Tag: جرمن شہری

  • سفارتی عملے سمیت 2 سو سے زائد جرمن شہری اپنے وطن روانہ

    سفارتی عملے سمیت 2 سو سے زائد جرمن شہری اپنے وطن روانہ

    اسلام آباد: کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر جرمن سفارتی عملے اور دیگر جرمن شہریوں کی پاکستان سے روانگی کا سلسلہ جاری ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج خصوصی پرواز کے ذریعے 262 جرمن شہری براستہ دوحہ فرینکفرٹ روانہ ہو گئے ہیں، ذرایع کا کہنا ہے کہ جرمنی جانے والوں میں سفارتی عملہ بھی شامل تھا۔

    قطر ایئرویز کی پرواز کیو آر 7482 دوحہ سے خالی طیارہ لے کر اسلام آباد پہنچی تھی، فیری فلائٹ (خالی طیارہ) سے جہاز کے عملے کو باہر آنے کی اجازت نہیں تھی، خالی طیارے کی آنے کی اجازت حکومت پاکستان کی جانب سے خصوصی طور پر دی گئی تھی۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر تمام جرمن شہریوں کو ٹکٹ جاری کیے گئے، اپنے ملک روانہ ہونے والے تمام جرمن شہریوں کو سفارت خانے نے اتھارٹی لیٹر بھی جاری کیے تھے، اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کو خصوصی بورڈنگ کاؤنٹرز کے ذریعے بورڈنگ کارڈ جاری کیے گئے۔

    ایئر پورٹ پر جرمنی جانے والے تمام افراد کی محکمہ صحت کی جانب سے مکمل جانچ پڑتال بھی کی گئی، جدید اسکینر سے اسکریننگ بھی کی گئی، جرمن سفارت خانے کی جانب سے اے ایس ایف، محکمہ صحت اور سی اے اے کا تمام سہولتیں مہیا کرنے پر خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔

  • جرمن شہری ماہانہ آمدن سے بچت نہیں‌ کر پا رہے، تحقیقی جائزہ

    جرمن شہری ماہانہ آمدن سے بچت نہیں‌ کر پا رہے، تحقیقی جائزہ

    دنیا کا ہر انسان جو اپنی ملازمت یا کاروبار سے جو رقم کماتا ہے اس کا ایک بڑا حصّہ اپنے کھانے پینے اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ بھی کرتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں۔ تاہم جرمنی کے شہری بڑھاپے میں غربت اور تنگ دستی کا خطرہ محسوس کررہے ہیں کیوں کہ وہ اپنی ماہانہ آمدن میں سے بچت نہیں کر پارہے۔

    ایک تحقیقی جائزے کے مطابق جرمنی میں ایک چوتھائی شہریوں کی جیب مہینے کے آخر میں خالی ہوتی ہے۔ ملک کے اٹھائیس فی صد عوام ایک مہینے کے پچاس یورو سے زیادہ نہیں بچا پاتے اور بڑھاپے کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں۔

    رواں برس جون میں اس تحقیقی جائزے کے بعد ‘‘یو گوو’’ اور ‘‘سوئس لائف’’ نے بتایا کہ اٹھائیس فی صد جرمن شہری ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ پچاس یورو کی بچت کرپاتے ہیں۔

    اس جائزے میں دو ہزار سے زائد جرمن شہریوں سے ان کے اخراجات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے اور اس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 36 فی صد جرمن شہریوں کو خدشہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے میں اپنا خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے۔

    اس کی وجوہات میں رہائش سرِ فہرست ہے۔ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہریوں کی اکثریت کا بڑا خرچہ رہائش ہے اور قریب ہر تیسرے شہری کو اپنی ماہانہ آمدن کا 30 فی صد کرائے اور رہائش سے متعلق دیگر اخراجات پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اشیائے خورونوش اور پھر ٹرانسپورٹ پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔

    بزرگ شہریوں سے اس سلسلے میں بات چیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی آمدن سے وہ بمشکل خوراک، انشورنش اور دیگر ضروری بل ادا کر پاتے ہیں اور ان کی پنشن بہت کم ہے۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب یہ خدشہ بھی ہے کہ مزید شہری ریٹائر ہونے کے بعد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ تاہم حکومت کی جانب سے معمر افراد کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے منصوبے کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور مجوزہ منصوبہ 2021 سے نافذ العمل ہو گا۔

  • جرمن شہری کا قتل، شامی تارک وطن کو ساڑھے 9 برس قید کی سزا

    جرمن شہری کا قتل، شامی تارک وطن کو ساڑھے 9 برس قید کی سزا

    برلن: جرمنی کے مشرقی شہر کیمنٹس میں گزشتہ برس ایک جرمن شہری کو قتل کرنے والے ایک شامی پناہ گزین کو عدالت نے جرم ثابت ہونے کے بعد ساڑھے نو سال قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن شہر ڈریسڈن کی ایک عدالتنے الاءایس نامی شامی پناہ گزین کو ایک ڈینئل ایچ نامی جرمن شہری کا قتل کرنے کے جرم میں نو سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق گزشتہ برس ڈینئل نامی جرمن شہری کو الاءنے متعدد مرتبہ چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

    استغاثہ کی جانب سے جائے وقوعہ کے قریب واقع ایک کباب کی دوکان کے ملازم کی گواہی کی بنیاد پر یہ مقدمہ تیار کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت میں شامی پناہ گزین کا مسلسل موقف رہا ہے کہ اس نے یہ قتل نہیں کیا اور وہ بے قصور ہے۔

    عدالتی فیصلے سے قبل جرمن نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس شامی پناہ گزین کا کہنا تھا کہ اس نے نہ تو مقتول شخص کو چھوا اور نہ ہی اس چاقو کو، جس سے یہ قتل کیا گیا۔

    اس شامی مہاجر کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ الاءنے نہ تو مقتول شخص کو اور نہ ہی اس جرم میں استعمال ہونے والے چاقو کو چھوا تھالیکن استغاثہ کے حتمی بیان کے مطابق الاءکا جرم ثابت ہوچکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس کے علاوہ جرمن پولیس ابھی تک فرحاد نامی اس مرکزی مشتبہ عراقی شخص کی تلاش میں ہے، جس پر ڈینئل ایچ پر چاقو سے حملہ کرنے کا الزام ہے۔

    پولیس کا خیال ہے کہ یہ بائیس سالہ مشتبہ عراقی شخص جرمنی سے فرار ہو چکا ہے، اس کیس کے تیسرے مشتبہ شخص کو کیمنٹس کی ایک عدالت نے عدم شواہد کی بنیاد پر رہا کر دیا تھا۔