Tag: جرمنی کی خبریں

  • جرمن حکومت مساجد پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولنے لگی

    جرمن حکومت مساجد پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولنے لگی

    برلن: جرمن حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور قدم اٹھانے کی تیاری کر لی، مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولے جانے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن حکومت نے مسجدوں پر ٹیکس لگانے پر غور شروع کر دیا ہے، جرمنی کے بعض مسلمان رہنما بھی اس ٹیکس کے حامی نکل آئے۔

    [bs-quote quote=”جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دے رہی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جرمن پارلیمنٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ ملک بھر میں موجود مسجدوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس نیٹ میں آنے سے مساجد غیر ملکی امداد سے آزاد ہو جائیں گی۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دے رہی ہے، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی نے مساجد پر ٹیکس کو اہم ترین قدم قرار دے دیا۔

    اتحادی حکومت کے ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ مسجدوں کو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک میں بنیاد پرستانہ نظریات کو فروغ ملنے کا خدشہ ہے۔

    اتحادی حکومت کا حصہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی مساجد پر ٹیکس کی تائید کر دی ہے، ایس پی ڈی نے مساجد پر ٹیکس کو قابلِ بحث موضوع قرار دیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  جرمنی: مساجد کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روک دیا گیا


    جرمن حکام کو ترکش اسلامک یونین فار ریلیجیئس افیئرز نامی تنظیم پر تحفظات ہیں، حکام اس کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں، یہ تنظیم ترک حکومت کی امداد سے چلتی ہے۔

    جرمنی کے شہر برلن میں ’ترقی پسند مسجد‘ بھی قائم ہو چکی، ترقی پسند مسجد کی بنیاد رکھنے والے مسلم رہنما نے بھی ٹیکس کی حمایت کر دی ہے، کہا مسلمانوں کو ٹیکس کے ذریعے اخراجات خود برداشت کرنے ہوں گے۔

  • جرمنی: افغان مہاجرین کی ملک بدری جاری، مزید 14 افغان ملک بدر

    جرمنی: افغان مہاجرین کی ملک بدری جاری، مزید 14 افغان ملک بدر

    فرینکفرٹ: جرمنی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل جاری ہے، ایسے مزید 14 افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا گیا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے افغان تارکینِ وطن کے ساتھ سخت گیر رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مزید 14 افغان ملک بدر کر دیے گئے۔

    [bs-quote quote=”اب تک 439 افغان مہاجرین کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے منگل کے روز ملک بدر کیے جانے والے افغان شہری آج کابل پہنچ گئے ہیں۔

    ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں نے جرمن حکومت کو پناہ کی درخواستیں دی تھیں جو مسترد کر دی گئیں۔ افغان حکام نے بھی شہریوں کے ایک جرمن پرواز کے ذریعے کابل پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔

    واضح رہے کہ جرمنی 2016 سے اب تک یہ 19 واں گروپ ہے جسے ملک بدر کر چکا ہے، اعداد و شمار کے مطابق 439 افغان مہاجرین کو اب تک ملک بدر کیا جا چکا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  جرمنی: مساجد کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روک دیا گیا


    دوسری طرف جرمنی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے، ناقدین کا مؤقف ہے کہ طالبان اور داعش کے مسلسل حملوں کے باعث افغانستان محفوظ ملک نہیں رہا ہے۔

    جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں مایوسی پھیل رہی ہے، رواں برس جولائی میں جرمنی میں 8 برس سے رہائش پذیر ایک افغان نے ملک بدر کیے جانے پر خود کشی کر لی تھی۔

  • جرمنی: مساجد کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روک دیا گیا

    جرمنی: مساجد کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روک دیا گیا

    برلن: جرمن وزیرِ داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے مساجد کے منتظمین کو غیر ملکی عطیات کی وصولی سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس سلسلے کو ترک کر دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن وزیرِ داخلہ نے مساجد کے منتظمین سے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی عطیات کی وصولی چھوڑ کر خود انحصاری پر عمل شروع کریں۔

    [bs-quote quote=”ہورسٹ زیہوفر نے جرمن دارالحکومت برلن میں چوتھی ’اسلام جرمن کانفرنس‘ کی صدارت کی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ہورسٹ زیہوفر نے یہ بات گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن میں چوتھی ’اسلام جرمن کانفرنس‘ کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

    جرمن وزیرِ داخلہ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ اس ملک میں مسلمانوں کو بھی باقی جرمن شہریوں جیسے ہی حقوق حاصل ہیں اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

    خیال رہے کہ اس کانفرنس کا مقصد جرمنی میں مقیم مسلمانوں کی ملک میں سماجی شرکت اور حکومتی نمائندوں کے ساتھ مکالمے کو فروغ دینا تھا۔

    دوسری طرف جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت کے سینیئر رکن نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  جرمنی: مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ


    جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کے ایک سینیئر کارکن اشٹیفان کوئنیگر نے پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

    پارٹی چھوڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی جماعت مرکزی مؤقف سے ہٹ کر اب انتہائی دائیں بازو کی جماعت بن چکی ہے۔

    خیال رہے کہ جرمنی میں مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز رویّوں اور تعصب پسندانہ سوچ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث مسلمانوں کو خطرات لاحق ہیں۔

  • جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے جنگ ِعظیم دوئم میں اس وقت کی نازی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایذا رسانی کیمپ کے بزرگ گارڈ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں 94 سالہ بزرگ شہری کے خلاف دائر ہونے والا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہوگا، جنگ ِعظیم کو ختم ہوئے 70 سال سے زائد ہوچکے ہیں۔

    یورپ کے مقامی میڈیا ذرائع کے مطابق یہ شخص جس کی عمر اب 94 سال ہے جنگ عظیم کےد وران اسٹیتھوف نامی نازی ایذا رسانی کیمپ کا گارڈ تھا اور وہاں ہونے والے تمام جنگی جرائم کے طریقہ کار اور واقعات سے واقف تھا ۔ یاد رہے کہ یہ کیمپ اب جرمنی کے بجائے پولینڈ کی حدود میں آتا ہے۔

    عدالت کی جانب سے اس شخص کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے لیکن ڈائی والٹ نامی جریدے کے مطابق ا س شخص کا نام جان آر ہے ،اور وہ ایک زمانے میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سرکاری حکام کے تحت کام کرچکا ہے۔

    اس بزرگ شخص پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ گارڈ کی حیثیت سے وہ اس کیمپ میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں قیدیوں کی ہلاکت میں بطور آلہ ٔ کار شامل رہا۔ جن میں سو سے زائد پولش قیدی بھی شامل ہیں جنہیں سنہ 1944 کی 21 اور 22 جون کو گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔

    جنگ عظیم کے دوران اس گارڈ کی عمر 18 سے 20 سال تھی اور یہ ان کیمپوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں شامل تھا۔ نجانے کتنوں کو گیس چیمبر کے سپرد کیا گیا، گولی ماری گئی یا پھر بھوکا مرنے کےلیے چھوڑدیا گیا ۔

    بتایا جارہا ہے کہ گارڈ پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جائے گا ، اس وقت اس کی عمر 21 سال سے کم تھی اور قانون کے تحت 21 سال سے کم عمر والے افراد کا مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلتا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس شخص کی یاد داشت حیرت انگیز طور پر کام کررہی ہے تاہم وہ کیمپ کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ جاننے سے انکاری ہے ، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ شخص شریکِ جرم ثابت ہوا تو اسے 15 سے 20 سال کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔

  • بھڑ کے کاٹے کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرنے پر اساتذہ کو جرمانہ

    بھڑ کے کاٹے کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرنے پر اساتذہ کو جرمانہ

    برلن: جرمنی میں دو اساتذہ نے بھڑ کے کاٹے کا علاج کانٹا گرم کر کے زخم پر لگا کر کیا، جس پر انھیں مجموعی طور پر ساڑھے پانچ ہزار یورو کا جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ’گھریلو ٹوٹکا‘ آزمانا دو اساتذہ کو بہت مہنگا پڑ گیا، مرد اور خاتون ٹیچر نے بھڑ کے کاٹے کا علاج اپنے طریقے سے کرنے کی کوشش کی جس نے انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کروا دیا۔

    مذکورہ واقعے کے بارے میں مقامی اخبار نے بتایا کہ یہ مئی 2017 میں پیش آیا تھا، اسکول کے بچے پڑوسی ریاست رائن لینڈ پلاٹینٹ کے دورے کے دوران ایک ’یوتھ ہاسٹل‘ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

    ہاسٹل میں ایک چودہ سالہ بچے کو بھڑ نے کاٹ لیا جس پر جرمنی کے صوبے ہیسے سے تعلق رکھنے والے دونوں اساتذہ نے اس پر فوری طور پر اپنا اپنا ٹوٹکا آزمایا۔

    انتالیس سالہ مرد استاد نے ایک لائٹر کے ذریعے ایک کانٹے (فورک) کو گرم کیا اور کاٹے کے مقام پر رکھ دیا، جب کہ چالیس سالہ خاتون ٹیچر نے زخم کو چیرا اور کریم لگا دی۔


    یہ بھی ملاحظہ کریں: شہد کی مکھیوں میں لپٹے سعودی شہری کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل


    گھریلو ٹوٹکا آزمائے جانے سے بچے کے زخم میں انفیکشن ہو گیا، اس کے وکیل نے ایک اور اعتراض بھی کیا کہ اس کے مؤکل کو کافی دنوں تک دستانے بھی پہننے پڑے۔

    جب کیس ضلعی عدالت میں پہنچا تو جج نے سماعت کے بعد مرد ٹیچر کو تین ہزار جب کہ خاتون ٹیچر کو ڈھائی ہزار یورو کا جرمانہ کر دیا۔

    خیال رہے کہ بھڑ کے کاٹے کے علاج کے طور پر ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ ڈنک جسم سے فوری طور پر نکال لیا جائے اور اس جگہ برف یا کوئی دوسری ٹھنڈی چیز رکھی جائے، یورپ اور امریکا میں بھی عموماً یہی علاج کیا جاتا ہے۔

  • جرمنی میں ہرشخص کو جسمانی اعضا کا ڈونر قراردینے پرغور

    جرمنی میں ہرشخص کو جسمانی اعضا کا ڈونر قراردینے پرغور

    بون: جرمنی کی وزارتِ صحت کی جانب سے ملک میں جسمانی اعضا کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش ِ نظر ملک کے ہر شہری کو اعضا کا عطیہ کنندہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے وزیر صحت جین سپاہن کوشش کررہے ہیں کہ ان کا ملک جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آپٹ آؤٹ پالیسی ( ہر شخص اعضا ء کا ڈونر) اختیار کرلے۔

    مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس پالیسی کے حق میں ہیں جس کی وجہ رواں سال جسمانی اعضا ء کے ڈونرز کا تاریخ کی کم ترین شرح پر ہونا ہے جبکہ سائنس کے میدان میں ہونے والی روز افزوں ترقی کے سبب جسمانی اعضا ء کی ڈیمانڈ روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

    آپٹ آؤٹ پالیسی میں ہر شخص کو اعضاء کا عطیہ کنندہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کی موت پر قابل استعمال اعضاء نکال لیے جاتے ہیں تا آنکہ وہ شخص از خود اس بات کا قانونی طریقے سے اظہار نہ کرے کہ موت کےبعد اس کے اعضاء نہ نکالے جائیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانا ہوگا کہ وہی اس بات پر بحث کرنے کی سب سے مناسب جگہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ ہر آٹھ گھنٹے میں ایک ایسا مریض انتقال کرجاتا ہے جو کہ جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کسی عطیہ کنندہ کا منتظر ہوتا ہے ، ابھی بھی دس ہزار لوگ انتظار کی فہرست میں موجود ہیں۔

    جرمنی کی اعضا پیوند کاری کرنے والی فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال صرف 797 افراد نے اعضا عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن کرائی اور محض 2،594 اعضا لگائے جاسکے جبکہ دس ہزار لوگ اعضا کا انتظار کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ یورپ کے کئی ممالک جیسا کہ آسٹریا ، بیجلئم، کروشیا، اسٹونیا ، فن لینڈ، فرانس ، یونان ، ہنگری ، اسپین ، نیدر لینڈ ، روس اور ترکی پہلے ہی یہ نظام اپنا چکے ہیں تاہم ان میں سے کچھ ممالک میں ڈونر کے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر ڈونر نے اپنے اعضا سے متعلق وصیت نہیں کی تو وہ اس معاملے میں فیصلہ کرسکیں۔

  • ہیمبرگ : جرمن شہری کی فائرنگ سے افغان مہاجر قتل

    ہیمبرگ : جرمن شہری کی فائرنگ سے افغان مہاجر قتل

    برلن : جرمنی میں افغان نژاد جرمن شہری نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر فائرنگ کرکے افغان تارک وطن کو قتل کردیا، پولیس نے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک روز قبل مشتبہ شخص نے فائرنگ تارکین وطن پر فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک افغان مہاجر موقع پر ہلاک ہوگیا تھا، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مشتبہ شخص کو فوری گرفتار کرلیا۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمن شہری کی فائرنگ سے قتل ہونے والے افغان شہری کی عمر 26 برس بتائی جارہی ہے، تاہم افغانی نوجوان کے قتل کی وجوہات معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ البتہ پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ افغان مہاجر کو قتل کرنے والا حملہ آور افغان نژاد جرمن شہری ہے۔

    جرمن پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول ہیمبرگ کے فٹنس کلب سے باہر آیا تو پارکنگ ایریا میں پہلے موجود حملہ آور پر نے فائرنگ کرکے افغان مہاجر کو ہلاک کردیا، جس کے گاڑی میں فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا مگر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے حملہ آور کو حراست میں لے کر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ منظم مجرمانہ کارروائی ہے، جس کی تفتیش جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • تارکین وطن کی آمد کے معاملے پر جرمن حکومتی بحران کا حل نکل آیا

    تارکین وطن کی آمد کے معاملے پر جرمن حکومتی بحران کا حل نکل آیا

    برلن: جرمن چانسلر انگیلا مرکل تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے حکومتی بحران کے حل تک پہنچ گئیں، جس سے ان کی چار ماہ کی اتحادی حکومت ٹوٹنے سے بچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زھیوفر جو کہ باویریا کے کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو)  کے سربراہ بھی ہیں، اپنے استعفے کی دھمکی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

    انگیلا مرکل اس بات پر راضی ہوگئی ہیں کہ آسٹریا کے ساتھ سرحد پر کنٹرول سخت تر کیا جائے تاکہ ان لوگوں کو جرمنی میں داخل ہونے سے روکا جائے جنھوں نے یورپی یونین کے دیگر ممالک میں پناہ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔

    کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی سربراہ انگیلا مرکل اور حلیف جماعت کرسچن سوشل یونین کے سربراہ ہورسٹ زھیوفر کے درمیان طویل مذاکرات کی کام یابی کے بعد یہ طے ہوا ہے کہ سرحد پر ٹرانزٹ مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ تارکین وطن کو واپس بھیجا جاسکے۔

    مرکل نے اس ڈیل کو تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد ایک اچھی مصالحت قرار دیا ہے، تاہم جرمن مخلوط حکومت کی تیسری جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے ایک بار پھر اس تصفیے پر اعتراض کر دیا ہے۔

    انجیلا مرکل وزارت داخلہ سے خوش نہیں تو اتحادی حکومت ختم کردیں، جرمن وزیر داخلہ زیہوفر


    ایس پی ڈی کے ترجمان برائے مہاجرت عزیز بزکرٹ نے کہا ہے کہ اتحادی معاہدے میں ٹرانزٹ سینٹرز کا قیام شامل نہیں ہے، خیال رہے کہ 2015 میں ایس پی ڈی ایسے مراکز کی تعمیر کو مسترد کرچکی ہے۔

    واضح رہے کہ برلن میں چانسلر انگیلا مرکل کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت تین جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع تر مخلوط حکومت ہے، جس میں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی شامل ہیں۔

    مرکل اور زھیوفر کے مابین اس بات پر تنازعہ تھا کہ تارکین وطن کے ایک خاص طبقے کو قومی سرحدوں سے واپس بھیجا جائے یا نہیں، جرمن چانسلر کو یہ بات مجوزہ شکل میں قبول نہیں تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یورپ اب کی بارامریکا کی نہیں سنے گا، مرکل نے ٹرمپ کو وارننگ دے دی

    یورپ اب کی بارامریکا کی نہیں سنے گا، مرکل نے ٹرمپ کو وارننگ دے دی

    برلن: جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے جی سیون ممالک کی میٹنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے کو سنگین اور پریشان کن قرار دیتے ہوئے جوابی اقدامات کرنے کی تنبیہہ کردی ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق برلن واپسی پر انجیلا مرکل کا پرزور انداز میں کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حالیہ یو ٹرن کے بعد یورپی ممالک کو خطے میں جاری تجارتی جنگ کا سامن کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مزید قریب آنا ہوگا۔

    ان کا کہناتھا کہ ہم بار بار کسی کو اپنے اوپر مسلط ہونے نہیں دیں گے۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مرکل کا کہنا تھا کہ یورپین یونین امریکا کی جانب سے اسٹیل اور المونیم کی تجارت پر عائد کردہ ٹیرف کے خلاف مدافعتی اقدامات کرے کہ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ یورپین یونین پہلی جولائی کو امریکی ٹریڈ ٹیرف کے خلاف اپنی پالیسی آشکار کرے گا۔

    انہوں نے جی سیون سمٹ میں کیے گئے انتہائی مشکل فیصلے کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے عمل پر بھی ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ بس ایک ہی سائیڈ فاتح ہوتی ہے باقی سب کو ہارنا ہوتا ہے۔ یہ مشکل اور مایوس کن صورتحال ہے تاہم ابھی یہ سب ختم نہیں ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ سے اٹھارہ ماہ تک جاری رہنے والی سیاسی جدوجہد کے بعد انہوں نے یورپ کے اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ آپس میں کام کرنے کے نئے طریقے وضع کیے جائیں اور امریکا کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی کام شروع کیا جائے۔

    انجیلا مرکل نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بحیثیت یورپ اپنے اصولوں پر جاپان اور کینیڈا کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں