Tag: جبرالٹر کہانی

  • جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    جنگِ ستمبر: جب پاکستانی خواتین نے رائفل اور پستول چلانا سیکھا

    پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔

    رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔

    اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔

    انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔

    (نام ور ادیب شاہد احمد دہلوی کے جنگِ ستمبر کے تذکرے پر مبنی تحریر سے انتخاب)

  • یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    1965ء میں پاکستان کی افواج نے سرحدی محاذوں پر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر جہاں دنیا سے اپنی طاقت اور شجاعت کا لوہا منوایا، وہیں پاکستانی شاعروں کے تخلیق کردہ جنگی ترانوں اور رزمیہ شاعری کی گونج اور قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملّی نغمات کے بول بھی سرحد پار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دشمن کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔

    ستمبر کی جنگ کے دوران پاکستانی شاعروں نے اپنے جذبۂ حبُ الوطنی کا جس طرح اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ مادرِ گیتی اور پاک فوج سے محبت کی ایک لازوال اور ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔

    شعرا نے اپنے کلام سے جہاں فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھایا وہیں اس رزمیہ ادب نے قوم کے اندر جذبۂ آزادی کو مزید توانا کیا اور یہ شاعری قومی وحدت کی یادگار لڑی ثابت ہوئی۔ یہ چند اشعار دیکھیے جو جنگِ ستمبر اور بعد کے ادوار میں تخلیق کیے گئے۔

    لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
    مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
    (احسان دانش)

    تو وارث پاک اُجالوں کی
    تو دھرتی شیر جوانوں کی
    تری خوشبو کو چھلکائیں گے
    ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
    (ضمیر جعفری)

    میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
    میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
    میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
    چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
    (ساقی جاوید)

    سرفروشی ہے ایماں تمہارا
    جرأتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کرے سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    (جمیل الدّین عالی)

    اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    (مسرور انور)

    ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
    یہ پرچموں میں عظیم پرچم
    (سیف زلفی)

    اردو میں جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم قومی شعرا صبا اکبر آبادی، طفیل ہوشیار پوری، سید ضمیر جعفری، کرم حیدری، کلیم عثمانی، مشیر کاظمی، کیف بنارسی، ساقی جاوید، جمیل الدین عالی، تنویر نقوی، حمایت علی شاعر، رئیس امروہوی، احمدندیم قاسمی، منیر نیازی، ریاض الرحمن ساغر اور کئی شعرا شامل ہیں۔ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں ان شعرا کے ترانے اور ملّی نغمات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

  • 6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    (از شاہد احمد دہلوی)

  • جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    جنگِ ستمبر: کراچی کا لالو کھیت، تین ہٹّی کی پُلیا اور بھارت کا جھوٹ

    6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔

    محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔

    بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔

    اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، انشا پرداز اور سوانح و تذکرہ نگار شاہد احمد دہلوی مرحوم کے قلم سے، یہ واقعات انھوں نے 1966ء میں بھارت کی جنگ میں شکست کے ایک سال بعد رقم کیے تھے)

  • یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    ریڈیو سنو ممکن ہے کوئی اہم اعلان ہو!

    ریڈیو پاکستان گرجا۔ صدر ایوب آج دن کے گیارہ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔

    سارا لاہور گوش بر آواز ہوگیا۔ سارا پاکستان گوش بر آواز ہوگیا۔

    سارا بھارت یقیناًَ گوش بر آواز ہو گا۔

    اور صد ایوب کی آواز فضائے بسیط میں گونجی۔

    بھارت کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ حالات نے دشمن سے مقابلے کے لیے لاہور کے بہادروں کا سب سے پہلے انتخاب کیا ہے۔ تاریخ ان جواں مردوں کے کارنامے اس عبارت کے ساتھ زندہ رکھے گی کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے دشمن کی تباہی کے لیے آخری ضرب لگائی۔

    لاہور کا سَر فخر سے بلند ہوگیا۔ لاہور کا ہر شہری یہ محسوس کرنے لگا جیسے صرف لاہور ہی نہیں سارے پاکستان کی حفاظت اس کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ کیوں نہ ہو لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اور جب تک دل میں دھڑکن باقی ہے زندگی ہے تابندگی ہے۔

    نہ لاہور کا دل ڈوبا نہ لاہور کی نبضیں چھوٹیں۔ صدر کے گراں قدر الفاظ نے لاہور کی رگوں میں تازہ خون کی لہر دوڑا دی۔ لاہور کمر کس کے تیار ہو گیا۔ سارا پاکستان دشمن کی توپوں کے دہانے سرد کرنے کے لیے چوکس ہوگیا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گیا۔ جذبہ ایثار۔ بچّہ ہو کہ بوڑھا امیر ہو کہ غریب۔ اعلی افسر ہو کہ ادنیٰ ملازم۔ امیر کبیر تاجر ہو کہ چھابڑی والا۔ ہر ایک اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی عزیز شے قربان کرنے لگا۔

    صدر نے قومی دفاعی فنڈ کا اعلان کیا تو ہر طرف سے روپوں کی بارش ہونے لگی۔

    آدم جی نے لاکھوں روپے دے کر یہ اعلان کیا کہ یہ تو محض پہلی قسط ہے۔

    اسکول کے دو ننّھے بچے نیشنل بینک کے باہر بینک کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ ان کی مٹھیاں بند تھیں۔ بینک کھلنے پر انھوں نے خزانچی کے پاس جاکر ٹیڈی پیسوں کے ڈھیر لگا دیے اور کہنے لگے۔ یہ ہمارے جیب خرچ کے پیسے ہیں مگر ہم نے ان پر کلمہ طیبہ پڑھا ہے۔ اسے اپنے پیسوں میں ملا لیجیے بڑی برکت ہوگی۔

    (حبیب اللہ اوج کے قلم سے جنھوں نے 1966ء میں جنگ کے حوالے سے اپنی یادیں رقم کی تھیں)

  • جنگِ‌ ستمبر: بھارت کو سبق سکھانے کے لیے ہاکی اور کلہاڑی تھامے ہر شہری نے بارڈر کا رخ کیا

    جنگِ‌ ستمبر: بھارت کو سبق سکھانے کے لیے ہاکی اور کلہاڑی تھامے ہر شہری نے بارڈر کا رخ کیا

    ستمبر 1965ء کی جنگ نے قومی یکجہتی اور پاک فوج کے ساتھ عوام کا والہانہ پیار اور گہرے و قلبی تعلق کو جس طرح تازہ کیا اور مزید مضبوط بنایا، اس کی مثال کم ہی اقوام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

    دورانِ جنگ ایک جانب پاکستان کے شیر دل جوانوں نے جذبہ شہادت سر سرشار ہو کر جس طرح مختلف محاذوں پر اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور جنگی ساز و سامان کے استعمال میں اپنی مہارت کا عملی مظاہرہ کیا، وہ ہماری عسکری تاریخ کا ایک شان دار باب ہے اور دوسری طرف جوش و ولولہ اور جذبہ ایمانی سے معمور پاکستانی عوام تھے جو بلیک آؤٹ کے دوران یا کسی بھی موقع پر اپنے گھروں اور تہ خانوں میں‌ محفوظ رہنے کے بجائے ہر محاذ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیّار نظر آئے۔

    ایک جگہ قدرت ﷲ شہاب یوں رقم طراز ہیں: ’’بھارتی حملے کو روکنے اور پسپا کرنے کا سہرا ائیر فورس، فوجی جوانوں اور افسروں کے سَر ہے جنھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر حیرت انگیز جواں مردی دکھائی اور بعضوں نے وطنِ عزیز کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔‘‘

    یہ وہ موقع تھا جب پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی۔ قوم نے جذبۂ حب الوطنی کی سرشاری میں قومی یک جہتی کے ایسے نقش اُبھارے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    پوری قوم نے اپنے باوقار وجود کا احساس اس شان سے دیا کہ رات کی تاریکی میں شب خون مارنے والوں کو جان بچانا مشکل ہوگئی۔ شجاعت و عزم کے نئے باب کا اضافہ ہوا۔ قومی غیرت اور جذبہ حریت کی تازہ داستانیں رقم ہوئیں۔

    جنگِ ستمبر کے دوران پوری قوم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی ہے۔ ہم اسے سبق سکھائیں گے۔ فضائی حملوں کے دوران پور لاہور بلیک آؤٹ میں ڈوب جاتا تو لاہوری اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر ’’فائٹ‘‘ دیکھتے۔ اور اپنے پائلٹوں کو باقاعدہ داد دیتے۔ انھیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا کہ وہ حملوں کی زد میں بھی آ سکتے ہیں۔

    فائٹ کا نظارہ میں نے ایک مرتبہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح آگے بھارتی طیارے اور ان کے پیچھے ہمارے جہاز ہوتے۔ لوگ سڑکوں پر دشمنوں کے جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے بلند نعرے لگاتے۔

    عوام کے جذبات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر شہری کا رخ بارڈر کی طرف ہوتا۔ ان میں سے کوئی ہاکی اور کلہاڑی اٹھائے تو کوئی اپنے فوجی بھائیوں کے لیے کھانا اور دیگر اشیا لے کر بارڈر کی طرف جا رہا ہوتا۔ یہ کیسا جذبہ تھا ہمارے ملّی نغمے ہتھیار کا کام کر رہے تھے۔ ہمارے فوجی جوان ان کو سن کر بہادری اور دلیری سے لڑتے، یقیناً فوج اور عوام کا ساتھ بہت کام آتا ہے۔

    (قومی یکجہتی اور جنگ ستمبر سے اقتباسات)

  • جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    صدر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ہندوستان کے حکم ران شاید یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے…‘‘

    جب صدر کی تقریر ختم ہوئی تو ہم نعرہ تکبیر، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے محلّے کے چھوٹے سے بازار میں چھوٹا سا جلوس لے کر چل پڑے۔

    دکان داروں نے ہمیں دیکھا تو وہ بھی کھڑے ہو کر ہمارے نعروں کا جواب دینے لگے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جلوس اور نعرے بازی ہمارا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر ریڈیوپر قومی و ملّی نغمے، شام کو فوجی بھائیوں کے لیے خصوصی پروگرام سنا کرتے۔

    پاک فضائیہ کے پاس بھارت کے جدید طیاروں کے برعکس سیبر طیارے تھے۔ ریڈیو نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے وطن کے دفاع کے لیے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ قوم کا جذبۂ حُب الوطنی اور جذبۂ ایمانی فوج کی طاقت بن گیا۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید اور ایم ایم عالم کا واقعہ بھی عالمی ریکارڈ ہے۔

    ایک روز جب بھائی خاکی وردی میں ملبوس سر پر ہری ٹوپی پہنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے شہری دفاع میں رضا کار کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔

    جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تو یہ رضا کار لوگوں کے گھروں کی بتیاں بند کروایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رضا کار محاذ تک استعمال کی اشیا اور سامانِ خور و نوش کی رسد کا فریضہ بھی ادا کرنے پر مامور تھے۔ مگر ہمارا معمول تھا کہ جب بھی سائرن بجتے چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضائے نیلگوں میں پاکستانی طیاروں کی بھارتی طیاروں پر جھپٹ پلٹ کا نظارا کرتے۔

    گھر والے روکتے، سول ڈیفنس والے بھی دروازے پر دستک دیتے، تنبیہ کرتے مگر ہم کہاں ٹلتے۔ خوف سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی سول ڈیفنس کا علاقائی دفتر تھا جہاں تمام رضا کار جمع ہوتے اور انھیں ان کی ذمہ داریاں دی جاتیں۔

    ایک دن بھائی کو بتائے بغیر میں بھی سول ڈیفنس کے دفتر پہنچ گیا جہاں پر رضا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے انچارج بھی موجود تھے۔ میں نے کہا کہ میں بھی رضا کار بننا چاہتا ہوں۔ دشمن کو پتا نہیں اس نے کس قوم پر حملہ کیا ہے۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں تقریر شروع کر دی۔ سب سنتے رہے۔ آخر ان کے افسر میرے پاس آئے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: خدا کی قسم! جس قوم کے بچّوں میں وطن کی محبّت کا یہ جذبہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کہا۔ بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، اپنے والدین کا کہا مانو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو، تمہارا یہی فرض ہے، یہی جہاد ہے اور وطن سے محبّت کا یہی طریقہ ہے۔ تم سمجھو کہ تم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑرہے ہو۔

    وحدت کالونی کی سڑک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی جو ملتان روڈ کو فیروز پور روڈ سے ملاتی تھی۔ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر منتظر رہتے کہ کب فوجی گاڑی یہاں سے گزرے۔ دور سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلاتے اور بتاتے کہ گاڑی آرہی ہے اور وہ دوسرے لڑکوں کو بتاتے اور سب سڑک کے کنارے آکر کھڑ ے ہو جاتے۔

    فوجیوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے۔کبھی کبھار کوئی گاڑی ایک پل کے لیے رکتی، ہم بھاگم بھاگ سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے۔ سپاہی ہمارے گال تھپتھپاتے اور نعروں کی گونج میں چل دیتے۔

    خبروں میں سب سے زیادہ جن محاذوں کے نام سنے، ان میں واہگہ، چھمب جوڑیاں، کھیم کرن، گنڈا سنگھ والا کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ آج بھی جب ان شہروں اور علاقوں کے نام سنتا ہوں تو جنگِ ستمبر 65 ء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

    (محمد ظہیر بدر کے مضمون پینسٹھ اور قومی زندہ دلی سے اقتباسات)

  • جنگِ‌ ستمبر: بی آر بی نہر پر پہنچ کر ہزاروں شہریوں نے پاک فوج کو اپنی خدمات پیش کردیں

    جنگِ‌ ستمبر: بی آر بی نہر پر پہنچ کر ہزاروں شہریوں نے پاک فوج کو اپنی خدمات پیش کردیں

    لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر بھارت کی اچانک اور بزدلانہ کارروائی پر پاکستان نے سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ بھارت کا یہ غرور اور گھمنڈ بھی خاک میں ملا دیا کہ اس کے پاس جنگی ساز و سامان اور فوج ہم سے زیادہ ہے۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ختم ہوئی تو دنیا کو معلوم ہوگیا کہ جنگ صرف دلیری و شجاعت اور حکمتِ عملی سے جیتی جاتی ہے۔

    ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کا دفاع ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی فوج اور عوام نے اکٹھے ہو کر وطن کا دفاع کیا۔

    جنگِ ستمبر اس لیے بھی ہماری بڑی فتح تھی کہ دشمن نے مکمل تیّاری اور منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ افواج اور بھاری اسلحہ کے ساتھ اچانک حملہ کیا تھا، جب کہ پاکستان اس جنگ کے لیے بالکل تیّار نہیں تھا۔

    بھارت نے پاکستان کی شہری آبادی پر ٹینک بردار دستوں سے حملہ کیا تھا۔ واہگہ کے محاذ سے بھارتی ٹینک نہر کے پُل تک پہنچ گئے اور راستے میں آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ بزدل دشمن نے حملہ نصف شب کو کیا تھا۔ زیادہ تر لوگ سو رہے تھے۔ بھارتیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ سرحدوں پر موجود چند فوجیوں نے جان پر کھیلتے ہوئے پل توڑ دیا۔ اس پر بھارتی فوج متبادل انتظام کر کے مزید ٹینکوں کو نہر پار پہنچانے کی تیّاری کر رہی تھی کہ مزید جوان محاذ پر پہنچ گئے اور بھارتی ٹینکوں کی پیش قدمی روک کر لاہور شہر کے دفاع کا پہلا مورچہ بنا لیا۔

    لاہور میں جنگ کی دل چسپ کہانیاں سننے میں آئیں۔ مثلاً جب شہر پر بھارتی طیارے پرواز کرتے تو عوام سائرن سن کر گلیوں اور چھتوں پر نکل آتے۔ ہر چند یہ خطرے کی بات تھی لیکن عوام کا جوش و خروش اتنا تھا کہ وہ موت کے خوف سے آزاد ہو چکے تھے۔ شہر میں سے فوجیوں کا گزرنا ایک جشن کی طرح ہوتا۔ لوگ ان پر پھول پھینکتے۔ چھتوں پر کھڑی خواتین ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعائیں کرتیں اور انھیں تحائف پیش کیے جاتے۔ بے شمار شہری بی آر بی نہر کے محاذ پر پہنچ گئے اور فوج کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔

    پاکستان کے دل لاہور اور تمام شہروں اور آزاد کشمیر میں عوام کے حوصلے بے حد بلند تھے۔ خصوصاً فوج اور عوام کے درمیان محبت اور باہمی احترام کا جو جذبہ 65ء کی جنگ میں پیدا ہوا تھا، وہ عدیم النّظیر اور ناقابلِ‌ فراموش ہے۔

  • 6 ستمبر: ہر فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا

    6 ستمبر: ہر فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا

    تاریخِ عالم گواہ ہے کہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کی ایک لاکھ فوج کو 60 ہزار پاکستانی جوانوں پر مشتمل فوج نے شکست دی تھی اور بھارت کو یہ سبق دیا تھا کہ سامانِ حرب کی فراوانی اور میدانَ‌ جنگ میں عددی برتری فتح کی ضمانت نہیں‌ بلکہ زورِ بازو پر بھروسا، ہمّت و جذبہ، جوہرِ شجاعت اور یقین و ایمانِ کامل کے ساتھ سرحدوں کا دفاع کیا جاتا ہے جس سے وہ محروم ہے۔

    ہر سال 6 ستمبر کو ہم یومِ دفاعِ پاکستان بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہوئے اپنے فوجی جوانوں کی دلیری، شجاعت اور جنگ میں ان کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

    6 ستمبر ایک ایسا دن اور تاریخ ہے جس کا ہر لمحہ، ہر ساعت اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔ یہی تو وہ دن ہے جب زندگی کا ہر شعبہ، ہر گوشہ اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کی علامت بن گیا۔ سیاسی اختلافات طاقِ نسیاں پر رکھ دیے گئے۔ سارے دائیں بائیں بازو ایک دوسرے کا دست و بازو بن گئے۔ دینی راہ نما ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔ شاعروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گانے والوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اُفق تا بہ اُفق ہم نظری کے منظر ابھرے۔

    آئیے ہم بتاتے ہیں کہ جنگ کا آغاز کب ہوا اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والے بھارت کو کتنی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

    وہ عجیب دن تھا۔ ہر فرد ملّت کے مقدّر کا ستارہ بن گیا تھا۔ کیا تاجر، کیا صنعت کار، کیا پنساری، کیا پٹواری، کیا قصاب ایک ایک فرد نے اپنے گرد حبُ الوطنی کا حصار کھینچ لیا تھا۔

    جنگِ ستمبر1965ء کا سبب بھی بھارت کے زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر تنازع تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہی سے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے وادی سے متعلق اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے تھے جو بین الاقوامی سطح پر اس کی متنازع حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔

    کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے وفاقی ڈھانچے میں شامل کرکے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا عالمی دنیا کی نظر میں بھی کھلی بدمعاشی اور متنازع حیثیت کے یکسر خلاف اقدامات تھے جب کہ اس کے بعد رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر بھارت کی جانب سے حملہ نے پاکستان کو جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ پاکستان ہمیشہ سے اس بات کا اعلان کرتا رہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل چاہتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے کشمیر کے مسلمانوں کی‌ خواہش کے مطابق ان کے حق کے لیے آواز اٹھا رہا ہے، جب کہ بھارت وادی کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے نہ صرف عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کررہی تھی بلکہ اس نے مقبوضہ وادی میں ظلم و ستم اور بربریت کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا۔

    21 فروری 1965ء کو بھارت نے رن آف کچھ میں ایک بہت پرانے قلعے پر موجود پاک فوج کو یہاں سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہا تو پاکستان سے یہ پنجہ آزمائی مہنگی پڑی اور اس دوران منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے اپنی اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے جنگ چھیڑ دی۔

    6 ستمبر 1965ء کو بزدل بھارتی فوج رات کی تاریکی میں للکارے بغیر ہماری سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے علاقوں کو فتخ کرنے کا خواب لے کر حملہ آور ہوئی۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں ٹینکوں کے 25 ویں ڈویژن اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر 3 اطراف سے حملہ کیا گیا تھا جس پر پاک فوج کے جاں بازوں نے مادرِ گیتی پر اپنی جانیں نثار کرنے کا عہد کیا اور سرحدوں پر ڈٹ گئے۔ اس جنگ میں بھارتی فوج بھاری جنگی ساز و سامان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔