Tag: جراثیم

  • ہاف فرائی انڈے کھانے والے ہوشیار

    ہاف فرائی انڈے کھانے والے ہوشیار

    صبح کی پہلی غذا کے لیے عموماً انڈا بہترین سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر آپ انڈے کو فرائی کر کے کھانے کے عادی ہیں تو پھر آپ کو اس کے خطرے سے آگاہ ہونا چاہیئے۔

    انڈا ایک مکمل غذا ہے اور دنیا کی بڑی آبادی کی صبح کی پہلی غذا بھی یہی ہے۔ اسے مختلف طرح سے پکایا جاتا ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اکثر فرائی کیا ہوا انڈا کچی زردی کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچی زردی اگرچہ مزیدار ہوتی ہے لیکن اس میں سب سے بڑا خطرہ سالمونیلا کا ہے۔

    سالمونیلا ایک بیکٹیریا ہے جو آلودہ پانی اور غذا میں پایا جاتا ہے جو کئی طرح کی بیماریوں جیسے اسہال، بخار، سردی لگنا اوربعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ شدید علامات کے طور پر سامنے آتا ہے۔

    سالمونیلا کچے یا کم پکے ہوئے کھانوں میں پکے ہوئے اجزا کے مقابلے میں زیادہ عام ہے۔ جانوروں سے حاصل شدہ کوئی بھی غذا جیسے انڈے، مرغی، گائے کا گوشت اور مچھلی کے سالمونیلا سے آلودہ ہونے کا قوی امکان ہے۔

    ماہر غذائیات کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی بھی غذا کو کھانا محفوظ نہیں ہے اگر وہ کچی یا کم پکی ہوئی ہوں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب انڈے کو فرائی کریں تو اسے کم از کم 2 سے 3 منٹ تک پکائیں، جب آپ فرائی پین کو ہلائیں تو انڈے کی سفیدی کو ہلنا نہیں چاہیئے، اور جیلی جیسی سفیدی باقی نہیں رہنی چاہیئے۔ زردی کو بالکل بھی کچا نہیں رہنا چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق ٹوٹے ہوئے خول والے انڈوں کو ضائع کرنا ضروری ہے، اگر آپ اپنے انڈے کسی فارم سے حاصل کرتے ہیں، تو انڈے پکانے سے پہلے انہیں اچھی طرح دھولیں، آخر میں، بیکٹیریا کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کچے انڈوں کو محفوظ کرنے سے پہلے اور بعد میں اپنے ہاتھ دھو لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچی یا کم پکی ہوئی زردی عموماً صحت مند بالغ افراد کے لیے محفوظ ہوتی ہے، تاہم حاملہ خواتین، 5 سال سے کم عمر بچے، اور وہ لوگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو انہیں کچی زردی کھانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

  • ایسے ہیڈ فونز جو خود بخود صاف ہوجائیں

    ایسے ہیڈ فونز جو خود بخود صاف ہوجائیں

    کرونا وبا کے بعد سے صحت عامہ اور صفائی ستھرائی پر عالمی سطح پر پرزور توجہ دی جارہی ہے۔ اسی لیے ہائی ٹیک کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ مفید صحت بنانے کی دوڑ میں ہیں۔

    ایل جی کمپنی نے جدید سسٹم سے لیس ہیڈ فونز بنائے ہیں، ایل جی کے یہ ایسے ہیڈ فونز ہیں جو اپنی سطح پر لگے جراثیم کا خود ہی صفایا کردیتے ہیں۔

    ایل جی ٹون فری نامی ہیڈ فونز میں ایسا جدید سسٹم نصب ہے جو انہیں اپنی سطح پر لگے جراثیم کی خود کار صفائی کا حامل بناتا ہے، جراثیم کی صفائی کا عمل الٹرا وائلٹ سسٹم کے ذریعے ہوتا ہے۔

    صفائی کا عمل بھی انتہائی آسان اور بغیر کسی جھنجھٹ کے ہے، ہیڈ فونز کو جب چارجنگ کیس میں رکھا جاتا ہے تو الٹرا وائلٹ سسٹم کی مدد سے صفائی کا عمل خود بخود شروع ہو جاتا ہے۔

    اس کی چارجنگ ٹائمنگ بھی اچھی ہے، صرف 5 منٹ کی چارجنگ میں آپ 1 گھنٹے تک ہیڈ فونز استعمال کر سکتے ہیں جبکہ مکمل چارجنگ پر یہ 24 گھنٹے تک سروس دے سکتے ہیں۔

  • ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    واشنگٹن: طبی سائنس دانوں‌ نے ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بایوفوٹونکس نامی جرنل میں شایع شدہ ایک مقالے میں محققین نے کہا ہے کہ بہت تھوڑی دیر کے لیے اگر سخت جان بیکٹیریا اور جراثیموں پر لیزر شعاعیں ماری جائیں تو وہ مر سکتے ہیں۔

    انھوں نے اس طریقے کو short-term pulse laser (قلیل مدتی پلس لیزر) کہا ہے، اس کے ذریعے ناقابل علاج بیکٹیریا (سپربگز) اور دیگر ایسے جراثیم ختم کیے جا سکتے ہیں جو کسی بھی طرح تلف نہیں ہوتے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے اس طریقے کے ذریعے زخموں کو جراثیموں سے پاک کیا جا سکتا ہے، اور خون کے نمونوں میں بھی بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ چوں کہ یہ عمل ایک مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس سے صحت مند خلیات کو نقصان نہیں پہنچتا۔

    تحقیق سے وابستہ پروفیسر شا وائی ڈیوڈ سین کہتے ہیں کہ ہم لیزر کی بدولت سخت جان بیکٹیریا کو ختم کر کے زخم سے انفیکشن کا خطرہ کم سے کم کر سکتے ہیں، اور خون میں بھی لیزر ڈال کر اسے بیماریوں سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ خون میں جراثیم کا مسئلہ ڈائیلاسز کے مریضوں میں زیادہ پایا جاتا ہے، اب صرف ایک ہی بار پورے خون پر لیزر مار کر اسے صاف ستھرا اور مریض دوست بنانا ممکن ہو گیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اسے مشہور اور بدنام بیکٹیریا ایم آر ایس اے پر آزمایا گیا جس کا پورا نام ملٹی ڈرگ ریسسٹنٹ اسٹیفلوکوکس اوریئس ہے، یہ جلد سے پھیپھڑوں تک کے انفیکشن کی وجہ بنتا ہے۔ دوسری جانب لیزر سے ای کولائی بیکٹیریا کو بھی مارا گیا جو پیشاب کی نالی میں انفیکشن پیدا کرتا ہے۔

    تمام کیسز میں لیزر 99.9 فی صد جراثیم اور بیکٹیریا کو تباہ کر دیتی ہے۔

  • دماغ کھانے والا نیگلیریا کس طرح حملہ آور ہوتا ہے؟

    دماغ کھانے والا نیگلیریا کس طرح حملہ آور ہوتا ہے؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں دماغ کھانے والا جراثیم نیگلیریا ایک بار پھر متحرک ہوگیا، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جراثیم کیا ہے اور کس طرح اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں نیگلیریا پھر سے سر اٹھانے لگا، ملیر کے ایک فارم ہاؤس میں سوئمنگ پول میں نہانے والے 5 افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے جن میں 8 سالہ بچہ بھی شامل تھا۔

    جناح اسپتال کے فزیشن ڈاکٹر محمد عمر سلطان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر عمر نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ تک پہنچ کر اسے کھانا شروع کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2 سے 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • کرونا وائرس کو ختم کردینے والا فلٹر

    کرونا وائرس کو ختم کردینے والا فلٹر

    امریکی ماہرین نے ایسا فلٹر بنانے کا دعویٰ کیا ہے جو کرونا وائرس کو پکڑ کر ختم کرسکتا ہے، ماہرین اس فلٹر کا ایک ڈیسک ٹاپ ماڈل بنانے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

    امریکی ریاست ٹیکسس میں یونیورسٹی آف ہیوسٹن کے ماہرین نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر یہ فلٹر تیار کیا ہے اور اسے ایک ٹریپ قرار دیا ہے۔

    فلٹر کے ٹیسٹ کے دوران دیکھا گیا کہ کرونا وائرس جب نکل فوم سے بنے ہوئے فلٹر سے گزرا تو ایک ہی دفعہ میں اس کا 99.8 فیصد حصہ 392 ڈگری فارن ہائیٹ کے باعث جل گیا۔

    ماہرین کے مطابق یہ فلٹر ایئرپورٹ، طیاروں، بحری جہازوں، دفاتر اور اسکولز کے لیے کارآمد ہوسکتا ہے۔

    اس فلٹر کو نکل فوم سے بنایا گیا ہے اور ابتدا میں نکل فوم کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے حرارت کو کم رکھا گیا لیکن اس سے وہ وائرس کو ختم کرنے کے لیے وقت لینے لگا، تاہم اس کا حل فوم کی موٹی تہہ سے نکالا گیا۔

    نکل فوم کی موٹی تہہ نصب کرنے کے بعد درجہ حرارت کو بڑھایا گیا جس کی وجہ سے اس فلٹر کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوا۔

    ماہرین نے اس نوعیت کا ایک ڈیسک ٹاپ ماڈل بنانے کی بھی تجویز پیش کی ہے جو فوری طور پر صرف ایک شخص کے ارد گرد کی ہوا کو صاف کردے گا۔

    فی الحال یہ فلٹر ان مقامات کو فراہم کیا جائے گا جو موجودہ حالات میں اہم ہیں جیسے اسپتال اور ہیلتھ کیئر مراکز۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح ایسے فلٹرز کو اسکولوں میں نصب کرنا ہے تاکہ ننھے بچے کرونا وائرس سے محفوظ رہیں۔

  • مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔

    ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔

    دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔


    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔

    چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟

    وائرس کو جگانے کے تجربات

    اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟

    یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔

    سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔

    سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔

    فیل پیکر

    اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔

    فروری 2017 میں ناسا کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی میکسیکو میں کرسٹل کے ایک غار میں انہیں 10 سے 50 ہزار سال قدیم جرثومے ملے ہیں۔

    شمالی میکسیکو کا غار

    یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔

    بیماریوں کا پنڈورا بکس

    فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔

    کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔

  • لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ انیسویں صدی کے وسط تک طب و صحت کی دنیا میں جراثیم کی وجہ سے کسی زخم یا آلاتِ جراحی کے آلودہ ہو جانے سے بیماریاں‌ پھیلنے اور اس کے نقصان دہ ثابت ہونے کا تصور نہ تھا۔

    عام آدمی تو دور کی بات خود معالجین پانی سے ہاتھ دھونے اور خاص طور پر مرہم پٹی کے بعد کھانے پینے یا دوسرے کاموں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح‌ دھونے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ عمل ایک فطری اور طبعی عادت سے زیادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر جراثیم یا خرد بینی جاندار ہیں‌ بھی تو پانی سے ہاتھ یا آلات کو دھونے سے ختم نہیں‌ ہوسکتے۔

    چوں‌ کہ جراثیم اور گندگی سے بچنے پر زور دینے کو اضافی یا غیرضروری یا وہم اور مفروضہ مانا جاتا تھا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا صاف ستھرا رہنا، نہانا دھونا ایک فطری خواہش، جسمانی تقاضا اور عام بات تھی۔

    اگر کسی شخص کا زخم علاج کے باوجود پھیلتا اور ٹھیک نہ ہوتا تو آلودہ ہوا کو اس کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی بیماری یا جسمانی تکلیف بڑھ سکتی ہے اور جان بھی جاسکتی ہے۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان تھا۔ خصوصاً وارڈ، مریض کا بیڈ، طبی آلات کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔

    معالج اور سرجن بھی اپنے ہاتھ اور جراحی کے آلات نہیں دھوتے تھے۔ خون آلود ہاتھوں اور استعمال شدہ طبی آلات سے ایک کے بعد دوسرے مریض کا علاج یا آپریشن شروع کر دیا جاتا تھا۔ جراثیم کُش محلول تو ایک طرف معالجین میں‌ صابن جیسی کسی شے کے استعمال کا تصور تک نہ تھا۔

    طبی سائنس نے کچھ ترقی کی تو مریضوں کو بے ہوش کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا اور ایک روز میڈیکل سائنس کے ایک طالبِ علم جوزف لسٹر نے دنیائے طب میں جراثیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ‘‘اینٹی سیپٹک’’ طریقہ متعارف کرایا۔

    1883 میں اس نے طبی سائنس اور ماہرین کی توجہ حاصل کی اور بعد میں جراثیم سے متعلق مستند تحقیق اور سرجری کے حوالے سے اس کا خوب شہرہ ہوا۔

    لسٹر نے زخموں کا سائنسی طرز پر مشاہدہ کیا اور لوئی پاسچر کے خرد بینی جانداروں کے مفروضے کا بغور مطالعہ کیا۔

    جوزف لسٹر نے لوئی پاسچر کے جراثیم سے متعلق تصور پر تحقیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر زخموں‌ کو جراثیم خراب کرتے ہیں‌ تو ان کو کیمیائی طریقے سے مارا بھی جاسکتا ہے۔

    اس کے لیے لسٹر نے ایک تجربہ کیا اور کاربولک ایسڈ (فینول) استعمال کیا۔

    اسی دوران لسٹر کو ایک سات سالہ بچے کی شدید زخمی ٹانگ کا علاج کرنا پڑا اور اس نے زخم کی بدبُو، اسے مزید سڑنے اور پیپ وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے تجربہ کیا جو کام یاب رہا۔ بچے کے زخم بھی جلد ہی مندمل ہو گئے۔

    یہ میڈیکل سائنس کی ایک زبردست اور نہایت مفید کام یابی تھی جس پر لسٹر نے باقاعدہ مقالہ لکھا اور یوں جراحی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اب آپریشن تھیٹرز میں صفائی اور علاج کے دوران جراثیم کو مارنے اور دوسری گندگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔ ان میں دستانے اور لیب کوٹ، آلات کو دھونا، آپریشن ٹیبل کی مخصوص محلول سے صفائی جیسے اقدامات شامل تھے۔

    جوزف لسٹر کو دنیائے طب کا ایک عظیم مسیحا اور انسانوں کا محسن کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا، جہاں آج بھی ان کے نام پر کئی اسپتال اور میڈیکل کالجز قائم ہیں جب کہ دنیا بھر میں لسٹر کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں اور طب کے شعبے کے متعدد ایوارڈ لسٹر سے منسوب ہیں۔

  • ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور کے سبب امریکا اور دیگر ممالک میں اموات کے بعد طبی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ریت میں پائے جانے والے جراثیم میں سے ایک ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتا اور انسانی جسم میں داخل ہو کر اسے بخار میں مبتلا کر دیتا ہے۔

    اس بخار کی ابتدائی علامات میں سینے میں درد اور کھانسی شامل ہے۔ یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بر وقت تشخیص اور علاج سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر صحرائی علاقوں میں پائی جانے والی بیماری ہے۔

    اس مرض کی دیگر عام علامات میں سردی لگنا، نیند کے دوران پسینے آنا، جسمانی تھکن اور جسم پر سرخ دھبے ظاہر ہونا ہیں۔ مرض بگڑنے کی صورت میں بخار کے ساتھ وزن میں کمی، کھانسی اور بلغم کے ساتھ خون آنے لگتا ہے۔

    یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرین کی تحقیق کہتی ہے کہ ویلی فیور کی وجہ دراصل ایک قسم کی پھپھوندی ہے جو ریت میں موجود ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تعمیراتی شعبے، زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہر سال اموات کی ایک وجہ ویلی فیور بھی ہے۔ امریکا میں 1995 میں ویلی فیور میں مبتلا افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی، جب کہ 2011 میں یہ تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ طبی محققین کے مطابق ویلی فیور کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے ابتدائی کیسز 50 کی دہائی میں سامنے آئے تھے۔

  • کھانے سے قبل پھل کو دھونا کتنا ضروری ہے؟

    کھانے سے قبل پھل کو دھونا کتنا ضروری ہے؟

    کیا آپ پھل کھانے سے قبل انہیں دھوتے ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا آپ کو بہت سے خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    فوڈ سیفٹی ماہرین کے مطابق کھانے سے قبل پھلوں کو دھو لینا ان پر لگے جراثیموں اور دھول مٹی سے جان چھڑانے کا آسان طریقہ ہے۔

    بعض افراد ان پھلوں کو نہیں دھوتے جن کا اندرونی حصہ کھایا جاتا ہے جیسے کہ تربوز، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے پھلوں کی بیرونی سطح پر ننھے سوراخ یا پورز ہوتے ہیں جن سے یہ جراثیم اندر داخل ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ پھلوں کو کھلے ہوئے نل کے نیچے رکھ کر انہیں ہلکا سا رگڑا جائے۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پھلوں کو دھونا بھی اس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ آیا یہ پھل کھانے کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہوگئے ہیں یا نہیں، البتہ جراثیموں سے بچنے کی ایک فائدہ مند کوشش ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔