتنی ہے۔

    مذکورہ انسٹیٹیوٹ نے اپنی رپورٹ وزارتِ صحت کے ماہرین کے پینل کو بدھ کے روز پیش کر دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تبدیلی کے حامل وائرسز سے متاثرہ افراد کی شرح جو ٹوکیو میں 98 فی صد ہو چکی ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ ڈیلٹا متغیر قسم کا ہے۔

    ٹوکیو اور ملحقہ علاقوں کاناگاوا، سائیتاما اور چیبا میں متاثرین کا مجموعی تناسب بھی 98 فی صد تھا۔

    مغربی جاپان کے علاقوں اوساکا، کیوتو اور ہیوگو میں L452R منتقلی کے حامل وائرسز کی شرح تیزی سے بڑھ کر 92 فی صد ہو گئی ہے، یہ جولائی کے اوائل تک کم سطح پر تھی۔

    قومی انسٹیٹیوٹ نے یہ تخمینہ بھی لگایا ہے کہ ایسے وائرسز سے متاثرہ افراد کی مجموعی شرح اوکیناوا میں 99 فی صد، فُوکُواوکا میں 97 فی صد، آئیچی میں 94 فی صد اور ہوکائیدو میں 85 فی صد ہو چکی ہے۔

    مبصرین نے نشان دہی کی ہے کہ متغیر قِسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے باعث انفیکشن اور اسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے، جس کے سبب ٹوکیو اور دیگر علاقوں میں طبی نظام کی صورت حال تشویش ناک ہو رہی ہے۔

  • جاپان: کرونا مریضوں کے اینٹی باڈی کاکٹیل سے علاج میں پیش رفت

    جاپان: کرونا مریضوں کے اینٹی باڈی کاکٹیل سے علاج میں پیش رفت

    ٹوکیو: جاپان میں کرونا مریضوں کے اینٹی باڈی کاکٹیل سے علاج میں پیش رفت ہو ئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کی وزارت صحت کووِڈ 19 کے ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کرنے جا رہی ہے، جن کا علاج حال ہی میں منظور شدہ 2 ادویات ایک ہی وقت میں استعمال کر کے کیا جا رہا ہے۔

    وزارت کے مطابق یہ مرکب مختصر مدت کے لیے اسپتال میں داخل رہنے کے دوران دیا جائے گا، اینٹی باڈی کاکٹیل ٹریٹمنٹ کہلانے والے اس علاج میں مریضوں کو ڈِرپ کے ذریعے نس میں دو ادویات دی جاتی ہیں تاکہ وائرس کی سرگرمی کو دبایا جا سکے۔

    واضح رہے کہ اس کاکٹیل کے اثر کو جاننے کے لیے بیرونِ ملک انجام دیے گئے ایک طبی تجربے میں تصدیق ہوئی تھی کہ اس تھراپی سے اسپتال میں داخل ہونے کی شرح یا موت کا خطرہ 70 فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔

    جاپان: کرونا مریضوں کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل

    وزارت صحت جاپان کا کہنا ہے کہ فی الوقت مذکورہ ادویات کی دستیابی محدود ہے، اس لیے یہ طریقہ معمر مریضوں اور صحت کے شدید مسائل میں مبتلا لوگوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اور ان کے لیے جو اسپتال میں داخل ہیں۔

    لیکن ملک میں کرونا کیسز اور گھروں میں قرنطینہ ہونے والے افراد میں اضافے کے سبب اب اس کے استعمال کا دائرہ پھیلانے پر بھی زور دیا جانے لگا ہے۔

    اسپتالوں میں مختصر مدت کے لیے داخل ہونے والے مریضوں کا علاج اس اینٹی باڈی کاکٹیل سے کرنے کے لیے وزارت صحت مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر انتظامات کرے گی۔

  • جاپان: 120 اسپتالوں نے کرونا مریض کو داخل کرنے سے معذرت کر لی

    جاپان: 120 اسپتالوں نے کرونا مریض کو داخل کرنے سے معذرت کر لی

    ٹوکیو: جاپان میں ایک کرونا مریض کو 120 اسپتالوں نے داخل کرنے سے معذرت کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں کرونا وائرس کے شدید انفیکشن میں مبتلا ایک مریض کو خالی بستر نہ ہونے کے باعث ایک سو بیس اسپتالوں نے داخل کرنے سے انکار کر دیا۔

    جاپان کے سرکاری نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ٹوکیو میٹروپولیٹن میں مقیم ایک 50 سالہ شخص رواں ماہ کے اوائل میں کرونا کا شکار ہوا تھا، جس کا گھر ہی میں علاج جاری تھا، لیکن پھر مریض کی حالت بگڑ گئی اور انھیں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا ہونے لگا۔

    رپورٹ کے مطابق مریض کو اسپتال داخل کرنے کے لیے ہیلتھ کیئر عملے نے 5 گھنٹوں تک اپنی جانب سے سرتوڑ کوشش کی، تاہم کسی بھی اسپتال میں خالی بستر میسر نہیں تھا۔

    آخرکار مریض کو ٹوکیو میں نپون میڈیکل کالج کے اسپتال میں علاج کے لیے ایڈمٹ کر دیا گیا، رپورٹ کے مطابق جاپان میں کرونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شعبۂ صحت کو خدشات سے دو چار کر رہی ہے۔

  • جاپان کے حراستی مرکز میں سری لنکن خاتون کی موت، وجہ سامنے آ گئی

    جاپان کے حراستی مرکز میں سری لنکن خاتون کی موت، وجہ سامنے آ گئی

    ٹوکیو: مارچ میں جاپان کے ایک حراستی مرکز میں سری لنکن خاتون کی موت واقع ہو گئی تھی، حکام نے تحقیقات میں وجہ جاننے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے امیگریشن حکام نے مارچ میں سری لنکا کی ایک خاتون کی حراستی مرکز میں موت واقع ہونے پر علاقائی بیورو کے چار اہل کاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے۔

    امیگریشن سروسز ایجنسی نے وسطی جاپان میں واقع ناگویا کے ایک حراستی مرکز میں وشما سندامالی کے کیس میں اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق چھان بین کی حتمی رپورٹ منگل کے روز جاری کر دی۔

    33 سالہ خاتون کو ویزے کی میعاد گزرنے کے باوجود جاپان میں قیام کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا، انھوں نے حراستی مرکز میں جنوری میں طبیعت خراب ہونے کی شکایت کرنا شروع کی تھی اور دو ماہ بعد مرکز ہی میں انتقال کر گئیں۔

    رپورٹ کے مطابق مذکورہ خاتون نے ڈاکٹر سے معائنہ کرائے جانے اور کسی کلینک میں ڈرپ لگائے جانے کی استدعا کی تھی، لیکن مرکز کے عملے نے علاقائی بیورو کے ڈائریکٹر سے مشورہ کیے بغیر خاتون کی درخواست رد کر دی تھی۔

    چھان بین میں کسی بھی کُل وقتی ڈاکٹر یا نرس کی عدم موجودگی سے مرکز میں طبی دیکھ بھال کے لیے مناسب نظام کے فقدان کا بھی پتا چلا ہے، جب کہ موت سے قبل وشما کی طبیعت مزید بگڑنے پر مرکز کے غیر طبی عملے نے ضروری اقدامات کیے تھے، رپورٹ کے مطابق بگڑتی ہوئی صحت کے تناظر میں مرکز سے عارضی طور پر جانے کی اجازت دینے کے لیے وشما کی درخواست کو اہل کار بروقت منظور کرنے میں ناکام رہے۔

    ایجنسی نے بیورو کے ڈائریکٹر اور ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کی سرزنش کی ہے اور دو دیگر سینئر عہدے داروں کو بھی سخت تنبیہ کی گئی ہے، رپورٹ میں اس طرز عمل کو بیورو کے محکمانہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

  • جاپان: انسانوں پر کرونا کی دوا کے تجربات شروع

    جاپان: انسانوں پر کرونا کی دوا کے تجربات شروع

    ٹوکیو: جاپان میں انسانوں پر کرونا وائرس کے خلاف دوا کے تجربات شروع کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے کووِڈ 19 کی دوا کے انسانوں پر تجربات کا آغاز ہو گیا ہے، فارماسیوٹیکل کمپنی شی اونوگی نے اس سلسلے میں تجربات کے پہلے مرحلے کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔

    کمپنی کی جانب سے ایک اینٹی وائرل دوا پر تجربات ہو رہے ہیں، کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ اینٹی وائرل دوا مریض منہ کے ذریعے لیں گے،دوا کے تجربات جمعرات کے روز 75 مردوں پر شروع کیے گئے ہیں، جن کی عمریں 20 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔

    کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تجربات کے ذریعے صحت مند بالغ افراد کے لیے دوا کے محفوظ ہونے کی تصدیق کی جائے گی۔

    شی اونوگی کے مطابق انفیکشن کے ابتدائی مراحل میں استعمال کرنے کی صورت میں یہ دوا وائرس کو دگنا ہونے اور بیماری کی علامات کو شدت اختیار کرنے سے روک سکتی ہے۔ یہ دوا دن میں ایک بار دی جائے گی، اور یہ ایک ہفتے سے کم وقت میں کرونا وائرس کو جسم کے اندر کے بے اثر کر دے گی۔

    واضح رہے کہ امریکا کی بڑی ادویات ساز کمپنی مرک، کووِڈ 19 کے مریضوں کے لیے منہ سے لی جانے والی ایک اور دوا کے انسانوں پر تجربات کے حتمی مرحلے میں ہے۔

  • جاپان: کرونا ویکسین پاسپورٹ کے لیے درخواستوں کی وصولی شروع

    جاپان: کرونا ویکسین پاسپورٹ کے لیے درخواستوں کی وصولی شروع

    ٹوکیو: جاپان نے ویکسین پاسپورٹ کے لیے درخواستیں وصول کرنا شروع کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان نے کرونا وائرس کے خلاف مکمل ویکسینیشن کرانے والے افراد کے ویکسین پاسپورٹ کے لیے درخواستیں قبول کرنا شروع کر دی ہیں، تاکہ وہ بین الاقوامی سفر کر سکیں۔

    جاپان کے حکام کا کہنا ہے اٹلی، آسٹریا، ترکی، بلغاریہ، اور پولینڈ نے جاپانی سرٹیفکیٹس رکھنے والے افراد کے لیے کرونا وائرس کے قرنطینہ قواعد میں نرمی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    حکام کے مطابق جنوبی کوریا جاپانی سرٹیفکیٹ کو مطلوبہ دستاویزات میں سے ایک کے طور پر قبول کرے گا، اور اس کے حامل افراد کو قرنطینہ کی شرط سے استثنیٰ دیا جائے گا۔

    حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ جاپانی حکومت اس وقت اپنے ویکسین پاسپورٹ کے استعمال کے سلسلے میں دیگر ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے، حکام کے مطابق ویکسین سرٹیفکیٹ بلدیاتی اداروں کی جانب سے مفت جاری کردہ سرکاری دستاویز ہوگی، جس میں لگنے والی ویکسین، ویکسینیشن کی تاریخ اور نام و پاسپورٹ نمبر جیسی ذاتی معلومات درج ہوں گی۔

    حکام کی جانب سے طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے، جس کے مطابق ایک کامیاب درخواست کے لیے ذاتی طور پر یا بذریعہ میل کچھ دستاویزات جمع کرانے کی ضرورت ہوگی، جن میں درخواست فارم، پاسپورٹ اور ویکسینیشن ٹکٹس شامل ہیں۔

  • جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    ٹوکیو: جاپان میں امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال کیے جانے کے تجربات شروع کیے جا رہے ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جاپان بجلی کی پیداوار کے لیے امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال شروع کر رہا ہے، اس سے بجلی کی پیداوار کے عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روکا جا سکے گا۔

    خیال رہے کہ امونیا گیس جلنے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج نہیں کرتی، امونیا کو جلانے پر زہریلی گیس نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، تاہم یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ جلنے کے عمل میں ہوا کی مناسب مقدار کے ذریعے اس کے اخراج میں کمی کی جائے گی۔

    اس تجربے کا آغاز حرارت سے بجلی پیدا کرنے والی جاپانی کمپنی جیرا کر رہی ہے، اگست سے وسطی جاپان کے اپنے بجلی گھر میں کوئلے اور امونیا کے آمیزے کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے گی، اس تجربے کے تحت کوئلے میں امونیا کی معمولی مقدار ملائی جائے گی، اور اسے بتدریج بڑھا کر مالی سال 2024 میں 20 فی صد تک لے جایا جائے گا، یہ منصوبہ بھاری مشینری بنانے والی کمپنی آئی ایچ آئی کے تعاون سے انجام دیا جا رہا ہے۔

    دوسری طرف گاڑیاں بنانے والی جاپان کی کمپنی مِتسُوبِشی ہیوی انڈسٹریز ایک ایسی گیس ٹربائن تیار کر رہی ہے جو سو فی صد امونیا پر چلے گی، متسوبِشی کا ہدف ہے کہ اسے 2025 تک تجارتی بنیادوں پر بجلی گھروں کے استعمال میں لایا جائے۔

    ان تجربات کا مقصد موجودہ بجلی گھروں کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاتمہ ہے، کیوں کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر دنیا بھر میں تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

  • جاپانی انجینئرز کا کارنامہ، تیز رفتار انٹرنیٹ کا نیا عالمی ریکارڈ

    جاپانی انجینئرز کا کارنامہ، تیز رفتار انٹرنیٹ کا نیا عالمی ریکارڈ

    ٹوکیو: جاپانی انجینئرز نے ناقابل یقین تیز رفتار انٹرنیٹ کا نیا عالمی ریکارڈ بنا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی انجینئرز نے آپٹیکل فائبرز کے ذریعے فی سیکنڈ کی ناقابلِ یقین رفتار سے 319 ٹیرابائٹس ڈیٹا منتقل کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔

    انجینئرز نے تجربے کے دوران صرف ایک سیکنڈ میں تقریباً 817 بلیو رے ڈسک جتنا ڈیجیٹل ڈیٹا منتقل کیا، یہ کارنامہ جاپان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی (این آئی سی ٹی) کے انجینئرز نے ڈاکٹر بنجمن پٹمین کی قیادت میں یہ انجام دیا۔

    آپٹیکل فائبرز سے تیز رفتار ترین ڈیٹا منتقلی کا سابقہ عالمی ریکارڈ 178 ٹیرابائٹس فی سیکنڈ کا تھا، جو پچھلے برس یونیورسٹی کالج لندن کے انجینئرز نے بنایا تھا، نیا ریکارڈ گزشتہ ریکارڈ سے بھی تقریباً 80 فی صد زیادہ ہے۔

    واضح رہے کہ ڈیٹا ٹرانسفر کی یہ ٹیکنالوجی ’ویو لینتھ ڈویژن ملٹی پلیکسنگ‘ (WDM) کہلاتی ہے جس میں ایک لیزر شعاع کو 552 الگ الگ چینلوں میں توڑ کر 4 آپٹیکل فائبرز میں بھیج دیا جاتا ہے، جو ایک ہی کیبل میں موجود ہوتی ہیں۔

    اس انتظام کے تحت ڈیٹا منتقلی کی اوسط رفتار 580 گیگا بائٹس فی سیکنڈ رہی جب کہ زیادہ سے زیادہ رفتار 319 ٹیرا بائٹس فی سیکنڈ ریکارڈ کی گئی۔

    ہر 70 کلومیٹر کے بعد ایمپلی فائر لگائے جاتے ہیں، جو آپٹیکل فائبرز سے آنے والے سگنلز کو نئے سرے سے طاقت ور بنا کر مزید آگے بھیج دیتے ہیں، اس طرح ڈیجیٹل ڈیٹا درست طور پر اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔