Tag: جاپان

  • جاپان: موڈرنا ویکسین سے متعلق اہم فیصلہ

    جاپان: موڈرنا ویکسین سے متعلق اہم فیصلہ

    ٹوکیو: جاپان نے موڈرنا ویکسین کے لیے عمر کی حد کم کر کے 12 سال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کی وزارت صحت موڈرنا کرونا وائرس ویکسین کے لیے عمر کی حد کم کر کے 12 سال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اس وقت جاپان میں امریکی ادویہ ساز ادارے کی یہ ویکسین 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو لگائی جا رہی ہے۔

    مئی میں موڈرنا ویکسین کی جب منظوری دی گئی تھی تو اس وقت اس کے مؤثر اور محفوظ ہونے سے متعلق ڈیٹا کم دستیاب تھا، اب کمپنی نے کہا ہے کہ اس نے امریکا میں 12 سے 17 سال کی عمر کے تقریباً 3 ہزار 700 افراد پر کی گئی طبی آزمائش میں اِس ویکسین کے مؤثر اور محفوظ ہونے کی تصدیق کر لی ہے۔

    موڈرنا کی جانب سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے ذریعے جاپانی وزارت صحت کو ویکسین کے مؤثر و محفوظ ہونے کے سلسلے میں اضافی ڈیٹا بھی جمع کروا دیا گیا ہے، جو جاپان میں اس ویکسین کی تقسیم اور دیگر اُمور انجام دیتی ہے۔

    وزارت صحت جاپان کی جانب سے موڈرنا کے لیے عمر کی حد کم کرنے کے سلسلے میں جانچ پڑتال مکمل کی جا چکی ہے، پیر کو ماہرین کا ایک اجلاس بھی بلایا گیا ہے، جس میں عمر کی حد کم کرنے کے حوالے سے باقاعدہ فیصلہ کیا جائے گا۔

  • جاپان: تجرباتی کرونا ویکسین کی کارکردگی بڑے پیمانے پر جانچنے کی تیاری

    جاپان: تجرباتی کرونا ویکسین کی کارکردگی بڑے پیمانے پر جانچنے کی تیاری

    ٹوکیو: جاپانی دوا ساز کمپنی نے اپنی تجرباتی کووِڈ 19 ویکسین کی کارکردگی بڑے پیمانے پر جانچنے کی تیاری کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی دوا ساز کمپنی دائی اِچی سانکیو اپنی تجرباتی کرونا وائرس ایم آر این اے (mRNA) ویکسین کی رواں سال بڑے پیمانے پر طبی آزمائش شروع کرنے کے لیے تیاری کر رہی ہے۔

    کمپنی میں ویکسین کی تیاری کے نگران یابُوتا ماسایُوکی نے این ایچ کے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ دائی اِچی سانکیو اپنی طبی آزمائش کا حتمی مرحلہ شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں کمپنی ہزاروں افراد کو ویکسین لگائے گی۔

    انھوں نے کہا کہ کمپنی (Daiichi Sankyo) اس آزمائش کے نتائج کی بنیاد پر سرکاری منظوری حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    ویکسین کی منظوری ملنے کے بعد یہ کمپنی ٹوکیو کے شمال میں واقع سائیتاما پریفیکچر میں واقع کارخانے میں بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری شروع کرے گی، اور امکان ہے کہ اپریل 2022 سے شروع ہونے والے مالی سال سے اس کے استعمال کا آغاز ہوگا۔

    کمپنی کے نگران کا کہنا تھا کہ وہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے دیگر ویکسینز اور جین تھراپی و سرطان کے علاج کو بھی بہتر بنانا چاہتے ہیں، جس سے دوا سازی میں تیز ترقی ممکن ہو سکے گی۔

  • جاپان میں کرونا کے مؤثر علاج پر مبنی دوا کے ہنگامی استعمال کی درخواست

    جاپان میں کرونا کے مؤثر علاج پر مبنی دوا کے ہنگامی استعمال کی درخواست

    ٹوکیو: جاپان کی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنی چوگائی نے حکومت سے کرونا وائرس انفیکشن کے علاج کے لیے ایک اینٹی باڈی کاکٹیل کے ہنگامی استعمال کی منظوری مانگ لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کی کمپنی چُوگائی (Chugai Pharmaceutical) کو وِڈ 19 کے علاج کے لیے ایک اینٹی باڈی کاکٹیل کے ہنگامی استعمال کی منظوری کی خواہاں ہے، اس سلسلے میں کمپنی نے جاپانی وزارت صحت سے درخواست کی ہے کہ اس کی اینٹی باڈی کاکٹیل کو کرونا انفیکشن کے علاج کے لیے ہنگامی استعمال کی اجازت دی جائے۔

    کمپنی کے مطابق کرونا وائرس کو بے اثر کرنے والی یہ دوا اینٹی باڈیز casirivimab اور imdevimab کو ملا کر تیار کی گئی ہے، نیز یہ کاکٹیل سمندر پار طبی آزمائش میں مریض کو اسپتال میں داخل کرانے کی ضرورت اور اموات کو تقریباً 70 فی صد کم کرنے میں کامیاب پائی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ یہ کاکٹیل تجرباتی ادویات پر مبنی ہے، اسے گزشتہ نومبر میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی، چُوگائی نے منگل کے روز جاپان میں اس کی منظوری کے لیے درخواست دی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوا کرونا وائرس کی متغیر اشکال کے خلاف بھی مؤثر ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ منظوری ملنے کی صورت میں حکومت رواں سال کے لیے ملکی ضروریات کے لیے کافی مقدار میں اس کے حصول کا ارادہ رکھتی ہے۔

    کمپنی کے صدر اور سی ای او، اوکُودا اوسامُو نے کہا ہے کہ علاج معالجے کی نئی صورتیں درکار ہیں کیوں کہ وائرس کی متغیر اشکال پھیل رہی ہیں اور عالمی وبا طول پکڑ چکی ہے۔

    انھوں نے کہا کمپنی جاپانی صحت حکام سے قریبی اشتراک کرے گی، تاکہ یہ اینٹی باڈی کاکٹیل، مریضوں کے علاج کے ایک نئے طریقے کے طور پر جلد سے جلد مہیا کی جا سکے۔

  • بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد لا پتا ہو گئے

    بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد لا پتا ہو گئے

    ٹوکیو: جاپان میں 2020 میں خطرناک دماغی مرض ڈیمنشیا میں مبتلا افراد میں سے 17 ہزار 565 لا پتا ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس جاپان بھر میں ڈیمنشیا میں مبتلا افراد میں سے ساڑھے 17 ہزار کے لا پتا ہونے کی رپورٹ درج کروائی گئی، جو اب تک کی ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

    قومی پولیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ایک سال قبل کے مقابلے میں 86 زائد ہے، اور 2012 کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ان لا پتا افراد میں سے 527 ہلاک ہو گئے، بعض ٹریفک حادثات کا نشانہ بنے، جب کہ گزشتہ برس لا پتا ہونے والوں میں 214 افراد بازیاب نہیں ہو سکے۔

    محکمے کا کہنا تھا کہ پولیس لا پتا افراد کی فوری بازیابی کے اقدامات کے لیے مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں ایک جی پی ایس ٹریکر ایپ کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے، مریضوں کے پڑوسیوں کو ای میل کرنے کی ایک سروس بھی تشکیل دے جا رہی ہے۔

    الزائمر کے علاج کیلئے نئی دوا کی منظوری

    یاد رہے کہ رواں ماہ ہی بھولنے کی بیماری’الزائمر‘ میں مبتلا افراد کے لیے امریکی ادارے ایف ڈی اے نے ایک دوا کی منظوری دی ہے، دوا ’آڈُوکانُوماب‘ اٹھارہ برسوں کے دوران اس بیماری کے خلاف پہلی نئی دوا کے طور پر سامنے آئی، یہ دوا امریکی کمپنی بائیو جِن اور جاپانی کمپنی ایئی سائی نے تیار کی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی دوا ہے جو ڈیمنشیا کی محض علامات کا علاج کرنے کی بجائے بیماری کا مقابلہ کرتی ہے۔

  • آئس کریم کا دارالحکومت اور سویا چٹنی ذائقے والی منفرد آئس کریم

    آئس کریم کا دارالحکومت اور سویا چٹنی ذائقے والی منفرد آئس کریم

    ٹوکیو: آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جاپان کے ایک قدیم قصبے کانازاوا کو آئس کریم کا دارالحکومت کہا جاتا ہے، یہاں نہایت منفرد ذائقوں والی آئس کریم ملتی ہے جو دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔

    دراصل جاپانی گرمیوں میں آئس کریم کھانے کے جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جاپان میں پائے جانے والے آئس کریم کے متعدد ذائقے تو ایسے ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتے، جب سے غیر ملکی تاجروں نے اس ملک میں آئس کریم متعارف کرائی ہے تب سے اس کی مقبولیت اور پسندیدگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

    جاپان میں آئس کریم 1878 میں سب سے پہلے ساحلی شہر یوکوہاما میں متعارف کرائی گئی، جس کے بعد جاپانیوں کو اس کا ذائقہ ایسا لگ گیا ہے کہ انھوں نے اپنے مقامی ذائقے بنا لیے، آئس کریم بنانے والی کمپنیوں نے تاریخی قصبے کانازاوا میں ڈیرے ڈالے تو نت نئے ذائقے سامنے آ گئے، انھی میں سے ایک سویا چٹنی ذائقے والی آئس کریم بھی شامل ہے، اس قصبے میں آئس کریم کا ایسا شوق پایا جاتا ہے کہ اسے آئس کریم کا دارالحکومت کہا جانے لگا۔

    کمپنی یاماٹو سویا ساس اینڈ میسو کے ترجمان نے بتایا کہ آج سے پندرہ برس قبل ایک بہت مختلف ذائقہ متعارف کرانے کے بارے میں سوچا گیا، چوں کہ جاپانی خمیری خوراک اور روایتی اجزا کو بہت پسند کرتے ہیں اس لیے سویا چٹنی اور میسو کو آئس کریم میں استعمال کرنے کا سوچا گیا۔

    یوں اس منفرد ذائقے والی ونیلا آئس کریم کے اجزا میں سویا چٹنی اور میسو کو بھی شامل کیا گیا، جسے پہلی بار جب لوگوں نے چھکا تو وہ ششدر رہ گئے، کیوں کہ اس کا ذائقہ بہت ہی مختلف تھا۔

    کانازاوا شہر کی دو چیزیں بہت مشہور ہیں، ایک پرانے قلعے اور دوسری آئس کریم، یہاں ملنے والی ایک آئس کریم گولڈ لیف میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے، یہ گولڈ لیف دراصل سبز چائے کے پودے کا روسٹ کیا ہوا پتہ ہوتا ہے، ایک آئس کریم کو چاول کی شراب میں ڈبویا جاتا ہے، چیری پھول کی لذت والی آئس کریم بھی یہاں ملتی ہے، اور ایک آئس کریم بھنے ہوئے میٹھے آلو پر بھی مشتمل ہے۔

  • یہاں موٹے افراد کرائے پر ملتے ہیں، جاپان میں منفرد سروس شروع

    یہاں موٹے افراد کرائے پر ملتے ہیں، جاپان میں منفرد سروس شروع

    ٹوکیو: جاپان میں ایک نہایت منفرد سروس شروع کی گئی ہے، ضرورت مند لوگ اب موٹے افراد کو کرائے پر حاصل کر سکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی جاپانی سروس لوگوں کی توجہ حاصل کر رہی ہے، جس میں انفرادی طور پر بھی اور کمپنیاں بھی موٹے لوگوں کو 2 ہزار ین (18 ڈالر) فی گھنٹہ کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں۔

    جاپان میں مختلف کاموں اور مقاصد کے لیے لوگوں کو کرائے پر لینا کوئی نہیں بات نہیں رہی ہے، لوگ اپنے بے وفا پارٹنر کے عاشق سے دوستی بنانے کے لیے ایسے افراد کو کرائے پر حاصل کرتے ہیں جو اس عاشق کو سمجھا کر راستے سے ہٹنے پر راضی کرتے ہیں۔

    جاپان میں درمیانی عمر کے لوگوں کی تنہائی دور کرنے کے لیے بھی ایسے افراد کو کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے، اور رواں ماہ سے موٹے لوگوں کے بھی کرائے پر دستیاب ہونے کی سروس شروع ہو گئی ہے۔

    اس سروس کو Debucari (ڈیبوکاری) کا نام دیا گیا ہے، جس میں کوئی بھی شخص آن لائن کسی موٹے آدمی کو فی گھنٹے کے حساب سے کرائے پر لے سکتا ہے، اس سروس کو مسٹر بلس نامی شخص چلا رہا ہے، جس نے اس سے قبل بھاری جسم والے لوگوں کا فیش برانڈ Qzilla بھی شروع کیا تھا۔

    کمپنی کی ویب سائٹ پر اس سے متعلق کہا گیا ہے کہ مسٹر بلس جب کپڑوں کے برانڈ کے لیے موٹے لوگوں کی تلاش میں تھے تو تب انھیں یہ آئیڈیا آیا، مسٹر نے 2017 میں موٹے لوگوں کے لیے ایک ٹیلنٹ ایجنسی بھی کھولی تھی۔

    جاپان میں 100 کلو گرام والے موٹے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں، اس لیے اگر ایسے افراد کسی آن لائن سروس کے تحت ملتے ہیں تو یقیناً یہ ایک اچھا کاروبار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس منفرد آن لائن سروس کا حصہ بننے کے لیے جاپانی شہری ہونے کے ساتھ کم از کم سو کلوگرام وزنی ہونا بھی شرط ہے۔

  • جاپان، 12 سالہ بچوں کو کون سی ویکسین دی جائے گی؟

    جاپان، 12 سالہ بچوں کو کون سی ویکسین دی جائے گی؟

    ٹوکیو: جاپان نے 12 سال کی عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کی وزارت صحت نے کرونا کے ٹیکوں کی مہم میں بارہ سے پندرہ سالہ بچوں کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان بچوں کو امریکی کمپنی فائزر کی تیار کردہ کرونا ویکسین لگائی جائے گی۔

    خیال رہے کہ فائزر اور اس کی جرمن شراکت دار بائیو این ٹیک کی تیار کردہ یہ کرونا ویکسین اُن ویکسینز میں سے ایک ہے جو جاپان میں وزارت صحت کے ٹیکے لگانے کے منصوبے میں استعمال کی جا رہی ہیں۔

    امریکا میں فائزر کی کرونا ویکسین کی بارہ سے پندرہ برس عمر کے بچوں میں طبی آزمائش کی جا چکی ہے، جس میں اس ویکسین کے مؤثر اور محفوظ ہونے کی تصدیق ہوئی، جاپان کی وزارت صحت کو اس کا ڈیٹا موصول ہونے کے بعد کم عمر کے بچوں کو بھی ویکسینیشن کے منصوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    مؤثر ہونے کی تصدیق کے بعد جاپان نے مزید کن 2 ویکسینز کی منظوری دے دی؟

    جاپانی حکومت کے مشاورتی پینل نے اس منصوبے کی پیر کے روز منظوری دے دی ہے، تاہم 12 سے 15 سال کی عمر کے نو عمر بچوں کو ویکسین کا ٹیکہ لگانے کے لیے والدین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    یاد رہے کہ دس دن قبل جاپان کی وزارت صحت نے کرونا وائرس کی مزید 2 ویکسینز کی باضابطہ منظوری دی تھی، ان میں ایک امریکی ویکسین موڈرنا اور دوسری آکسفورڈ کی آسٹرا زینیکا کی تھی۔

  • جاپان: دو خربوزے لاکھوں ین میں فروخت (ویڈیو دیکھیں)

    جاپان: دو خربوزے لاکھوں ین میں فروخت (ویڈیو دیکھیں)

    ٹوکیو: جاپان میں دو خربوزے ملکی کرنسی میں 27 لاکھ ین (20 ہزار 260 یورو) میں فروخت ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی جاپانی قصبے یوباری میں دو عدد خربوزوں کی قیمت ستائیس لاکھ ین ادا کی گئی، یہ قیمت ایک ہول سیل مارکیٹ میں پھلوں کی نیلامی کے دوران ادا کی گئی۔

    جاپان کے قصبے ہوباری کے خربوزے ایک مقامی کمپنی ہوکائیڈو پراڈکٹس فروخت کرتی ہے، خربوزوں کی نیلامی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمپنی کے صدر نے کہا یہ بولی قصبے میں ابتدائی پکنے والے خربوزوں کے لیے ہوتی ہے، خربوزے جلد ہی فریزر میں رکھ دیے جائیں گے اور زیادہ بولی لگانے والے دس افراد میں ان کو برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ جاپان کے لوگ ہوباری کے خربوزوں کے پکنے کا شدت سے انتطار کرتے ہیں، بازار میں آتے ہی یہ خربوزے فوری طور پر بِک جاتے ہیں، ان خربوزوں کو ’یوباری کنگ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    ان خربوزوں کو ایک محفوظ گرین ہاؤس میں اگایا جاتا ہے، عمومی طور پر ایک ڈبے میں چھ خربوزے رکھے جاتے ہیں، 2019 میں بھی مارکیٹ کیے جانے والے یوباری کنگ خربوزوں کی ابتدائی جوڑی کی قیمت 37 ہزار پانچ سو ستائیس یورو لگی تھی۔

    خیال رہے کہ جاپانی معاشرت میں یوباری کنگ خربوزوں کو ایک قیمتی تحفہ سمجھا جاتا ہے، دوست احباب اور رشتہ داروں کو بہ طور تحفہ دیا جاتا ہے۔

    ٹوکیو یونی ورسٹی کے پروفیسر کیون شارٹ کے مطابق جاپانی معاشرے میں پھل تحفے میں دینے کو بہت زیادہ وقعت حاصل ہے، اس کو عزت کے ساتھ ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک عمل خیال کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جاپان کے سبھی علاقے کسی نہ کسی پھل کی وجہ سے مشہور ہیں اور لوگ ان کی بھاری قیمت ادا کرنے میں پچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

    جاپان کے اکثر مشہور علاقوں کے مشہور پھلوں کی نیلامی کی جاتی ہے اور اسے خریدنے والے نیلامی میں زیادہ قیمت ادا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جاپانی علاقے کگاوا کے ایک آم کی قیمت 80 ڈالر سے 122 ڈالر تک ہو سکتی ہے، اس آم کو عام بول چال میں ’سورج کا انڈا‘ کہا جاتا ہے۔

    ایک اور علاقے ایشیکاوا کے رومن انگور کی 2016 میں فی کلو قیمت 8 ہزار ڈالر لگائی گئی تھی۔

  • دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

    دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جنگ عظیم دوم کی تاریخ کا ایک ورق ایک ایسے گوریلا فوجی کے نام ہے جس نے اپنے طرز عمل ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین کہانی کو جنم دیا، یہ فوجی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی 29 سال تک لڑتا رہا۔

    یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ لیفٹننٹ ہیرو اوناڈا، جسے دوسری جنگ عظیم میں یہ تربیت دی گئی تھی کہ جنگلوں میں رہ کر گوریلا جنگ کیسے لڑنی ہے، کو ایک جنگل میں تعینات کیا گیا، یہ علاقہ اب فلپائن کی حدود میں ہے، وہ وہاں چار دیگر فوجیوں کے ساتھ تعینات رہا، جس وقت جنگ ختم ہوئی، اس وقت وہاں اس جنگل میں پانچ فوجی تعینات تھے، اور وہ وہیں چھپے ہوئے تھے، ان کے لیے اعلان بھی کیا گیا کہ آپ جہاں بھی چھپے ہیں، باہر آ جائیں، جنگ ختم ہو چکی ہے۔

    لیکن وہ فوجی باہر اس لیے نہیں آئے کہ انھیں لگا کہ یہ دشمن کی جنگی چال ہے، تاکہ ہمیں باہر نکلوا سکیں، لیکن ان کی وہاں موجودگی سے کچھ افسوس ناک واقعات بھی رونما ہوئے، وہاں جو بھی سیاح آتے تھے، وہ انھیں گولی مار دیتے تھے، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ٹورسٹس کے روپ میں انھیں تلاش کرنے کے لیے دشمن کے فوجی آئے ہیں، یعنی وہ اس دوران لاعلمی میں معصوم لوگوں کی جانیں لیتے رہے۔

    فلپائن کی حکومت نے انھیں نکالنے کے لیے اپنی فوج کو جنگل کے اندر بھیجا، پولیس اہل کار بھیجے گئے، مختلف اداروں کے لوگ بھی گئے، کہ انھیں ڈھونڈ کر نکالا جا سکے کہ آئے دن وہ کسی نہ کسی کو گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، ہیرو اوناڈا کے باقی ساتھی تو ان کوششوں کے نتیجے میں 1947-48 میں باہر آ گئے، پھر انھوں نے بھی واپس جا کر اس سے کہا کہ باہر نکلو، جنگ ختم ہو چکی ہے، لیکن وہ باہر نہیں آیا۔

    جاپان سے اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ جنگ بندی کے بعد بھی ملک کے لیے اکیلے 29 سال لڑتا رہا، آخر کار 1972 میں، پتا یہ چلا کہ جس کمانڈنگ افسر نے اسے وہاں تعینات کیا تھا، وہ اس وقت بھی جاپان کے کسی گاؤں میں زندہ تھا، تو انھیں ڈھونڈا گیا، اور پھر فلپائن لایا گیا، انھیں میگافون کے ساتھ اس جنگل میں بھیجا گیا، جنگل میں انھوں نے اعلان کیا کہ میں تمھیں تمھارا کمانڈنگ افسر ہوں اور تمھیں ڈیوٹی سے ریلیف دیتا ہوں۔

    یہ سن کر وہ گوریلا فوجی ایک درخت سے اترا اور اپنے کمانڈنگ افسر کو سیلوٹ کیا، پھر وہ واپس جاپان آیا، جہاں اسے بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لوگوں کو اپنے ہی ملک جاپان سے ویسی محبت نہیں رہی، تو وہ دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ کر چلا گیا۔ آج بھی جب جاپان میں حب الوطنی کی بات آتی ہے، تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

    جنگ عظیم دوم کے اس شان دار کردار پر اے آر وائی نیوز کے مزاحیہ پروگرام ہوشیاریاں میں دل چسپ گفتگو ملاحظہ کریں۔

  • جاپان: قرنطینہ کی خلاف ورزی کرنے والوں سے متعلق اہم فیصلہ

    جاپان: قرنطینہ کی خلاف ورزی کرنے والوں سے متعلق اہم فیصلہ

    ٹوکیو: جاپان میں قرنطینہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے نام سامنے لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

    جاپانی میڈیا کے مطابق وزارت صحت نے قرنطینہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے نام سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا ہے، جاپانی قرنطینہ قانون کے تحت غیر ممالک سے آنے والے تمام افراد پر داخلے کے بعد 14 روز از خود قرنطینہ میں رہنے کی پابندی عائد ہے۔

    جاپان آنے والے افراد سے ایک دستاویز پر دستخط بھی کروائے جاتے ہیں، جس میں وہ قرنطینہ کی مدت کے دوران اپنے ٹھکانے اور اپنی حالت کی اسمارٹ فون کی ایپ یا دیگر ذرائع سے روزانہ اطلاع دینے کا اقرار کرتے ہیں۔

    جاپانی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ روزانہ تقریباً سو افراد اس اقرار نامے کی پاس داری کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس پر حکام ان میں بعض افراد کے نام آن لائن شائع کرنے کے تیاری کر رہے ہیں۔

    وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اسے اقرار نامے سے انحراف کرنے والوں کے نام سامنے لانے کا اختیار حاصل ہے، اب تک ان افراد کے نام سامنے لانے سے اس لیے اجتناب کیا گیا تھا کہ محکمے کو خدشہ تھا کہ کہیں انھیں تحقیر اور عوامی تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔

    تاہم وزارت کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تبدیل شدہ اور زیادہ متعدی اقسام پھیل رہی ہیں اس لیے روک تھام کی حکمت عملی بھی تبدیل کی جا رہی ہے، اس لیے حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ ان افراد کے نام سامنے لائے جائیں گے جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ انھوں نے خلاف ورزی بدنیتی کی بنیاد پر کی، اور ان کی طرف سے حکام کو کئی دن سے اطلاع نہ ملی ہو۔