Tag: جذام

  • موذی مرض جذام سے کیسے بچا جائے؟

    جذام جیسی موذی مرض بیکٹیریا اور جراثیم سے پھیلتی ہے۔

    ’جذام‘ جسے عام طور پر ’کوڑھ‘ بھی کہا جاتا ہے اس متعدی مرض کا شمار دنیا کی قدیم ترین بیماریوں میں ہوتا ہے اور ایک زمانے میں اس مرض میں مبتلا افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ایسے افراد کو سماج سے الگ کردیا جاتا تھا۔

    جزام ایکسپرٹ ڈاکٹر مطہر ضیاء نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ بیکٹیریا سے پھیلنے والی بیماری ہے، اور یہ ہوا سے زریعے  پھیلتی ہیں۔

    ڈاکٹر مطہر کا کہنا تھا کہ یہ ناک کے زریعے جسم میں داخل ہوتی ہے، جس کے بعد یہ جلد، بازو اور ٹانگوں کی مخصوص نسوں پر اثر کرتی ہے۔

    اس بیماری کی علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہونے والے شخص کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے اس میں پیپ پڑجاتی ہے اور بعض اوقات انسانی گوشت اس سے متاثر ہوتا ہے اور مرض سے بدبو بھی آتی رہتی ہے۔

    جزام ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی علامت ظاہر ہونے میں دو سے پانچ سال یا 20 سال کا وقت بھی لگ سکتا ہے، تاہم جلد میں نشان ہوجاتی ہے۔

    اگر آپ کو اپنے جسم پر جذام سے متعلق علامات نظر آئیں تو آپ بنیادی نگہداشت کے ڈاکٹر سے مشورہ کر سکتے ہیں، ڈاکٹر آپ کو جذام کے ماہر، جنرل فزیشن، یا ڈرمیٹالوجسٹ کے پاس بھیج سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس موذی بیماری کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں برازیل اور انڈونیشیا میں ہے، تاہم پاکستان میں اس کی تعداد بہت کم ہے۔

  • ماں‌ ہم بھی کوڑھیوں‌ کو تنہا نہیں‌ چھوڑیں‌ گے!

    ماں‌ ہم بھی کوڑھیوں‌ کو تنہا نہیں‌ چھوڑیں‌ گے!

    جذام کے عالمی دن پر مجھے ماں یاد آئیں، کوڑھیوں کی ماں۔ ان کی مسیحا اور خدمت گار۔

    وہ ان کا دکھ بانٹتیں، ان کی حاجات اور ضروریات پوری کرتی تھیں۔ انھیں اس بیماری سے لڑنے میں مدد دیتیں اور ان کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ اپنا سکھ چین تج کر، دن رات کا فرق مٹا کر اور ہر حسرت، ہر آرزو کو کچل کر انھوں نے انسانیت کے نام پر اپنا آپ لُٹا دیا۔

    وہ سمندر پار سے یہاں چلی آئی تھیں، ہمارے وطن میں۔ جہاں اپنوں نے ہی کوڑھی ہو جانے پر کسی اپنے کو گھر سے دور، ویرانے میں چھوڑ دیا کہ جب تک چاہو زندہ رہو، مگر اسی جگہ……ہم مجبور ہیں۔

    مگر سمندر پار سے وہ صبیح چہرہ، ستارہ آنکھوں والی چلی آئی۔ اس نے کہا میں تمھارے پاس آکر بیٹھوں گی، تمھارے زخم دیکھوں گی، میں ان پر مرہم رکھوں گی۔ مجھے گھن نہیں‌ آتی، مجھے تم بہت پیارے لگتے ہو، تم اپنے دل کی باتیں مجھ سے کرنا اور جب تک زندگی ہے اسے نعمت جاننا۔ ہاں تم پر کڑا وقت ہے، رب نے بیماری کے ذریعے آزمائش کی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم انسان نہیں رہے۔ وہ تمھارے اپنے بہت مجبور ہوں گے جبھی تمھیں یہاں چھوڑ گئے۔ انھیں معاف کر دو۔ اب میں تمھارے ساتھ ہوں۔

    ہر سال جنوری کا آخری اتوار اس مرض سے متعلق آگاہی اور علاج معالجے کی کوششوں‌ کے لیے مخصوص ہے۔

    یہ سطور اس مرض سے متعلق معلومات اور عام آگاہی کے لیے پیش ہیں۔

    جذام وہ مرض ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے جراثیم پھیلتے ہیں، یہ ایک سے دوسرے کو لاحق ہوتا ہے۔

    طبی سائنس بتاتی ہے کہ مائیکو بیکٹیریم وہ جرثوما ہے جو جذام کی وجہ بنتا ہے۔

    کوڑھ کے مریض کا جسم رفتہ رفتہ گلنے لگتا ہے اور اس سے جسم پر جو زخم نمودار ہوتا ہے، اس میں پیپ پڑ جاتی ہے۔

    کوڑھی یا جذام کے مریض کا گوشت گویا جگہ جگہ سے جھڑنے لگتا ہے۔

    کوڑھی کے جسم سے شدید قسم کی بُو آتی ہے۔

    پاکستان میں یہ مرض 60 کی دہائی میں تیزی پھیلا اور اس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

    ایک وقت تھا جب یہ مرض لاعلاج سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب اس حوالے سے لوگ زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔
    جذام کا علاج طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔

    ماہر ڈاکٹر ایسے مریض کا طبی تجزیوں اور اپنی تشخیص کی بنیاد پر مخصوص دواؤں کے ذریعے علاج شروع کرتے ہیں۔

    پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ چار یا پانچ سو افراد جذام کا شکار ہوتے ہیں جس میں سندھ سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔

  • ڈاکٹر رتھ فاؤ ۔ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

    ڈاکٹر رتھ فاؤ ۔ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

    پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے مسیحا ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے۔

    ڈاکٹر رتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپ زگ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں پاکستان آئیں اور پھر جذام کے مریضوں کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔

    وہ جذام کے مریضوں کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کرتی تھیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سنہ 1996 میں پاکستان کو کوڑھ کے مرض پر قابو پالینے والے ممالک میں شامل کرلیا گیا اور پاکستان کو یہ اعزاز دلانے میں ڈاکٹررتھ فاؤ نے سب سے اہم کردار اداکیا۔

    مزید پڑھیں: ڈاکٹر رتھ فاؤ پر لکھی گئی کتابیں

    ڈاکٹر رتھ فاؤ جذام کے مریضوں کی مسیحائی کرنے کے لیے سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور شمال میں دور دراز علاقوں میں بھی گئیں اورایسے مریضوں کے لیے ادویات فراہم کیں اور اسپتال بنائے جو اس مرض کا علاج کروانے سے قاصر تھے۔

    اس مقصد کے لیے ڈاکٹر رتھ پاکستان سے باہر بالخصوص جرمنی سے چندے کی رقم اکٹھی کیا کرتی تھیں۔

    انسانیت کی اس عظیم خادمہ کو 1998 میں اعزازی پاکستانی شہریت دی گئی جبکہ انہیں ہلال امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ہلال پاکستان اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    لاکھوں مریضوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی۔

    ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق سرخ جوڑے میں قومی اعزاز کے ساتھ کراچی کے مسیحی قبرستان میں کی گئی۔

  • جذام کے مریضوں کی مسیحا’ڈاکٹررتھ فاؤ‘ہم میں نہ رہیں

    جذام کے مریضوں کی مسیحا’ڈاکٹررتھ فاؤ‘ہم میں نہ رہیں

    کراچی : جذام کے مریضوں کے لیے مسیحا‘ میری ایڈیلیڈ سوسائٹی کی سربراہ ڈاکٹر رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئیں۔

    تفصیلات کےمطابق جذام کے مریضوں کے لیے کام کرنےوالی ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئیں،ان کی عمر 87 سال تھی۔ ان کا اانتقال رات ساڑھے 12 بجے ہوا۔

     ڈاکٹر رتھ فاؤ9 ستمبر1929 کو جرمنی کے شہر لیپ زگ میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں پاکستان آئیں اور پھر جذام کے مریضوں کے لیے اپنی  ساری زندگی وقف کردی تھی۔ وہ جذام کو مریضوں کو مفت سہولیات فراہم کرتی تھیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 1996ء میں پاکستان کو کوڑھ کے مرض پر قابو پالینے والے ممالک میں شامل کرلیا گیا اور پاکستان کو یہ اعزاز دلانے میں ڈاکٹررتھ فاؤ نے سب سے اہم کردار اداکیا۔


    صدرممنون حسین کا ڈاکٹر رتھ فاؤ کے انتقال پر افسوس کا اظہار


    صدرممنون حسین نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کے انتقال پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جذام کے خاتمےکےلیے ڈاکٹررتھ فاؤکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

    صدر پاکستان نے کہا کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی عظیم خدمت کی روایت کوقائم رکھاجائےگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے خدمت انسانیت کےلیے اپنا وطن چھوڑا۔


    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ڈاکٹر رتھ فاؤ کے انتقال پر اظہار افسوس


    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈاکٹررتھ فاؤ کےانتقال پرتعزیتی پیغام میں کہا کہ رتھ فاؤجرمنی میں پیداہوئیں لیکن ان کا دل پاکستان کےساتھ رہا۔

    وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ڈاکٹررتھ فاؤقیام پاکستان کےکچھ عرصےبعد یہاں آگئیں اور انہوں نے کام کے دوران پاکستان کواپنا گھرسمجھا۔

    شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ رتھ فاؤ کوجرات اوروفاداری پریاد رکھا جائے گا، رتھ فاؤ نے بیماری سے متاثرہ افراد کی زندگیاں بہتربنانے کے لیے کام کیا۔


    ڈاکٹررتھ فاؤ کے لئے جرمنی کا اعلیٰ ترین اعزاز


    وہ سندھ سرحد، بلوچستان اور شمال میں دور دراز علاقوں میں بھی گئیں اورایسے مریضوں کے لیے ادویات فراہم کیں اوراسپتال بنائے جو کہ اس مرض کاعلاج کرانے سے قاصرتھے اوراس مقصد کے لئے وہ پاکستان سے باہربالخصوص جرمنی  سے چندے کی رقم اکٹھے کیا کرتی تھیں۔

    انسانیت کی اس عظیم خادمہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کو1998 میں اعزازی پاکستانی شہریت دی گئی جبکہ انہیں ہلال امتیاز، ستارہ قائد اعظم ، ہلال پاکستان اورلائیو اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    میری ایڈیلیڈ سوسائٹی آف پاکستان کی سربراہ اورملک میں جذام کےمرض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی جرمن خاتون ڈاکٹررتھ فاؤ کی گزشتہ کئی ماہ سے طبیعت ناساز تھی، وہ 2 ہفتے سےکراچی کے نجی اسپتال میں زیرعلاج تھیں۔

    پاکستان کے شہریوں کی عظیم محسنہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات 19 اگست کوکراچی کے علاقےصدر میں واقع سینٹ پیٹرکس چرچ میں ادا کی جائیں گی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔