Tag: جاپان

  • جاپان میں خطرناک زلزلے کی وارننگ جاری

    جاپان میں خطرناک زلزلے کی وارننگ جاری

    جاپانی حکام کی جانب سے آئندہ چند برس کے دوران صدی کے سب سے خطرناک شدت کے زلزلے کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان میں جمعرات کو آنے والے 7 اعشاریہ 1 شدت کے زلزلے کے بعد حکام نے آئندہ چند سالوں کے دوران صدی کے سب سے خطرناک زلزلے کی وارننگ جاری کی ہے۔

    حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ متوقع زلزلے کی شدت 8 یا 9 ہوسکتی ہے، کسی بھی ہنگامی صورتحال میں انتظامات کا بھرپور بندوبست اور رابطوں کو مؤثر رکھا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ میگا تھرسٹ زلزلہ اکثر جوڑے میں آتا ہے، جس میں سے ایک جمعرات کو آچکا ہے، آخری بار اس طرح کا زلزلہ 1944 اور 1946 میں آیا تھا۔

    حکام کے مطابق مذکورہ وارننگ دیے جانے کے بعد جاپانی وزیراعظم نے آئندہ ہفتے اپنا وسطی ایشیا کا دورہ ملتوی کردیا ہے۔

    جاپانی وزیراعظم نے دورہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں انتظامات کا بھرپور بندوبست اور رابطوں کو مؤثر رکھنے کے لئے ملتوی کیا ہے۔

    واضح رہے کہ جمعرات کے روز جاپان کے جنوبی علاقوں میں شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے، جس کے باعث سونامی ٹکرانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ جاپان میں 6.9 شدت محسوس کی گئی تھی۔

    مغرب کا دُہرا معیار اسرائیل کا حوصلہ بڑھا رہا ہے، مسعود پزشکیان

    جاپانی حکام کا کہنا تھا کہ ساحلی علاقے کوچی اور میازا کی میں سونامی کی وارننگ جاری کی گئی ہے، ایک میٹر بلند لہریں ساحل سے ٹکرا سکتی ہیں۔

  • جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    یہ متحدہ ہندوستان میں انگریز راج کی آخری دہائی کے سیاسی حالات اور جاپان کی جانب سے ہندوستان پر حملہ کرنے اور جنگ کے خدشہ کے پیشِ‌ نظر کی گئی اُس تیّاری کا احوال ہے جس کے خلاف کانگریس کے ایک بڑے اور جانے مانے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ساتھیوں‌ کے صلاح مشورے سے تدبیر اور کاوشیں‌ شروع کی تھیں۔

    مولانا آزاد لکھتے ہیں، ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔

    میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا تھا اور رضا کاروں کے جتھے، جنہوں نے جاپان کی مخالفت کا عہد کر رکھا تھا ان کی تربیت اور تنظیم شروع کر دی تھی۔ ان رضا کاروں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اگر جاپانی فوج پیش قدمی کرے، تو اس کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج پیچھے ہٹے، کانگریس کو اپنے رضا کاروں کی مدد سے آگے بڑھ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں، بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے نئے دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اپنی آزادی حاصل کر سکتے تھے۔

    درصل مئی اور جون 1942ء میں میرے وقت کا بیش تر حصہ اس نئی تدبیر کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں صرف ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاندھی جی مجھ سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں مجھ سے کہا کہ اگر جاپانی فوج کبھی ہندوستان آ ہی گئی، تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں، بلکہ انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انگریز چلے گئے، تو جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے۔ میں اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرسکا اور طویل بحثوں کے باوجود ہم کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے، چناں چہ ہم اختلاف کے ایک نوٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

  • جاپان نے ہولوگرام ٹیکنالوجی سے آراستہ نئے کرنسی نوٹ جاری کر دیے

    جاپان نے ہولوگرام ٹیکنالوجی سے آراستہ نئے کرنسی نوٹ جاری کر دیے

    ٹوکیو: جاپان نے 20 سالوں میں پہلی بار جاپان نے ہولوگرام ٹیکنالوجی سے آراستہ نئے کرنسی نوٹ کا جاری کر دیئے۔

    ہولوگرام ٹیکنالوجی سے مزین نئے نوٹوں کے اجراء کی افتتاحی تقریب ٹوکیو کے علاقے نیہون باشی میں واقع بینک آف جاپان(بی او جے) کے ہیڈ آفس میں منعقد کی گئی۔

    اس موقع پر بی او جے کے گورنر ’’اُو اے دا کازُو او‘‘ نے کہا کہ مارکیٹ سے پرانے کرنسی نوٹ کی واپسی کے لیے بینک 16 کھرب ین یا تقریباً 9 ارب 90 کروڑ ڈالر مالیت کے نئے کرنسی نوٹ جلد از جلد گردش میں لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    جعلسازی کرنے کو مزید مشکل بنانے کے لیے نئے کرنسی نوٹوں میں جدید ترین ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا، ہولوگرام ٹیکنالوجی سے مزین 10 ہزار ین کے نئے نوٹ پر کاروباری شخصیت بابائے جدید جاپانی معیشت’’شیبو ساوا ایچی‘‘ کی تصویر نقش ہے۔

    جبکہ پانچ ہزار کے نئے نوٹ پر حصول تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والی پہلی جاپانی خاتون کی تصویر ہے، ایک ہزار ین کے نئے نوٹ پر ماہر جرثومیات کی تصویر ہے۔

    عالمی سطح پر یہ پہلا موقع ہے جب جاپان میں کرنسی نوٹوں میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔

  • فلم اوپن ہائیمر جاپان میں 8 ماہ بعد ریلیز، فلم بینوں کا رد عمل کیا رہا؟

    فلم اوپن ہائیمر جاپان میں 8 ماہ بعد ریلیز، فلم بینوں کا رد عمل کیا رہا؟

    ایٹم بم پر بننے والی ہالی ووڈ فلم ’اوپن ہائیمر‘ جاپان میں آخرکار 8 ماہ بعد 29 مارچ کو ریلیز کر دی گئی۔

    کرسٹوفر نولان کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم اوپن ہائیمر اس خدشات کے ساتھ ریلیز کی گئی تھی کہ ایٹم بم حملوں کا شکار ہونے والے دنیا کے واحد ملک میں اس پر کیسا ردعمل سامنے آئے گا۔

    دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکا کے جوہری دھماکوں نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کر دیا تھا، جس میں 2 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، موضوع کی حساسیت کی وجہ سے جاپان میں 7 آسکر ایوارڈز جیتنے والی اس فلم کی ریلیز کو لے کر ڈسٹری بیوٹر گھبراہٹ کا شکار تھے۔

    جوہری ہتھیاروں کی ایجاد کرنے والے امریکی سائنس دان جے رابرٹ اوپن ہائیمر کی زندگی پر مبنی اس فلم کو جاپانی فلم بینوں کی جانب سے ملا جلا اور انتہائی جذباتی ردعمل ملا ہے، فلم جاپان میں باکس آفس پر چوتھے نمبر پر رہی، ریلیز کے بعد پہلے تین دنوں میں فلم نے 38 لاکھ ین یا 25 لاکھ ڈالر کمائے۔

    جاپانی ناظرین کی مختلف آرا میں ایک نمایاں رائے یہ تھی کہ فلم نے اوپن ہائیمر کی شخصیت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے اور جاپانی نقطہ نظر فلم سے مکمل طور پر غائب ہے، فلم کا مقصد اوپن ہائیمر کے اندر جاری نفسیاتی کشمکش تھا، فلم اس بات کی عکاسی نہیں کرتی کہ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے گئے تو زمین پر کیا ہوا۔

    ایٹم بم دھماکوں سے بچ جانے والے 91 سالہ ترومی تاناکا کی عمر 13 سال تھی جب ناگاساکی پر بم گرایا گیا، انھوں نے بتایا کہ جب بم پھٹا تو وہ ایک چمکدار سفید روشنی کی لپیٹ میں آ گئے تھے، جو پھر نیلے، نارنجی میں تبدیل ہو گئی۔ تاناکا نے کہا یہ فلم لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ جوہری ہتھیار رکھنے کا کیا مطلب ہے۔

    ہیروشیما کے سابق میئر تاکاشی ہیراوکا نے جاپانی میڈیا کو بتایا کہ فلم میں جوہری ہتھیاروں کی ہولناکی کو خاطر خواہ طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ امریکی سیاست میں مہارت رکھنے والے صوفیہ یونیورسٹی کے پروفیسر کازوہیرو میشیما نے اس فلم کو ’امریکی ضمیر‘ کا اظہار قرار دیا، اور کہا کہ جو لوگ جنگ مخالف فلم کی توقع رکھتے ہیں وہ مایوس ہو سکتے ہیں۔

  • فوڈ سپلیمنٹس کھانے سے 5 افراد ہلاک

    فوڈ سپلیمنٹس کھانے سے 5 افراد ہلاک

    جاپان میں فوڈ سپلیمنٹس کھانے سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں اسپتال میں داخل ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان فوڈ سپلیمنٹس کے اجزا میں بینیکوجی نام کی ایک لال رنگ کی پھپھوندی شامل ہے جس کی وجہ سے مبینہ طور 5 افراد ہلاک اور 125 افراد اسپتال میں داخل ہیں۔

    جاپان میں صحت کے شعبے سے منسلک حکام نے کوبایشی فارماسیوٹیکل کمپنی کے اوساکا پلانٹ پر چھاپا مارا، اس کمپنی کے جس سپلیمنٹ کے بارے میں جانچ پڑتال کی جارہی ہے وہ ایک گلابی رنگ کی گولی ہے، جسے بینیکوجی کولیسٹ ہیلپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہ گولی انسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہے، اس گولی کے اہم اجزا میں ایک لال رنگ کی پھپھوندی شامل ہے جس کا نام بینیکوجی بتایا جارہا ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے انہیں ہلاکتوں اوربیماری کی وجہ سے متعلق ابھی تک کوئی علم نہیں ہے، اس سپلیمنٹ کے سائیڈ افیکٹس میں گردوں کا فیل ہونا بھی شامل ہے، کمپنی نے جاپانی حکومت کی مدد سے دوا کے مضر اثرات کے چھان بین شروع کردی ہے۔

  • جاپان میں راکٹ لانچنگ کے چند سیکنڈ بعد ہی پھٹ گیا

    جاپان میں راکٹ لانچنگ کے چند سیکنڈ بعد ہی پھٹ گیا

    ٹوکیو : جاپان میں راکٹ لانچنگ کے چند سیکنڈ بعد ہی پھٹ گیا جاپانی حکام نے حادثے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان میں راکٹ لانچنگ کے چند سیکنڈ بعد ہی پھٹ گیا، جاپان کی نجی کمپنی کا راکٹ کائی نامی جزیرہ نما سے روانہ کیا گیا تھا، جو کچھ دیر بعد ہی لانچنگ پیڈ پر آگرا۔

    راکٹ کے پھٹنے سے ہر طرف دھوئیں کے بادل چھا گئے تاہم جاپانی حکام نے حادثے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ راکٹ نےسیٹلائٹ کو اکیاون منٹ میں زمین کے گرد مدار میں پہنچانا تھا۔

    لائیو فوٹیج میں دکھایا گیا کہ لانچ کے تقریباً پانچ سیکنڈ بعد ٹھوس ایندھن والے راکٹ میں آگ بھڑک اٹھی، جس کے بعد دور دراز کے پہاڑی علاقے میں اس سے اٹھنے والا سفید دھواں دیکھا گیا جو زمین پر بھڑکنے والی آگ سے اٹھ رہا تھا۔

  • جاپان میں 13 ملین ڈالر کی قیمتی گھڑیاں ’غائب‘ ہو گئیں

    جاپان میں 13 ملین ڈالر کی قیمتی گھڑیاں ’غائب‘ ہو گئیں

    ٹوکیو: جاپان میں 13 ملین ڈالر کی 900 لگژری گھڑیاں ’غائب‘ ہو گئیں۔

    مقامی میڈیا کے مطابق جاپان میں تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ امریکی ڈالر مالیت کی قیمتی گھڑیاں اس وقت غائب ہوئیں جب ایک سائٹ نے انھیں کرائے پر لیا تھا، جب کہ سائٹ کا مالک دبئی فرار ہو گیا۔

    مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ گھڑیوں کے غائب ہونے کا انکشاف اس وقت ہوا جب کہ آن لائن رینٹل پلیٹ فارم کی بندش کی خبر سامنے آئی۔ گھڑیوں میں رولیکس، اومیگا اور ٹاگ ہوئر جیسے انتہائی بیش قیمت برانڈز شامل ہیں، اور وہ ایک ایسے آن لائن پلیٹ فارم کے قبضے میں تھیں جو انھیں مختلف گاہکوں کو کرائے پر دیتا تھا۔ واضح رہے کہ جاپان میں اس قسم کے کاروبار کو ’شیئرنگ اکانومی‘ کہا جاتا ہے، جاپانی معیشت میں اشیا اور سروسز کا اس طرح مشترکہ استعمال عام ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق رینٹل ویب سائٹ کا مالک مبینہ طور پر فرار ہو کر دبئی جا چکا ہے، مذکورہ ویب سائٹ جاپانی شہر اوساکا سے کام کر رہی تھی اور اس کا نام Toke Match تھا۔ جن بیش قیمت گھڑیوں کو اب تک برآمد نہیں کیا جا سکا، ان کی تعداد تقریباً نو سو بتائی گئی ہے۔

    ’ٹوکے میچ‘ نامی ویب سائٹ ’نیو ریزرو‘ نامی کمپنی کے زیر انتظام کام کرتی تھی، اس پلیٹ فارم نے گھڑیاں کرائے پر دینے کی اپنی سروس 31 جنوری کو بند کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں رکھوائی گئی تمام لگژری گھڑیاں ان کے مالکان کو واپس کر دے گا، تاہم سائٹ بند ہونے کے بعد مالک فرار ہو گیا۔

    پولیس کو اوساکا، ٹوکیو اور دیگر شہروں میں ایسی تقریباً 190 گھڑیوں کے مالکان کی جانب سے 40 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود گھڑیاں انھیں واپس نہیں کی گئیں۔

    پولیس تفتیش کاروں کے مطابق ان سیکڑوں گھڑیوں میں سے بہت سی اب تک مجرمانہ طور پر آن لائن فروخت بھی کی جا چکی ہیں۔ پولیس نے ’ٹوکے میچ‘ کے تاکازومی کومیناتو نامی مالک کے خلاف کئی ملین ڈالر کی مجرمانہ دھوکا دہی کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔

  • جاپان نے میانمار کے لیے کروڑوں ڈالر امداد کا اعلان کر دیا

    جاپان نے میانمار کے لیے کروڑوں ڈالر امداد کا اعلان کر دیا

    ٹوکیو: میانمار میں فوجی بغاوت کے تین سال بعد بھی انسانی صورت حال تشویش ناک ہے، ایسے میں جاپان نے میانمار کو 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی مزید انسانی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

    جاپانی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خارجہ کامی کاوا یوکو نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جاپان نے میانمار کو تقریباً 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی اضافی انسانی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے تین سال بعد میانمار میں انسانی صورت حال بدستور انحطاط پذیر ہے، ملک بھر میں فضائی حملے اور لڑائی جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک کروڑ 86 لاکھ افراد کو اب بھی انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

    جاپانی امداد میں خوراک اور ادویات کی تقسیم اور طبی خدمات کے ساتھ ساتھ حاملہ خواتین اور شیر خوار بچوں کے لیے بہتر غذا کی فراہمی شامل ہوگی، جاپانی حکومت عالمی ادارہ خوراک اور اقوامِ متحدہ کے اطفال فنڈ سمیت بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے یہ امداد فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

  • جاپان مشکل میں: شرح پیدائش 2023 میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گئی

    جاپان مشکل میں: شرح پیدائش 2023 میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گئی

    ٹوکیو: جاپان میں بچوں کی شرح پیدائش 2023 میں مسلسل آٹھویں سال گر کر ریکارڈ کم ترین سطح پر آگئی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید 5.1فیصد کم ہوکر 758,631 ہو گئی، جب کہ شادیوں کی تعداد 5.9 فیصد کم ہو کر 489,281 ہو گئی۔

    جاپان کے اعلیٰ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت بچوں کی شرح پیدائش میں ہونے والی کمی سے نمٹنے کے لئے اقدامات اُٹھارہی ہے۔

    حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ گرتی ہوئی شرح پیدائش ایک نازک صورتحال ہے۔ اگلے چھ سال 2030 تک، جب نوجوانوں کی تعداد میں تیزی سے کمی رونما ہوگی، یہ اس رجحان سے نمٹنے کے لئے آخری موقع ہوگا۔

    انہو ں نے کہا کہ جاپانی وزیر اعظم Fumio Kishida نے اس صورتحال کو ملک کو درپیش سب سے بڑا بحران قرار دیا ہے۔

    غزہ میں مظالم کیخلاف خود سوزی کرنے والا امریکی فوجی دم توڑ گیا

    نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکیورٹی ریسرچ کے اندازوں کے مطابق، جاپان کی آبادی 2070 تک تقریباً 30 فیصد کم ہو کر 87 ملین ہو جائے گی۔