Tag: جرم و سزا

  • کراچی : 10 ماہ بعد بازیاب ہونے والی ننھی عائشہ کا بیان بھی سامنے آگیا

    کراچی : 10 ماہ بعد بازیاب ہونے والی ننھی عائشہ کا بیان بھی سامنے آگیا

    کراچی : دس ماہ بعد بازیاب ہونے والی ننھی عائشہ اور والدہ کا بیان سامنے آگیا، بچی کا کہنا ہے کہ گھر آکر اچھا لگ رہا ہے خوش ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں مزار قائد سے 14 اگست کو بچی کے مبینہ اغوا کے واقعے میں ماں باپ 4 سال کی عائشہ کو لے کر سولجربازار تھانے پہنچ گئے۔

    4 سالہ عائشہ اور والدہ نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کی ، بچی نے بتایا کہ گھر آکر اچھا لگ رہا ہے خوش ہوں، انکل کام نہیں کرتے تھے۔

    بچی کی والدہ نے کہا کہ بچی جس فیملی سےآئی وہ اچھے لوگ تھے، فیملی نے بچی کا خیال رکھا، اچھےکپڑے دیے۔

    والدہ کا مزید کہنا تھا کہ بچی کو لے جانے والا سمیر بیابان جنگل میں رہتا تھا، بجلی، گیس نہیں تھی، وہ تھوڑا نفسیاتی تھا،بچی کو تھپڑ بھی مارتا تھا۔

    والدہ نے کہا کہ بچی کی گمشدگی کی وجہ سے میرے شوہرکی طبیعت خراب ہوگئی تھی، چاہتی ہوں قانونی کارروائی جلدمکمل کی جائے۔

    گذشتہ روز گزشتہ سال چودہ اگست کو نمائش چورنگی لاپتہ ہونے والی عائشہ دس ماہ بعد والدین مل گئی تھی، دس ماہ بعد جب بیٹی ماں کو ملی تو پہچان نہ سکی۔

    والدہ کا کہنا ہتھا کہ دس ماہ جس کرب میں گزرے ناقابل بیان ہے، بیٹی کو ڈھونڈنے کیلئے ہر ممکن کی کوشش کی، بیٹی کےغم میں میرے شوہربیمار ہوگئے، اےآروائی کا شکریہ جو ہمارا ساتھ دیا۔

    ننھی عائشہ کی دیکھ بھال کرنے والے خاندان کا کہنا تھا کہ یہ بچی سرجانی لیاری کی ایک فیملی کے پاس تھی جسے برے حال میں رکھا جارہا تھا، ہم نے اسے رکھ لیا اور اپنے بچوں کی طرح دیکھ بھال کی، سوشل میڈیا سےوالدین کا پتا چلا تو رابطہ کیا۔

    ننھی عائشہ کی دیکھ بھال کرنے والے خاندان نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ عائشہ3 ،4ماہ سےہمارےپاس تھی، بچی کو سرجانی کے علاقے لیاری میں فیملی نےقیدکررکھاتھا، وہ لوگ بچی کونہ کھاناکھلاتےنہ پہننےکوکپڑےدیتےتھے، جن لوگوں کےپاس پہلے بچی تھی وہ اسےفروخت کرنا چاہتے تھے۔

    پولیس کے مطابق عبدالمعیزنامی شخص بچی اور اس کی والدہ کو لے عزیز آباد تھانے پہنچے اور حالت سے پولیس کو آگاہ کیا۔

  • باپ اور 2 کمسن بیٹوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ملیں، حقیقت کیا ہے؟

    باپ اور 2 کمسن بیٹوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ملیں، حقیقت کیا ہے؟

    بھارت میں افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک درخت سے باپ اور اس کے دو کمسن بیٹوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ملی ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع مندسار میں پیش آیا جہاں روندی گاؤں میں ایک درخت سے باپ اور دو کمسن بیٹوں کی لاشیں لٹکی پائی گئیں۔

    پولیس کے مطابق لاشوں کی شناخت 40 سالہ پرکاش اور اس کے 10 اور 12 سال دو بیٹوں کی حیثیت سے ہوئی جب کہ پرکاش کمبل فروخت کرنے کا کام کرتا تھا۔

    اس حوالے سے ڈویژنل پولیس آفیسر راج رام ڈھاکڈ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پرکاش نے اپنے دو بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود بھی خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔

    تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ابتدائی رائے ہے واقعے کی مخلتف پہلوؤں پر تحقیقات جاری ہیں اور ہم یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر یہ خودکشی کا واقعہ ہے کہ تو یہ انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟

  • اِسّے ساگاوا: ایک ‘مشہور’ قاتل!

    اِسّے ساگاوا: ایک ‘مشہور’ قاتل!

    یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے، اور ہماری یہ دنیا خانۂ عجائب۔ اس دنیا میں کئی نیک نام ہو گزرے جن کی مثالیں‌ آج بھی دی جاتی ہیں اور نجانے کتنے ایسے ہیں جو بدنامِ زمانہ مگر افسانوی شہرت کے حامل ہیں۔ اِسّے ساگاوا ایک ایسا جاپانی شہری تھا جسے اُس کی کسی شخصی خوبی، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں پہچانا جاتا بلکہ وہ ایک سفاک قاتل اور جنونی تھا۔

    یہ 1981ء کا واقعہ ہے جب اِسّے ساگاوا نے رینے ہارٹویلٹ نامی ایک نوجوان ولندیزی عورت کو اپنے اپارٹمنٹ میں قتل کر کے اس کا گوشت کھایا۔ شہرۂ آفاق شہر پیرس میں ایک لڑکی کا لرزہ خیز قتل سب سے بڑی اسٹوری بن گیا۔

    اسّے ساگاوا کو گرفتار کر لیا گیا۔ قتل کی اس واردات اور اسّے ساگاوا کی گرفتاری کو اس زمانے میں اخبارات میں نمایاں جگہ دی گئی، ساتھ ہی جاپانی عوام کی مجرم اور اس کے ‘جرم’ میں دل چسپی بڑھ گئی۔ رہائی کے یہی بدنامی ساگاوا کے لیے روزگار کا ذریعہ بنی۔ اس تفصیل سے پہلے اسّے ساگاوا کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ساگاوا نے جاپان کے ایک شہر کوبے میں دولت مند والدین کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی۔ 26 اپریل 1949 کو پیدا ہونے والے اسّے ساگاوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے جسم کی لمبائی اتنی تھی کہ وہ ایک بالغ انسان کی ہتھیلی میں سما سکتا تھا۔

    وہ خوش قسمت تھا کہ اس کے والدین مال دار تھے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو ہر آسائش اور سہولت دی اور ساگاوا نے بھرپور زندگی گزاری۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ دوسرے بچوں کی طرح خوب صورت بلکہ قبول صورت بھی نہیں ہے۔ اس کا احساسِ محرومی وقت کے ساتھ شدید ہوتا گیا۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کس ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہے۔ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا بڑا اہتمام کیا۔ 1977 میں نوجوان اسّے ساگاوا کو پیرس بھیج دیا گیا کہ وہ سوربون اکادمی سے ادبیات میں پی ایچ ڈی کرے۔

    پیرس میں تعلیمی مراحل طے کرنے والے اسّے ساگاوا نے 11 جون 1981 کو ولندیزی لڑکی رینے ہارٹویلٹ کو اپنے اپارٹمنٹ پر مدعو کیا۔ اس نے لڑکی کو بتایا تھا کہ وہ اس سے نصابی ضرورت کے لیے جرمن شاعری کا ترجمہ کروانا چاہتا ہے۔ ہارٹویلٹ اس کے اپارٹمنٹ پہنچ گئی۔ وہ اس کی ساتھی طالبہ تھی۔ ساگاوا نے اس لڑکی کو شاعری پڑھنے کو دی۔ کچھ دیر بعد وہ بہانے سے اٹھا اور اپنی رائفل نکال لایا۔ اسّے ساگاوا نے لڑکی پر پشت سے گولی داغ دی جو اس کے سَر میں گھس گئی۔ ہارٹویلٹ موت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔

    ساگاوا زیادہ دیر تک آزاد نہ رہ سکا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کی جو تفصیل بتائی وہ اسے ایک خبطی اور جنونی ظاہر کرتی ہے۔ ساگاوا نے کہا کہ ہارٹویلٹ صحت مند اور حسین تھی اور اسی لیے اسے اپنا شکار بنایا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں خاصیتیں اس میں موجود نہ تھیں اور وہ خود کو غیرمتاثر کن شخصیت کا مالک سمجھتا تھا۔ ساگاوا نے کہا کہ وہ ایک ‘کم زور، بدصورت اور ناکافی’ آدمی ہے۔ پولیس نے جب یہ پوچھا کہ قتل کے بعد اس نے لڑکی کا گوشت کیوں کھایا تو اس سفاک قاتل نے بتایا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ لڑکی کی ماہیت کو اس کا بدن جذب کر لے گا اور اس طرح ساگاوا کی شخصیت نکھر سکتی ہے۔

    پولیس کے سامنے ساگاوا نے کہا کہ گولی چلانے کے بعد اُسے بہت صدمہ ہوا، جس کے سبب وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر بیدار ہونے پر اسے پھر اس خیال نے جکڑ لیا کہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ ایک خوش گوار زندگی شروع کرسکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ ساگاوا نے اعتراف کیا کہ اس نے لاش کے ساتھ جنسی فعل بھی انجام دیا اور پھر اس کا گوشت کھایا۔

    دو دن بعد ساگاوا نے لاش کو ایک دور دراز علاقے میں موجود جھیل میں پھینکنے کی کوشش کی، مگر وہاں کسی نے اسے دیکھ لیا اور مشکوک سمجھ کر پولیس کو رپورٹ کر دی۔ ساگاوا کو فرانسیسی پولیس نے جلد ہی گرفتار کرلیا اور مجرم کے اپارٹمنٹ کی تلاشی کے دوران مقتولہ کے کچھ جسمانی اعضا بھی انھیں فریج سے مل گئے۔

    ساگاوا کو قانونی طور پر پاگل قرار دیا گیا اور اسے مقدمے کے لیے نااہل تصور کرکے منصف کے حکم پر غیر معینہ مدت تک پاگل خانے میں داخل کردیا گیا۔ یہ ایک قسم کی نظر بندی تھی۔ اس زمانے میں ساگاوا سے پاگل خانے میں اِنُوہیکو یوموتو نامی جاپانی مصنّف نے ملاقات کی اور اس کی کہانی اور جرم کی تفصیلات جاپان میں شائع کروائیں۔ اس اسٹوری نے ساگاوا کو جاپان بھر میں مشہور کر دیا۔ ادھر فرانسیسی حکومت نے ساگاوا کو جاپان کے سپرد کر دیا۔ جاپان پہنچنے پر ساگاوا کو اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اُسے صحیح الدّماغ قرار دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جنسی کج روی کے سبب ساگاوا نے لڑکی کو قتل کیا تھا۔ اس بات کو اس لیے بھی درست تسلیم کیا گیا کہ ساگاوا فرانس میں گرفتاری کے بعد یہ بتا چکا تھا کہ وہ اکثر جسم فروش عورتوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر لاتا تھا اور ان میں سے چند عورتوں کو قتل کرنے کا ارادہ بھی کیا مگر ہمت نہ کرسکا۔

    ساگاوا کو جاپان میں اس کی شہرت نے اکثر تقاریب میں بطور مہمان مقرر شرکت کا موقع دیا۔ وہ قلم کار بن گیا۔ اس نے کئی مضامین لکھے۔ وہ لیکچر دینے لگا جس پر جاپان میں اسے شدید تنقید بھی برداشت کرنا پڑی۔ لوگ یہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ ایک جنونی اور قاتل شخص کو اس درجہ اہمیت دی جارہی ہے۔ اسّے ساگاوا نومبر 2022 میں چل بسا۔ اس کے ماں باپ 2005 میں وفات پاگئے تھے۔

    12 اگست 1986 کو ساگاوا نے فرانس کے پاگل خانے میں اپنی روانگی کا اندراج کیا تھا۔ اس کے بعد جاپان پہنچ کر وہ ایک نہایت بدنام مگر افسانوی شہرت کا حامل شخص بن گیا۔ لوگ اس پر لعن طعن کرتے تھے مگر ساگاوا نے ہر بار اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    ساگاوا نے ایک ناول بھی لکھا اور ادیب کے طور پر اپنی زندگی شروع کی۔ اس نے اپنے جرم کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں اور دیگر کئی موضوعات پر اس کے مضامین بھی جرائد کی زینت بنے۔ بعد میں اس نے آدم خوری کے موضوع پر بننے والی فلم میں اداکاری بھی کی اور پھر چند فحش فلموں میں بھی کام کیا۔ ساگاوا اپنے انٹرویوز میں اپنے جرم پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا۔ لیکن اسے آج بھی مطعون کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔

  • کراچی میں جرائم، قاتلانہ حملوں اور تشدد کے واقعات بڑھنے لگے

    کراچی میں جرائم، قاتلانہ حملوں اور تشدد کے واقعات بڑھنے لگے

    کراچی: شہر قائد میں اسٹریٹ کرائمز، فائرنگ، قاتلانہ حملے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سپر اسٹور میں ملزمان نے لوٹ مار کی واردات کی، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی، 5 ملزمان اسٹور سے 5 لاکھ سے زائد نقدی اور موبائل فون چھین کر فرار ہوتے دیکھے گئے۔ واردات کا مقدمہ تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں درج کیا گیا ہے۔

    کراچی کے ایک اور علاقے بفرزون 15 اے ون میں بھی شہری اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو گیا، 2 موٹر سائیکل سوار ملزمان شہری سے نقدی اور موبائل فون لوٹ کر بھاگ گئے۔ اس واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اے آر وائی نیوز نے چلا دی ہے، فوٹیج میں ملزمان کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    کراچی، اسٹریٹ کرمنل قرار دے کر 2 بھائیوں‌ پرشہریوں‌ کا تشدد

    عزیز آباد منگوریہ گوٹھ کے قریب فائرنگ کا ایک واقعہ بھی رونما ہوا ہے، جس میں 2 افراد زخمی ہو گئے ہیں، ریسکیو کا کہنا تھا کہ فائرنگ کا نشانہ بننے والے زخمیوں کو عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا، جن کی شنا خت خالد اور محمد ایاز کے ناموں سے ہوئی ہے۔

    گزشتہ روز بھی کراچی کے علاقے سرجانی تیسر ٹاؤن میں فائرنگ کا نشانہ بننے کے بعد ایک شخص جاں بحق ہو گیا تھا، ریسکیو کا کہنا تھا کہ جاں بحق شخص کی شناخت اظہار الحسن کے نام سے ہوئی ہے۔ دوسری طرف لانڈھی پولیس اسکول میں ڈکیتی کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے 2 ماہ قبل لانڈھی نمبر 6 میں واقع اسکول میں واردات کی تھی، ملزم کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا، ملزم اسکول میں مذہبی جماعت کے نام پر چندہ بھی لیا کرتا تھا۔

    گزشتہ روز کراچی کے علاقے نيو کراچی میں شہريوں نے 2 بھائيوں کو ڈکيتوں کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنا دیا تھا، جس پر زخمی شہريار اور تيمور کو عباسی شہيد اسپتال منتقل کيا گيا، زخمی شہريار نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بتايا بھی کہ ميں ڈاکو نہيں ہوں، نیو کراچی میں رہتے ہیں، اور گارمنٹس کا کام کرتے ہیں، لیکن انھوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

  • کراچی: مومن آباد پولیس کی کارروائی، 6 رکنی تالہ توڑ افغانی گروپ گرفتار

    کراچی: مومن آباد پولیس کی کارروائی، 6 رکنی تالہ توڑ افغانی گروپ گرفتار

    کراچی: شہر قائد کے علاقے مومن آباد میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 6 رکنی تالہ توڑ گروپ کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں مومن آباد پولیس نے تالہ توڑ گروپ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چھ ملزمان کو گرفتار کر لیا، جن کا تعلق تالہ توڑ افغانی گروپ سے ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سے پانچ 30 بور پستول، ایک 9 ایم ایم پستول، ایک لاک کٹر، 14 موبائل فون اور رکشا بر آمد کیے گئے ہیں۔

    پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان میں 5 افغان شہری شامل ہیں، اس گروہ نے درجنوں موبائل فون شاپس سمیت دیگر دکانوں کے تالے کاٹے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی، ماہ اگست میں 36 افراد کو قتل کیا گیا، سی پی ایل سی

    ملزمان دن میں کچرا کنڈی میں سوتے اور رات کو وارداتیں کرتے تھے، ملزمان نے چند ماہ پہلے ایک فیکٹری کا بھی صفایا کیا، پولیس کے مطابق ملزمان کے دیگر 3 ساتھی افغانستان فرار ہو چکے ہیں۔

    دوسری طرف رینجرز نے بھی کراچی کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 5 ملزمان گرفتار کر لیے ہیں، جن سے اسلحہ، ایمونیشن، مسروقہ سامان اور منشیات بر آمد کی گئی۔

    ترجمان رینجرز کے مطابق ملزمان ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر جرائم کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔

    جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں گلبہار، بلوچ کالونی اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں کی گئیں، ملزمان کو قانونی کارروائی کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

  • سالگرہ کا کیک نہ کھانے پر باپ نے چھ سالہ بیٹی کو قتل کردیا

    سالگرہ کا کیک نہ کھانے پر باپ نے چھ سالہ بیٹی کو قتل کردیا

    کراچی: شہر قائد میں بے رحم باپ نے سالگرہ کا کیک نہ کھانے پر چھ سال کی بیٹی کو تشدد کرکے قتل کردیا، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ 

    تفصیلات کے مطابق یہ افسوس نا ک واقعہ شہرِ قائد کے علاقے کورنگی میں پیش آیا، جہاں چھ سالہ بچی مسکان اپنے ہی باپ کے ہاتھوں تشدد سے دم توڑگئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ زمان ٹاؤن تھانہ پولیس نے بچی کے قتل کا مقدمہ اس کے والد عبد الحکیم کے خلاف بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج کرلیا ہے، مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کی والدہ نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ مسکان کی سالگرہ تھی اور وہ اپنے والد کا لایا ہوا کیک نہیں کھا رہی تھی، جس پر اس کا والد غصے سے اندھا ہوگیا اور بچی کو تشش کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    کمسن بچی تشدد برداشت نہ کرسکی اور موت کی آغوش میں چلی گئی ، واقعے کے بعد ملزم اپنے گھر سے فرار ہوگیا۔ پولیس اس کی تلاش کررہی ہے۔

    یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ملزم عبدالحکیم نشے کا عادی ہے اور جرائم میں بھی ملوث رہا ہے۔ اس سے قبل بھی وہ ایک بار جیل جا چکا ہے۔ ملزم کی اپنی بیوی سے اکثر و بیشتر لڑائی ہوا کرتی تھی۔

    یاد رہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ رواں ماہ کے آغاز میں پیش آیا تھا جب کراچی کےعلاقے کلفٹن میں اپنی پھول جیسی کمسن ڈھائی سالہ بیٹی انعم کو سمندر میں ڈبو کرقتل کرنے کے بعد ماں نے خود بھی خودکشی کی کوشش کی تھی ، تاہم موقع پر موجود لوگوں نے اسے ڈوبتا دیکھ کر بچا لیا تھا۔ ملزمہ کے اہل ِ خانہ کا کہنا تھا کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال دسمبر میں صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں ایک باپ نے اپنی معاشی حالت میں بہتری کے لیے جعلی عامل کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ڈیڑھ سالہ بیٹی مبینہ طور پر قتل کردی تھی ، پولیس نے والد اور عامل دونوں کو گرفتار کرلیا تھا۔