Tag: جسم

  • پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے  پر شدید درد کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

    پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے پر شدید درد کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

    کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے پاؤں کی چھوٹی انگلی بے دھیانی میں کسی چیز سے ٹکرائی ہو اور آپ شدید تکلیف سے ناچ اٹھے ہوں؟

    ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ گھر میں گھوم رہے ہیں اور اچانک پیر کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرا جائے اور اس کے ساتھ ہی شدید تکلیف کا جھٹکا پورے جسم میں دوڑنے لگے۔

    ایسا ہوتے ہی آپ کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اپنی جگہ منجمد ہوگئے ہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے ٹھوکر لگنے والے کی درد سے ہماری چیخ نکل جاتی ہے، دروازے یا میز وغیرہ میں انگلی دب جانے پر بھی یہی حال ہوتا ہے۔

     حیران کن طور پر یہ چوٹ معمولی ہوتی ہے لیکن اس کی تکلیف شدید ہوتی ہے،کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

     اس سوال کا جواب پاوؤں میں اعصابی فائبرز کی اقسام اور مقدار میں چھپا ہوا ہے جو آپ کو تکلیف سے بےقرار ہونے پر مجبور کرتا ہے۔

    جسم میں تکلیف کا احساس اعصابی خلیات nociceptors سے پھیلتا ہے جس کے فائبر جلد، مسلز اور اندرونی اعضا تک پھیلے ہوتے ہیں اور متاثرہ خلیات سے سگنل کی شکل میں ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

    ان خلیات کی اقسام مختلف طرح کے نقصان پر الگ الگ ردعمل ظاہر کرتی ہیں، جیسے کسی گرم چیز کو چھونے پر thermal nociceptors متحرک ہوتے ہیں، اسی طرح پاؤں کی انگلیوں میں چوٹ لگنے پر میکانیکل نوسی اسیپٹرس حرکت میں آتے ہیں۔ یہ خلیات دباؤ اور زخم لگنےکے حوالے سے حساس ہوتے ہیں۔

    یہ خلیات کیسے کام کرتے ہیں

     جب یہ خلیات متحرک ہوتے ہیں تو یہ متاثرہ انگلی سے ایک پیغام ریڑھ کی ہڈی تک فائبر کے پیچیدہ جال سے بھیجتے ہیں، یہ پیغام دماغ تک پہنچتا ہے اور پھر cerebral cortex   تک چلا جاتا ہے۔

     اس دماغی حصے میں پاؤں اور اس کی انگلیوں سے متعلق مرکز بالکل درمیان ہوتا ہے جہاں دو دماغی حصے ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں۔

     ماہرین کے مطابق انگلیوں میں چوٹ لگنے سے دماغ تک سگنل بیک وقت نہیں پہنچتے،  چوٹ لگنے پر درد کا پہلا جھٹکا فائبر دماغ تک پہنچاتے ہیں جو سگنلز بھیجنے کے معاملے میں بہت زیادہ مؤثر نظام کے حامل ہوتے ہیں، اس کے چند سیکنڈ بعد دماغ کو درد کے سگنل سی فائبرز پہنچاتے ہیں۔

    یہ فائبر پاؤں کی انگلیوں کے بیشتر حصے کو کور کرتے ہیں اور یہ تکلیف ورم کی شکل میں زیادہ بدتر ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاؤں میں چربی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جس سے جھٹکے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

    مگر اچھی بات یہ ہوتی ہےکہ انگلی پر لگنے والی چوٹ سے ہونے والی شدید تکلیف عموماً چند منٹ یا گھنٹوں بعد ختم ہوجاتی ہے۔

  • دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    امریکی خلائی ادارہ ناسا اور چین مریخ پر انسانوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاہم اس کے لیے انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم وہاں بھیجے جانے والے خلا بازوں کی زندگی اور صحت ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مریخ پر انسانوں کو بھیجے جانے کے منصوبے میں سب سے اہم پہلو خلا بازوں کی صحت اور ان کی سلامتی ہے جن کو مریخ تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ خلا میں گزارنے ہوں گے، جس کے بعد پڑوسی سیارے پر بھی کئی ماہ قیام کرنا ہوگا۔

    ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ بہت کم کشش ثقل کے باعث انسانوں کے لیے مریخ پر رہنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

    ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا ہے تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خلا باز مریخ تک سفر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنا کام درست طریقے سے کرسکیں گے یا نہیں۔

    اس ماڈل اور اس کی پیشگوئیوں کے بارے میں تحقیقاتی مقالہ حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوا، تحقیقی ٹیم نے مریخ کے مشنز کے ممکنہ خطرات کے ساتھ ساتھ مریخ پر وقت گزارنے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سورج اور خلائی ذرائع کی ریڈی ایشن کے باعث مریخ پر قیام سے انسانی جسم میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں بہت کم کشش ثقل کے اثرات کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلز اور ہڈیوں کا حجم گھٹ سکتا ہے جبکہ اعضا اور بینائی کے افعال پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیںِ۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ مریخ تک پہنچنے کا سفر 6 سے 8 ماہ کا ہوگا جس سے خون کی شریانوں کی ساخت یا دل کی مضبوطی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کہ خلائی سفر کے دوران بے وزنی کا نتیجہ ہوگا۔

    تحقیق کے مطابق بہت زیادہ وقت کشش ثقل کے بغیر رہنے سے دل کی رفتار سست ہوسکتی ہے کیونکہ اسے زیادہ کام نہیں کرنا ہوگا جبکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث اسے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خلا باز بے ہوش ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جب خلا باز مریخ جائیں گے تو زیادہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر مریخ پر قدم رکھتے ہی کوئی بے ہوش ہوگیا یا کوئی طبی ایمرجنسی ہوئی تو کوئی بھی مدد کے لیے موجود نہیں ہوگا، چنانچہ ضروری ہے کہ وہاں بھیجے جانے والے افراد مکمل طور پر فٹ اور مریخ کی کشش ثقل کو اپنانے کے قابل ہوں۔

    اس ماڈل کے لیے مشین لرننگ پر مبنی الگورتھم استعمال کیے گئے تھے جس میں آئی ایس ایس اور اپولو مشنز کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ مریخ کے سفر کے لیے طویل خلائی پرواز سے دل کی شریانوں کے نظام میں تبدیلیاں آسکتی ہیں تاکہ وہ ماحول اپنا سکیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ خلا بازوں کا جسم کئی ماہ کی خلائی پرواز کے مطابق خود کو بدل سکتا ہے مگر مکمل طور پر صحت مند اور فٹ ہونا شرط ہے۔

    اب یہ ماہرین بیمار یا کم صحت مند افراد پر طویل خلائی سفر کے اثرات جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا عام افراد بھی خلا کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں۔

  • کیا ہمارا دماغ اپنے آپ کو کھاتا ہے؟

    کیا ہمارا دماغ اپنے آپ کو کھاتا ہے؟

    انسانی جسم حیرت انگیز معلومات و صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں گے، اتنے ہی حیران ہوتے جائیں گے۔

    آج ہم آپ کو انسانی جسم سے متعلق ایسے ہی کچھ حیران کن حقائق سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔

    جلد

    آپ کے بستر کے نیچے جمع زیادہ تر مٹی، آپ کی مردہ جلد ہوتی ہے جو سونے کے دوران جھڑتی ہے۔

    ہڈیاں

    ایک ننھے بچے میں عام انسان کی نسبت 60 ہڈیاں زیادہ موجود ہوتی ہیں یعنی کل 350 ہڈیاں۔ نشونما کے دوران کچھ ہڈیاں آپس میں جڑتی چلی جاتی ہیں جس کے بعد بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک انسان میں 206 ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔

    پلکیں

    ہماری پلکوں میں نہایت ننھے ننھے کیڑے یا لیکھیں موجود ہوتی ہیں۔

    دانت

    دانت ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کسی نقصان کی صورت میں خود سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

    دماغ

    جب ہم نیند سے جاگتے ہیں تو ہمارے دماغ کی توانائی سے ایک ننھا سا لائٹ بلب باآسانی روشن کیا جاسکتا ہے۔

    ڈی این اے

    اگر ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی این اے کو کھول کر سیدھا کیا جائے تو یہ 10 ارب میل کے فاصلے پر محیط ہوگا، یعنی اس کی لمبائی زمین سے سیارہ زحل تک اور پھر واپس زمین جتنی ہوگی۔

    سانس لینا

    انسان وہ واحد ممالیہ جانور ہے جو بیک وقت سانس لینے اور نگلنے کا کام نہیں کرسکتا۔

    ڈائٹنگ

    ڈائٹنگ کرنے والے افراد کا دماغ غذا کی کمی کے باعث اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔

    موت

    انسانی جسم کی موت کے 3 دن بعد وہ انزائم جو زندگی میں آپ کا کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی انزائم مردہ جسم کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔

  • روزانہ 20 منٹ کے لیے کی جانے والی یہ ورزش حیران کن فوائد کا سبب

    روزانہ 20 منٹ کے لیے کی جانے والی یہ ورزش حیران کن فوائد کا سبب

    ورزش کرنا جسمانی و دماغی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے، لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسی ورزش کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جس کے فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ 20 منٹ کے لیے اپنی ٹانگوں کو دیوار کے ساتھ لگا دینا بے شمار فوائد کا باعث بنتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ورزش کو باقاعدگی کے ساتھ کرنے سے آپ کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

    دوران خون میں تیزی

    روزانہ 20 منٹ کے لیے ٹانگوں کو دیوار کے ساتھ لگانے سے دوران خون تیز ہوتا ہے۔ ہمارا خون کشش ثقل کی وجہ سے عموماً نیچے کی طرف جاتا ہے اور اوپر کی طرف آنے والے خون کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

    اس پوزیشن کی وجہ خون تیزی سے اوپر کی طرف آئے گا جس سے گردن، سر، دماغ اور آنکھوں کو فائدہ ہوگا۔

    ہاضمے میں آسانی

    اس ورزش سے ان مسلز میں حرکت پیدا ہوگی جو نظام ہاضمہ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اس سے ہاضمے کے مسائل حل ہوں گے جبکہ وزن اور پیٹ کی چربی بھی کم ہوگی۔

    سانس لینے میں آسانی

    اس ورزش سے نتھنوں کو بھی فائدہ ہوگا اور ان میں زیادہ ہوا جائے گی جس سے جسم کو زیادہ آکسیجن ملے گی۔ زیادہ آکسیجن سے جسم کے مسلز اور ٹشوز کو آرام ملے گا اور وہ ریلیکس ہوجائیں گے۔

    پرسکون نیند

    جسم کے ٹشوز اور مسلز کا تناؤ کم ہونے سے نیند بھی اچھی اور پرسکون آئے گی۔

    ٹانگوں کی تکلیف میں کمی

    سارا دن غیر آرام دہ جوتے پہننے سے پاؤں اور ٹانگیں تکلیف اور تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں، مذکورہ ورزش سے اس تکلیف میں بھی کمی ہوگی اور پاؤں پرسکون حالت میں آجائیں گے۔


    انتباہ: امراض قلب اور بلڈ پریشر کے مریض یہ ورزش کرنے سے گریز کریں۔

  • باپ کا شوق بیٹی میں منتقل، لڑکی نے نیا روپ دھار لیا

    باپ کا شوق بیٹی میں منتقل، لڑکی نے نیا روپ دھار لیا

    ڈنڈی: اسکاٹ لینڈ میں ایسی خاتون منظر عام پر آئی ہے جس نے اپنے باپ کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنے جسم کے 90 فیصد حصوں پر ٹیٹیوز بنالیے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ٹیٹوز بنانے کے شوقین افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جن میں ایسی لڑکی بھی ہے جس نے اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے اپنے جسم پر نیلے رنگ کی سیاہی سے ٹیٹوز بنالیے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نڈائل نامی لڑکی نے 15 ہزار پاؤنڈ دے کر اپنے جسم کے 90 فیصد حصوں پر ٹیٹوز بنوائے، جبکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں باڈی کے رہ جانے والے حصوں پر بھی سیاہی سے کام کیا جائے گا۔

    نڈائل کا کہنا تھا کہ اس نے جب پہلی بار جسم کے مختصر حصے پر ٹیٹو بنایا تو شوق مزید بڑھ گیا اور پھر ایک مہینے کے اندر اندر ہی جسم کے نوے فیصے حصے کو نیلی سیاہی میں رنگ دیا۔ میرے والد کو ٹیٹوز بہت پسند ہے اور میں انہیں کی طرح بننا چاہتی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے بچپن سے ہی یہ شوق تھا لیکن اٹھارہ سال کی عمر میں مجھے قانونی طور پر جسم پر ٹیٹوز بنوانے کی اجازت ملی، آنکھوں کے نچلے حصے ابھی بھی خالی لگتے ہیں یہاں بھی ٹیٹوز بنوانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

  • کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے اور مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہورہی ہیں، ایسے موسم میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس میں کئی افراد زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ محض چند لمحوں کے لیے کڑکنے والی آسمانی بجلی میں ایسا کیا ہے جو لوگوں اور جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور درختوں کو تباہ کرسکتی ہے، آج ہم نے یہی جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا میں ہر سال آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے 75 ہزار واقعات پیش آتے ہیں، امریکا میں ہی ہر سال 47 افراد آسمانی بجلی گرنے کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں، تاہم اس کا شکار 90 فیصد افراد زندہ بچ جاتے ہیں۔

    چند لمحوں کی آسمانی بجلی ایک مضبوط کھڑے درخت کو ایک لمحے میں دو ٹکڑوں میں تقسیم کرسکتی ہے، لہٰذا یہ بات خوفزدہ کردینے والی ہے کہ انسانی جسم کے اندر یہ کیا نقصانات کرتی ہوگی۔ موت کے علاوہ یہ بجلی انسانی جسم کو شدید اور دیرپا نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

    آسمانی بجلی میں 1 سے 10 ارب جول توانائی ہوسکتی ہے، یہ اتنی توانائی ہے کہ اس سے 100 واٹ کا بلب مستقل 3 ماہ تک جلایا جاسکتا ہے۔

    جب یہ بجلی انسانی جسم کے اندر جاتی ہے تو جسم میں موجود ان چھوٹے الیکٹرک سگنلز کو شارٹ سرکٹ کرتی ہے جو ہمارے دل، پھیپھڑوں اور اعصابی نظام کو چلاتے ہیں، نتیجتاً آسمانی بجلی کا شکار شخص کو مندرجہ ذیل کیفیات میں سے کسی ایک یا تمام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    دل کا درہ

    مرگی کا دورہ

    شدید دماغی چوٹ

    ریڑھ کی ہڈی کو نقصان

    یاداشت چلے جانا

    اور یہی نہیں، آسمانی بجلی میں موجود توانائی سے پہنچنے والا نقصان تو کچھ بھی نہیں، اصل نقصان اس میں موجود حرارت سے ہوتا ہے۔

    جب آسمانی بجلی کڑکتی ہے تو یہ ایک لمحے میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سورج کی سطح سے 5 گنا زیادہ گرم کر دیتی ہے یعنی 53 ہزار فارن ہائیٹ۔ اس سے ہوا اچانک بہت تیزی سے پھیلتی ہے جس سے ایک زور دار شاک ویو پیدا ہوتی ہے، بجلی گرجنے کی آواز یہی شاک ویو ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو اس کے آس پاس 30 فٹ کے دائرے میں کھڑا شخص ایک بم دھماکے جتنا جھٹکا محسوس کرسکتا ہے اور اڑ کر دور گر سکتا ہے۔

    یہ حرارت، روشنی اور بجلی آپ کی آنکھوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس سے آپ کے پردہ چشم میں سوراخ ہوسکتا ہے اور کچھ ہفتوں بعد آنکھ میں لازمی موتیا اتر سکتا ہے۔ آسمانی بجلی مردوں کی جنسی قوت کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    یہ بجلی جسم میں اندر جانے اور نقصان کرنے کے بعد باہر نکلتی ہے تو مزید نقصان کرتی ہے، جسم سے باہر نکلتے ہوئے یہ خون کے سرخ خلیات پر دباؤ ڈالتی ہےجس سے وہ رگوں سے باہر جلد کی طرف نکلتے ہیں۔ اس سے جلد پر کچھ اس طرح کے نشانات بن جاتے ہیں جنہیں لچٹنبرگ فگرز کہا جاتا ہے۔

    آسمانی بجلی میں موجود حرارت جسم پر موجود دھاتی اشیا جیسے گھڑی یا زیورات کو بھی بے تحاشہ گرم کردیتی ہے جس سے تھرڈ ڈگری برن ہوسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ جسم پر موجود بارش کے قطروں یا پسینے کو فوری طور پر بھاپ بنا کر دھماکے سے اڑا سکتی ہے اور اس دھماکے سے بجلی کا شکار شخص کے کپڑے بھی پھٹ سکتے ہیں۔

    آسمانی بجلی سے کیسے بچا جائے؟

    آسمانی بجلی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بارشوں کے موسم میں گھر سے نکلتے ہوئے موسم کی صورتحال دیکھی جائے۔ طوفان کے پیش نظر گھر پر ہی رہا جائے۔

    اگر آپ گھر سے باہر ہیں تو درختوں، کھمبوں کے نیچے کھڑے ہونے اور کھلی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔

    آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے محفوط ترین پناہ گاہ کوئی عمارت یا موٹے دھات سے بنی گاڑی ہے جس کے اندر رہا جائے۔

    مزید پڑھیں: طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

  • ہماری ناف کے اندر کیا ہے؟

    ہماری ناف کے اندر کیا ہے؟

    کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کی ناف کے اندر کیا ہے؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    ناف کے بارے میں سب سے زیادہ مفصل تحقیق جارج اسٹائن ہاسر نامی سائنسدان نے کی اور اس کے لیے اس نے 3 سال تک اپنی ہی ناف کے تجزیے اور مختلف تجربات کیے۔

    اسے علم ہوا کہ ناف میں معدے کے بال موجود ہوتے ہیں اور یہ جسم پر پہنے جانے والے کپڑے کے ننھے ننھے ذرات کو ناف کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

    ناف دراصل ایک زخم کا نشان ہے جو انسان کو دنیا میں آتے ہی دیا جاتا ہے۔ بچے اور ماں کے جسم کو آپس میں منسلک کرنے والی امبیلیکل کورڈ کو جب کاٹ دیا جاتا ہے تو پھر اس سے بننے والی ناف کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ زخم کیسے مندمل ہوا۔

    کچھ نافیں باہر کو نکلی ہوئی ہوتی ہیں جبکہ 90 فیصد اندر کی طرف ہوتی ہیں۔ اندر کی طرف والی ناف میں کپڑوں کے ٹکرے، بال اور جلد کے مردہ خلیات جمع ہوجاتے ہیں جبکہ ان میں بیکٹریا بھی ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے ایک تحقیق کے لیے 60 رضا کاروں کی ناف سے جمع کیے جانے والے اجزا میں 23 سو اقسام کے بیکٹریا دریافت کیی، یعنی ہر ناف میں اوسطاً 67 اقسام کے بیکٹریا موجود ہوتے ہیں۔

    ان میں سے کچھ بیکٹریا ایسے ہوتے ہیں جو جسم کے دیگر حصوں پر بھی پائے جاتے ہیں جیسے اسٹیفلو کوکس جو بالوں، ناک اور حلق میں موجود ہوتے ہیں، تاہم ماہرین نے ان میں ایسے بیکٹریا بھی دریافت کیے جو انسانی جسم کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ جیسے ماری مونس جو ماہرین نے صرف سمندر میں پایا تھا۔

    اس کے علاوہ ناف میں وہ بیکٹریا بھی ہوتے ہیں جو شیفس پنیر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    ویسے تو ناف میں موجود بیکٹریا فائدہ مند ہوتے ہیں اور یہ جلد کے دفاعی نظام کو مضبوط بناتے ہیں، تاہم اگر آپ نے کبھی ناف کی صفائی نہیں کی تو ان میں موجود بے تحاشہ بیکٹریا خطرناک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    غیر صاف شدہ ناف سے سب سے پہلے بو آئے گی اس کے بعد ناف انفیکشن کا شکار ہوجائے گی جس سے خارش اور سرخی پیدا ہوسکتی ہے۔

    ناف کے لیے ایک اور خطرہ اندرونی طور پر بھی موجود ہے، یہ نیول ہرنیا یا بیلی بٹن ہرنیا ہوتا ہے۔

    جب بچہ ماں کے جسم میں ہوتا ہے تو وہ نال کے ذریعے ماں سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ نال ماں کےجسم سے ہوتی ہوئی بچے کے جسم تک جاتی ہے اور جسم کے اندر کھلتی ہے، پیدائش کے بعد جب ناف کو الگ کردیا جاتا ہے تو یہ کھلا حصہ بند ہوجاتا ہے۔

    تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کھلا حصہ ٹھیک سے بند نہیں ہوپاتا، اس کے باعث جسم کے بعض اعضا پھسل کر ناف کی طرف آجاتے ہیں اور ناف پر دباؤ پیدا کرتے ہیں۔

    امریکا میں ہر 5 میں سے ایک بچہ اس ہرنیا کا شکار ہوتا ہے، تاہم یہ بچوں کے لیے جان لیوا نہیں ہوتا اور بالغ ہونے تک یہ نارمل ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار صابن ملے نیم گرم پانی سے اپنی ناف کو اچھی طرح ضرور دھونا چاہیئے تاکہ وہ صحت مند رہے۔

  • ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی ٹھنڈی یخ شے کھاتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے ہمارا دماغ سن سا ہوجاتا ہے اور کچھ سیکنڈز کے لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس موقع پر سر میں ہلکا سا درد بھی محسوس ہوتا ہے۔

    یہ حالت برین فریز کہلاتی ہے یعنی دماغ کا جم جانا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی یخ شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اس کیفیت کا سامنا تمام افراد کو نہیں ہوتا۔

    امریکا میں صرف 37 فیصد افراد کو اس کیفیت کا سامنا ہوتا ہے، تائیوان میں 4 فیصد بچے اور ڈنمارک میں صرف 15 فیصد بالغ افراد اسے محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 1800 سے یہ کیفیت سائنسدانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی وجہ اور اس کا علاج جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب کسی حد تک وہ اس کی وجہ جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    دراصل جب کوئی ٹھنڈی شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے تو یہ ٹرائی جیمینل نامی عصبیے (نرو) کو فعال کرتی ہے، اس عصبیے کی بدولت ہم سر کے سامنے والے حصے پر سردی یا گرماہٹ محسوس کرسکتے ہیں۔ جب اس عصبیے سے ٹھنڈی چیز ٹکراتی ہے تو سر کے سامنے والے حصے میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    درحقیقت ہمارے سر میں موجود مختلف اعصاب ہمارے سر کے مختلف حصوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان میں تکلیف کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ دانت کا درد جس عصبیے کو متاثر کرتا ہے وہ دماغ کے مرکزی حصے میں تکلیف پیدا کرتا ہے۔

    برین فریز کے وقت سر میں درد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موقع پر دماغ کی رگیں تیزی سے منہ کی چھت کی طرف خون بھیجتی ہیں جس سے رگیں عارضی طور پر چوڑی ہوجاتی ہیں، اس لیے بھی سر میں تکلیف پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق برین فریز کا شکار ہونے والے افراد سر درد کی ایک اور پر اسرار قسم میگرین کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ عصبیہ میگرین پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میگرین کو پراسرار اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاحال اس کی کوئی وجہ اور علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    اگر آپ بھی اکثر و بیشتر برین فریز کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو پریشانی کی بات نہیں، یہ کیفیت صرف 20 سے 30 سیکنڈ تک رہتی ہے اس کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔

  • کیا ہمارے آنسو واقعی نمکین ہوتے ہیں؟

    کیا ہمارے آنسو واقعی نمکین ہوتے ہیں؟

    ہمارے آنسو عموماً نمکین ہوتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں مختلف مواقعوں پر آنکھوں میں آنے والے تمام آنسو نمکین نہیں ہوتے؟

    دراصل آنسوؤں کا نمکین ہونا ہماری جسمانی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے۔

    جب ہم دکھ یا تکلیف میں رو رہے ہوتے ہیں اس وقت ہمارے تھائی رائیڈ گلینڈ زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی ہے، اس وقت ہمارے آنسو نمکین ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: تتلیاں کچھوؤں کے آنسو پیتی ہیں

    اس کے برعکس جب ہم خوشی سے روتے ہیں تب ہمارے آنسو نمکین نہیں ہوتے۔ ان آنسوؤں کو اگر مائیکرو اسکوپ میں دیکھا جائے تو یہ تکلیف میں آنے والے آنسوؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔

  • نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    نیند کو عارضی موت بھی کہا جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد نیند میں باتیں کرتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں، لیکن جب وہ جاگتے ہیں تو انہیں ہرگز یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے نیند کے دوران کیا کیا۔

    آج ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا کیا غیر معمولی عوامل پیش آتے ہیں جنہیں جان کر آپ یقیناً حیران ہوجائیں گے۔

    مفلوج ہوجانا

    جب ہم گہری نیند میں ہوتے ہیں تو ہم تقریباً مفلوج ہوجاتے ہیں اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے۔ گو کہ نیند کے دوران ہمیں چلنے پھرنے کی ضروت نہیں ہوتی، لیکن اس کا تلخ تجربہ ان افراد کو ہوتا ہے جو نیند میں چلنے کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد جب گہری نیند میں اٹھ کر چلنا شروع کرتے ہیں تو چند منٹ تک حرکت کرنے سے معذور ہوتے ہیں اور اس دوران ان کے گرنے اور چوٹ لگنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔

    آنکھوں کی تیز حرکت

    گہری نیند کے دوران بند پپوٹوں کے نیچے ہماری آنکھیں نہایت تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ یہ حرکت دراصل اس خواب پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے ہوتی ہے جو ہم نیند کے دوران دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

    جسم کی نشونما

    سونے کے دوران ہمارے جسم کی نشونما اور افزائش ہوتی ہے۔ اس دوران ہماری ہڈیاں، پٹھے، بال اور خلیات وغیرہ بڑھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سوتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے چاہئیں تاکہ جسم کو بڑھنے اور نشونما پانے میں کوئی دقت نہ ہو۔

    حلق بند ہونا

    ہمارے جاگنے کے دوران حلق کو کھلا رکھنے والے اعصاب دوران نیند سست پڑجاتے ہیں جس سے حلق سے ہوا کی آمد و رفت کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے۔ یہ عمل خراٹوں سمیت دیگر ناخوشگوار آوازوں کا سبب بنتا ہے۔

    دانت پیسنا

    بعض افراد جب نیند سے سو کر اٹھتے ہیں تو ان کے جبڑوں میں شدید درد ہوتا ہے او وہ سوجے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ نیند کی حالت میں دانت پیسنے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں جسے برکسزم کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ عمل ہر شخص کے ساتھ رونما نہیں ہوتا۔

    دماغ کی کہانیاں

    سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود نیند کے دوران آنے والے خواب تاحال ایک اسرار ہیں۔ تاہم ماہرین اس کی ایک سادہ سی توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ نیند کی حالت میں جب ہمارا دماغ پرسکون ہوتا ہے تب وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے۔

    ہمارا دماغ ہمارے اندر موجود مختلف معلومات، ماضی کی یادیں، حال میں گزرے ہوئے واقعات، مستقبل کے خوف اور لاشعور میں بیٹھی ہوئی باتیں، ان سب کو ملا کر ایک نئی کہانی تخلیق دے ڈالتا ہے جو خواب کی صورت ہمیں نظر آتی ہیں۔

    زور دار دھماکے کی آواز

    بعض افراد نیند کے دوران محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک زوردار دھماکے کیی آواز سنی ہے۔ اس آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے اور جاگنے کے بعد وہ بے حد خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، ایسے موقعے پر حقیقی زندگی بالکل معمول کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ ایک قسم کا سنڈروم ہے جو جسمانی طور پر تو نقصان نہیں پہنچاتا البتہ نفسیاتی و دماغی طور پر بہت سی الجھنوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    دماغی آرام

    نیویارک کی روچسٹر یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جب ہم سوتے ہیں تو اس دوران ہمارا دماغ دن بھر میں جمع کی گئی معلومات کا جائزہ لیتا ہے۔ دماغ ان تمام معلومات میں سے بے مقصد معلومات کو ضائع کردیتا ہے۔

    اس طرح دراصل دماغ اپنے آپ کو چارج کرتا ہے تاکہ اگلے دن تازہ دم ہو کر آپ کے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرسکے۔