Tag: جریدہ نیچر

  • کرونا وائرس ہر کسی کو کیوں لاحق نہیں ہوتا، محققین کا بڑا انکشاف

    کرونا وائرس ہر کسی کو کیوں لاحق نہیں ہوتا، محققین کا بڑا انکشاف

    لندن: سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس ہر کسی کو کیوں لاحق نہیں ہوتا، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے کچھ افراد اس لیے محفوظ رہتے ہیں کیوں کہ ان میں وائرس کے خلاف مدافعت موجود رہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے محفوظ کچھ افراد میں وائرس کے خلاف مدافعت کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، کچھ افراد جو کو وِڈ 19 کے شکار نہیں ہوتے، ان کا مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف حیران کن طور پر دفاع فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے ان میں کرونا انفیکشن کی شدت بڑھنے کا امکان نہیں ہوتا۔

    یہ طبی تحقیق برطانوی جریدے نیچر میں شایع ہوئی، تحقیق میں 68 صحت مند بالغ افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو کرونا وائرس کا شکار نہیں ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ ان میں سے 35 فی صد کے خون میں ٹی سیلز موجود ہیں جو وائرس کے جسم میں داخل ہونے پر فعال ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ بون میرو سے نکلتے ہیں، اور جسم کو بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    جسم میں اگر ٹی سیلز متحرک ہوں تو اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مدافعتی نظام کو اسی طرح کی بیماری سے لڑنے کا تجربہ پہلے ہو چکا ہے، تاہم محققین کے لیے یہ امر حیرانی کا باعث تھا کہ تحقیق میں شامل افراد کے خون میں ٹی سیلز کیسے بنے جب کہ انھیں کو وِڈ نائنٹین کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔

    محققین نے اندازہ لگایا کہ یہ کراس ری ایکٹیویٹی کی وجہ سے ہوا ہوگا، یعنی مذکورہ افراد کو ماضی میں دیگر قسم کا کرونا وائرس لاحق ہو چکا ہوگا جس کی وجہ سے ٹی سیلز متحرک ہوئے تھے۔

    ایسے 18 افراد کے خون کے نمونوں کا بھی تجزیہ کیا گیا جو کو وِڈ نائنٹین سے متاثر ہوئے تھے، تحقیق کے دوران کرونا کے 83 فی صد مریضوں میں بھی ٹی سیلز کو متحرک دیکھا گیا، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ کو وِڈ 19 کے خلاف ان خلیات کے اثرات کے بارے میں ابھی بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد میں ٹی سیلز کا متحرک ہونا حیران کن نہیں، دنیا میں لگ بھگ ہر فرد کو کسی ایک کرونا وائرس کا سامنا ہو چکا ہے، سارس کو وِڈ 2 ساتواں انسانی کرونا وائرس ہے اور 4 کرونا وائرس ایسے ہیں جو انسانی برادریوں میں عام ہیں جو عام نزلہ زکام کے 25 فی صد کیسز کا باعث بنتے ہیں، چوں کہ یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، تو کسی حد تک متحرک مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔

  • کرونا وائرس کو غیر مؤثر کرنے والی 19 طاقت ور اینٹی باڈیز دریافت ہو گئیں

    کرونا وائرس کو غیر مؤثر کرنے والی 19 طاقت ور اینٹی باڈیز دریافت ہو گئیں

    لندن: سائنس دانوں نے کرونا وائرس کو غیر مؤثر (neutralize) کرنے والی 19 قوی اینٹی باڈیز ڈھونڈ لی ہیں۔

    برطانوی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنس دانوں نے 19 ایسی قوی اینٹی باڈیز کو پایا ہے جو نئے کرونا وائرس کو "غیر مؤثر” بنا دیتی ہیں، ان میں 9 اینٹی باڈیز وہ ہیں جو زبردست طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

    پہلے سے نشان زد اینٹی باڈیز کے مقابلے میں نئی دریافت شدہ اینٹی باڈیز میں سے چند کرونا وائرس کے اسپائک کے مختلف حصوں کو ٹارگٹ بنا سکتی ہیں، اسپائک وہ کانٹے نما ہیں جو کرونا وائرس کی سطح پر نکلے ہوتے ہیں اور خلیات کو متاثر کرتے ہیں۔

    کولمبیا یونی ورسٹی میں آرون ڈائمنڈ ایڈز ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ ہو کا کہنا تھا کہ اسپائک کے مختلف حصوں کی طرف بھیجی گئی اینٹی باڈیز کو تلاش کرنے سے اینٹی باڈیز کا ایسا آمیزہ تیار کیا جا سکتا ہے جو بہتر طور سے وائرس سے جا کر چمٹ سکے گا اور اس طرح وائرس کی مزاحمت ناکام ہوگی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ نئے معلوم ہونے والی اینٹی باڈیز امیون سسٹم (قوت مدافعت) کے ذریعے آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہیں، اور انھیں انفیکشن ہونے سے بچانے اور ہونے کے بعد علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ ہو کا کہنا تھا کہ اینٹی باڈی کاکٹیل (آمیزہ) انفیکشن کی ابتدا میں مریضوں کو دیا جا سکے گا، بالخصوص اگر مریضوں کی عمر زیادہ ہو یا انھیں شدید بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ ہو، جیسا کہ مثال کے طور پر نرسنگ ہوم کے رہائشی۔