Tag: جسمانی اثرات

  • ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن دنیا بھر میں انتہائی عام ایک دماغی عارضہ ہے جو کسی انسان کی سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے، ڈپریشن صرف دماغی ہی نہیں بلکہ جسمانی اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن لاحق ہونے اور ڈپریسڈ محسوس کرنے میں فرق ہے۔

    ہر انسان کی روزمرہ زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ تناؤ یا اداسی محسوس کرتا ہے، جیسے امتحان میں فیل ہونا، ملازمت چلی جانا، کسی سے جھگڑا ہوجانا یا یونہی ابر آلود موسم میں بھی اداسی محسوس ہوسکتی ہے۔

    بعض اوقات ڈپریسڈ محسوس ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں بھی ہوتی، تاہم یہ عارضی کیفیت ہوتی ہے اور ماحول یا حالت تبدیل ہوتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔

    کلینیکل ڈپریشن باقاعدہ ایک عارضہ ہے جو کم از کم 2 ہفتے تک لاحق رہ سکتا ہے۔ اس کی سب سے عام علامات کام کرنے اور کھیلنے کودنے کی صلاحیت متاثر ہونا ہے۔

    اس کے علاوہ بھی اس کی کئی علامات ہیں، جیسے بجھی بجھی سی طبیعت رہنا، اپنے پسندیدہ کاموں میں دل نہ لگنا، بھوک میں تبدیلی، نیند کم آنا یا بہت زیادہ آنا، اپنے آپ کو بے مصرف خیال کرنا، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہونا، بے آرامی اور بے چینی محسوس کرنا، کوئی کام کرنے کا دل نہ چاہنا اور انتہائی صورتحال میں خودکش خیالات آنا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو ان میں سے کوئی 5 علامات بھی محسوس ہورہی ہیں تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن صرف احساسات و کیفیات کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ہمارے جسم میں بھی باقاعدہ تبدیلیاں لاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار اگر کسی شخص کے دماغ کا ایکسرے کیا جائے تو دماغ کے حصے فرنٹل لوب اور یادداشت سے تعلق رکھنے والے ہپوکیمپس کے حجم میں (عام انسان کی نسبت) تبدیلی دکھائی دے گی۔

    علاوہ ازیں ڈپریشن کچھ ہارمونز کے غیر معمولی طور پر زیادہ پیدا ہونے یا کم ہوجانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ جیسے موڈ کو بہتر کرنے والے ہارمونز ڈوپامین اور سیروٹونن میں کمی اور نورپنیفرین نامی ہارمون کی زیادتی جو کسی ناخوشگوار صورتحال میں پیدا ہوتا ہے۔

    ڈپریشن سے تھائیرائیڈ ہارمونز بھی متاثر ہوتے ہیں، یہ ہارمونز جسم کی میٹابولک سرگرمی، دل، مسلز، اور نظام ہاضمہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاحال وہ ڈپریشن کی بنیادی وجہ دریافت نہیں کر سکے، اگر ڈپریشن کا شکار زیادہ سے زیادہ افراد ماہرین سے مدد طلب کریں تو انہیں اس مرض کو مزید سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، اور اس کا مزید بہتر علاج ہوسکتا ہے۔

    تاہم یاد رہے کہ امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ کے مطابق ڈپریشن کا شکار کسی شخص کو خود کو مدد لینے کے لیے راضی کرنے میں اوسطاً 10 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

  • سوشل میڈیا آپ سے پرسکون نیند چھین رہا ہے

    سوشل میڈیا آپ سے پرسکون نیند چھین رہا ہے

     سوشل میڈیا  کے مضمر اثرات پر تحقیق کرنے والے  ماہرین نے صارفین  کو  خبردار کیا ہے کہ اگر دن کےچوبیس گھنٹوں میں سے 60 منٹ بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹس یا موبائل ایپلیکشنز استعمال کی جائیں تو اس سے رات کی نیند  پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے

    [bs-quote style=”default” quote=”Great things in business are never done by one person. They are done by a team of people.” author_name=”Steve Jobs” author_job=”Apple co-founder” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/plugins/blockquote-pack-pro/img/other/steve-jobs.png” align=”left” ]


    ہیں۔

     گزشتہ سال کینیڈا کے ایسٹرن اونٹارویو ریسرچ انسٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر کوئی شخص میٹھی اور پرسکون نیند لینا چاہتا ہے تو  اس کے لیے لازم ہے کہ وہ موبائل ایپلیکشنز اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا استعمال ترک کردے یا پھر انہیں انتہائی کم حد تک محدود کردے۔

    ماہرین کے مطابق جو لوگ دن میں  ایک گھنٹہ ہی فیس بک، واٹس ایپ یا پھر کوئی اور سوشل میڈیا نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں اُن کی نیند دیگر کے مقابلے میں کم ہوجاتی ہے، اور جو ہوتی ہے اس میں بھی وہ پرسکون نیند نہیں سو پاتے۔

    تحقیق کے دوران 5 ہزار سے زائد خواتین اور مردوں سے انٹرویو کیا گیا جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خصوصاً رات کے وقت سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی نیند 7 گھنٹے سے کم رہ جاتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ’لڑکیوں کی بڑی تعداد خطرناک حد تک سوشل میڈیا کی جانب راغب ہورہی ہے جس کے باعث اُن کی نیند پوری نہیں ہوتی اور پھر شادی کے بعد انہیں بہت سی پیچیدگیوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ لڑکوں کی بھی بڑی تعداد سماجی رابطے کی ویب سائٹس استعمال کررہی ہے جس کے باعث اُن کی صحت پر برے نتائج مرتب ہورہے ہیں۔

    تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا ماننا ہے کہ مطالعے کے نتائج موجودہ وقت میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

    ڈاکٹررابرٹ کہتے ہیں کہ کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوان اور بچے بڑھتی عمر کے ساتھ بری عادات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اُن کے لیے اس سے جان چھڑانا ناممکن ہوجاتا ہے۔