Tag: جرم

جرم و سزا سے متعلق خبریں

پاکستان اور دنیا بھر سے جرائم سے متعلق خبریں

جرم و سزا

  • پاکستانی شہری انسانی اسمگلنگ کے جرم میں 15 برس قید

    پاکستانی شہری انسانی اسمگلنگ کے جرم میں 15 برس قید

    ابوظبی : اماراتی عدالت نے دوشیزہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے، قحبہ خانہ چلانے اور انسانی اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری کو 15 برس قید جبکہ مذکورہ شخص کی اطلاع دینے والوں کو کم عمر لڑکی کے ساتھ مکروہ فعل انجام دینے کے جرم میں تین برس قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کی عدالت میں جنسی زیادتی کے الزام میں قید کی سزا پانے والے پاکستانی شہری نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ متاثرہ لڑکی کا باپ ہے۔

    اماراتی میڈیا کا کہنا تھا کہ عدالت نے 49 سالہ پاکستانی پر انسانی اسمگلنگ، جنسی زیادتی اور قحبہ خانہ چلانے پر فرد عائد کی گئی ہیں۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق ملزم نے 13 سالہ متاثرہ لڑکی کا پاسپورٹ بھی اپنے پاس رکھا ہوا تھا تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں اماراتی حکام کو یہ بتاسکے کہ لڑکی اس کی بیٹی ہے۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ملزم نے اماراتی حکام کے سامنے لڑکی کو اپنی بیٹی ظاہر کرکے لڑکی کے لیے 2 سال کا سیاحتی ویزاہ لیا تھا۔

    متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے ہمارے گھر کی خراب مالی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے دبئی چلنے کے لیے راضی کیا اور پھر اہلخانہ کو بھی اس بات پر راضی کرلیا کہ میں دبئی میں اچھی رقم کماسکوں گی۔

    لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ دبئی کے لیے پرواز سے قبل ملزم نے میرا ریپ کیا اور اپنے قحبہ خانے میں ایک ساتھ دس افراد کے ساتھ زبردستی مکروہ فعل انجام دینے کےلیے مجبور کیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی جو اب پندرہ برس کی ہوچکی ہے کے سماعت کے دوران دئیے گئے بیان کے مطابق 49 سالہ شخص مکروہ کی انجام دہی سے انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔

    مقدمے کی سماعت کے دوران فریق اول نے بتایا کہ اسے قحبہ خانے میں کام کرنے والی لڑکی سے محبت تھی اور جب اس نے پتا چلا کہ ملزم لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنارہا ہے تو وہ اسے بچانے قحبہ خانے پہنچا ،جہاں اس کی ملزم سے لڑائی ہوئی، اور اس کے بعد اس نے دبئی پولیس کو اس حوالے سے خبردار کیا۔

    فریق اوّل کی شکایت پر پولیس نے مذکورہ جگہ پر چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کو ریسکیو کیا اور فریق اوّل اور ملزم کو گرفتار کرکے دونوں کے خلاف جنسی زیادتی کا مقدمہ درج کیا تھا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے پولیس کو مطلع کرنے والے شخص کو متحدہ عرب امارات کے قانون کے مطابق ریپ کے الزام میں تین برس قید کی سزا سنائی ہے۔

    واضح رہے کہ اماراتی قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے ساتھ ناجائز جنسی تعلق قائم کرنا جنسی زیادتی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

    عدالتی احکامات کے مطابق دونوں ملزمان کو قید کی سزا مکمل کرنے کے بعد ملک بدر کردیا جائے گا جبکہ 49 سالہ پاکستانی شخص پر 15 برس قید کے ساتھ ساتھ 1 لاکھ درہم جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

  • سابق اسرائیلی وزیرنے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا

    سابق اسرائیلی وزیرنے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا

    تل ابیب: سابق اسرائیلی وزیرگونن سگیو نے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا، انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیرانصاف کا کہنا ہے کہ سابق اسرائیلی وزیر گونن سگیو نے ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا جرم قبول کرلیا۔

    سابق وزیرگونن سگیو کے اعتراف جرم کے بعد انہیں گیارہ برس قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

    گونن سگیو90 کی دہائی میں وزیربرائے توانائی تھے اور مبینہ طور ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی نے انہیں اس وقت ریکروٹ کیا جب وہ نائجیریا میں تھے۔

    سابق اسرائیلی وزیرکو مئی میں استوائی گنی کے دورے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے درخواست پران کو اسرائیل بھیجا گیا۔

    گونن سگیو جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹرہیں، انہیں 2005ء میں منشیات کی اسمگلنگ اور جعلی سفارتی پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    ایران کےلیےجاسوسی کےالزام میں سابق اسرائیلی وزیرگرفتار

    یاد رہے کہ گزشتہ سال جون میں یروشلم کی عدالت نے گونن سگیو پرحالت جنگ میں دشمن کی معاونت کرنے اور اسرائیل کے خلاف جاسوسی کرنے پرفرد جرم عائد کی تھی۔

  • دبئی : منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری گرفتار

    دبئی : منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری گرفتار

    دبئی  : اماراتی عدالت نے منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری کو 10 برس قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کی عدالت نے 1.35 کلو ہیروئن شارجہ اسمگل کرنے کے جرم میں اسمگلر کو قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم سے دیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ملزم کو ایئرپوريٹ پر سامان کی تلاشی کے دوران پکڑا تھا، جس کے بعد پاکستانی شہری نے دعویٰ کیا تھا کہ منشیات اسمگلنگ والا بیگ نہیں بلکہ اس کے ایک عزیز کا ہے کہ ج کمپیوٹر میں ہو۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ 34 پاکستانی شہری کا بیگ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اسکین کیا گیا تو بیگ میں چھوٹے چھوٹے مشکوک بیگز موجود تھے۔

    کسٹم افسر نے مسافر کے بیگ سے دو لفافے برآمد ہوئے جس میں کوکین موجود تھی، تاہم مسافر نے دعویٰ کیا کہ اسے منشیات سے متعلق کوئی علم نہیں تھا منشیات سے بھرا بیگ میرے خلاف ایک سازش ہے۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا میں دبئی کورٹ میں منشیات اسمگلنگ کیس کی سماعت ہوئی جس میں پاکستانی شہری پر کوئی جرم ابت نہیں ہوا۔

    اماراتی میڈیا کے مطابق پیر کے روز عدالت نے کی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ملزم کو 50 ہزار درہم جرمانے اور 10 برس قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    دبئی: منشیات فروشی کے الزام میں پاکستانی ڈرائیور گرفتار

    یاد رہے کہ رواں برس اماراتی پولیس نے دبئی میں ڈرائیور کی ملازمت کرنے والے پاکستانی کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

    منشیات اسمگلنگ: عرب ملک میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف

    خیال رہے کہ  رواں برس اپریل میں متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے سینئر پولیس چیف دبئی نے کہا تھا کہ  پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارتی زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں، پاکستانی منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

  • راس الخیمہ: اہلیہ پر تشدد کرنے کے جرم میں شوہر پر جرمانہ عائد

    راس الخیمہ: اہلیہ پر تشدد کرنے کے جرم میں شوہر پر جرمانہ عائد

    راس الخیمہ : متحدہ عرب امارات کی عدالت نے زوجہ کو چہرے پر تھپڑ مارنےکے جرم میں شوہر کو 2 ہزار درہم جرمانے کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست راس الخیمہ کی عدالت نے ریاست میں پرچون کا سامان فروخت کرنے والے شخص کو اپنی اہلیہ کو تشدد کرنے کے  جرم میں سزا سنائی ہے۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اس کا شوہر  آئے روز اسے جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بناتا رہتا ہے اور آخری مرتبہ اس نے نامناسب بحث کے بعد میرے چہرے پر چار مرتبہ زور دار تھپڑ رسید کیے تھے۔

    متاثرہ خاتون نے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بیان دیا کہ میرے شوہر کے غصے پُر تشدد مزاج کا کوئی اختتام نہیں ہے اس لیے میں نے راس الخیمہ پولیس کو اپنے شوہر کے خلاف شکایت درج کروانے کا فیصلہ کیا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

    دوسری جانب متاثرہ خاتون کے شوہر نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ میں اپنی اہلیہ کو مارنا نہیں چاہتا تھا اور مجھے نہیں یاد میں اہلیہ کو کتنے تھپڑ مارے ہیں۔

    ملزم کا مزید کہنا تھا کہ میں نے بہت کوشش کی کہ گھر کا معاملہ گھر میں ہی حل ہوجائے لیکن میری اہلیہ مجھے عدالت کے دروازے تک لے آئی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے شوہر اور اہلیہ کے بیانات سننے کے بعد شوہر کو مجرم قرار دیتے ہوئے اہلیہ کو تھپڑ مارنے کے جرم میں 2 ہزار درہم جرمانے کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا۔

  • جرمنی: تشدد اور قتل کے جرم میں جوڑے کو 13 برس قید کی سزا

    جرمنی: تشدد اور قتل کے جرم میں جوڑے کو 13 برس قید کی سزا

    برلن : جرمنی کی عدالت نے دو خوایتن کو تشدد کے بعد قتل کرنے کے جرم میں خاتون اور اس کے شوہر کو 13 برس قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی عدالت نے قتل کیس کی سماعت کرتے ہوئے شمال مغربی ریاست کے ایک جوڑے کو دو خواتین کا بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کرنے کے جرم سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے 49 سالہ انجیلکا واگنر کو اپنے 48 سالہ شوہر ولفرائڈ واگنر کے ہمراہ قتل کا جرم ثابت ہونے پر 13 اور 11 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مجرموں نے دو خواتین کو گھر میں بے تحاشا تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث دونوں خواتین کی موت واقع ہوگئی تھی، جرمنی کے علاقے رائن میں مذکورہ ملزمان کا گھر ’ہاوس آف ہارر‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق سزا یافتہ جوڑے نے متاثرین کو گھر کے اندر تشددکا نشانہ بنایا گیا، گلا دبایا، آگ سے جلایا اور گرم پانی کی بھاپ سے بھی جسم کے مختلف حصوں کو جلایا گیا تھا، مجرموں نے متاثرہ خواتین کے سر کے بال کاٹ کر بجلی کے جھٹکے بھی دئیے گئے اور آنکھوں میں کالی مرچ کا اسپرے بھی کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ خواتین گھر گھر جاکر چیزیں فروخت کیا کرتی تھی اور مقتول مذکورہ جوڑے کے گھر بھی اشیاء فروخت کرنے آئی جہاں انہیں تشدد کے بعد قتل کردیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ جوڑے اپنی گاڑی میں 41 سالہ متاثرہ خاتون کو اس کے گھر چھوڑنے جارہے کہ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی جس کے بعد ایمبولینس میں خاتون کو گھر لے جانے کی کوشش کی تاہم ایمبولینس اسپتال لے گئی جہاں متاثرہ خاتون دوران علاج ہلاک ہوگئی۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں میاں بیوی کو پولیس نے اسپتال میں ہی گرفتار کرلیا تھا۔

    جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ 49 سالہ مجرمہ نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ سنہ 2013 میں بھی 33 سالہ خاتون کو تشدد کے بعد قتل کیا اور لاش کے ٹکڑے کرکے نذر آتش کردیا تھا۔

  • دبئی: دوشیزہ سے جبراً بدفعلی کروانے کے جرم میں بنگلادیشی خاتون کو سزا

    دبئی: دوشیزہ سے جبراً بدفعلی کروانے کے جرم میں بنگلادیشی خاتون کو سزا

    ابوظہبی : دبئی کی عدالت نے بنگلادیشی دوشیزہ کو جعلی کاغذات کے ذریعے دبئی اسمگل کرنے اور  زبردستی مکروہ فعل انجام دلوانے کے جرم میں بنگلادیشی خاتون کو ساتھی سمیت کو 5 برس قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی عدالت نے انسانی اسمگلنگ کیس کی سماعت کرتے ہوئے دبئی میں ملازمت کرنے والی بنگلا دیشی خاتون اور اس کے ایک ساتھی کو دوشیزہ کو جبراً بد فعلی کروانے پر سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بنگلا دیشی خاتون نے اپنے 34 سالہ اور 27 سالہ دو بنگلا دیشی ساتھیوں کی مدد سے کم عمر لڑکی کو جعلی کاغذات کے ذریعے عمان پہنچایا اور وہاں سے گاڑی میں بیٹھا کر دبئی منتقل کیا تھا۔

    دبئی پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم خاتون نے متاثرہ لڑکی کو دبئی منتقل کرنے کے بعد ایک فلیٹ میں قید کردیا جہاں متاثرہ لڑکی سے زبردستی بد فعلی کروائی جاتی تھی۔

    عربی میڈیا کا کہنا تھا کہ مذکورہ بنگلا دیشی خاتون کو گذشتہ ماہ دسمبر میں گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا، عدالت میں خاتون اور اس کے ساتھیوں پر جعلی کاغذات کے ذریعے دوشیزہ کو دبئی لانے، اسے قید کرنے اور جبراً بد فعلی کروانے کے مقدمات کے تحت سزا سنائی ہے۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق خاتون کو  ساتھی سمیت  5 برس قید اور کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم سنایا جبکہ  دیگر مجرمان کو صرف 1، 1 لاکھ درہم جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ تینوں مجرمان کو سزا مکمل ہونے کے بعد ملک بدر کردیا جائے گا، متاثرہ دو شیزہ خاتون کی بہن کی سوتیلی بیٹی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

    افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

    وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

    افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

    قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

    سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

    اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

    فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


    سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

    افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

    افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

    ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

    afghan-2

    دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

    پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

    بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

    اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


    کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

    افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

    خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


    قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

    سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

    افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

    افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایمنیسٹی انٹرنیشنل پر غداری کا الزام ،بھارت میں اپنے دفاتر بند کردیے

    ایمنیسٹی انٹرنیشنل پر غداری کا الزام ،بھارت میں اپنے دفاتر بند کردیے

    نئی دہلی : کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلندکرناایمنیسٹی انٹرنیشنل کا جرم بن گیا،غداری کے الزامات لگائے جانے کے بعد عالمی تنظیم نے بھارت میں اپنے دفاتر بند کردیے.

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے وحشیانہ مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے پر مودی سرکار نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل پر غداری اور بغاوت پراکسانے کے الزامات لگا دیے.

    مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پرایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جانب سےسیمینار کرناٹک کی ریاست بنگلور میں ہوا تھا اور پولیس نے بی جے پی کے نظریات کی حامل طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکنوں کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی.

    ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر پٹیل نے کہا: ’اب آئین اور اس کے اقدار کی حفاظت کرنے والے پروگراموں کو بھی انڈیا مخالف اور مجرمانہ قرار دیا جا رہا ہے.

    اکبر پٹیل کا کہنا تھا کہ پولیس بھی سیمینار میں مدعوتھی.ہمارے خلاف شکایت درج کرنا اور غداری کا مقدمہ درج کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں بنیادی حقوق اور آزادی میں یقین کی کمی ہے۔‘

    *کشمیریوں پر ظلم و ستم، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کیخلاف بغاوت کا مقدمہ درج

     بنگلور میں منعقدہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کےسیمینار میں کئی کشمیری خاندانوں کو بلایا گیا تھا.

    ترجمان دفتر خا رجہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر بغاوت کاالزام لگائے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے.

    یادرہے کہ رواں سال کے اوائل میں کشمیر رہنما افضل گورو کی پھانسی کی برسی پر دارالحکومت دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں مبینہ انڈیا مخالف نعروں کے بعد کئی طلبہ کو حراست میں لیا گیا تھا اور یہ معاملہ عالمیمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا.


    ایمنسٹی انٹرنیشنل پر بغاوت کا الزام، ٹویٹر پربھونچال

    #AmnestyBoycottsIndia