Tag: جسٹس اطہرمن اللہ

  • فیصل واوڈا کیخلاف توہین عدالت کارروائی کا نہیں کہا تھا، جسٹس اطہرمن اللہ

    فیصل واوڈا کیخلاف توہین عدالت کارروائی کا نہیں کہا تھا، جسٹس اطہرمن اللہ

    جسٹس اطہرمن اللہ نے واضح کیا ہے کہ انھوں نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا نہیں کہا تھا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے خط میں کہا کہ فیصل واوڈا کیخلاف توہین عدالت کارروائی کے لیے نہیں کہا، توہین عدالت کارروائی کیلئے شکایت کی نہ مجھ سے مشاورت کی گئی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہین عدالت معاملے پر میرا مؤقف عدالتی فیصلوں سے واضح ہے، تاثر دیا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف کارروائی کا آغاز میری شکایت پر کیا گیا۔

    خط کے متن میں کہا گیا کہ توہین عدالت کارروائی چلانے کیلئے شکایت دائرکی نہ ہی رائے دی، 2017 سے مجھے تضحیک آمیز مہم کا سامنا ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا خط میں کہنا تھا کہ خط کا مقصد ہے تاثر کو زائل کیا جائے کہ توہین عدالت کارروائی میرے کہنے پر ہوئی ہے۔

    جج کا خط میں مزید کہنا تھا کہ تضحیک آمیز مہم کے باوجود کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی رائے نہیں رکھتا۔

  • سچ کو75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    سچ کو75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈر پھانسی چڑھتا، سچ کو75سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے سپریم کورٹ میں ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کا عدلیہ پر کوئی اثر نہیں ہوناچاہیے اور جج کوتوکبھی کسی قسم کی تنقید سے گھبرا ہی نہیں چاہیے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جج پر کتنی بھی تنقید ہو اگروہ کسی قسم کا اثر لیتا ہے تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے، کسی جج کویہ نہیں سوچناچاہیےکہ کورٹ رپورٹ کومنع کرے، اثر انداز ہو کہ کیا کرنا چاہیے۔

    جج سپریم کورٹ نے کہا کہ سچائی سچائی ہی رہتی ہےجھوٹ جنتابھی بولاجائےآخرمیں فتح سچ کی ہی ہوتی ہے، پاکستان کی آدھی تاریخ ان حالات میں گزری جہاں اظہاررائے کی گنجائش نہیں تھی ، صحافیوں کاآزادی اظہار رائے کیلئےبہت کلیدی کردار رہا، انہوں نے کوڑے بھی کھائے۔

    انھوں نے بتایا کہ میں نے کورٹ رپورٹرزسےبہت کچھ سیکھاہے، مجھے اظہار رائے پر کچھ کہنے کی ضرورت اس لیےنہیں کیوں کہ ہم جواب دہ ہیں، شروع سے ہی آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگائی گئیں، بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپانہیں سکتے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر 2قسم کی تنقیدہوتی ہے، ایک وہ تنقیدجب الزام لگایاجاتاہےکوئی دانستہ طور پر فیصلے ہو رہے ہیں اور ایک وہ تنقید ہوتی ہے جس کومیں پسندنہیں کرتااس کوریلیف کیوں ملا، وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے، ہر تنقید کرنے والا اس عدالت پر ہی اعتماد کرے یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ 71میں مغربی پاکستان کے لوگوں کویکسرمختلف تصویردکھائی گئی،یہ ہی ہوتاہے، ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھناچاہیےہم کس طرف جارہےہیں، کیاہم اصول پر کھڑے ہیں؟ یا دھڑے بندی کا شکار ہے معاشرہ مرضی کا فیصلہ اور گفتگو چاہتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اظہارائےکوکبھی بھی د بانےکی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کوئی اگر غلط کہتا ہے تووہ خود بے نقاب ہو جائے گا وقت کے ساتھ، ٹیکنالوجی کا دورہے،ریاستیں اظہا رائے کو قابو نہیں کرسکتیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈرپھانسی چڑھتا،سچ ہر ایک کو پتہ ہے اور 75سالوں سے پتہ ہے لیکن ہمیشہ دبانے کی کوشش کی، سچ کو 75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئےہیں۔

    اعلیٰ عدلیہ کے جج نے بتایا کہ میرےبارےمیں میں بھی کہاگیاواٹس ایپ پرکسی سےتعلق میں رہتےہیں، ہر دور میں کسی نہ کسی نے مجھے 2 فلیٹ دلوا دیے، ان باتوں سے کیا مجھے کوئی فرق پڑا؟ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ایک غریب قیدی نےمجھ سےپوچھاکیاحالات ٹھیک ہوجائیں گے، میں نےقیدی سےپوچھاتم بتاؤ کیا ہمارے معاشرے کے اقدار اصولوں اور سچائی پر مبنی ہیں، میرے پوچھنے پر قیدی فوراً ہنس پڑا اور کہا یہ سچائی کا دور نہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ بہت ساری قوتیں 18ویں ترمیم کی مخالف تھیں، اس وقت ایک تاثرہواسپریم کورٹ 18ویں ترمیم کو ختم کردےگی، اعتزاز احسن نے پوچھا 18ویں ترمیم ختم ہوگی توکیا کریں گے،میں نے کہا وکالت چھوڑ دوں گا ، کوئی اگر غلط کام نہیں کر رہا تواس کو گھبرانا نہیں چاہیے۔

    جج سپریم کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جمہوری معاشرےمیں اظہاررائےپرکسی قسم کی قدغن نہیں ہونی چاہیے، بے جا تنقید بھی ہمارے لیے اچھی ہے کیوں کہ سچائی جب نکلتی ہےتوفتح اسی کی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آغاز ہی سے آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگیں، قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر ریاستی سینسر کرنے پر لامتناہی سلسلہ شروع ہوا،آمریت میں آزادی اظہار رائے ممکن ہی نہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ عالمی اصول ہے کتنا ہی کوئی بڑا جرم نہ کر لے ثابت ہونے تک معصوم تصور اور لکھا جائے گا، ذولفقار بھٹو کے ٹرائل میں اخبارات میں ان کو ملزم یا معصوم نہیں لکھا گیا تھا، ہم جواب دہ ہیں، میں جج بنا تو پہلا کیس ایک ضمانت کا کیس تھا، سپریم کورٹ کے جج کے خلاف بینر لگانے پر 16 سال کا ملزم ضمانت کے لیے سامنے تھا،ماتحت عدالت سے ضمانت اس لیے خارج ہوئی کہ اس نے پوری عدلیہ کے خلاف جرم کیا لیکن کسی نے یہ پتا نہیں کرنے کی کوشش کی کہ بینر بنوائے کس نے؟

  • جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    اسلام آباد: پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہرمن اللہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں آرڈرتحریری حکم نامے سےمطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو الگ نہیں دیکھاجاسکتا۔

    سپریم کورٹ کے معرز جج نے لکھا کہ کیا اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کرتوڑی گئیں؟، معاملے میں اسمبلیاں توڑنے کی آئینی قانونی حیثیت کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔

    اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات حقوق کی خلاف ورزی سےمتعلق ہیں جبکہ ہمارے سامنےآنے والا معاملہ پہلے ہی آئینی عدالت کےسامنےہے اسی لئے معاملےکاسپریم کورٹ آنا ابھی قبل ازوقت ہے۔

    نورکنی بینچ سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ کسی اورمعاملےکو دیکھنےسے پہلےاسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے، چیف جسٹس نے مجھ سےاس معاملے پرسوالات مانگے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

    انہوں نے لکھا کہ کیا اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیارہے؟کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پراسمبلی توڑسکتا ہےیا کسی کی رائےپر؟، کیاوزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیاجاسکتاہےاوراسمبلی بحال کی جاسکتی ہے؟۔

    واضح رہے کہ آج پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی، تاہم عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کی سماعت کررہا ہے۔

  • جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ

    جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ

    اسلام آباد: ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے لوگوں کے لیے عدالتی ماڈل نظام ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت کی۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزارت داخلہ عدالتوں کومناسب جگہ منتقل کرنے میں ناکام ہے، وزارت داخلہ کی بلڈنگ کوڈسٹرکٹ کورٹ کی جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جائے؟۔

    اکرم چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے ماسٹرپلان میں ڈسٹرکٹ، ہائی کورٹ کے پلاٹ ہی نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں، اسلام آباد کے لوگوں کے لیے عدالتی ماڈل نظام ہونا چاہیے۔

    عدالت نے آئندہ سماعت میں سیکرٹریزداخلہ، قانون، خزانہ، پلاننگ کوطلب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ جمع کرانے کے احکامات دیے۔

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

  • کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو ‘ جسٹس اطہرمن اللہ

    کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو ‘ جسٹس اطہرمن اللہ

    اسلام آباد: ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت ہوئی۔

    ڈپٹی کمشنراسلام آباد حمزہ شفقات اور وکلاعدالت کے روبرو پیش ہوئے، عدالت نے ڈی سی کومناسب جگہ سے متعلق رپورٹ دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کا ماحول اگربچوں کے لیے ٹھیک ہے توبچوں کو وہاں بھیجنا چاہیے، ہمیں پتہ ہے وہ ماحول بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے، ڈسٹرکٹ کورٹ کے بخشی خانے کا برا حال ہے۔

    وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے ماسٹرپلان میں ڈسٹرکٹ اورہائی کورٹ کے پلاٹ ہی نہیں ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں ہے، کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ سلام آباد کے لوگوں کے لیےعدالتی ماڈل نظام ہونا چاہیے، عدالت نے ڈپٹی کمشنرکورپورٹ جمع کرانے کے احکامات دیے۔

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی۔