Tag: جرمن ادب

  • ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں ہر سڑک کے کنارے، دائیں بائیں، لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے جو شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے۔

    وہ اس کے گھوڑے کو بھی، جھلک بھر، دیکھنے کے تمنائی تھے۔ بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے لیکن ان سے کہیں زیادہ لوگ دوسری، تیسری اور چوتھی صفوں میں ایستادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے، انھیں تو صف بستہ قرار دینا ہی خارج از بحث تھا۔

    چنانچہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ، درشن کو، نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں، اس قدر، بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھیرے میں غائب بھی ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اسی طرح کھنچی کی کھنچی رہ گئیں۔

    لہٰذا اگر کبھی کسی لمبی گردن والے شخص سے ملنے کا اتفاق ہو تو ہمیں چاہیے کہ اسے نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھیں، نہ حیران ہو کر گھوریں۔ وہ انھی لوگوں میں سے کسی کا پوتا پڑ پوتا ہے جن پر شہنشاہ کو دیکھنے کا انوکھا جنون سوار تھا جو بعد ازاں بالکل ہی ناپید ہو گیا اور جس کا محرم ہونا اب ممکن نہیں رہا۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم محمد سلیم الرّحمٰن)

  • ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق، ماہرِ اقبالیات اور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کو برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان سے ان کی محبّت اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے مضمون نگاری کے ساتھ اردو زبان کے کئی ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا جرمن میں ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    وہ متعدد بار پاکستان آئیں جہاں علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ ڈاکٹر شمل 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ان کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوا۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

  • گدھ (ایک تمثیل)

    گدھ (ایک تمثیل)

    ایک گدھ میرے پاؤں پر اپنی چونچ سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ میرے جوتے اور جرابیں وہ پھاڑ چکا تھا۔ اب اس کے حملوں کا ہدف میرے پاؤں تھے۔

    وہ بار بار میرے پاؤں کا گوشت ادھیڑنے کی کوشش کرتا، زمین سے کچھ ہی اوپر بڑی بے چینی سے پرواز کرتے ہوئے میرے ارد گرد ایک چکر لگاتا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔

    ایک شخص وہاں سے گزرا، تو پہلے اس نے کچھ دیر کے لیے یہ سارا منظر دیکھا، پھر مجھے پوچھنے لگا کہ میں اس گدھ کو کیوں برداشت کر رہا تھا۔

    ’’میں تو اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتا،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آیا اور اس نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ میں ظاہر ہے اس کو یہاں سے بھگا دینا چاہتا تھا۔ میں نے تو اس کا گلا دبانے کی بھی کوشش کی لیکن ایسے کسی جانور میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ تو چھلانگ لگا کر میرے چہرے تک آ جانا چاہتا تھا۔ تب میں نے اپنے پاؤں ہی کی قربانی دینا بہتر سمجھا۔ اب تو وہ بھی قریب قریب چیتھڑے بن چکے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے اجازت ہی کیوں دی کہ آپ کو اس طرح اذیت پہنچائی جائے۔‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایک گولی اور گدھ کا کام تمام۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ایسا کرنا چاہیں گے؟‘‘

    ’’بڑی خوشی سے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’مجھے صرف گھر جا کر اپنی بندوق لانا ہو گی۔ کیا آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کر سکتے ہیں؟‘‘

    ’’یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے کہا اور کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو گیا، جیسے میں درد سے پتھرا گیا تھا۔

    پھر میں بولا، ’’براہِ مہربانی، آپ یہ کوشش ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں بس گیا اور آیا۔‘‘

    گدھ یہ ساری گفتگو سکون سے سنتا رہا تھا اور اس دوران اس کی نظریں بار بار میرے اور اس شخص کے درمیان حرکت میں رہی تھیں۔ اسی لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔

    وہ اڑا، رفتار پکڑنے کے لیے تھوڑا سا نیچے ہو کر کافی پیچھے تک گیا اور نیزہ پھینکنے والے کسی کھلاڑی کی طرح اپنی چونچ سے وار کرتے ہوئے میرے منہ کے راستے میرے اندر دور تک اتر گیا۔

    پیچھے گرتے گرتے مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی تمام گہرائیوں کو بھر دینے اور تمام کناروں سے باہر تک پھیل جانے والے خون میں یوں ڈوب گیا تھا کہ وہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔

    (گزشتہ صدی کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک فرانز کافکا کی اس تمثیل کے مترجم مقبول ملک ہیں)