Tag: جبری مشقت

  • پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 5 میں سے 1 بچہ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 16 کروڑ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی جنگیں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    کووڈ 19 کی وبا نے بھی دنیا کی مجموعی غربت میں اضافہ کیا ہے اور کم آمدن والے طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔

    پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے، اسکول جانے سے محروم افراد کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں آؤٹ آف اسکول بچوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر کھڑا کردیتی ہے۔

    تعلیم سے محروم ان بچوں کی بڑی تعداد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے جن کی تعداد اندازاً 1 کروڑ 20 لاکھ ہے۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔

    ان کے مطابق لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے، اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہوگا۔

    پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی سہولیات کا استطاعت سے باہر ہونا اور غربت مزید بچوں کو جبری مشقت کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔

  • بچوں کی جبری مشقت ان کا بچپن چھن جانے کے مترادف

    بچوں کی جبری مشقت ان کا بچپن چھن جانے کے مترادف

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بچوں سے جبری مشقت کروانا ان سے ان کا بچپن چھین لینے کے مترادف ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 152 ملین بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اور موجودہ اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل یعنی سنہ 1996 میں اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہوگا۔

    پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے مزدوری کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان ان 67 ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چائلڈ لیبر کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

  • دنیا بھر میں152ملین بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ

    دنیا بھر میں152ملین بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ

    نیو یارک : اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں ایک سو باون ملین بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں، ان کا جسمانی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

    یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر دسواں بچہ یا بچی زندہ رہنے یا پھر اپنے اہلخانہ کی مدد کرنے کے لیے مزدوری کرتا ہے۔ یونیسیف کی طرف سے کل بروز بدھ بارہ جون کو بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ متاثرہ بچوں میں سے نصف کو کام کے خراب حالات کا سامنا رہتا ہے ، اس کے علاوہ ان کا جسمانی استحصال بھی کیا جاتا ہے، ایسے متاثرہ بچوں کی سب سے بڑی تعداد افریقہ اور ایشیا میں ہے۔

    واضح رہے کہ بچوں سے جبری مشقت کے خلاف عالمی دن یعنی چائلڈ لیبر ڈے دنیا بھر میں12جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن سماجی تنظیموں کی جانب سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیاجاتا ہے تاکہ محنت کش بچوں کے مسائل کو حکومت و دیگر ذمہ داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جاسکے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 10لاکھ بچے مزدوری کرنے پر مجبورہیں ،پاکستان میں غربت ،بے روزگاری و مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ان کے لیے تعلیم ایک خواب ہی بن کر رہ گئی ہے۔

    یہ معصوم بچے بوٹ پالش کے کام سے لے کر ہوٹلوں، چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں، چھوٹی فیکٹریوں، گاڑیوں کی کنڈیکٹری، بھٹہ خانوں، سی این جی اور پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت دیگر بہت سے جبری مشقت کے کام کرتے ہیں۔

    اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ ہماری معاشی ترقی پیداواری صلاحیتوں کے ساتھ قیام پاکستان سے اسی کی دہائی تک مستحکم اور متوازن رہی اور پھر1987کے بعد بتدریج بحرانوں کا شکار ہوتی گئی اور ملک میں بے روزگاری اور غربت میں متواتر اضافہ ہوتا رہا۔

    اگرچہ اس دوران پاکستان میں بچوں کی مشقت سے متعلق مختلف اعداد وشمار کی بنیاد پر رپورٹیں سامنے آئیں لیکن ان سب میں ایک بنیادی بات یکساں تھی کہ ہمارے ہاں بچوں کی مشقت کے رجحان میں قدرے اضافہ ہوا۔

    سال2000سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے تحت ترقی پذیر ممالک میں انسانی سماجی ترقی کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خصوصاً بچوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے2001تا 2010میلینیم ڈیویلپمنٹ گولز کے لحاظ سے ایک پروگرام شروع کیا گیا اور یہ طے کیا گیا تھا کہ یہ اہداف ان دس برسوں میں حاصل کرلیے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا تو اس کے بعد اب اسی پروگرام میں توسیع کی گئی ہے تاکہ ان اہداف کو2030تک حاصل کرلیا جائے۔

  • وزیر اعظم کی جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت

    وزیر اعظم کی جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات کی ہدایت کر دی.

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ ادارہ شماریات چائلڈ لیبر کے اعداد وشمار  پر سروے کرے، ایسے بچوں کی تعلیم اور غربت سے متعلق تجاویز بھی تیار کی جائیں.

    [bs-quote quote=” انسانی حقوق کا تحفظ ہمارےدین اور آئین پاکستان کا اہم جزو ہے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”وزیر اعظم”][/bs-quote]

    وزیراعظم نے پبلک مقامات پرملازمین سے متعلق ہتک آمیز سائن بورڈز ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کلب اور جم خانہ پر لگے سائن بورڈز ہٹا دیے جائیں.

    ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لئے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جارہی ہے.

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے پبلک مقامات پررکاوٹیں ہٹانے کی ہدایت جاری کی، وزیراعظم کو انسانی حقوق کو یقینی بنانے اور تشدد روکنے سے متعلق اقدامات پربریفنگ دی گئی.

    مزید پڑھیں: وزیراعظم سے ملاقات ، ناروے اور کوریا کا پاکستان میں جلدبڑی سرمایہ کاری کافیصلہ

    وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا کہ انسانی حقوق کا تحفظ ہمارےدین اور آئین پاکستان کا اہم جزو ہے، حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے، حکومت اقلیتوں کے حقوق کی ذمہ دار بھی ہے.

    یاد رہے کہ آج وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی سرمایہ کاروں کے وفد سے ملاقات کی ، ملاقات میں ناروے اور کوریا سے آئے وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کےمواقعوں اورحکومتی اقدامات پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

  • بچوں کی مزدوری کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    بچوں کی مزدوری کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال کام کرنے والوں بچوں کی صحت و حفاظت کے متعلق ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 31 کروڑ 7 لاکھ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    یہ تعداد صرف 2 سال قبل سنہ 2015 میں 16 کروڑ 8 لاکھ تھی۔ گویا دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، کمزوروں اور غریبوں کے لیے دور جہالت کے قوانین و حالات لوٹ کر آرہے ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات اور ہجرتیں بھی ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔


    پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت میں اضافہ

    وطن عزیز کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اور موجودہ اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل یعنی سنہ 1996 میں اکٹھے کیے گئے تھے۔

    انسانی حقوق کمیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں موجود ہے، جہاں 19 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 10 لاکھ، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14 ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔ ’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا‘۔

    دوسری جانب پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔

    ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا ہوگی جس کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔

    اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت 2 سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

    آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمر بچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لیے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔

    تاہم مندرجہ بالا قوانین چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ناکافی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    علاوہ ازیں چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جن سے متعلق کوئی قوانین نہیں جیسے گھریلو ملازم بچے یا گاؤں دیہات میں زراعت کے پیشے سے منسلک بچے۔

    عالمی ادارہ برائے مزدوری کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان ان 67 ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چائلڈ لیبر کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس صورتحال کو بہتر بنانے میں سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکہ میں بنگلہ دیشی سفارت کار گرفتار

    امریکہ میں بنگلہ دیشی سفارت کار گرفتار

    واشنگٹن: بنگلا دیش کےسفارت کار کو ملازم سے جبری مشقت لینے کے الزام میں گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کےمطابق نیویارک میں بنگلادیش کے نائب قونصل جنرل محمد شاہد الاسلام پراپنے ملازم سے بلامعاوضہ کام کروانے اور مزدور کو امریکہ اسمگل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

    خیال رہےکہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے 50 ہزارڈالر مچلکے کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی۔

    امریکی استغاثہ کے مطابق بنگلا دیشی سفارت کار کو محدود سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور انہیں پاسپورٹ حوالے کرنے کا حکم دے دیا گیا ہےتاہم جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملزم کو 15 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    نائب قونصل جنرل محمد شاہد الاسلام 2012 میں گھریلو کام کاج کے لیے اپنے ہم وطن محمد امین کو امریکہ لائے تھے۔ ملزم نے محمد امین کا پاسپورٹ ضبط کرکے اسے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا ۔

    واضح رہےکہ بنگلا دیشی سفارت خانے نے اپنے سفارت کار پر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کئی سال قبل کیے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 1 کروڑ 1 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 31 کروڑ 7 لاکھ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    یہ تعداد صرف 2 سال قبل سنہ 2015 میں 16 کروڑ 8 لاکھ تھی۔ گویا دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، کمزوروں اور غریبوں کے لیے دور جہالت کے قوانین و حالات لوٹ کر آرہے ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں بھی ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت میں اضافہ

    وطن عزیز کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اور موجودہ اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل یعنی سنہ 1996 میں اکٹھے کیے گئے تھے۔

    انسانی حقوق کمیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں موجود ہے، جہاں 19 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 10 لاکھ، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14 ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔ ’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا‘۔

    دوسری جانب پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔

    ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا ہوگی جس کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: 10 سالہ ایوب اسکول جانے کے بجائے تندور پر ملازم

    اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت 2 سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

    آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمر بچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لیے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔

    تاہم مندرجہ بالا قوانین چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ناکافی ہے اور ان پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    علاوہ ازیں چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جن سے متعلق کوئی قوانین نہیں جیسے گھریلو ملازم بچے یا گاؤں دیہات میں زراعت کے پیشے سے منسلک بچے۔

    عالمی ادارہ برائے مزدوری کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان ان 67 ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چائلڈ لیبر کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس صورتحال کو بہتر بنانے میں سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔