Tag: جزیرے

  • آسیب زدہ جزیرہ : جہاں صرف سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے، حیرت انگیز کہانی

    آسیب زدہ جزیرہ : جہاں صرف سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے، حیرت انگیز کہانی

    ویسے تو لوگ بھوتوں اور غیرمرئی مخلوقات کا نام سن کر ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن کچھ توہمات سے دور رہنے والے ایسے بہادر افراد بھی ہیں جو ایسے آسیب زدہ جزیرے کو ہی خرید لیتے ہیں۔

    جی ہاں!! اٹلی کے مشہور شہر وینس کی کل آبادی ساڑھے چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے، یہاں کے لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک پرانا، ویران اور ‘خوفناک’ سمجھا جانے والا جزیرہ "پووگلیا خرید لیا ہے، تاکہ اسے غیر ملکی سیاحوں سے بچایا جاسکے۔

    metal beds.

    یہ جزیرہ 18.5 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی تاریخی اہمیت اور پراسرار ماضی کی وجہ سے یہ مقام گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا کی خبروں میں نمایاں ہے۔

    رپورٹس کے مطابق پووگلیا نامی جزیرے کا پہلی بار استعمال 421 عیسوی میں رومن فوجی اڈے کے طور پر کیا گیا تھا، بعد ازاں یہ ایک چھوٹا سا زرعی اور ماہی گیروں کا گاؤں بن گیا۔

     stone pedestal.

    18ویں صدی میں جب طاعون پھیلا تو اس جزیرے کو قرنطینہ میں مبتلا مریضوں کو الگ رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخلتف علاقوں سے لائے گئے کم از کم 1لاکھ 60 ہزار افراد اس جزیرے میں مرے اور یہیں دفنائے گئے۔

    رپورٹس کے مطابق 19ویں صدی میں یہاں ایک ذہنی مریضوں کا اسپتال بھی بنایا گیا وہاں غیر انسانی تجربات اور ظلم و زیادتی کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ بعد ازاں اس اسپتال کو 1968 میں بند کر دیا گیا اور تب سے یہ جزیرہ مکمل طور پر ویران پڑا ہے۔

     islands in Italy

    اس جزیرے پر آج بھی 15 ایسی پرانی عمارتیں موجود ہیں، جنہیں جھاڑیوں اور گھنے درختوں نے چاروں جانب سے گھیر رکھا ہے، وہاں بڑی تعداد میں خرگوش بھی پائے جاتے ہیں لیکن کوئی انسان وہاں نہیں رہتا۔کئی لوگ جزیرے کو "بدروحوں کی آماجگاہ” بھی کہتے ہیں۔

    سال 2014میں اٹلی کی حکومت نے یہ جزیرہ نیلامی کے لیے پیش کیا تھا تاکہ اسے کسی پرائیویٹ ڈیولپر کو فروخت کر دیا جائے تاکہ وہ یہاں کوئی نیا سیاحتی مقام بنا دے۔ وینس کے شہری جو پہلے ہی سیاحوں کی بہتات سے پریشان ہیں۔ اس لیے شہریوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی۔

    وینس کی میئر نے بھی کوشش کی کہ شہر کے لیے یہ جزیرہ خریدا جاسکے لیکن حکومتی اجازت نہ ملنے پر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ جس کے بعد پٹریزیا ویکلانی نامی ایک مقامی خاتون نے ایک مہم چلائی جس کا نام ’پووگلیا سب کے لیے‘ تھا۔

    یہ مہم شاندار طریقے سے کامیاب ہوئی اور شہریوں نے مل کر پیسے جمع کیے اور آخرکار 539 ہزار ڈالر میں 99سال کے لیے جزیرے کی لیز حاصل کرلی۔اب یہ جزیرہ یکم اگست سے ان کی دسترس میں آجائے گا۔

    شہریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جزیرے کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کیا جائے گا جو صرف مقامی افراد کے لیے ہوگا اور سیاحوں کو یہاں داخلے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔

    منصوبے کے تحت یہاں کوئی تجارتی سرگرمی یا ہوٹل بھی نہیں بنے گا، بلکہ یہ محض ایک پُرسکون، عوامی تفریحی مقام ہوگا۔

  • کراچی سے بھی بڑے برفانی تودے کا جزیرے سے ٹکرانے کا خطرہ!

    کراچی سے بھی بڑے برفانی تودے کا جزیرے سے ٹکرانے کا خطرہ!

    سمندر میں موجود ایک بہت بڑے برفانی تودے کا برطانیہ کے جزیرے سے ٹکرانے کا خدشہ ساحلی اور سمندری حیات کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اے 23 اے نامی برفانی تودہ جس کا حجم پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی بڑا ہے، یہ تودہ 40 سال کے سفر کے بعد پہلی بار خشکی پر پہنچنے والا ہے اور اس کے برطانوی جزیرے سے ٹکرانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ برفانی تودہ اس وقت جنوبی جارجیا میں برطانوی جزیرے کے قریب پھنس گیا ہے اور اگر یہ جزیرے سے ٹکرا گیا تو وہاں موجود لاکھوں پینگوئنز اور دیگر سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔

    اس برفانی تودے کے سفر کے دوران ماہرین کا کہنا تھا کہ جنوبی جارجیا جزیرے تک پہنچنے سے قبل یہ برفانی تودہ پگھل جائے گا یا اس کا حجم کم ہو جائے گا، تاہم حیران کن طور پراس کی ساخت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

    یہ برفانی تودہ 1500 مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور حجم کے لحاظ سے یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی بڑا ہے جس کا رقبہ 1360 مربع میٹر کے میل ہے۔

    واضح رہے کہ یہ برفانی تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کےساحلی علاقے سے الگ ہوکر بحیرہ ودل کی تہہ میں رک کر ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/great-disaster-coming-to-america/

  • دنیا کے 10 سب سے بڑے اور خوبصورت جزیرے

    دنیا کے 10 سب سے بڑے اور خوبصورت جزیرے

    دنیا بھر میں بے شمار ایسے خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں جنہیں دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں، ان کچھ جزیرے ایسے ہیں جن کی تاریخ صدیوں پرانی ہیں۔

    مشہور جزائر پر عام طور پر ہزاروں افراد ہر وقت موجود ہوتے ہیں تو اگر آپ کسی نسبتاً کم معروف جزیرے کا رخ کریں تو وہاں کی سیر کا زیادہ لطف لیں سکیں گے۔

    زیر نظر مضمون میں کچھ ایسے ہی مخصوص اور دلفریب مناظر سے لبریز جزائر کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جن کے بارے میں جان کر آپ بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔

     Greenland 01

    مذکورہ مضمون میں دنیا کے 10 سب سے بڑے جزائر (آسٹریلیا کے علاوہ) بیان کیے جارہے ہیں۔

    دنیا کے کئی جزیرے رقبے کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو پورے ملک کے برابر ہیں۔ آسٹریلیا کو تکنیکی طور پر ایک جزیرہ سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کسی اور زمینی علاقے سے جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن عموماً اسے ایک براعظمی خشکی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسے جزیرہ شمار کیا جائے تو یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہوگا، جس کا رقبہ 7,692,202 مربع کلومیٹر ہے۔

    1: گرین لینڈ

     

    Greenland Realm

    رقبہ: 2,166,086 مربع کلومیٹر (836,330 مربع میل)
    جزیرہ گرین لینڈ ڈنمارک کا حصہ ہے اور خود مختار حکومت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر انوئٹ نسل کے ہیں۔ یہ جزیرہ ٹیکساس سے تین گنا بڑا ہے۔

    2: نیو گنی

    Papua New Guinea

    رقبہ: 821,400 مربع کلومیٹر (317,150 مربع میل)
    نیو گنی کے علاقے فلائی ڈِگل پہاڑیاں اور ان کے قریب کے علاقے دنیا کے سب سے زیادہ بارش والے علاقوں میں شامل ہیں۔ یہاں سالانہ 300 انچ سے زیادہ بارش ہوتی ہے اور یہ زمین کے سب سے کم آباد علاقوں میں شامل ہے۔

    3: بورنیو

    Borneo

    رقبہ: 748,168 مربع کلومیٹر (288,869 مربع میل)
    گھنے بارانی جنگلات سے ڈھکے بورنیو میں دنیا کے کچھ انتہائی منفرد پودے اور جانور پائے جاتے ہیں، جن میں دنیا کا سب سے بڑا پھول "رافلیزیا آرنولڈی” بھی شامل ہے۔

    4: مڈغاسکر

    Madagascar island

    رقبہ: 587,295 مربع کلومیٹر (226,756 مربع میل)
    افریقی ساحل سے صرف 250 میل کے فاصلے پر واقع جزیرہ مڈغاسکر، منفرد حیاتاتی تنوع کا حامل جزیرہ ہے۔ یہاں تقریباً 40 اقسام کی لیمور بندر اور 800 اقسام کی تتلیاں پائی جاتی ہیں۔

    5: بافن جزیرہ

     Baffin Island

    رقبہ: 507,451 مربع کلومیٹر (195,928 مربع میل)
    کینیڈا کے علاقے نناووٹ میں واقع یہ جزیرہ ولیم بافن کے نام سے منسوب ہے، جو 17ویں صدی کے ایک انگریزی جہاز راں تھے، یہ علاقہ چند چھوٹے ساحلی دیہات کے علاوہ غیر آباد ہے۔

    6: سماٹرا

    Sumatra Island

    رقبہ: 443,066 مربع کلومیٹر (171,069 مربع میل)
    ملائی جزائر کے بڑے جزائر میں سے دوسرا سب سے بڑا جزیرہ سماٹرا ہے جس کے تین قومی پارک مانٹ لیوسر، کرنچی سبلاٹ اور بوکت بریسان سلطن ہیں، سال 2004 میں اقوام متحدہ نے اسے عالمی ورثہ کا حصہ قرار دیا تھا۔

    7: ہونشو

    Honshu Travel

    رقبہ: 227,898 مربع کلومیٹر (87,992 مربع میل)
    جاپان کے چار مرکزی جزائر میں سب سے بڑا جزیرہ ہونشو ہے، جہاں ملک کا بلند ترین پہاڑ، ماونٹ فوجی اور سب سے بڑی جھیل، جھیل بیوا واقع ہیں۔

    8: وکٹوریہ جزیرہ

    Victoria Island

    رقبہ: 217,291 مربع کلومیٹر (83,896 مربع میل)
    کینیڈا کی آرکٹک آرچیپ یلاگو میں واقع یہ جزیرہ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے والی خصوصیت رکھتا ہے۔

    9: گریٹ بریٹین

    Great Britain Island

    رقبہ: 209,331 مربع کلومیٹر (80,823 مربع میل)
    برطانیہ عظمیٰ نامی جزیرہ انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز پر مشتمل ہے، جو برطانیہ (یونائیٹڈ کنگڈم) کا حصہ ہے، جس میں شمالی آئرلینڈ اور دیگر چھوٹے جزائر بھی شامل ہیں۔

    10: ایلسمر جزیرہ

    Ellesmere Island

    رقبہ: 196,236 مربع کلومیٹر (75,767 مربع میل)
    کینیڈین آرکٹک آرچیپ یلاگو میں واقع یہ بنجر جزیرہ 1852 میں فرانسس ایگورٹن کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 10ویں صدی میں وائی کنگز نے اسے دریافت کیا تھا۔

    یاد رہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جزائر نہ صرف اپنے رقبے کے لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان کی حیاتیاتی اور جغرافیائی تنوع بھی انہیں منفرد بناتی ہے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر جزیرہ اپنی خصوصیات، منفرد ماحولیاتی نظام، تاریخ اور جغرافیائی لحاظ سے پہچانا جاتا ہے۔

  • جزیرے میں ہزاروں سیاحوں کے داخلے پر پابندی ، وجہ سامنے آگئی

    جزیرے میں ہزاروں سیاحوں کے داخلے پر پابندی ، وجہ سامنے آگئی

    روم : سفید وِلاز، خوب صورت ساحلی پٹی اور بڑے ہوٹلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور اٹلی کے جزیرے پر داخلہ بند کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی میں مشہور ترین آٹھ جزیروں میں کیپری نامی ایک جزیرے میں سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

    Why tourists are banned from Italy's Capri - Times of India

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے کیپری جزیرے کے میئر پاؤلو فالکو کا کہنا ہے کہ کیپری کے آس پاس کے علاقوں میں پانی کی ترسیل میں مسائل کا سامنا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کیپری جزیرے کے میئر پاؤلو فالکو کا کہنا ہے کہ نیپلس اور جنوبی اٹلی کے علاقے سورینٹو سے آنے والی کشتیوں واپس لوٹ جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    Tourists banned

    انہوں نے کہا کہ پانی کی سپلائی کے بغیر جزیرے میں آنے والے ’ہزاروں سیاحوں‘ کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ناممکن ہے۔

    اس کے علاوہ صحت و صفائی کی صورت حال بھی کافی خراب ہے، ہم نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں اور ایک کرائسز یونٹبھی قائم کیا گیا ہے۔

     

    دوسری جانب کیپری کے میئر کا کہنا ہے کہ اس وقت ’حقیقی ایمرجنسی‘ کی کیفیت ہے اور جزیرے میں صرف پہلے کھڑا پانی موجود ہے اور اب اکثر ٹینک خالی ہو رہے ہیں۔

    Capri

    روزانہ کی بنیاد پر اس جزیرے میں ہزاروں افراد کی آمد سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت مقامی افراد گھر کے استعمال کے لیے صرف 25 لیٹر پانی سپلائی ٹینکر سے لے پا رہے ہیں۔

    مذکورہ جزیرے کے مستقل رہائشیوں کی تعداد لگ بھگ 13 ہزار کے قریب ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس جزیرے میں سیر و تفریح کے لیے ہزاروں افراد آتے ہیں جنہیں فی الحال آنے سے روک دیا گیا ہے۔

  • جیجی حدید کا رہائی کے بعد پہلا بیان آگیا

    جیجی حدید کا رہائی کے بعد پہلا بیان آگیا

    لاس ایجنلس: معروف امریکی ماڈل جیجی حدید نے گرفتاری اور رہائی کے بعد اپنا پہلا بیان جاری کردیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جیجی حدید کے نمائندے  نے ماڈل کی گرفتاری کی تصدیق کردی ہے اور کہا کہ انہیں کیمن جزائز میں چھٹیاں گزارنے کے دوران بھنگ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    نمائندے کا کہنا تھا کہ یہ منشیات قانونی طور پر طبی استعمال کے لیے خریدی گئی تھیں، جیجی قانونی طریقے سے  بھنگ لائسنس کے ساتھ نیو یارک میں سفر کررہی تھی۔

    جیجی حدید سے منشیات برآمد، گرفتار کرلیا گیا

    نمائندہ نے بتایا کہ 2017 میں گرینڈ کیمن جزائز میں بھنگ کو استعمال کرنے کا قانون بھی موجود ہے، جیجی کا ریکارڈ کلیئر ہے انہوں نے جزیرے پر اچھا وقت گزارا ہے۔

    واضح رہے کہ جی جی حدید اور ان کی دوست 10 جولائی کو نجی طیارے پر کیمن آئی لینڈ پہنچی تھیں جہاں ایئرپورٹ پر تلاشی لینے پر ان کے پاس سے منشیات برآمد ہوئی تھی جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    ماڈل جیجی حدید کو 12 جولائی کو  مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کے بعد عدلات نے ماڈل اور اس کی دوست پر جرمانہ رائد کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیدیا تھا۔

  • ماہی گیری کرنے والی سعودی خواتین نے مثال قائم کردی

    ماہی گیری کرنے والی سعودی خواتین نے مثال قائم کردی

    ریاض: سعودی عرب میں جزائر پہ آباد مقامی خواتین ماہی گیری کر کے نئی مثال قائم کر رہی ہیں، یہاں کے مرد ماہی گیری کے لیے سمندر کا رخ کرتے ہیں، اس دوران خواتین گھر میں کھانے پینے کا بندوبست مچھلیاں پکڑ کر کرتی ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب کے جزیرہ قماح کی خواتین نے ماہی گیری میں مردوں کی اجارہ داری ختم کردی ہے، یہاں کی خواتین، مردوں کی طرح ماہی گیری کا پیشہ اختیار کر کے گھر چلا رہی ہیں۔

    جزیرہ قماح، جزائر فرسان کے ان تین جزیروں میں سے ایک ہے جہاں آبادی موجود ہے، فرسان کے 200 سے زیادہ جزیرے ہیں۔

    کئی برسوں سے جزیرہ قماح کی خواتین ماہی گیری کر رہی ہیں، یہاں کے رواج کے مطابق گھر کے مرد ماہی گیری کے لیے سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی کئی کئی روز تک واپس نہیں آتے۔ اس دوران وہاں کی خواتین گھر میں کھانے پینے کا بندوبست مچھلیاں پکڑ کر کرتی ہیں۔

    جزیرہ قماح کی خواتین صبح سویرے جال لے کر گھر سے نکلتی ہیں، جال کے ساتھ ماہی گیری کے لیے درکار سامان بھی ساتھ رکھتی ہیں، کبھی مطلوبہ مقدار میں مچھلیاں جلد مل جاتی ہیں اور کبھی انتظار طویل ہوجاتا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جزیرہ قماح کی خواتین ماہی گیری کے حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتی ہیں، جب یہ مچھلی پکڑ لیتی ہیں تو واپسی میں گیت بھی گاتی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد ماہی گیری کے سفر سے ہونے والی تھکاوٹ کو کم کرنا ہے۔

    یہاں کی خواتین گھر کے استعمال کے لیے مچھلیاں پکڑتی ہیں اور ضرورت سے زیادہ مچھلیاں بازار میں فروخت بھی کردیتی ہیں، اس کے علاوہ مچھلی کا تیل بھی نکالتی ہیں۔ جس کا ایک ڈبہ 50 ریال یا اس سے زیادہ میں فروخت ہوتا ہے۔

    ماہی گیری کے پیشے سے منسلک خواتین مچھلیوں کے ساتھ سمندر سے موتی بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

  • امریکا اور روس صرف دو میل کے فاصلے پر!

    امریکا اور روس صرف دو میل کے فاصلے پر!

    اگر آپ دنیا کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو لگے گا امریکا اور روس کے درمیان نہایت مختصر سا فاصلہ ہے لیکن اگر دونوں کے درمیان سفر کیا جائے تو یہ خاصا لمبا ہوسکتا ہے۔

    روایتی طور پر نقشوں میں امریکا انتہائی بائیں جانب اور روس دائیں جانب دکھایا جاتا ہے تو عموماً یہی تصور پایا جاتا ہے کہ روس کے مغرب میں یورپ ہے اور پھر بحر اوقیانوس کے پار امریکا واقع ہے، لیکن دنیا گول ہے۔ امریکا کے انتہائی مغربی اور روس کے انتہائی مشرقی علاقوں کو ایک تنگ سمندری راستہ آبنائے بیرنگ جدا کرتا ہے جس کے درمیان میں ڈایامیڈ جزائر ہیں۔

    یہ دو جزیرے جغرافیائی لحاظ سے بہت ہی دلچسپ مقام پر واقع ہیں۔ ان میں سے ایک جزیرہ امریکا کی ملکیت ہے اور دوسرا روس کی اور ان دونوں کے درمیان سے نہ صرف دونوں ملکوں کی سرحد گزرتی ہے بلکہ بین الاقوامی خط تاریخ بھی یہیں سے گزرتی ہے۔ یہ فرضی خط دراصل تاریخ کو جدا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے محض دو میل کے فاصلے پر واقع ان دونوں جزائر کے درمیان 21 گھنٹے کا فرق ہے۔

    ان جزائر میں سے ایک چھوٹا ڈایامیڈ جزیرہ امریکا کا حصہ ہے جو صرف 115 کی آبادی رکھتا ہے جبکہ روس کی ملکیت بڑا ڈایامیڈ جزیرہ کہیں بڑا رقبہ رکھنے کے باوجود غیر آباد ہے۔

    ان جزائر کو دیکھ کر یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر جغرافیہ کا چینل رکھنے والے سیم فار وینڈ اوور کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ان دونوں جزیروں کے درمیان کوئی عام شخص کیسے سفر کر سکتا ہے۔ تو ان پر عقدہ کھلا کہ ایسی خواہش رکھنے والے کو بہت طویل سفر کاٹنا پڑے گا۔

    مثلاً قانونی طریقے سے امریکا سے روسی ڈایامیڈ جزیرے پر جانے کے لیے آپ کو سب سے پہلے الاسکا کے ساحلی علاقے ویلز جانا پڑے گا جو اس جزیرے کا قریبی ترین امریکی قصبہ ہے۔ یہاں سے آپ اگلے روز نوم کے لیے پرواز لے سکتے ہیں جو الاسکا ہی کا ایک شہر ہے اور مزید ایک دن انتظار کے بعد ریاست کے دارالحکومت اینکریج پہنچ سکتے ہیں یعنی کہ تقریباً تین دن میں قریبی ترین بڑے امریکی شہر تک پہنچا جا سکتا ہے۔

    اینکریج میں دو دن انتظار کے بعد امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیئٹل کی پرواز لیں اور پھر ایک دن گزار کر نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ جائیں تاکہ اس سے اگلے روز کی ماسکو کی پرواز پکڑی جا سکے۔

    روسی دارالحکومت میں مزید ایک دن گزار کر آپ روس میں سائبیریا کے اہم شہر ارکوتسک کی پرواز لے سکتے ہیں، یہاں سے تقریباً دو دن بعد بحیرہ بیرنگ کے کنارے واقع شہر انادیر کی پرواز ملے گی۔ سب سے طویل انتظار غالباً یہیں کرنا ہوگا کیونکہ روسی ڈایامیڈ جزیرے کے قریب ترین واقع روسی قصبہ لیورنتیا کے لیے پرواز کے لیے ہفتہ بھر بھی انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس مقام سے کشتی کے ذریعے روسی جزیرے ڈایامیڈ پر پہنچا جا سکتا ہے۔

    یعنی صرف 2 میل کا فاصلہ طے کرنے کے لیے آپ کو 15 دن اور تقریباً 3 ہزار ڈالرز صرف کرنا پڑیں گے۔ اس دوران آپ کم از کم 24 ہزار کلومیٹرز کا فاصلہ طے کریں گے۔

  • جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مصنوعی جزیروں کی تعمیر

    جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مصنوعی جزیروں کی تعمیر

    دنیا بھر میں روز افزوں ہوتی انسانی ترقی نے ماحول اور جنگلی حیات کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کردیے ہیں، تاہم اب ان نقصانات سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش یورپی ملک نیدر لینڈز بھی کر رہا ہے۔ نیدر لینڈز میں سیلابی پانی سے بچاؤ کے لیے بے شمار رکاوٹیں تعمیر کی گئی ہیں کیونکہ ملک کا 2 تہائی حصہ سیلاب کے خطرات کا شکار ہے۔

    ان تعمیرات کی وجہ سے نیدر لینڈز کی ایک بڑی جھیل مارکرمر نہایت آلودہ ہوچکی تھی۔ یہ جھیل مختلف اقسام کی آبی حیات، پرندوں اور جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    تاہم جھیل کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے اکثر جانور اور پرندے ہجرت کرچکے تھے جبکہ مختلف آبی حیات کی آبادی بھی کم ہوچکی تھی۔

    اب نیدر لینڈز اس جھیل پر 5 جزیرے تعمیر کر رہا ہے تاکہ ان جنگلی حیات کو واپس لایا جاسکے۔ جزیروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جھیل کی صفائی بھی کی جارہی ہے۔

    نیدر لینڈز کی یہ کوششیں رنگ لارہی ہیں اور یہ جھیل پھر سے حیاتیاتی تنوع سے آباد ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ایک وقت میں جنگلی حیات کے لیے خطرہ بنی ہوئی یہ جھیل اب ان کی جنت بن چکی ہے۔

  • انڈونیشی پارک میں دیوہیکل کموڈو ڈریگن گتھم گتھا، ویڈیو وائرل

    انڈونیشی پارک میں دیوہیکل کموڈو ڈریگن گتھم گتھا، ویڈیو وائرل

    رِنکا: انڈونیشیا کے ایک چھوٹے جزیرے رنکا کے کموڈو نیشنل پارک میں دو دیوہیکل کموڈو ڈریگن اچانک گتھم گتھا ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میں خوف ناک جنگ چھڑ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جزیرہ رنکا پر ایک انڈونیشی پارک میں دو کموڈو ڈریگن اچانک لڑ پڑے، کافی دیر تک دونوں میں خوف ناک جنگ چھڑی رہی۔

    کموڈو نیشنل پارک میں چھڑنے والی کموڈو جنگ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی۔

    سیاہ رنگ کے دیوہیکل کموڈو ڈریگن ایک دوسرے پر داؤ پیچ استعمال کرتے رہے اور زمین پر ایک دوسرے کو پٹختے رہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ کسی سائنس فکشن فلم کے خوف ناک مناظرنہیں بلکہ یہ دل چسپ مناظر انڈونیشیا کے ایک پارک کے ہیں۔

    ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرنے والے کموڈو ڈریگنز کی انوکھی ریسلنگ کی ویڈیو نے دھوم مچا دی۔

    یہ بھی پڑھیں:  انڈونیشیا میں مگرمچھ خاتون سائنس دان کو نگل گیا

    کموڈو ڈریگنز کی لمبائی دو میٹر کے قریب ہے جب کہ ان کا وزن تقریباً 80 کلو گرام بتایا گیا، پارک کی سیر کرنے والے سیاح لڑائی کا منظر دیکھ کر موبائل سے ویڈیو بنانے میں مصروف ہو گئے۔

    واضح رہے کہ کموڈو ڈریگن کا تعلق چھپکلی کی نسل سے ہے، جو انڈونیشیا کے جزیروں کموڈو، رِنکا، فلورز، گلی موتنگ میں پائے جاتے ہیں، یہ زمین پر موجود چھپکلی کی سب سے بڑی قسم ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی تین میٹر تک ہے۔

  • مصری عدالت نے سعودی عرب کو جزیرے نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا

    مصری عدالت نے سعودی عرب کو جزیرے نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا

    قاہرہ : سعودی عرب کی جانب سے مصر کے دو جزیرے اسکے حوالے کرنے کے منصوبے سے متعلق مقدمے میں مصر کی اعلیٰ عدالت نے ذیلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دونوں جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا، فیصلہ سنتے ہی کمرہ عدالت تالیوں سے گوج اٹھا۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کی ایک اعلیٰ عدالت نے بحیرۂ احمر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

    مصر کی اعلیٰ انتظامی عدالت (ہائی ایڈمنسٹریٹو کورٹ) نے یہ فیصلہ حکومت کی اس اپیل پر سنایا ہے جس میں مصری حکومت نے استدعا کی تھی کہ ایک ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ تیران اور صنافیر نامی جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے کو روک دے۔

    پیر کو جب جج نے یہ فیصلہ سنایا کہ مصری حکومت یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کہ مذکورہ دو جزیرے دراصل سعودی عرب کی ملکیت تھے، تو کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا۔

    ان جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے پر جب گذشتہ سال اپریل میں دونوں ممالک کی جانب سے دستخط کیے گئے تھے تو مصر میں اس کے خلاف احتجاج بھی ہوا تھا۔ مصری یا سعودی حکومت کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    اس بارے میں صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا تھا کہ یہ جزیرے ہمیشہ سے سعودی عرب کی ملکیت تھے اور سعودی عرب نے سنہ 1950 میں مصر سے درخواست کی تھی کہ ان جزیروں کی حفاظت کے لیے وہ وہاں پر اپنے فوجی تعینات کر دے۔ لیکن اس بیان کے بعد السیسی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اصل میں وہ یہ جزیرے سعودی عرب کو ’فروخت‘ کر رہے ہیں جس کے جواب میں وہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی امداد لے رہے ہیں۔

    ناقدین کے بقول سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے قاہرہ کے دورے کے موقع پر جس امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا وہ ان ہی جزیروں کی منتقلی کے جواب میں تھا۔